Episode 129 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 129 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

بارش رات سے وقفے وقفے سے ہو رہی تھی صبح کے وقت موسلادھار روپ اختیار کر گئی تو فیاض صاحب کے ساتھ طغرل کو بھی آفس سے چھٹی کرنی پڑی تھی وہ سب ناشتے کی ٹیبل پر موجود تھے ، طغرل کا انتظار ہو رہا تھا وہ خاصی دیر بعد آیا تھا ، اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی۔
”السلام علیکم!‘ٴ وہ سلام کرکے فیاض کے برابر والی چیئر پر بیٹھ گیا تھا۔ دادی اور فیاض نے اس کے سلام کا جواب دیا ، اس کے بیٹھتے ہی ناشتہ شروع ہو گیا تھا ، صباحت ان کی پلیٹ میں فرائی انڈے رکھ رہی تھیں ، پری دادی کو کارکن فلیکس دے رہی تھی ، عادلہ اور عائزہ جوس لے رہی تھیں ، پری کے چہرے پر بھی عجیب سی خاموشی تھی۔
”جیتے رہیں بیٹا! طبیعت ٹھیک نہیں ہے آپ کی؟ آنکھیں بھی سرخ ہو رہی ہیں ، چہرے سے بھی تھکن ظاہر ہو رہی ہے؟“ فیاض نے اس کا جائزہ لیتے ہوئے شفقت بھرے انداز میں کہا۔

(جاری ہے)

”کچھ نہیں چچا جان! میں ٹھیک ہوں۔“ اس کی بھاری آوز سنجیدہ تھی۔
”طغرل! کیا لیں گے آپ؟“ صباحت نے انڈوں کی ڈش کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے اس سے پوچھا۔
”ہاف کپ چائے ، آنٹی!“
”صرف آدھا کپ ، یہ کیا ناشتہ ہوا بھلا؟ ارے موئی اس ڈائٹنگ پھائٹنگ کے چکر میں تو نہیں پڑے گئے ہو تم بیٹا!“ دادی کو اس کی صحت کی فوراً ہی فکر لاحق ہونے لگی تھی۔
”دادی جان! طغرل بھائی تو پہلے ہی اسمارٹ اور ہینڈسم ہیں ان کو قطعی ڈائٹنگ ضرورت نہیں ہے۔“ عادلہ نے حسبِ عادت بے تکلفی سے طغرل کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تھا جواباً انہوں نے ایک فہمائشی نگاہ اس پر ڈالی تھی اماں کو ایسی بے تکلفی ، بے شرمی لگا کرتی تھی لیکن اسے پروا نہ تھی۔
”ابھی کسی چیز کا موڈ نہیں ہے دادی جان!“ اس نے صباحت کی طرف سے دیا جانے والا کپ پکڑتے ہوئے کہا۔
”نامعلوم یہ آج کل کے بچے کیوں موڈ کے غلام بن گئے ہیں؟ یہ پری بھی میری خاطر یہاں پر آئی ہے ، یہ بھی یہی کہہ رہی تھی ابھی موڈ نہیں ہے اور یہاں تم بھی یہی راگ الاپ رہے ہو موڈ کا۔“ دادی جان کے انداز پر وہ بری طرح نروس ہو گئی تھی اس سے نگاہ اٹھا کر دیکھا نہیں گیا لیکن صباحت بیگم کی چبھتی نگاہوں کی حدت اپنے چہرے پر اس نے شدت سے محسوس کی تھی۔
”دادی جان! یہ خاصی حیران بات نہیں ہے ، جب بھی طغرل بھائی کا موڈ کھانے کا نہیں ہوتا تو پری بھی کھانے سے انکار کر دیتی ہے۔“ عادلہ کے ایک خاص انداز سے کہی گئی بات نے لمحے بھر کو ٹیبل پر حرکت کرتے ہاتھوں کو ساکت کر دیا تھا ان سب کی نظریں بے ساختہ طغرل اور پری کے چہرے پر اٹھیں تھیں۔ طغرل تو نارمل انداز میں بیٹھا چائے پیتا رہا تھا جبکہ پری کو اپنے قدموں کے نیچے سے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔
نظریں تو پہلے ہی جھکی ہوئی تھی پھر گردن بھی جھک کر سینے سے جا لگی تھی۔ باپ کے سامنے ایسی بات پر وہ پسینہ پسینہ ہو گئی تھی۔
”عادلہ! اس بات کا کیا مقصد ہے… بتاؤ مجھے؟“ فیاض صاحب سخت لہجے میں عادلہ سے گویا ہوئے اور عادلہ جو حسب عادت طنز کے تیر پری پر چلانے سے باز نہ آئی تھی یہ بھول بیٹھی تھی کہ اس وقت اس کے ڈیڈی بھی وہاں براجمان ہیں ان کی سخت غصیلی آواز اس کو بری طرح بدحواس کر گئی اس نے بوکھلا کر ماں کی طرف مدد طلب نظروں سے دیکھا تو انہوں نے زبردستی مسکراتے ہوئے بات سنبھالنے کی سعی کی۔
”ارے آپ اتنا مائنڈ کیوں کر رہے ہیں فیاض! یہ تو مذاق کی بات ہے پری اور عادلہ میں ایسا مذاق چلتا رہتا ہے جن کا کوئی مقصد نہیں ہوتا ہے۔ آپ محسوس مت کریں ان کو نوک جھونک چلتی رہے گی۔“
”مذاق… نوک جھونک؟ یہ سب خواب کی باتیں ہیں صباحت بیگم! میں آنکھیں رکھتا ہوں اور بصارت بھی سلامت ہے میری ، ان کے تعلق کو میں بخوبی جانتا ہوں۔
“ ان کے غصے کا پارہ مزید بلند ہو چکا تھا۔
”آپ اتنے ہائپر مت ہوں چچا جان! یہ مذاق ہی ہے۔“ ماحول میں کشیدگی پھیلتے دیکھ کر طغرل کو مداخلت کرنی پڑی تھی۔
”مذاق بھی ایک سینس میں ہوتا ہے برخودار! مذاق مذاق میں کسی کی پگڑی نہیں اچھالی جاتی ، کسی کی دل آزاری نہیں ہوتی ہے۔“ وہ شدید طیش کے عالم میں عادلہ کو گھورتے ہوئے کہہ رہے تھے عادلہ ان کو اتنے طیش میں دیکھ کر رونے لگی۔
”اوہو! کیوں بات کا بتنگڑ بناتے ہو بیٹا اب چھوڑو بھی ناشتہ کرو ، یہ عادلہ کی باتوں پر کیا گرفت کرنی بھلا ، یہ تو ایسی ہی بے تکی باتیں کرتی ہے بنا سوچے سمجھے جو منہ میں آتا ہے کہہ دیتی ہے۔“ اماں جان نرم لہجے میں اس کو سمجھانے لگی تھیں۔
”عادلہ! تم کو اس طرح کی بات نہیں کرنی چاہئے تھی چلو فوراً اپنے پاپا سے معاف مانگو اور آئندہ ایسی کوئی حماقت مت کرنا۔
”رہنے دو ، یہ سب تمہاری تربیت کا نتیجہ ہے جو زہر پری کے خلاف تمہارے دل میں بھرا ہے وہ ہی زہر تم نے اپنی بیٹیوں کے دلوں میں بھی بھر دیا ہے اسی کا اثر ہے یہ سب۔“ وہ کہہ کر اٹھے اور تیزی سے وہاں سے نکل گئے سب کے سامنے خصوصاً طغرل کے سامنے فیاض صاحب کے طعنوں نے سخت سبکی کا احساس دلایا تھا ، صباحت کا چہرہ مارے شرمندگی کے لال بھبھوکا ہو گیا۔
”میں چچا جان کو دیکھتا ہوں ، انہوں نے ناشتہ بھی نہیں کیا ہے۔“ طغرل کپ ٹیبل پر رکھ کر جاتے ہوئے گویا ہوا تھا۔
”سن لیا آپ نے اماں جان! کیا بول کر گئے ہیں فیاض! اسی بحث سے بچنے کیلئے میں نے آپ کو کتنا کہا تھا اس گھر میں آتے ہی کہ اس فساد کی جڑ کو بھی اس کی ماں کے پاس بھیج دیں یہ یہاں رہے گی تو ہماری زندگی سکون سے نہیں گزر سکے گی اور وہی ہو رہا ہے آج اس بچے کے سامنے بھی فیاض نے میری بے عزتی کر دی ہے۔
“ طغرل کے جاتے ہی وہ کسی غبارے کی مانند پھٹی تھیں۔
”فیاض نے بالکل درست بات کی ہے یہ سب تمہارا ہی سکھایا ہوا ہے جو عادلہ ایسی گھٹیا بات کر گئی ، باپ کے سامنے ذرا شرم نہ آئی اس لڑکی کو۔“
”دادی جان آپ کو کبھی ہماری سائیڈ لینی ہی نہیں ہے یہ ہم کو اچھی طرح معلوم ہے پھر میں نے ایسی کیا بری بات کر دی ہے؟“ عادلہ آنسوؤں کے درمیان بولی تھی جبکہ پری بے حس و حرکت بیٹھی تھی۔
اس کو نہ صباحت اور عادلہ کی چبھتی نگاہوں کا خیال تھا نہ ان کی ترش باتوں کا احساس وہ گردن جھکائے آنکھیں بند کئے بیٹھی تھی۔
”عادلہ! خاموش رہو ، تم کو اس انداز میں دادی جان سے بات نہیں کرنی چاہئے ، پہلے بات غلط کرتی ہو پھر اپنی غلطی بھی نہیں مانتی ہو۔“
”ہونہہ ، چلو پری… جو خود ہدایت پانا نہیں چاہتے ان کو ہدایت ملتی بھی نہیں یہ ہمیشہ یاد رکھنا تم لوگ۔
جو چاند پر تھوکتا ہے وہ اپنا ہی چہرہ داغدار کرتا ہے۔“ انہوں نے کہتے ہوئے پری کا ہاتھ پکڑا اور چلی گئیں۔
###
فاخر نے گیٹ وا کیا تھا اور سامنے کھڑی ہستی کو کئی لمحوں تک بے یقینی سے دیکھتا رہا تھا اس وقت وہ نائٹ سوٹ میں ملبوس تھا اس کی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ وہ گہری نیند سے بیدار ہوا ہے۔
”کب تک اس طرح دیکھتے رہو گے ، اندر بلانے کا ارادہ نہیں ہے؟“ زینب کی خفگی بھری آواز پر وہ حواسوں میں لوٹتے ہوئے مسکرا کر آگے بڑھتے ہوئے ان سے لپٹے ہوئے گویا ہوا۔
”السلام علیکم آنٹی! سوری آپ کو صبح ہی صبح یہاں دیکھ کر مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں ہو رہا تھا اور آئیں پلیز۔“ ان سے علیحدہ ہوتے ہوئے کہا اور ان کا بیگ اٹھا کر آگے بڑھ گیا۔
”ہوں… گھر تو تمہارا بے حد خوبصورت ہے ، ہر طرف سبزہ اور پھول ہی پھول کھلے ہیں۔“ وہ طائرانہ نظروں سے دیکھتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھیں ، وہ کچھ کہے بنا ان کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔
”یہ روم آپ استعمال کریں میں ذرا چینج کرکے آتا ہوں۔“ وہ ان کو ایک سلیقے سے سنوارے گئے کمرے میں چھوڑ کر چلا گیا تھا زینب سینڈل اتار کر بیڈ پر تکیوں کے سہارے نیم دراز ہو گئی تھی ، آنکھیں بند کرکے وہ سوچنے لگی کہ کس طرح ان دونوں کے درمیان رشتے ، یقین و اعتماد کی الجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھانے کی سعی کرے؟ بڑی امیدیں اور خواہشیں لے کر وہ فاخر کے پاس آئی تھی۔
”یہ لیں میں آپ کیلئے کافی بنا کر لایا ہوگا ، بٹلر آتا ہو گا وہ آکر ناشتہ تیار کرے گا ، آپ کیا لیں گی ناشتے میں؟“ وہ دو مگ ہاتھ میں لے کر اندر داخل ہوا اور مگ اس کی طرف بڑھا کر دوسرا خود لے کر قریبی صوفے پر بیٹھ گیا تھا۔
”صبح ہی صبح بلیک کافی پینے کی عادت ختم نہیں ہوئی تمہاری؟“ وہ کافی کا سپ لیتی ہوئی خفگی بھرے انداز میں ہی گویا تھیں فاخر نے مگ ہونٹوں سے لگاتے ہوئے گہری نگاہوں سے اسے دیکھا ان کے چہرے کے ہر عضو سے شدید تر خفگی و شکایتیں ظاہر ہو رہی تھیں اور وہ ان کی وجہ بخوبی جانتا تھا ان کا غصہ ، خفگی و اپنائیت بھری بے رخی کا سبب کیا ہے۔
”میں چھوڑنا بھی چاہوں تو نہیں چھوڑ سکوں گا آنٹی! بلیک کافی مجھے فریش کر دیتی ہے ، ضرورت بن گئی ہے میری یہ۔“ وہ مسکرایا۔
”تب ہی تمہارے اندر اس کی کڑواہٹ خون کے ساتھ دوڑنے لگی ہے ، رشتوں کی مٹھاس سے بھی محروم ہونے لگے ہو تم۔“ وہ جواباً خاموش رہا دونوں اس خاموشی کے دوران کافی پیتے رہے شاید دونوں ہی بہت کچھ کہنا چاہتے تھے اور دونوں کو ہی لفظ نہیں مل رہے تھے۔
”آنٹی! سب ٹھیک ہیں؟ آپ اس طرح بنا انفارم کئے آئی ہیں تو…؟“
”ارے تم کو کسی کی خیریت سے کیا غرض ہے بھئی ، جس طرح تم منہ اٹھائے کسی کو بتائے بغیر چلے آئے تو میں نے بھی سوچا یہ سب پرانی باتیں ہو گئی ہیں کسی کو انفارم کرنا سو میں بھی چلی آئی یہاں تمہارے گھر بنا بلائے ، بنا بتائے۔ خوش قسمتی سے تم یہاں کا ایڈریس مجھے پہلے دے چکے تھے وگرنہ تمہارے سیل فون کے رابطے کی طرح تمہارے گھر سے بھی محروم رہتے۔
”اومائی سویٹ آنٹی!“ وہ ان کے قریب بیٹھ کر ان کا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں لے کر محبت سے گویا ہوا۔
”آپ تو بے حد ناراض ہیں؟“
”تم ناراضی کی بات کرتے ہو فاخر! تمہاری اسی غیر ذمہ دارانہ حرکت نے صباحت آپی اور مجھے ان کے سسرال والوں کے آگے نگاہیں اٹھانے کے قابل نہیں چھوڑ ، تمہاری شادی ایک ہفتے کے مختصر وقت میں کرنے کا پروگرام اس لئے بنایا تھا کہ تمہارا ٹرانسفر اسلام آباد ہو گیا تھا بھائی جان اور بھابی لمبے ٹور پر ایبروڈ جا رہے تھے اور تم ملازموں کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا پسند نہیں کرتے گھر میں کوئی فیملی ممبر ضرور ہو اور اسی وجہ سے عائزہ کی تم سے شادی جھٹ پٹ کر دی گئی کہ تم اپنی بیوی کے ساتھ اپنے گھر میں خوش و خرم رہو اور تم نے کیا کیا؟“ شدید غصے و جذباتی انداز میں ان کا سانس بری طرح پھول گیا تھا مگر ان کو پروا نہ تھی وہ کہے جا رہی تھیں۔
”وہاں سے ایسے بھاگے ہو گویا کوئی جرم کرکے بھاگتا ہے اور پھر سیل فون آف کرکے بیٹھے ہو۔ شدید پریشان کر دیا ہے تم نے فاخر!“ شدت جذبات سے ان کی آواز بھر آئی ، وہ چپ ہو گئیں۔
”آپ پانی پئیں آنٹی! آپ جتنا غصہ کرنا چاہتی ہیں کریں اگر آپ مجھے ماریں گی بھی تو میں بھی آپ کے ہاتھ نہیں روکوں گا لیکن میری بات بھی سنیں آپ ، عائزہ نے میرے ساتھ کیا کیا یہ میں آپ کو لنچ کے بعد بتاؤں گا ، ابھی آپ فریش ہوں اور کچھ دیر ریسٹ کر لیں۔“ وہ گلاس دے کر سنجیدگی سے گویا ہوا۔

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط