غفران احمر جس شخص کے پاس اس کو چھوڑ کر گیا تھا اس پر نگاہ پڑتے ہی وہ پتھر کی ہو گئی تھی، پہلے اس کی آنکھوں میں حیرت کے رنگ ابھرے تھے پھر ان میں غصے کی آگ دہکنے لگی تھی، دوسری طرف بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا۔
وہ دونوں ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے گھور رہے تھے دونوں کے چہرے مختلف جذبات کے عکاس تھے۔
”یہ اصلیت ہے تمہاری، دولت تمہاری سب سے بڑی کمزوری تھی یا اس طرح مردوں کے ہاتھوں کھلونا بننا ہی تم کو پسند تھا تو کس لئے میری طرف بڑھی تھی… کیوں محبت کا ڈھونگ رچایا تھا؟ یہ سب تو میں تم کو اس وقت بھی دے سکتا تھا۔
“ محبت کی شیرینی میں ڈوبا لہجہ جو کبھی بے حد گداز ہوا کرتا تھا، اس وقت اس میں بلا کی ترشی و نفرت سے سختی ابھر آئی تھی۔
(جاری ہے)
”میری اصلیت تمہاری جہ سے بدل کر رہ گئی ہے اعوان! مجھ پر الزام لگانے سے قبل اپنے گریبان میں بھی جھانکو اور دیکھو تم کیا ہو۔ مجھے کھلونا تمہاری بے وفائی نے بنایا ہے تم نے مجھے کہیں کا نہیں رکھا، تمہارے دھوکے و فریب نے مجھے یہاں تک پہنچایا ہے۔
“ وہ اس سے زیادہ دبنگ لہجے میں غرائی۔
”شٹ اپ جسٹ شٹ اپ فریب دے کر مجھ سے کہتی ہو میں نے تم کو یہاں تک پہنچایا ہے؟ ہونہہ یہ کیوں نہیں کہتیں تم وہ عورت ہی نہیں ہو جو ایک مرد کے ساتھ گزارا کر سکے۔ تم کو اپنے حسن کی داد ہزاروں مردوں سے چاہئے تھی۔“
”اعوان…!“ وہ اپنی توہین و ذلت پر کراہ اٹھی تھی۔
”مت لو اپنی ناپاک زبان سے میرا نام، جاپان جا کر میں نے تم سے کتنا رابطہ کرنے کی کوشش کی، کس قدر پریشان و فکر مند رہا، جب بھی ساحر سے کہا تم سے بات کرانے کو پہلے وہ ٹالتا رہا، بہانے بناتا رہا، تمہارے نہ ملنے کے، ملاقات نہ ہونے کے پھر میں نے اس سے سختی سے کہا تو اس نے بتایا…“ بولتے بولتے اس کا گلہ رندھ گیا وہ چپ ہو کر اپنے جذبات پر قابو پانے لگا۔
ساحر خان کے نام پر ماہ رخ بھی دم بخودتھی ایک عرصے بعد بالکل غیر متوقع طور پر اعوان کو سامنے دیکھ کر پہلے تو وہ اپنی بصارت پر یقین ہی نہ کر پائی تھی اور جب یقین ہوا تو نفرت و غصے کا الاؤ اس کے اندر بھڑک اٹھا تھا۔
اعوان سے ملاقات کا وہ خیال ہی دل سے نکال بیٹھی تھی اور اب اس سے سامنا ہوا بھی تو وہ بھی کس انداز میں۔ کل تک وہ اس کی محبوبہ تھی اور آج ایک فاحشہ… پھر وہ اس کی کس بے وفائی و ہرجائی پن کا ذکر کر رہا تھا؟ اعوان کو اپنے جذبات پر قابو پانے میں چند لمحے لگے تھے۔
”تم نے اس سے محبت کرنی چاہی تھی، مجھے اس کی بات پر یقین نہیں آیا، بہت بہت بگڑا میں اس پر بے نقط سنائی اس کو۔ وہ چپ چاپ سنتا رہا تھا میں نے اس کو کال کرنا چھوڑ دی مگر میرا دل کسی طرح یہ ماننے کو تیار نہ ہا کہ تم بے وفا نکلو گی، میرے ہزار ہا کہنے کے باوجود تم نے اپنا رابطہ نمبر نہیں دیا تھا ان دنوں میں ماہی بے آب کی مانند تڑپ رہا تھا سمجھ نہیں آ رہا تھا تم سے کس طرح رابطہ کروں؟ اس بے چینی و اضطراب میں میں نے بزنس کی بھی پروا نہ کی اور سب چھوڑ کر چاپان سے واپس آنے کی تیاری کے دوران ایکسیڈنٹ ہو گیا اور میں ٹانگ میں فریکچر ہونے کے باعث کئی ماہ ہسپتال میں گزارنے پر مجبور ہو گیا تھا تب ہی وہاں جا کر مجھے ساحر نے یہ بتاتا تم کسی شیخ کے ساتھ گھر سے فرار ہو کر یہاں آ گئی ہو۔
“
”ساحر نے تم کو یہ سب بتایا اور تم نے یقین کر لیا اس کی باتوں کا؟“
”ہوں، یقین نہ کرنے کی وجہ؟ آج تم کہاں اور کس حیثیت سے میرے سامنے کھڑی ہو، پھر ساحر کے دیئے ہوئے ایڈریس پر پاکستان واپسی پر میں تمہارے گھر بھی گیا تھا، وہاں جا کر کسی شک و شبے کی گنجائش ہی نہ رہی تھی تمہارا کردار، تمہارا اخلاق اور جھوٹ در جھوٹ کا وہ بھیانک سچ ساحر کی کہی گئی ہر ہر بات پر حق و صداقت کی مہر ازخود ہی لگاتا چلا گیا۔
ساحر نے کہا تم جھوٹی ہو میں نے یقین نہیں کیا، اس نے تمہاری بے وفائی کی قسمیں کھائیں، میں جھٹلاتا رہا، اس نے تمہاری بدچلنی، بدکرداری، دولت پر مرمٹنے کے ثبوت پیش کئے میں تمہاری محبت کے نشے میں اتنا مست تھا کہ اس کی بات پر یقین کرنے کے بجائے اس کا دشمن بن گیا، اس کو جان سے مارنے کی کوشش کی مگر وہ خوش قسمتی سے میرے ریوالور سے نکلی گولی سے بچ نکلا تھا۔
“ اس کے لفظ لفظ سے زہر ٹپک رہا تھا وہ اندر سے بری طرح گھائل تھا۔
”تمہارا کچا پکا گھر دیکھا تو ساحر کے پہلے سچ کی تصدیق ہوئی پھر تمہارا کزن، جو تمہارا فیانسی بھی تھا گلفام اس سے ملاقات ہوئی وہ بے حد شریف و غیور بندہ تھا شروع میں کچھ بھی بتانے کو راضی نہ تھا پھر میں نے اس کو اپنا درد دل سنایا تو اس نے اپنی زبان کھولی اور بتایا کہ تم ایک رات بنا بتائے خاموشی سے گھر چھوڑ کر جا چکی ہو، کہاں گئی ہو اور کس کے ساتھ یہ کسی کو بھی معلوم نہ تھا۔
“ گلفام کے نام پر اس کے دل میں کہرام برپا ہوا تھا اور گھر والوں کی یاد نے کچھ اس طرح غلبہ کیا تھا کہ وہ بے ہوش ہو کر گر پڑی تھی۔
###
اس دن کچن میں جو بات پری نے کی تھی کہ ”آپ کو کیا معلوم حقیقت کیا ہے؟“ اس کے لرزتے کانپتے لہجے میں کوئی ایسی بات ضرور تھی جس بات کو وہ بھی آسٹریلیا سے واپسی پر محسوس کر رہا تھا مگر اس کی گہرائی میں نہ جا سکا تھا، پری کے محتاط لہجے نے اس کو بہت کچھ سمجھایا تھا، پری کو گئے ایک ہفتہ ہو گیا تھا اور اس ایک ہفتے میں اس نے زیادہ ٹائم گھر پر گزارا تو اس کو محسوس ہوا گھر کے مالی حالات بہت خستہ ہیں۔
صباحت اور عادل فراخدلی سے پیسہ لٹانے کی عادی تھیں چچا کی گنجائش سے زیادہ ان کی فضول خرچیاں تھیں۔
گھر میں خیرون اور دوسرا ملازم چوکیدار تھا حالانکہ اس سے قبل اس نے ملازمین کی خاصی تعداد دیکھی تھی جو اب گھٹ کر دو رہ گئی تھی وہ حالات سے بے خبر اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے دادی جان کو ایک بڑی رقم اکثر و پیشتر دیتا رہتا تھا ایسا کرکے اس کو بے حد سکون ملتا تھا، اس نے تہیہ کر لیا گھر کے تمام اخراجات کی ذمہ داری وہ خود لے گا ور اس کیلئے اس کو دادی کی حمایت چاہئے تھی تاکہ چچا جان کو معلوم نہ ہو سکے ورنہ وہ جانتا تھا چچا کی خود داری ایسا نہیں ہونے دے گی۔
وہ اندر جانا ہی چاہتا تھا کہ اندر سے آتی صباحت کی آواز سن کر رک گیا۔
”آپ پری کو واپس بلوائیں اماں جان! وہ وہاں جا کر بیٹھ گئی ہے اور آنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے، یہاں مجھ سے اتنا کام نہیں ہوتا ہے۔“ ان کے انداز میں بے زاری و جھلاہٹ تھی۔
”اپنے ساتھ عادلہ کو بھی کام میں لگا لیا کرو پھر سارا کام تم پر ہی تو نہیں ہے، خیرون بھی لگی رہتی ہے کام میں۔
“
”واہ اماں جان عادلہ کی بھی خوب کہی آپ نے وہ اگر کام کرنے والی ہوتی تو میں کیوں پری کو بلانے کا کہتی پھر خیرون کے کام کے بھی کیا کہنے… وہ تو ایک نمبر کی ہڈ حرام ہے سر پر سوار ہو تو کام کرتی ہے ذرا نگاہ بچی اور اس نے کام سے جان چھڑائی اور اپنے گھر کی راہ لی۔“ وہ ان کی بات سنتا کمرے میں داخل ہوتا ہوا گویا ہوا۔
”دو تین ملازم اور رکھ لیجئے آنٹی! کیوں ٹینشن لے رہی ہیں آپ؟“
”آپ کے چچا جان کو یہ سب پیسے کا ضیاع لگتا ہے حالانکہ اب تو مڈل کلاس لوگوں کے بھی کئی کئی نوکر ہوتے ہیں اور فیاض ہیں جو بڑے بزنس مین ہو کر بھی دل کے بے حد غریب ہیں۔
“ انہوں نے طنزیہ مسکراہٹ سے جواب دیا تھا۔ طغرل اماں جان کے قریب بیٹھ گیا اماں سروتے سے چھالیہ کاٹتے ہوئے بڑبڑانے لگی تھیں۔
”پری تمہاری خادمہ نہیں ہے عادلہ کو بھی کچھ سکھاؤ، کام کرے گی تو اس کو کام کرنا بھی آئے گا یوں کہو کہ تم نے بیٹیوں کو کچھ سکھانے کی سعی نہ کی اور آج بڑے فخر سے کہہ رہی ہو اسے کام کرنا نہیں آتا ہے۔“
”آنٹی آپ فکر مت کریں اس ہفتے میں نئے ملازم آ جائیں گے اور آپ کو ریسٹ مل جائے گا، میں آج ہی نیوز پیپر میں اشتہار دے دوں گا۔
“ اس نے سنجیدگی سے کہا تھا۔
”نہیں آپ کیوں ملازم رکھیں گے طغرل! فیاض پسند نہیں کریں گے اس بات کو، آپ اشتہار مت دینا، گزارا ہو رہا ہے۔“ صباحت فیاض کے خوف سے مرے مرے لہجے میں گویا ہوئی تھیں۔
”میں چچا سے خود بات کروں گا، ان کو میری بات مانتی ہو گی میں فیملی ممبر ہوں اور اپنی مرضی سے جو چاہوں گھر کی بہتری کیلئے کرنے کا مجھے حق ہے۔
“ وہ مضبوط لہجے میں گویا ہوا۔
”میں تو اس معاملے میں بولنے کی جرأت نہیں کر سکتی بیٹا! یہ آپ کا اور فیاض کا معاملہ ہے آپ خود ہی ان سے بات کیجئے گا۔“ صباحت کو طغرل کا قطعیت بھرا انداز خوب بھایا تھا ویسے بھی ان کے سر سے بلا ٹلی تھی وہ گھر کی ذمہ داری سے بھاگتی تھیں۔
”ایسا خیال دل سے نکال دو بیٹا!“ دادی نے پان کھاتے ہوئے کہا۔
”کیوں دادی جان! یہاں ہر بات کو اپنی انا کا مسئلہ کیوں بنا لیا جاتا ہے؟ اپنوں سے بھی غیریت کیوں برتی جانے لگی ہے؟ کیا ہو جائے گا اگر میں اپنی مرضی سے گھر کیلئے کچھ کر دوں تو برا مانتے والی کیا بات ہے؟“ وہ جزبز لہجے میں استفسار کرنے لگا۔
”تمہاری بات ٹھیک ہے مگر لوگ کیا کہیں گے۔“
”مائی فٹ! دادی جان مجھے لوگوں کی نہیں آپ کی پروا ہے اور میں آپ میں سے کسی کو بھی پریشان نہیں دیکھ سکتا۔
“ اس نے ان کے شانے پر سر رکھتے ہوئے لاڈ سے کہا تھا اس کی محبت نے دادی کے روشن چہرے کو مزید روشن کر دیا تھا صباحت کے چہرے پر لمحے بھر کو حاسدانہ رنگ آکر غائب ہوا وہ سمجھ گئیں طغرل یہ سب پری کی خاطر کر رہا ہے اس کی مہربانیاں پری کیلئے ہیں۔
”میں عائزہ کو لینے جا رہی ہوں وہ کئی دنوں سے آئی نہیں ہے چند دن رکنے کیلئے لاؤں گی، اسے بھابی نے بھیجا ہی نہیں ہے۔
“
”سنو! فاخرہ اپنی مرضی سے بھیجے تو عائزہ کو لانا، زبردستی مت کرنا، اس طرح دلوں میں فرق آ جاتا ہے پھر بیٹیاں اپنے گھروں میں خوش رہیں تو اس سے بڑھ کر کوئی بات نہیں ہے۔“ ان کے تیور بھانپتے ہوئے اماں نے ناصحانہ انداز میں کہا صباحت منہ سے کچھ نہیں بولی گردن اثبات میں ہلاتی ہوئیں چلی گئی تھیں۔
”میری بات کان کھول کر سن لو طغرل! یہاں جو ہو رہا ہے وہ ہونے دو، تمہیں کوئی ضرورت نہیں ہے پیسہ لٹانے کی، ان ماں بیٹیوں نے فیاض کو کنگال کرکے رکھ دیا ہے، دیکھ رہے ہو اس کا حال؟“ صباحت کے جاتے ہی وہ سخت لہجے میں گویا ہوئی تھیں۔
”پہلے آپ مجھے یہ بتائیں چچا جان کے بزنس کو کیا ہوا ہے؟ کب سے ایسے حالات ہیں کہ ملازم تک کی چھٹی کر دی گئی ہے اور چچا جان ہی کیا آپ نے بھی مجھے اس قابل نہیں سمجھا کہ کچھ بتا سکیں۔“ وہ سیدھا ہو کر بیٹھتے ہوئے افسردہ و یاسیت بھرے لہجے میں گویا ہوا۔
”دل پر کیوں لے رہے ہو بیٹا یہ آزمائش ہوتی ہے بندے کی۔“ انہوں نے اس کو سیریس دیکھ کر مسکراتے ہوئے ٹالنے کی سعی کی۔
”ایسی بات مت کریں دادی جان، آپ نے دکھی کیا ہے مجھے۔ فخر تھا مجھے آپ کی محبت پر، نازاں تھا کہ آپ مجھ سے کچھ نہیں چھپا سکتیں اور آپ نے گھر کے حالات کی بھنک تک نہیں پڑنے دی مجھے۔“
”ارے کیا اول فول بکے جا رہے ہو، اب ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے کاروبار میں نفع و نقصان تو چلتا ہی رہتا ہے اب اس کا کیا ہر کسی سے کہنا سننا، کچھ دنوں میں سب ٹھیک ہو جائے گا پھر تم فیاض کی خصلت سے واقف نہیں ہو وہ بہت خود دار اور انا پرست ہے کسی سے بھی ایسے معاملے میں ذرا بھی مدد قبول نہیں کرے گا۔
“
”کسی سے کیا مراد دادی جان! میں، ڈیڈی یا بھائی ان کے سگے ہیں، ہم سے پرابلمز شیئر کرتے ہوئے ان کو کوئی جھجک محسوس نہیں ہونی چاہئے، اپنے ہی اگر مشکل وقت پر کام نہ آئیں تو اپنوں کا نہ ہونا بہتر ہے۔“ دادی نے اس کو غور سے دیکھا اور سر پر ہاتھ رکھ کر اپنائیت سے بولیں۔
”اب ناراض مت، میں کوئی موقع دیکھ کر فیاض کو سمجھاؤں گا چلو غصہ تھوک دو میرے بچے ان تمام معاملات کی خبر فراز اور طلحہ کو مت دینا وہ پریشان ہوں گے۔
“ وہ نرمی سے سمجھانے لگی تھیں۔
”وہ کیوں پریشان ہوں گے دادی جان بلکہ وہ سپورٹ کریں گے۔“ اس نے الٹا ان کو ہی سمجھانے کی سعی کی۔
”سمجھا کرو بیٹے! فیاض کی خود داری کا ہی کچھ خیال کرو میرے بچے! وہ نظریں نہیں ملا پائے گا۔“ پھر گہری سانس لے کر نم لہجے میں بولیں۔
”عائزہ نے پہلے ہی اسے کمزور کر ڈالا ہے اس کا دکھ لے کر وہ اندر ہی اندر سلگ رہا ہے گھر میں ہوتے ہوئے بھی اس کی موجودگی کا احساس نہیں ہوتا، عجیب خاموشی کی مہر لگ گئی ہے اس کے ہونٹوں پر۔
“
”اچھا میں وعدہ کرتا ہوں آپ سے، ڈیڈی اور بھائی کو کچھ نہیں بتاؤں گا مگر دادی جان! آپ کی دعاؤں سے آپ کے اس بچے کو بھی اللہ نے اتنا نوازا ہے کہ میں چچا جان کو سپورٹ کر سکتا ہوں۔“
”اللہ تم کو اور زیادہ دے میرے بچے!“ انہوں نے اس کا ماتھا چوم کر کہا۔
”آپ کی دعائیں چاہئیں دادی جان مجھے۔“ وہ ان کے ہاتھ چوم کر عقیدت مندی سے گویا ہوا تھا۔
”سدا کامیاب و کامران رہو، جگ جگ جیو میرے لال۔“
”وہ آپ کی لاڈلی، دلاری آپ کو بھول کر وہاں سکون سے بیٹھ گئی ہے، اس کا واپسی کا ارادہ نہیں ہے۔“ وہ شدت سے اس کی کمی محسوس کر رہا تھا۔
”اس بار تو وہ خاصی مدت کے بعد گئی ہے پھر اس کی ماں کی طبیعت بھی خراب ہے اس وجہ سے میں نے کہہ دیا ہے ماں کی طبیعت بہتر ہونے کے بعد ہی واپس آئے۔
“ وہ پاندان سائیڈ ٹیبل پر رکھتی گویا ہوئیں۔
”کیا ہوا ہے آنٹی کو؟“
”یہ میں نے نہیں پوچھا، بھلا کس منہ سے مثنیٰ کی خیریت پوچھ سکتی ہوں، میری وجہ سے ہی تو وہ اس گھر سے نکالی گئی تھی۔“ ان کا لہجہ آزردگی و پشیمانی سے لبریز تھا۔
”یہ سب پرانی باتیں ہو چکی ہیں دادی جان! جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔“
”ٹھیک کہہ رہے جو ہونا تھا وہ ہو گیا لیکن کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو بھلائے نہیں بھولتیں، خاندان کی عزت و مرتبے ایسی باتوں سے داغدار ہو جاتے ہیں، اب دیکھ لو آصفہ اور عامرہ کی بیٹیوں کے رشتے اچھے لوگوں کے ہاں سے نہیں آتے، بچیوں کی عمریں شادیوں کی ہو گئی ہیں۔
“
”ان کا ان باتوں سے کیا لین دین یہ تو چچا جان کا معاملہ تھا۔“
”آہ…! جو کرتا ہے وہ بھرتا بھی ہے سچ تو یہ ہے مثنیٰ کو طلاق دلانے میں آصفہ اور عامرہ کا ہاتھ تھا اور اب وقت ان سے بدلہ لے رہا ہے، ان کو بھی احساس ہو گیا ہے اپنی غلطی کا تب ہی تو پری کی محبت ان کے دل میں امڈ آئی ہے تم نے دیکھا نہیں کس طرح وہ پری کے آگے پیچھے تھیں ورنہ پری کی پرچھائیں سے بھی چڑتی تھیں۔