Episode 125 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 125 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

”ارے کیا ہوا کس کا فون ہے ، کیوں اس قدر اداس لگ رہی ہو؟ یہ تمہارے چہرے کا رنگ کیوں اڑ گیا ہے؟“ صباحت لاؤنج میں موبائل پکڑے پریشان سی بیٹھی عائزہ کو دیکھ کر حیرت سے کہتی اس کے پاس آ گئی تھیں۔
”کیا ہوا ہے اب بتا بھی دو ، کیوں خوف زدہ کر رہی ہو؟“ وہ اس کے قریب بیٹھ کر بے قراری سے بولیں۔
”فاخر اسلام آباد جا چکے ہیں ممی!“ وہ گم صم انداز میں گویا ہوئی۔
”کیا… یہ کیا کہہ رہی ہو عائزہ؟“ وہ دم بخود تھیں۔
”وہ تنہا کس طرح جا سکتا ہے؟ پھر اس طرح چوروں کی مانند کیوں گیا ہے وہ؟ تم کو تو ساتھ لے جانا تھا ناں اسے ، لاؤ مجھے سیل دو میں خود پوچھتی ہوں اس سے اس حرکت کا مطلب کیا ہے؟“ انہوں نے غصے سے جھپٹ کر اس سے موبائل لیا تھا۔
”انہوں نے اطلاع دے کر سیل آف کر دیا ہے۔

(جاری ہے)

“ صباحت کو دیکھ کر وہ آہستگی سے گویا ہوئی۔

”السلام علیکم آپی!“ زینب وہاں آئی تھی اور سلام کرتی ان کے گلے لگ گئی۔ صباحت نے پریشان انداز میں اس کو گلے لگایا۔
”خیریت تو ہے آپی! بہت ڈپریسڈ لگ رہی ہو؟“ وہ علیحدہ ہو کر عائزہ کی طرف بڑھتے ہوئے استفسار کرنے لگی ، عائزہ اس سے لپٹ کر شدت سے رونے لگی تھی۔
”خیریت کہاں ہے زینی! آخر کار جلد ہی بھابی صاحبہ نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا ہے۔
“ وہ بدگمانی سے بولیں۔
”پلیز عائزہ مت رو ، معلوم تو ہو کیا ہوا ہے؟“ وہ ٹشو اس کے آنسو صاف کرتی ہوئی استعجابیہ لہجے میں پوچھ رہی تھی ، عائزہ نے کچھ نہیں کہا وہ سر جھکائے روتی رہی تھی۔
”وہ بھگوڑا بھاگ گیا اسلام آباد میری بچی کو چھوڑ کر ، بنا بتائے اور وہاں پہنچ کر جانے کی اطلاع دے رہا ہے اور ہٹ دھرمی دیکھو اس کی سیل بھی بند کر رکھا ہے اس نے۔
”فاخر کو میں جانتی ہوں وہ اس غیر ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کر سکتا پھر اس نے شادی اسی لئے کی تھی کہ عائزہ کو بھی ساتھ لے کر جائے گا ، وہ تنہا رہنا پسند کہاں کرتا ہے۔‘’‘ زینب کے لہجے میں بے یقینی تھی۔
”اب مجھے کیا معلوم اس نے یہ حرکت کیوں کی ہے میری بچی کا کیا ہوگا ، میں فیاض اور اماں کو کیا بتاؤں گی؟“
”عائزہ تم بتاؤ ، فاخر اس طرح کیوں گیا ہے تم دونوں کا جھگڑا ہوا ہے؟“ زینب سنجیدگی سے پوچھنے لگی تو اس نے انکار میں سر ہلا دیا۔
”میں نہیں مان سکتی ، کچھ نہ کچھ تو تم لوگوں کے درمیان ہوا ہے جو فاخر اس طرح تم سے ملے بنا ہی چلا گیا ہے ، بتاؤ سچ کیا ہے؟“
”میں تو اس وقت ہی کھٹک گئی تھی جب وہ چڑیل اتنے دن اپنی ماں کے پاس ٹھہر کر آئی تھی ، ان ماں بیٹی کا کیا ہوا سحر ہے یہ سارا جو میری بچی کی ازدواجی زندگی میں رکاوٹیں پیدا کر رہا ہے۔“ صباحت گویا نیند سے بیدار ہوئی تھیں۔
”ممی اللہ کے واسطے پری اور اس کی مما کا پیچھا چھوڑ دیجئے ، یہ جادو نہیں ہے بلکہ آپ کی ان زیادتیوں کی سزا ہے جو آپ اس کے ساتھ روا رکھتی ہیں ہمارے اور آگے آتا ہے۔“ اس نے روتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر کہا تھا۔
”میں غلط نہیں کہہ رہی ، میں قسم کھا کر کہتی ہوں یہ کام پری اور مثنیٰ کا ہی ہے انہوں نے ہی سحر…“
”کیسی عجیب باتیں کر رہی ہیں آپی! آپ نے تو ان پڑھ جاہل عورتوں کو بھی مات دے دی ہے کوئی اس طرح بھی بدگمان ہوتا ہے۔
“ وہ ان کی بات قطع کرکے افسردگی سے گویا ہوئی۔
”جو بھگتنا ہے وہ ہی جانتا ہے زینی! تم کو کیا معلوم وہ کیسی جادو گرنیاں ہیں ، فیاض بائیس سال بعد بھی اس کے سحر سے آزاد نہیں ہو پائے ہیں ، وہ آج بھی ان کے دل میں موجود ہے“
”دل کا حال اللہ جانتا ہے ہم باخبر نہیں ہیں محض اپنی وہمی طبیعت کی وجہ سے ان پر تہمت رکھ کر گناہ گار مت ہوں آپی۔
”تم اسی طرح دل جلانے والی باتیں کرتی ہو ، تم تو اپنے میاں پر حکمرانی کر رہی ہو ، تم بھلا میرے دکھ کو کس طرح محسوس کر سکتی ہو؟“
”سراج کی مثال مت دیا کریں آپ ، ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی ، کسی نے کہا ہے نا دور کے ڈھول سہانے لگتے ہیں۔“ بڑی آزردہ سی مسکراہٹ زینب کے لبوں پر آ گئی تھی۔
”تم ایسی باتیں کرنے کی عادی ہو گئی ہو زینی! سراج نے تم کو کیا کچھ نہیں دے رکھا ، دولت ، آزادی ، دنیا کی عیش و آسائشات سے بھرپور زندگی گزارنے کے باوجود تم ایسی باتیں کرتی ہو۔
”آنٹی! ممی کی نظر میں سب سے زیادہ ویلیو ایبل پیسہ ہے یہ کبھی بھی دل میں جھانکنے کی کوشش نہیں کرتی ہیں ، ان کی نگاہیں ہمیشہ پیسے پر ہوتی ہیں اگر ممی ان کا کاغذ کے ٹکڑوں سے زیادہ رشتوں کو اہمیت دیتیں تو آج ہم بھی بہت مختلف ہوتے۔“ عائزہ نے آنسو صاف کرتے ہوئے یاسیت بھرے لہجے میں کہا۔
”مجھ سے تو تم سب کو شکایتیں ہی رہتی ہیں جس دن میں تم لوگوں کے درمیان نہیں ہوں گی اس دن معلوم ہوگا تم کو میری حیثیت کا۔
“ ان کے لہجے میں سخت خفگی در آئی تھی اور وہ ان کے منانے کے باوجود وہاں سے چلی آئی تھیں۔ زینی ان کا موڈ آف دیکھ کر شرمندہ ہو گئی۔
”ڈونٹ وری آنٹی! ابھی کچھ دیر میں ہی ممی کا موڈ ٹھیک ہو جائے گا۔“
”ہوں ، میں جانتی ہوں میری جان! آپی کی عادت ہے ہر بات کو ازحد لائٹ انداز میں لینے کی ، وہ کبھی بھی سنجیدگی سے معاملہ کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتی ہیں اور ایک ماں ہونے کی حیثیت سے ان کو اس قدر کم فہم اور لا ابالی نہیں ہونا چاہئے ، اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہئے وہ تمہارے بارے میں نہیں سوچیں گی تو پھر کون اس حق کو ادا کرے گا اور اب سچ سچ بتاؤ ، تم نے راحیل والا افیئر فاخر کو بتایا تو نہیں ہے۔
“ وہ آہستگی سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے گویا ہوئیں تو عائزہ کے چہرے پر یکلخت ایک درد کی لہرا بھری تھی۔
”اوہ یہ کیا بے وقوفی کر دی ہے تم نے عائزہ! تم کو منع بھی کیا تھا کبھی خواب میں بھی فاخر کو اس قصے کا علم نہیں ہونا چاہئے اور تم نے اس کو سب بتا دیا۔“ اس کے چہرے سچائی ہویدہ تھی زینب گھبرا گئی تھی بہت خوفناک وسوسوں کا شکار ہو رہی تھیں۔
”کیوں کیا تم نے ایسا عائزہ! مرد اس معاملے میں کٹھور ہوتے ہیں خود کتنے برائیوں میں لتھڑے ہوں مگر اپنے سے وابستہ رشتے پر وہ ایک بھی رسوائی کا دھبہ برداشت کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔“
”میں نے پہلی رات کو ہی پوری دیانتداری سے ایک ایک بات فاخر کو بتا دی تھی، میں اپنی نئی زندگی کی ابتداء جھوٹی و کھوکھلی بنیاد پر نہیں رکھنا چاہتی تھی ویسے بھی وہ بار بار مجھ سے یہی پوچھ رہے تھے ، میں اتنی خاموش اور غمزدہ کیوں لگ رہی تھی… میرے چہرے پر دلہنوں والی خوشی و امنگ کیوں نہیں تھی؟“ اس نے ٹشو سے چہرہ صاف کرتے ہوئے مطمئن دکھائی دینے کی سعی کی۔
”احمق لڑکی ، شادی والے دن تمام لڑکیاں ہی خاموش و افسردہ ہوتی ہیں اس میں نئی بات کیا تھی ، اپنوں سے بچھڑنے کا دکھ ہر لڑکی کو ہوتا ہے تم یہ بھی تو کہہ سکتی تھیں۔“ وہ بے حد پریشان تھی۔
”اب جو ہوگا دیکھا جائے گا آنٹی! میں نے ہمیشہ غلط اور جلدی بازی میں فیصلے کئے ہیں یہ پہلا فیصلہ ہے جو میں نے بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے۔“
”دیکھ رہی ہو اپنے دانش مندانہ فیصلے کا انجام؟“
”میں فاخر کو کچھ نہ بتاتی اور ان کو کسی نہ کسی طرح معلوم ہو جاتا پھر اس سے بھی زیادہ برا ہوتا پھر نامعلوم کتنی زندگیاں تباہ ہو جاتیں۔
”کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہے یہ سب کیا ہے؟“ وہ دونوں ہاتھوں سے سر تھام کر بیٹھ گئی تب ہی ملازمہ کے ہمراہ صباحت وہاں داخل ہوئیں تھیں ، ساتھ عادلہ بھی تھی۔
###
کبھی کبھی مضبوط اعصاب کا انسان بھی اپنے منہ زور جذبوں کے آگے کمزور پڑ جاتا ہے پھر نہ اس میں پیچھے پلٹنے کی سکت رہتی ہے نہ وہ الٹے قدم چل پاتا ہے اور وہ وہیں رک جاتا ہے ، ٹھہر جاتا ہے۔
طغرل کا بھی یہی معاملہ تھا وہ جس قدر اس سے دور ہونے کی سعی کر رہا تھا وہ کسی آسیب کی مانند اس کو اپنی گرفت میں لے چکی تھی۔ وہ ہر بار خود کو مضبوط کرتا ، دل کو سمجھاتا کہ پارس کی بے رخی کا جواب بے رخی سے دے جذبوں کو رسوا ہرگز نہیں کرے مگر اس کا چہرہ دیکھتے ہی تمام عہد برف کی مانند پگھل جاتے۔
”صاحب! اماں جان یاد فرما رہی ہیں آپ کو۔
“ وہ ان الجھنوں میں نہ معلوم کب تک الجھا رہتا کہ خیرون نے آکر اطلاع دی تھی۔
”اچھا ، آتا ہوں تم چلو۔“ اس نے کہا۔
”صاحب! کافی لاؤں؟“
”نہیں۔“ اس نے بنا رخ بدلے جواب دیا۔
”صاحب! کسی اور چیز کی ضرورت تو نہیں ہے آپ کو؟“ خیرون کے لہجے میں عجیب سا اسرار تھا۔ طغرل اس کے لہجے کی بے چینی بھانپ گیا تھا اس نے مڑ کر دیکھا گہرے جامنی رنگ کے سوٹ میں اس کے سانولے چہرے پر بڑا تجسس تھا وہ درمیانی عمر کی عورت تھی بڑے اضطرابی انداز میں وہ اپنے ہاتھوں کو جنبش دے رہی تھی۔
”نہیں شکریہ خیرون! بہت خیال رکھتی ہو میرا۔“ جیب سے ہرا نوٹ نکال کر اس نے اس کی طرف بڑھاتے کہا۔
”یہ رکھ لو ، کام آئیں گے تمہارے۔“
”نہیں صاحب! اللہ آپ کو اور دے ، آپ پہلے ہی بے حد احسان کر چکے ہیں مجھ پر۔“
”کوئی احسان وحسان نہیں کرتا میں تم پر رکھ لو شاباش۔“ اس کے اصرار پر خیرون نے نوٹ لے لیا اور خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتی ہوئی راز دارانہ لہجے میں گویا ہوئی۔
”صاحب ایک بات کہنی آپ سے پری بیگم صاحبہ کے متعلق۔“ وہ جو اس کو منع کرنے والا تھا اس کے منہ سے اس دشمن جاں کا نام سن کر انکار نہ کر سکا پھر بھی تنبیہ کرتے ہوئے سخت لہجے میں بولا۔
”مجھے ملازموں کا اس طرح گھر کے معاملات میں دلچسپی لینا قطعی پسند نہیں ہے ، تم کو صرف اپنے کام سے کام رکھنا چاہئے۔“
”آپ غلط مت سمجھیں صاحب! میری ماں نے اور میں نے بچپن سے اس گھر کا نمک کھایا ہے۔
میں کبھی یہاں کسی کو شکایت کا موقع نہیں دوں گی۔“ اپنی وفاؤں کا یقین دلانے کیلئے وہ اس کے قدموں میں بیٹھ گئی۔
”وہ جی کل رات کو آپ پری بی بی سے ٹکرا گئے تھے وہ عادلہ بی بی نے دیکھ لیا تھا آپ کے جانے کے بعد وہ پری بی بی پر غصہ ہونے لگی تھیں ، اس وقت ان کی آواز سن کر بیگم صاحبہ بھی آ گئیں اور…“ خیرون اس وقت اسٹور روم میں تھی وہاں اس نے سب دیکھا اور سنا تھا ، کل رات سے ہی وہ طغرل کو بتانے کیلئے موقع کی تلاش میں تھی کیونکہ وہ ان دونوں کو اچھے اخلاق و ملنسار طبیعت کے باعث پسند کرتی تھی پھر وہ طغرل کی پری سے کی جانے والی محبت سے بھی آگاہ ہو چکی تھی ، سو آج موقع ملتے ہی وہ ساری بات اس کو من و عن سنا چکی تھی ، طغرل ساکت بیٹھا رہ گیا تھا۔
”بیگم صاحبہ اور عادلہ بی بی کے ارادے مجھے اچھے محسوس نہیں ہو رہے ہیں ، وہ خدا جانے کیا کریں گی ان کے ساتھ؟“ پری بی بی تو جی بہت نرم دل عزت والی ہیں ، میں جانتی ہوں ان کی عادت ، وہ اماں جان کو بھی کچھ نہیں بتائیں گی ، اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کر خود کو روک لگا لیں گی ، میں جانتی ہوں وہ کسی کو اپنا دکھ بتانے والی نہیں ہیں۔ ان کو بچپن سے دیکھ رہی ہو اسی طرح سب سے چھپ چھپ کر روتے ہوئے کسی سے شکایت نہیں کرتی وہ۔
“ خیرون دلگداز انداز میں اس کی وکالت کر رہی تھی۔
”میں کیا کر سکتا ہوں ، جب اس کو خود اپنی اہمیت منوانی نہیں آتی ، اس دنیا میں جینے کیلئے اپنا حق چھیننا پڑتا ہے ، خود کو منوانا پڑتا ہے ، جب وہ سب برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے پھر کرتی رہے۔“ وہ بمشکل اپنی اشتعال انگیزی پر قابو پاتا بے پروائی سے بولا۔
”آپ… آپ کچھ نہیں کر سکتے صاحب جی!“ خیرون اس کے بے پروا انداز پر سخت رنجیدہ دکھائی دی۔
”نہیں ، میں کیا کر سکتا ہوں؟“ وہ سرد مہری سے کہتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔
###
اعوان کے دل و دماغ شدید جھٹکوں کی زد میں تھے حاجرہ رات کھانے کے برتن لینے آئی تو دوسری ملازمہ کے ہاتھ برتن بھجوا کرخود اس کو قہوہ سرو کرنے کے بہانے سے وہیں رک گئی تھی کیونکہ وہ گزشتہ ایک ہفتے سے وہیں مقیم تھا اس دوران حاجرہ سے خوب اس کی شناسائی ہو گئی تھی اور وہ بخوبی جانتا تھا کہ اس کے رخ سے اچھے مراسم ہیں۔
حاجرہ نے ماہ رخ سے سچی دوستی کی تھی اور اس نے جب یہ سنا تھا کہ وہ ماہ رخ کو ہی مجرم سمجھ رہا ہے اور وہ اس تگ ودو میں تھی کہ موقع ملتے ہی وہ تمام حقیقت اس کے سامنے بیان کرے گی لیکن احمر غفران کی موجودگی میں ایسا ممکن نہ تھا۔ اس کی روانگی کے تیسرے دن اس کی دلی مراد بر آئی تھی ، اعوان اسے تنہا مل گیا تھا اور اچھے موڈ میں تھا پھر اس نے بھی کوئی لمحہ ضائع کئے بنا اس کو تمام حقیقت حرف حرف سنا دی تھی ، پہلے وہ بے یقینی سے گردن ہلاتا رہا مگر حاجرہ کے لہجے میں جو سوز و گداز تھا وہ اس کے دل میں نرم گوشہ پیدا کر گیا اور جب بدگمانی و رنجشوں کی الجھی ہوئی ڈور سمجھنا شروع ہوئی تو وہ ششدر رہ گیا ایک کے بعد ایک شدید ضرب اس کے حواسوں کو لگ رہی تھی اور وہ گھائل ہوتا جا رہا تھا۔
”اتنا بڑا دھوکہ… اتنا بڑا فریب… میں کبھی سوچ بھی ہیں سکتا تھا وہ اس کی طرح ڈبل کر اس کرے گا؟ ساحر خان… میں تمہیں جان سے مار دوں گا۔“ وہ زخمی شیر کی مانند ادھر ادھر ٹہلنے لگا تھا اس کے چہرے پر غصے کی سرخی تھی ، رگ رگ میں گویا درد اتر گیا تھا۔
”اس نے آپ کے بھروسے و اعتماد کا قتل کیا اور ماہ رخ کی زندگی ہی تباہ کر دی ، وہ نہ مر سکتی ہے اور نہ ہی زندگی میں کوئی کشش رہی ہے۔
اس پر مزید آپ کی نفرت اور بے رحمی نے ان کو بستر سے لگا دیا ہے۔“
”مجھے کیا معلوم تھا میں اپنی آستین میں دوستی کے نام پر سانپ پالتا رہا ہوں ، مجھے تو بے حد اعتماد تھا اس پر اسی اعتماد کے سہارے میں اس کو پوری ایمانداری کے ساتھ ماہ رخ کا خیال رکھنے کا وعدہ لے کر گیا تھا ، شروع شروع میں سب ٹھیک رہا تھا ماہ رخ سے بات ہوتی رہی پھر آہستہ آہستہ کالز آنا کم ہوتی گئیں اور کچھ عرصہ بعد ہی رابطہ ایسا ختم ہوا جو پھر جڑ ہی نہ پایا ، ساحر سے میں رابطے میں تھا۔
“ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔ آنسو تیزی سے پلکوں کے بند توڑ کر بہہ نکلے وہ حاجرہ کی پروا کئے بنا ہی بلند آواز سے رونے لگا۔
”اللہ کے واسطے اعوان صاحب! خود پر قابو پائیں ، خدا نخواستہ یہاں کوئی اس حقیقت سے باخبر ہو گیا کہ آپ کے اور ماہ رخ کے پہلے سے مراسم ہیں تو ماہ رخ کیلئے مشکل ہو جائے گی ، رئیس کبھی بھی اس کو معاف نہیں کریں گے۔
“ اس کو روتے دیکھ کر حاجرہ بھاگ کر باہر نکلی تھی اور ہر جگہ یہ دیکھ کر کسی کی موجودگی کا شبہ نہیں ہے وہ واپسی آکر گویا ہوئی۔
”تم میرے جذبات نہیں سمجھ سکتی ہو حاجرہ! میں کتنا عرصہ ماہ رخ کی تلاش میں بھٹکتا رہا ہوں ، ملک ملک ، شہر شہر ، گاؤں گاؤں بھٹکتا پھرا ہوں ، میرا ایک ہی جنون تھا صرف ایک بار وہ مجھے مل جائے تو اپنے ریوالور کی تمام گولیاں اس کے دل میں پیوست کرکے خود سے کی گئی بے وفائی کا بدلہ لوں ، ان دنوں میرا کام ہی دربدر بھٹکنا تھا اس کو نہ ملنا تھا نہ ملی اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ میرے جنون میں کچھ کمی بھی آئی لیکن میرے اندر صنف نازک سے نفرت وعداوت کی ایسی آگ بھڑکی۔
“ وہ بے اختیار ہوتا ہوا کہہ رہا تھا۔
”پھر عورت میرے لئے کھلونا بن کر رہ گئی ، ہر عورت میں مجھے ماہ رخ کا چہرہ نظر آتا تھا ، ہر عورت اس کی طرح بے وفا و دھوکے باز محسوس ہوتی تھی ، عورت کی محبت اور نفرت دونوں ہی مرد کو بدل دیتی ہے۔ عورت محبت کرتی ہے تو ٹوٹ کر اور نفرت کرے تو مرد کو توڑ دیتی ہے۔ سمجھ رہی ہونا میری بات تم حاجرہ۔“ وہ سخت تکلیف میں تھا۔ حاجرہ خود اپنے آنسوؤں پر قابو نہ پا سکی ، وہ بھی محبت میں کئے گئے دھوکے اور دکھوں سے گزری ۔

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط