اگست کا مہینہ تھا موسم زیادہ تر ابر آلود رہتا تھا کبھی کبھی بادل کھل کر برستے تھے عموماً ہلکی ہلکی بوندا باندی یا پھوار پڑتی تھی۔ موسم کے تیور آج بھی خاصے بگڑے ہوئے لگ رہے تھے گہرا ابر ہر سو اندھیرا پھیلائے ہوئے تھا ، ہوا ساکت تھی جس سے حبس ہو رہا تھا۔ پری بیڈ پر بیٹھی دادی کی ٹانگیں دبا رہی تھی ان کو ایسے موسم میں عموماً ٹانگوں میں درد مزید بڑھ جانے کی شکایت ہو جاتی تھی۔
”پری میں دیکھ رہی ہوں اپنے نانو کے گھر سے واپس آنے کے بعد تم بہت چپ چپ رہنے لگی ہو ، کہیں مثنیٰ کی فکر تو نہیں ہے تجھے ، اس کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟“ وہ بند ہوتی آنکھوں کو کھول کر نقاہت بھرے لہجے میں بولیں۔
”مما کی طبیعت ٹھیک ہے دادی جان! وہ آج رات کی فلائٹ سے جدہ جا رہی ہیں نانو اور انکل کے ہمراہ عمرے کی ادائیگی کیلئے۔
(جاری ہے)
“
”اچھا پھر تم ملنے کیوں نہیں گئیں ان سے؟ تم کو جانا چاہئے تھا۔“ دادی ایک دم ہی حیرانی سے کہتی ہوئیں اٹھ بیٹھی تھیں۔
”کس کے ساتھ جاتی دادی جان ، شوفر تو پاپا کے ساتھ گیا ہے۔
”میں طغرل کو کہہ دیتی ہوں وہ لے جائے گا تم کو ، ابھی تو ٹائم ہے ان کی فلائٹ میں مل کر آ جانا ، دل خوش ہو جائے گا ان کا۔“ کدورتوں کی دھول جب ذہن سے صاف ہو جاتی ہے تو دل پھر آئنیہ کی طرح صاف و شفاف ہو جاتا ہے جہاں ہر چیز واضح نظر آنے لگتی ہے ، اماں جان کا دل بھی مثنیٰ کی طرف سے صاف ہو چکا تھا۔
”ممی اور نانو کی ہی یہی خواہش تھی میں ان سے ملنے جاؤں ، ان کا شوفر بھی چھٹیاں لے کر جا چکا ہے وگرنہ میں ان کے ساتھ چلی جاتی اسی لئے میں نے معذرت کر لی ہے۔“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”ارے نہیں ، ایسے مبارک موقع پر تم کو ان سے ملنے کیلئے ضرور جانا چاہئے، میں ابھی طغرل کو فون کرتی ہوں۔“ انہوں نے عینک لگاتے ہوئے تکیے کے نزدیک رکھا موبائل اٹھاتے ہوئے کہا ، پری نے ان کا ہاتھ تھامتے ہوئے تیزی سے کہا۔
”کوئی بات نہیں ، میں عمرے سے واپسی پر ان سے ملنے چلی جاؤں گی ، آپ طغرل بھائی کو مت بلائیں دادی جان!“ انہوں نے اس کے گریز کو بڑی ناپسندیدہ نظروں سے دیکھا اور غصے بھرے لہجے میں جتانے والے انداز میں گویا ہوئیں۔
”تم نے اس سے بیر باندھ لئے ہیں میں دیکھ رہی ہوں ہر گزرتے دن کے ساتھ تمہارا رویہ اس کے ساتھ بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے ، وہ بچہ جتنا اس گھر اور گھر میں بسنے والوں کی خیر خواہی میں رہتا ہے اتنا ہی تم برا سلوک کرنے لگی ہو اس کے ساتھ۔
“
”میں کیا برا سلوک کر رہی ہوں ان کے کے ساتھ… ہر ضرورت کا خیال رکھتی ہوں اور کیا کروں؟“ وہ حقیقت سے ان کو کس طرح باخبر کرتی ، اپنے دل پر لگے صباحت بیگم و عادلہ کی زبان کے زخم کس طرح دکھاتی؟
”ہوں میرا بچہ اب تو ملازموں کے رحم و کرم پر ہو گیا ہے کس سے کہوں میں اس کا خیال رکھنے کو ، صباحت کو اپنی فضول سی مصروفیات سے فرصت نہیں ہے اور اس نگوڑی عادلہ کو ڈھنگ سے چائے بھی بنانی نہیں آتی ہے اس کو صرف فیشن کرنے آتے ہیں ، نامعلوم کیا ہوگا اس کام چور اور پھوہڑ لڑکی کا؟“
”اوہ… دادی جان! ایسی کوئی بات نہیں ہے میں طغرل بھائی کا خیال رکھتی ہوں، ملازماؤں کا صرف نام ہوتا ہے تمام کام میں اپنی نگرانی میں کراتی ہوں ، آپ بددل ہرگز مت ہوں۔
“
”آج کل تو وہ اپنے کام میں اتنا مصروف ہے کہ رات گئے گھر واپس آتا ہے رات کے کھانے پر ہوتا نہیں ہے نامعلوم کہاں کھاتا ہے اور کھاتا بھی ہے یا مجھے بہلانے کیلئے بہانے کر دیتا ہے۔“
”ارے دادی جان آپ فکر کیوں کرتی ہیں نہ وہ بچے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس پیسوں کی کمی ہے جہاں دل چاہتا ہو گا وہیں ڈنر کرتے ہوں گے اپنی پسند کا۔“ وہ بے پروائی سے گویا ہوئی۔
”یہی تو فرق ہے ہوتا ہے پری! تم کتنے مزے سے کہہ رہی ہو اگر اس کی ماں اور بہن ہوتی تو کبھی بھی اس کا روز روز گھر سے باہر کھانا برداشت نہیں کرتیں اور اسے گھر کا کھانے پر ہی مجبور کرتیں۔“ دادی اپنے موقف سے ذرا ہٹنے کو تیار نہیں تھیں۔
”سب تو کہتے ہیں ان سے آپ ، پاپا ، ممی وہ کسی کی مانتے ہی کب ہیں ، ہمیشہ ان کے پاس بزنس اور کاموں کا بہانہ ہوتا ہے۔
“
”ارے بس رہنے دو بی بی! سب جانتی ہوں میں منوانے والے تو بات منوا کر چھوڑتے ہیں ، فیاض تو کاروبار میں ایسا گم ہوا ہے کہ اسے کسی کی خبر نہیں ہے رات گئے آتا ہے منہ اندھیرے نکل جاتا ہے تم نے دیکھا گھر کے حالات کتنے بہتر ہو گئے ہیں؟ کئی ملازم بڑھ گئے ہیں گھر میں یہ سب تمہارے خیال میں کس نے کیا ہے؟“ ایک عرصہ بعد ان کو پوتے کی محبت کا خمار چڑھا تھا اور ایسے میں وہ ہمیشہ سے دو دھاری تلوار بن جایا کرتی تھیں۔
”کس نے دادی جان؟“ اس کا دل بے ہنگم انداز میں دھڑکا۔“ یہ سب تو پپا ہی کر سکتے ہیں نا؟“ انہوں نے انکار میں گردن ہلائی۔
”کیا پھر طغرل بھائی نے؟ ان کو ہمارے حالات کا معلوم ہو گیا؟“ وہ خود دار باپ کی بیٹی تھی ان کے صاف انداز نے اس کو مضطرب کر دیا تھا اس کی اڑی اڑی رنگت و سرخ ہوتا چہرہ دیکھ کر دادی کو بھی اپنی جذباتیت کا احساس ہوا۔
”ہاں ہاں اسے معلوم کیوں نہ ہوتا بھلا وہ بھی اس گھر کا فرد ہے پھر عقل رکھتا ہے ذی شعور ہے ، سمجھ گیا سب کچھ ناراض ہونے لگا مجھ پر کہ چچا جان اتنی پریشانیوں میں گھرے ہوئے ہیں اور اس کو خبر تک نہیں ہے وہ اداس و پریشان ہو گیا تھا۔“
”ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا دادی جان! یہ بہت برا ہوا ہے۔“ وہ تہیہ کر چکی تھی طغرل سے کہنے کا کہ وہ اس گھر سے چلا جائے وہ کب تک اس کی وجہ سے صباحت و عادلہ کو صفائیاں دیتی رہے گی ، ان کی نگاہیں کیمرے کی مانند ان دونوں پر ہی فوکس رہتی تھیں اور ایسے میں معمولی بات بھی بہت اہم ہو جاتی تھی۔
”کیا برا ہوا ہے بھلا طغرل کوئی غیر نہیں ہے میرا اپنا ہی خون ہے برے حالات میں اس نے سہارا دے کر اپنے ہونے کا ثبوت دیا ہے۔“ ان کے لہجے میں نرمی در آئی تھی۔
”دادی جان! یہ سب اتنا سیدھا نہیں ہے جتنا دکھائی دے رہا ہے ، کل کو تائی جان کو معلوم ہو گا وہ شاید اتنا برا نہ منائیں مگر فرح آپی یہ سب بالکل برداشت نہیں کریں گی ، آپ جانتی ہیں ان کے مزاج کو وہ نامعلوم کون کون سے الزامات لگائیں گی اور لوگوں میں بدنام الگ کریں گی۔
“ وہ سخت مضطرب تھی۔
”ہونہہ! ارے فرح کی فکر کرتی ہے میری جوتی ، وہ یہاں آ کر ذرا زبان کھول کر تو دکھائے اسی چپل سے دماغ درست کر دوں گی اس کا ، کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے… ہاں۔“ انہوں نے بڑی بے پروائی سے اس کو تسلی دی تھی۔
”وہ عائزہ ابھی تک اسلام آباد کیوں نہیں گئی ، فاخر میاں بھی دو مرتبہ ہی یہاں آئے پھر وہ بھی نہیں آئے۔
میرا دل تو کسی گڑ بڑ کی خبر دے رہا ہے اوپر سے عائزہ میں وہ نئی نویلی دلہنوں والی کوئی بات ہی نہیں ہے ، اللہ خیر کرے مجھے وہ خوش دکھائی نہیں دیتی ہے ، تم کو اس نے کچھ بتایا ہے؟“ بہت خوبصورتی سے انہوں نے موضوع بدلا تھا ، غصے میں وہ تمام وہ باتیں کہہ گئی تھیں جو اس کی حساس و خود دار طبیعت کو جانتے ہوئے وہ اس سے چھپا رہی تھیں اب اس کی اڑی رنگت اور ملول لہجہ دیکھ کر ان کو اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوا تھا۔
”نہیں دادی جان! ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔“
”وہ اپنی باتیں کر رہی تھیں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔“ ان کی پریشانی کے خیال سے وہ حقیقت ان کو بتانے سے گریز کر رہی تھی جو زینب اس کو عائزہ کی بے وقوفی کے بارے میں بتا چکی تھی۔
”بہت نیک و ملنسار ہے زینب بیٹی! صباحت کے مزاج سے بالکل ہی مختلف ہے، لگتا ہی نہیں ہے دونوں سگی بہنیں ہیں۔
“
”چائے لاؤں آپ کیلئے؟“
”پری… میری بچی!“ انہوں نے جھٹ اس کو سینے سے لگا لیا۔
”معاف کر دے اپنی بوڑھی دادی کو ، غصے میں نامعلوم کیا کیا اول فول بک گئی ہوں ، تیرا دل دکھا دیا ہے میں نے۔“ شدت دکھ سے ان کی آواز بھی بھرا گئی تھی۔
”پلیز ایسے مت کہیں دادی جان! مجھے آپ سے نہیں اپنے مقدر سے شکایت ہے، یہ ہمیشہ میرے ساتھ وہ کرتا ہے جو مجھے کسی طور بھی پسند نہیں ہے آخر آرزوؤں کے رد ہونے کی بھی ایک حد ہوتی ہے ، حرماں نصیبی کی طوالت کبھی تو ختم ہوتی ہو گی ، مجھے نصیب سے وہ ہی کیوں ملتا ہے جو میں لینا نہیں چاہتی ، وہ دن کب آئے گا دادی جان! جب میری مٹھی میں بھی خواہشوں کے جگنو جگمگا کر آسودگی کی روشنی پھیلا رہے ہوں گے۔
“ وہ ان کے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ، دادی نے بھی فراخدلی سے اس کا ساتھ دیا تھا۔
”خاصی دیر تک دونوں روتی رہیں ، جب دل کا غم آنسوؤں میں بہہ گیا تو دونوں نے ایک دوسرے کے آنسو صاف کئے تھے۔
”مایوس نہیں ہوتے میری بچی! ہر سیاہ رات کی آغوش میں روشن سویرا ضرور ہوتا ہے ، برا وقت چیونٹی کی رفتار سے گزرتا ہے پر گزر جاتا ہے۔
یہ سیاہ رات بھی جلد ختم ہو جائے گی۔“ اپنے شفقت بھرے لہجے میں وہ اس کو سمجھا رہی تھیں۔
”کاش کہ میں اتنی لمبی نیند سو جاؤں کہ جب جاگوں تو میرے ہر سو خوشیاں ہی خوشیاں ہوں کاش…!“ وہ یاسیت سے کہتی پلکیں موند گئی۔
###
وہ آفس سے آج پھر خاصا لیٹ ہو گیا تھا۔ بارش آج بھی خاصی ہو رہی تھی دادی جان کے روم میں کھڑکی سے آتی نائب بلب کی روشنی دیکھ کر سمجھ گیا وہ سو چکی ہیں وہ پھر سیدھا اپنے روم میں آ گیا تھا جوتے اتار کر بیڈ پر لیٹ گیا اعصاب پر اتنی تھکن سوار تھی کہ اس نے کوٹ اتار کر سائیڈ میں رکھا اور آنکھیں موند لیں۔
دروازے پر دھیرے سے دستک ہوئی تھی خیرون اس کو دودھ کا گلاس دے کر پھر اپنے کوارٹر میں جاتی تھی۔
”یس کم ان۔“ اس نے آنکھیں موندے موندے ہی جواب دیا تھا ، دروازہ کھلا اور وہ اندر آئی تھی۔
”دودھ واپس لے جاؤ خیرون! میرا دل نہیں چاہ رہا ہے۔“ ایک ، دو ، تین سیکنڈ گزر گئے تھے خیرون کی ”جی اچھا صاحب جی“ کی آواز آئی نہ جانے کی آہٹ ابھری تو انہوں نے آنکھیں کھول کر دیکھا بیڈ سے خاصے فاصلے پر وہ کھڑی تھی۔
گلابی سوٹ میں منہ بند گلاب کی کلی کی مانند ، نو خیز و شگفتہ ، گھبرائی گھبرائی حسین ہرنی کی طرح کچھ کچھ خوف زدہ سی ، اس کا یہ روپ کم کم ہی نظر آتا تھا ورنہ وہ شعلہ جوالہ تھی ، خود بھی جلنا دوسروں کو بھی جلانا اس کا کام تھا ، یہ تو اس کا خوابوں کے دیس جیسا روپ تھا وہ خواب ناک آنکھوں سے دیکھے گیا۔
”ظغرل بھائی…“ اس کا سپاٹ لہجہ اس کو خیالوں و خوابوں کی حسین دنیا سے باہر کھینچ لایا وہ ہڑبڑا کر گویا ہوا۔
”اوہ سوری یہ تم ہو پارس! میں سمجھا خیرون آئی ہے۔“
”جی… خیرون کو میں نے کچھ دیر میں آنے کو کہا ہے۔“
”اوکے… تم اس وقت یہاں ، کوئی کام ہے… دادی جان کی طبیعت ٹھیک ہے؟“ وہ چونک کر استفسار کرنے لگا۔
”دادی جان بالکل ٹھیک ہیں اور سو رہی ہیں۔“
”پھر تم کو کچھ کام ہے ، بیٹھ جاؤ۔“
”جی کام ہے۔“ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کس طرح مدعا بیان کرے۔
”اچھا… ایسا کام ہے جو کھڑے کھڑے ہی بتایا جاتا ہے۔“ اس کے وجیہہ چہرے پر شوخ مسکراہٹ ابھری۔
”جی… میرے اکاؤنٹ میں مما نے خاصی خطیر رقم جمع کرائی ہے۔“
”ہوں پھر تو بھاری رقم کی مالک ہو تم ، لیکن مجھے یہ سب کیوں بتا رہی ہو تم؟“ وہ حیرانی سے گویا ہوا۔
”پاپا اور دادی جان مجھے وہ رقم استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں… میں چاہتی ہوں وہ رقم آپ لے لیں۔
“
”میں لے لوں تمہاری رقم ، کس خوشی میں؟“ وہ جتنا حیران ہوا تھا پری اتنی ہی بوکھلا رہی تھی اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کس طرح اس کو چیک پکڑا کر یہاں سے رفو چکر ہو جائے۔
”آپ نے گھر کی تمام ذمہ داری اٹھائی ہے ، نوکروں کو بھی تنخواہ آپ دے رہے ہیں ، اس سے آپ کو سپورٹ مل جائے گی۔“ اس کی بات پر طغرل کے لبوں سے مسکراہٹ فوراً غائب ہو گئی ، مسکراتے چہرے کی شوخی سرخی میں بدلنے لگی تھی۔
”اچھا تم سے کس نے کہا مجھے تمہارے پیسے کی سپورٹ چاہئے؟“ وہ سینے پر ہاتھ باندھے اس کے مقابل آ کھڑا ہوا تھا۔
”تم نے کیا سوچ کر ایسی اسٹوپڈ بات کی ہے ، پاگل لڑکی! میں جو کچھ بھی کر رہا ہوں اپنے گھر ، اپنے لوگوں کیلئے کر رہا ہوں اس گھر پر جتنا حق تمہارا ہے اتنا ہی میرا بھی ہے انڈر اسٹینڈ!“ وہ ایک دم ہی غصے سے آگ بگولہ ہو گیا تھا۔
”آپ اس گھر کو چھوڑ کر سالوں قبل جا چکے ہیں ، آپ کے اپنے گھر ہیں ، دولت و جائیدادیں ہیں آپ کو اس مخدوش حالت گھر سے اب کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے۔“ وہ بھی زیادہ دیر اپنی زبان پر قابو نہ رکھ سکی تھی۔
”میرا اس گھر سے تعلق ہے اور رہے گا ، تمہارے کہنے سے میں اس گھر کو نہیں چھوڑ سکتا ، کان کھول کر سن لو اور اگلی دفعہ مجھے ایسے بے کار مشورے دینے سے گریز کرنا ، تمہارے لئے بہتر ہو گا۔
“ ساری محبت ، تمام اخلاق و لحاظ بالائے طاق رکھ کر وہ غرایا تھا۔
”آپ بھی کسی خیال میں نہ رہے گا ، یہاں سے ایک کمرا بھی آپ کو ملنے والا نہیں ہے اس گھر سے اپنا حصہ لینے کا خیال دل سے نکال دیں۔“
”کیا کہا تم نے… میں گھر سے حصہ لینا چاہتا ہوں نان سینس!“ وہ بپھرے ہوئے طوفان کی طرح بڑھا اور اگلے ہی لمحے کمرا زور دار تھپڑ کی آواز سے گونج اٹھا تھا۔