Episode 117 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 117 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

ابھی وہ کچھ کہہ بھی نہ پائی تھیں کہ پری عامرہ کے ہمراہ اندرونی حصے سے وہاں داخل ہوئی تھیں آج اس کی چھپ ہی نرالی تھی۔ بلیک کلر کی فراک اور تنگ پاجامے میں اس کا چہرہ چاند کی مانند روشن تھا۔ فراک پر موتیوں اور اصلی پتھروں سے دیدہ زیب کام بنا ہوا تھا۔ جیولری بھی ان پتھروں اور موتیوں کی تیار کروائی تھی تھی لائٹ سے میک اپ نے اس کے حسن کو دو آتشہ کردیا تھا گولڈ براؤن بال اس کی پشت پر کسی آبشار کی مانند بکھرے ہوئے تھے ۔
وہ اعتماد سے قدم اٹھاتی ہوئی دادی کی طرف بڑھ آئی ۔ صباحت کی بے اختیار نگاہ عادلہ کی جانب اٹھی اور ان کو محسوس ہوا عادلہ کا حسن پری کے آگے مانند پڑگیا ہے عادلہ نے بھی ماں کی طرف ایسی ہی نظروں سے دیکھا تھا۔ 
”ماشاء اللہ لمبی عمر ہے نام لیتے ہی چاند سا چہرہ نظر آگیا ہے “
”ایکسکیوز می میں ذرا مہمانوں کو دیکھ لوں پھر آتی ہوں “صباحت وہاں سے اٹھ کر چلی گئی تھیں۔

(جاری ہے)

 
”میں تو سمجھی تم عائزہ کی رخصتی کے بعد ہی آؤ گی یہاں پر “اماں پری سے مخاطب تھیں۔ جوان کے قریب بیٹھ گئی تھی ۔ 
”ارے اماں جان، پری کا کوئی قصور نہیں ہے آج جو اس کو سوٹ پہننا تھا وہ الماری میں تھا اور الماری کی چابیاں نامعلوم کہاں گم ہوگئی تھیں اتنا ڈھونڈا نہیں ملیں پریشان ہوکر رہ گئے تھے ہم دونوں “پری کے کچھ کہنے سے قبل ہی عامرہ اس کی حمایت میں بولیں۔
 
”پری کے پاس کپڑوں کی کمی ہے کوئی دوسرا پہن لیتی بہت سوٹ نئے پڑے ہیں طغرل بھی اس کے لیے کئی سوٹ لایا تھا “
”چابیاں ملتی تب پہنتی نا اماں جان اور یہ سوٹ بھی تو طغرل ہی لے کر آیا ہے کچھ دیر قبل جب اسے معلوم ہوا چابیاں گم ہوگئی ہیں “
”لو بھلا چابیاں کہاں گم ہوگئیں۔ الماری کے تالے میں لٹکتی رہتی ہیں آج ایسا کیا ہوا جو چابیاں گم ہوگئیں ؟“اماں کے لہجے میں حد درجہ حیرانی تھی۔
 
”مل جائیں گی دادی جان، کسی بچے کی شرارت ہوگی “پری نے ان کو متفکر ہوتے دیکھ کر کہا اسی دم طغرل وہاں آگیا۔ 
”دادی جان …دیکھا آپ نے اپنی لاڈلی کے پھوہڑ پن کو آپ کی وارڈروب کی چابیاں گم کرکے بیٹھ گئی ہیں یہ صاحبہ۔ مارکیٹ تک کی دوڑ میں نے چچا جان کی خاطر لگائی ہے ورنہ یہ تو اسی سرجھاڑ منہ پھاڑ حلیے میں یہاں آنے کو تیار تھیں میں نے سوچا لوگ کیا کہیں گے ۔
بس اسی خیال سے میں نے بوتیک تک دوڑ لگائی “
”بھاگم بھاگ بھی تم بہت عمدہ شاپنگ کر آئے ہو، بہت اعلیٰ چوائس ہے تمہاری طغرل “عامرہ اس کے سوٹ کودیکھتے ہوئے ستائشی لہجے میں بولیں اماں کے لہجے میں پسندیدگی تھی ۔ 
”ہوں…رائٹ …میری چوائس ہے ہی زبردست“وہ پری کو دیکھ کر ذو معنی لہجے میں گویا ہوا۔ 
”جاؤ ذرا فیاض کو تو بلا کر لاؤ پوچھوں تو اس سے کھانے میں کس بات کی دیر ہے نکاح کے فوراً بعد کھانا شروع ہونا چاہیے “فیاض بھی گویا اماں جان کے اشارے کے منتظر تھے 
فضا اشتہا انگیز کھانوں کی خوشبوؤں اور چمچوں و کانٹوں کے جلترنگ سے گونج رہی تھی ۔
 
”ہیلو…“شیری چیئر گھسیٹ کر ان کے قریب ہی بیٹھ گیا۔ 
”آپ…آپ ڈنر نہیں کر رہے مسٹر شہریار“اس نے مسکرا کر کہا۔ 
”موڈ نہیں ہے میرا ڈنر کا “وہ آبرو کے پھولے پھولے گالوں کو چھوتا ہوا بولا پری نے غیر محسوس انداز میں جگہ بدلی تھی ۔ 
”آپ مجھ سے اتنا روڈ کیوں رہتی ہیں ؟“وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔ 
”میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا تھا میں ایسی ہی ہوں روڈ اینڈ فارمل “
”شیری…پاپا بلارہے ہیں آپ کو وہ ڈنر پر آپ کا ویٹ کر رہے ہیں “عادلہ اس کے پیچھے ہی چلی آئی تھی ۔
 
”اوہ…میں نے کہا تھا میرا ڈنر کا موڈ نہیں ہے “عادلہ کو عین موقع پر دیکھ کر اس نے اپنے لہجے پر بمشکل قابوپایا تھا۔
”آپ خود ہی پاپا کو بتادیں میں نے تو کہا تھا وہ نہیں مانے “
”اوکے…آئی ول کم بیک“وہ کہہ کر چلا گیا۔ عادلہ کے اندر شرارے پھوٹنے لگے تھے ۔ کتنی مشکل سے وہ اس کو اپنی طرف راغب کرپاتی تھی اور وہ تھی جس کی ایک جھلک اس کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیتی تھی۔
پری مسلسل طغرل کی نگاہوں کی زد میں تھی معید کے ہاتھ میں کیمرہ تھا۔ اس نے ان کو کچھ اشارے کرتے دیکھا اور وہ سمجھ گئی طغرل نے اس کی تصویریں بنانے کے لیے کہا ہے اور معید کواس وقت موقع مل گیا جب وہ رخصتی سے قبل عائزہ سے ملنے گئی تو وہ طغرل کو لے کر آگیا اور عائزہ پھر فاخر کے ساتھ اس کی کئی تصویریں بناڈالی تھیں۔ 
”معید…کیمرہ مجھے دو “وہ اس کو تیز تیز آگے بڑھتے دیکھ کر غصے سے گویا ہوئی ۔
معید رکا ہی تھا کہ طغرل وہاں آگیا۔ 
”کیمرہ میرا ہے معید کا نہیں “وہ سینے پر ہاتھ باندھ کر سامنے کھڑا ہوگیا ۔ 
”میں آپ سے بات نہیں کر رہی آپ تو ہیں ہی فراڈی “
”معید تم جاؤ ، کیمرہ مجھے دے دو “
”سوری یار …کیمرہ طغرل کا ہی ہے اور میں امانت میں خیانت نہیں کرتا پلیز۔ مجھے معاف کردینا “وہ کیمرہ طغرل کی طرف اچھا ل کر ہنستا ہوا چلا گیا طغرل نے وہ کیمرہ اپنی کوٹ کی اندرونی جیب میں رکھ لیا اور پری کو چڑانے والے انداز میں دیکھنے لگا ۔
 
”ہونہہ ۔ آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں اپنی ان چیپ حرکتوں سے میں آپ کی شکایت دادی سے کروں گی “
”تم جب تک ہاں نہیں کروگی میں سکون سے نہیں بیٹھوں گا “
”میں مر کر بھی ہاں نہیں کروں گی ۔ سمجھے آپ “وہ غصے سے کہہ کر وہاں سے دادی کے پاس چلی آئی ۔ پھر عائزہ کی رخصتی کے بعد بھی اس کا موڈ آف ہی رہا تھا ۔ عائزہ کے جانے کے بعد گھر میں سناٹا چھا گیا تھا۔
تمام مہمان رخصت ہوگئے تھے۔ صباحت اور عادلہ عائزہ کے ساتھ گئی تھیں۔ آصفہ اور عامرہ بھی چلی گئی تھیں۔ 
فیاض نے اماں کے کہنے پر عائزہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر رخصت کردیا تھا۔ مگر ان کے انداز میں وہ ہی سرد مہری روکھا پن موجود تھا۔ پری نے ان کے اس انداز کو شدت سے نوٹ کیا تھا۔ 
”فیاض … جو ہوگیا سو ہوگیا پرانی باتوں پر مٹی ڈالو، عائزہ کی طرف سے دل صاف کرلو اپنا وہ اب اس شہر میں بھی چند دنوں کی مہمان ہے پھر نامعلوم کب آنا ہوگا اس کا ۔
وہ تمہاری طرف سے دکھی رہے گی بیٹا۔ دل بڑا کرکے معاف کردو اس کو “اماں ان کو رسانیت سے سمجھا رہی تھیں اور وہ بالکل خاموش تھے ۔ 
”میں تم سے کہہ رہی ہوں بیٹا، کچھ تو کہو کیوں چپ ہو ؟“
”کیا کہوں اماں جان “انہوں نے ان کے شانے سے سر ٹکاتے ہوئے کہا۔ 
”اگر بچوں کی ایسی حرکتوں پر ماں باپ ان کو معاف کرتے رہے تو کل کو سب بچوں کو کھلی آزادی مل جائے گی اپنی من مانی کرنے کی ، پھر سب کرکرا کر معافی مانگ لیں گے ۔
میں عائزہ کو کبھی معاف نہیں کروں گا ۔ یہی اس کی سزا ہے باپ کے ہوتے ہوئے بھی وہ باپ کی محبت سے محروم رہے۔ میں مر بھی جاؤں تو میری میت پر اس کو مت بلائیے گا ۔ یہ میری وصیت ہے اماں جان “وہ نم لہجے میں بولے۔ 
”ارے اللہ تمہیں لمبی زندگی دے میرے بچے، کیسی باتیں کر رہے ہو، اولاد کے معاملے میں دل گداز رکھنا چاہے پہلی غلطی تو اللہ بھی اپنے بندوں کی معاف کرتا ہے تم اتنے کٹھور کیوں بن رہے ہو ؟“وہ ان کو گلوگیر دیکھ کر نرم لہجے میں گویا ہوئیں۔
 
”چھوڑیں اماں اس ذکر کو عادلہ اور صباحت کا جانا ضروری تھا کیا “
”وہ کہاں جارہی تھیں فاخرہ زبردستی لے گئی ہیں دونوں کو اپنے رشتے سے کچھ رسمیں ادا کرکے کچھ دیر بعد واپس گھر آجائیں گی “
###
شیری کی نگاہوں کے حصار میں کئی سین چل رہے تھے پری اور طغرل ، طغرل اور پری۔ وہ ساتھ ساتھ فوٹو بنوارہے تھے۔ ٹیبل پر رکھی ڈشوں سے وہ ایک ایک ڈش اسے پیش کر رہا تھا۔
تنہائی میں کھڑے وہ باتیں کر رہے تھے طغرل کی نظروں میں جو اس کے لیے چاہت و محبت تھی ایک مرد ہونے کے ناطے وہ کبھی فراموش نہیں کرسکتا تھا۔ اس نے کتنی کوشش کی تھی پری کو حال دل سنانے کی مگر طغرل کسی سائے کی طرح اس کے ساتھ تھا جہاں وہ تھی وہاں وہ تھا۔ 
وہ بے تحاشہ پی رہا تھا اس کا چہرہ سرخ تھا ۔ آنکھوں سے گویا لہو ٹپک رہا تھا کمرے میں موجود ہر شے میں اس کو پری دکھائی دے رہی تھی اور جب وہ اس کے پاس جاتا تھا تو وہ ہنستی ہوئی غائب ہوجاتی تھی ۔
 
”میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا فیری۔ تم میری ہو، تم کو میرا بننا ہوگا ۔ تم میرے لیے بنی ہو ، تم میری ہو، تم میری ہو۔ آرہا ہوں میں تمہیں لینے کو مجھ سے کوئی دور نہیں کرسکتا “اس نے ٹیبل سے چابی اٹھائی اور کمرے سے نکل گیا۔ چند لمحوں میں اس کی کار ہواؤں سے باتیں کر رہی تھی۔ اس کی لگن سچی تھی گیٹ پری نے ہی کھولا تھا وہ ابھی بھی اس سیاہ لباس میں ملبوس تھی جس میں اس کا ملکوتی حسن دمک رہا تھا۔
 
”ارے آپ شہریار صاحب آئیے باہر کیوں کھڑے ہیں ؟“وہ تعجب خیز لہجے میں گویا ہوئی وہ مبہوت سا اسے دیکھے گیا ۔ 
”آپ ٹھیک تو ہیں نا …کیا بات ہے آپ اس طرح کیوں دیکھ رہے ہیں ؟“اس کے انداز میں کچھ کچھ دیوانگی کی جھلک محسوس کرکے وہ سراسیمہ لہجے میں گویا ہوئی تھی ۔ 
”مجھے پاگل بنا کر پوچھتی ہو کیا ہوا ہے ، چلو میرے ساتھ بتاتا ہوں تم کو ، کیا ہوا ہے مجھے “اس نے آگے بڑھ کر تیزی سے اس کی کلائی پکڑی تھی ۔
 
”یہ…یہ کیا کر رہے ہیں پاگل ہوگئے ہیں آپ ؟“وہ خوف سے چیخی ۔ 
”ہاں…پاگل ہوگیا ہوں چپ چاپ چلو میرے ساتھ “اس نے دوسرا ہاتھ اس کے منہ پر رکھا اور مچلتی ہوئی پری کو کار میں ڈا ل کر کار فل اسپیڈ میں دوڑادی تھی۔ 
###
ہم جیسے تنہا لوگوں کا‘ رونا کیا‘ مسکانا کیا
جب چاہنے والا کوئی نہیں‘ پھر جینا کیا‘ مرنا کیا
سو رنگ میں جس کو سوچا تھا‘ سو روپ میں جس کو چاہا تھا
وہ جان غزل تو روٹھ گئی‘ اب اس کا حال سنانا کیا
”بہت مہنگی پڑے گی تم کو یہ حرکت شہر یار طغرل تم کو جان سے مار دے گا۔
تم جانتے نہیں ہو اس کو۔“ وہ غصے سے گویا ہوئی۔
”تم بھی نہیں جانتی ہو مجھ کو ابھی… وہ مجھے کیا مارے گا، میں ماروں گا اس کو، تم پر نظر ڈال کر اس نے اپنی موت کو پکارا ہے، میں نے تم کو چاہا ہے، تم سے محبت کی ہے اور وہ تم کو مجھ سے چھیننا چاہتا ہے، اپنا بنانا چاہتا ہے، تم کو دیکھنا وہ یہ خواب لے کر قبر میں اتارا جائے گا۔“ وہ چیخ رہا تھا غصے سے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا، کار سرپٹ دوڑ رہی تھی۔
”بکواس بند کرو اپنی، طغرل کے خلاف میں ایک لفظ بھی نہیں سن سکتی۔ میں تم سے محبت نہیں کرتی پھر کیوں میرے پیچھے پڑے ہو؟ تم کبھی بھی میری خواہش نہیں رہے اور نہ آئندہ ایسا ہوگا سمجھے…“ بڑی شدید نفرت تھی اس کے انداز میں، اس کے چہرے پر سخت ناپسندیدگی پھیلی تھی، شہریار نے اشتعال بھرے انداز میں اس کی طرف دیکھا اور گویا ہوا۔
”میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں فیری!“
”امپاسبل! میں آپ سے شادی نہیں کروں گی۔
“ وہ بھی مشتعل تھی۔
”ایسا مت کہو… تم کو معلوم ہے۔ میں تم بن جی نہیں پاؤں گا۔“ اس نے اسٹیئرنگ سے ہاتھ ہٹا کر اس کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہا، اس کے لہجے میں التجا و نرمی تھی آنکھوں میں حزن تھی وہ اس کی محبت میں سرتاپا غرق تھا۔ پری نے نفرت سے اس کا ہاتھ جھٹکا اور شدید غصے سے گویا ہوئی۔
”آپ کی یہ خواہش… خواہش ہی رہے گی، میں مر کے بھی آپ کی نہیں ہو سکتی سمجھے، میرا پیچھا چھوڑ دیں آپ۔
”اچھا… یہ بات ہے تم میری نہیں ہو گی؟“ وہ غرایا۔
”ہاں اگر تم نے زبردستی کی سعی کی تو میں جان دے دوں گی اپنی۔“ اس کے بگڑے تیور دیکھ کر وہ تیز لہجے میں گویا ہوئی تھی۔
”تم جان دے دو گی اپنی؟ پھر میں تنہا جی کر کیا کروں گا تم اگر میری نہیں ہو گی تو میں تمہیں کسی اور کا بھی ہونے نہیں دوں گا۔ ہم ساتھ جی نہیں سکتے تو کیا ہوا… ساتھ مر تو سکتے ہیں نا۔
“ قبل اس کے کہ پری کچھ سمجھ پاتی، شہریار نے کار درخت سے ٹکرا دی تھی فضا میں اس کی چیخیں گونج اٹھی تھیں۔
درد کے احساس سے اس نے آنکھیں کھولی تھیں، چوٹ کہیں نہیں لگی تھی صرف سر کے پیچھے حصے میں درد ہو رہا تھا، دھیرے سے سر کے درد والے حصے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے اردگرد پری کو دیکھا تھا معاً اس کی ادھ کھلی آنکھیں پوری طرح کھل گئی تھیں اور وہ برق رفتاری سے اٹھ بیٹھا تھا نیند اس کی آنکھوں سے اڑنچھو ہو گئی اور وہ حیران و پریشان سا ہر طرف دیکھ رہا تھا۔
سڑک پر دوڑتی کار اور کار میں موجود پری اور وہ… پھر ایک سمت لگا پیپل کا درخت، جس سے اس نے کار ٹکرا دی تھی۔ وہ تمام مناظر غائب تھے وہ اپنے روم میں تھا اور کروٹ لیتے ہوئے بیڈ سے نیچے گرا تھا۔
”اوہ مائی گڈننس! یہ کیا ہو گیا ہے مجھے، سوتے میں بھی وہ لڑکی میرے حواسوں پر سوار رہنے لگی ہے، کیا کروں کس طرح خود پر کنٹرول کروں؟ وہ لڑکی نہ مجھے جینے دے گی نہ مرنے۔“ وہ بے دم سا ہو کر کارپٹ پر ہی لیٹا رہا۔

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط