Episode 141 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 141 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

اس کے دل کی دھڑکنیں بری طرح منتشر تھیں رگ و پے میں عجیب سی سنسناہٹ دوڑ رہی تھی طغرل کے لہجے میں نہ جانے کیسا درد تھا؟ کیسی بے بسی و حسرت تھی کہ اس کے حساس دل پر گہری چوٹ کی مانند لگی پھر اس سے وہاں کھڑا نہ ہوا گیا وہ دبے قدموں واپس آ گئی۔ اس کے جذبوں کو وہ شدت سے ٹھکراتی رہی تھی طغرل کے ساتھ رشتہ ہی ہمیشہ لڑتے جھگڑتے کا ہی رہا آج تک۔ وہ بچپن سے اسے تنگ کرتے مذاق اڑاتے آیا تھا پھر پاکستان آکر بھی وہ اس کو ہنسی و تضحیک کا نشانہ بناتی رہی وہ اس کے روم کے ساتھ دادی پر بھی قبضہ کر چکا تھا۔

”وہ مجھ سے محبت کر سکتے ہیں؟“ وہ لاؤنج میں بیٹھی خود سے پوچھ رہی تھی۔
”میں بھلا اس قابل کہاں ہوں کوئی مجھ سے محبت کرے میں تو وہ حرماں نصیب ہوں جو ماں باپ کی محبت اس وقت نہ پا سکی تھی جب بھی مجھے صرف و صرف ان کی خالص محبت کی ضرورت تھی۔

(جاری ہے)

”اب تو تم ان کو دونوں کی محبت و چاہت حاصل ہے پری۔“ اس کے اندر کوئی گویا ہوا۔
”محبت نہیں ندامت یا وہ دونوں اپنی زیادتیوں کا ازالہ کر رہے ہیں وہ ازالہ اب کبھی بھی نہیں ہو سکتا ہے بچپن کی وہ محرومیاں وہ ننھی ننھی خوشیاں چھوٹی چھوٹی خواہشیں جن کو پانے کیلئے میں نے وہ دن ترستے تڑپتے گزار دیئے۔ وہ گزرے دن اب لوٹ کر نہیں آئیں گے میرے اندر اپنوں کی دی گئی محرومیوں و بے اعتنائیوں نے بڑا گہرا خلا پیدا کر دیا ہے میں محبت پر کبھی اعتبار نہیں کر پاؤں گی کبھی نہیں۔
“ اس نے سسکتے ہوئے سوچا معاً طغرل کی تکلیف دہ آواز ذہن میں گونجی اور وہ انجانے سے اضطراب میں دونوں ہاتھوں میں سرتھام کر بیٹھ گئی۔
”میں کیسے یقین کرلوں طغرل کی محبت پر… مجھے یقین نہیں آیا وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں؟“ وہ اعتبار ونا اعتباری کے بھنور میں پھنسی تھی۔
”ارے پری! تم تو طغرل بھائی اور معید بھائی کیلئے کافی بنا کر لائی تھیں کافی یہاں رکھے رکھے ٹھنڈی ہو گئی ہے تم دینے نہیں گئیں؟“ عائزہ وہاں آئی تو ٹرے میں کافی کے مگ دیکھ کر حیرت سے بولی۔
”تم گرم کرکے دے آؤ میرا دل نہیں چاہ رہا وہاں جانے کو۔“
”تمہارا دل نہیں چاہ رہا ہے وہاں جانے کو؟“ وہ ہنوز حیران تھی۔
”ہوں… یہی کہا ہے میں نے۔“ وہ اپنے بھیگے لہجے میں قابو پاتے ہوئے بولی۔
”صاف انداز میں کہو تم طغرل بھائی کا سامنا ہی کرنا نہیں چاہتی ہو۔“
”میں سامنا کیوں نہیں کروں گی ان کا میں نے ایسا کیا کیا ہے؟“ وہ خاصے چڑ چڑے پن سے جھنجلا کر گویا ہوئی تھی۔
جواباً عائزہ نے اس کی طرف تاسف بھرے انداز میں دیکھا اور کچھ ترش بات کہنے والی تھی کہ اس کی بھیگی پلکیں و پریشان کن انداز دیکھ کر وہ اس کے قریب بیٹھ گئی اور شانوں پر ہاتھ رکھ کر محبت سے گویا ہوئی۔
”پری! یہ سب وہ تمہاری خاطر تمہیں پانے کی چاہ میں کر رہے ہیں۔ تم کتنی خوش نصیب ہو جو طغرل بھائی جیسا پرندہ تم سے اتنی محبت کرتا ہے کہ ان کو اپنی زندگی کی بھی پروا نہیں رہی۔
“ پری نے کچھ نہیں کہا وہ خاموشی سے روتی رہی۔
”کیا کمی ہے ان میں… کیا کچھ نہیں ہے ان کے پاس؟“
”میرے پاس کیا ہے؟ کوئی کیوں کے گا مجھ سے محبت ارے مجھ سے ان لوگوں نے محبت نہیں کی جو مجھے اس دنیا میں لانے کے ذمہ دار ہیں۔ طغرل ہر طرح سے مالا مال ہے تو میرے دامن میں خسارے کے سوا اور کچھ موجود نہیں ہے خامیوں اور ادھورے پن کے علاوہ۔
“ وہ عائزہ سے لپٹ کر بڑی شدت سے رو پڑی۔
”پری! محبت کوئی کاروبار نہیں ہے جہاں لین دین کا حساب برابر ہو محبت تو خود اختیاری جذبہ ہے جو ہوتا ہے تو ہوتا ہی جاتا ہے محبت کے اس جذبے کو لگام نہیں لگائی جا سکتی یہ بے لگام ہوتا ہے۔“
”تم نے اپنی محبت کا انجام دیکھا ہے پھر بھی محبت کی سائیڈ لے رہی ہو؟“ وہ ٹشو سے آنسو صاف کرتے ہوئے گویا ہوئی۔
”وہ محبت نہیں تھی اسی لئے وقت سے پہلے دم توڑ گئی اور طغرل بھائی کی محبت کو راحیل کی ہوس سے کمپیئر مت کرو پلیز۔“
”چھوڑو اس قصے کو تم کافی دے کر آؤ ان کی میں ذرا کھڑکیاں دروازے چیک کر لوں آج گھر میں دادی اور ممی کے علاوہ پاپا بھی نہیں ہوں گے۔“
”پاپا ایک ہفتے کیلئے بزنس ٹور پر گئے ہیں یہ ممی کو معلوم تھا اور یہ بھی کہ دادی بھی آصفہ پھوپھو کے ہاں گئی ہوئی ہیں پھر بھی زینب آنٹی کے ہاں رک گئی۔
“ عائزہ اٹھتے ہوئے بڑبڑائی تھی۔
”تم کو بتایا تو ہے ممی نے زینب آنٹی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔“ پری بھی اس کے ساتھ ہی کھڑی ہوتے ہوئے گویا ہوئی۔
”عادلہ پہلے ہی وہاں موجود ہے پھر زینب آنٹی کوئی چھوئی موئی عورت نہیں ہے جو معمولی سے فلو میں کسی کا سہارا لیں وہ تو بڑی سے بڑی بیماری میں کسی کو تنگ نہیں کرتیں کچھ عرصہ قبل ٹائیفائیڈ ہو گیا تھا ان کو اور ساتھ میں جوانڈس بھی مگر مجال ہے انہوں نے ممی کو بھی خبر لگنے دی ہو۔
تنہا ہی بیماری سے لڑ کر تندرست ہونے کے بعد ہی سب کو اطلاع دی تھی وہ باہمت و حوصلہ مند خاتون ہیں۔“
”اوفوہ! کیوں اس قدر من من کر رہی ہو شاید کوئی وجہ ہو ممی کی وہاں رکنے کی اس لئے رک گئی ہو۔ تم کیوں فیل کر رہی ہو اتنا“
”ہوں مجھے بھی یہی لگ رہا ہے اور وہ نکمی عادلہ سے تو کسی کام کی توقع رکھنا ہی بڑی بے وقوفی ہے کام چور ہے ایک نمبر کی۔
“ وہ بڑبڑاتی ہوئی ٹرے اٹھانے لگی تھی۔
”فاخرہ کا غصہ تم عادلہ پر نکال رہی ہو۔“ پری مسکرائی۔
”وہ مجھے اپنا نام دے کر بھول گئے ہیں پری! ان کا کٹھور پن دیکھ رہی ہو دوسری شادی کے بعد مڑ کر بھی میری طرف دیکھنا گوارا نہیں ہے انہیں۔“
###
حاجرہ زخموں کی تاب نہ لا سکی تھی اور اسی رات کو مر گئی تھی۔ حسب روایت خاموشی سے رات کو ہی غفران کے ملازم اس کو دفن کر چکے تھے وہاں موجود ماہ رخ کو اس کی خبر نہ مل سکی تھی۔
اس نے ذاکرہ کے کہنے پر غفران احمر سے اجازت طلب کی تو وہ بڑے اطمینان سے گویا ہوا کہ اس نے ذاکرہ کو ہسپتال میں ایڈمٹ کروا دیا ہے اور وہ شادی سے پہلے گھر سے باہر نہیں جا سکتی اور ویسے بھی وہ اس کی بیوی بننے والی ہے اور وہ ہرگز پسند نہیں کرے گا اس کی بیوی ہونے والی ملکہ ایک ادنیٰ ملازمہ کی عیادت کو جائے وہ میٹھے میٹھے لہجے میں اس کو جتا کر چلا گیا اور ساتھ یہ بھی کہ کل رات میں وہ شادی کے بندھن میں بندھ رہے ہیں وہ ان باتوں کو بھلا کر شادی کی تیاریاں کرے۔
وہ ابھی کچھ سوچ ہی نہ سکی تھی تب ہی ذاکرہ نے آکر اسے حاجرہ کے مرنے کی خبر سنائی اور دکھ و رنج کا ایک پہاڑ سا اس پر ٹوٹ گیا تھا وہ رونے لگی حاجرہ کی عبرتناک موت پر۔ پرخلوص و باوفا حاجرہ نے ہر قدم پر اس کا ساتھ دیا تھا اور اس کی سلامتی کی خاطر ہی اس نے ایک لفظ اس کے خلاف کہے بنا مار سہتے سہتے مر گئی تھی۔
”خدارا! آپ یہ آنسو پونچھ لیجئے رانی صاحبہ! اگر رئیس یہاں آگئے تو میری خیر نہیں ہو گی اور وہ بھی اس بات کا زیادہ برا منائیں گے کہ ایک ادنیٰ سی ملازمہ کی خاطر آپ رو رہی ہیں۔
“ ذاکرہ اس کے آنسو صاف کرتی ہوئی رندھی ہوئی آواز میں بولی۔
”ملازمہ مت کہو اس کو وہ سراپا وفا ایثار تھی اتنی پرخلوص کہ صرف دوستی کو زندہ رکھنے کی خاطر جان کی بازی ہارنا قبول کیا اس نے۔“
”رانی صاحبہ! آپ حاجرہ کو بھول کر اپنی فکر کریں رئیس مہمانوں کو دعوت نامے بھیج چکے ہیں کل صبح سے ہی مہمانوں کی آمد شروع ہو جائے گی آپ اعوان صاحب سے مل لیں وہ ساری تیاری کر چکے ہیں آپ کو یہاں سے لے جانے کی… آپ ان سے ملاقات کر لیں۔
”تم کیا سمجھتی ہو ذاکرہ! غفران احمر ہمیں یہاں سے نکلنے دے گا؟“
”میں نکلواؤں گی آپ کو یہاں سے بس آپ یہاں سے نکل جانے کیلئے تیار ہو جائیں میں اپنی تیاری مکمل کرنے والی ہوں۔“ اس کا لہجہ معنی خیزی لئے ہوئے تھا۔ ماہ رخ چونک کر استفسار کرنے لگی۔
”کیا تیاری کی ہے تم نے ذاکرہ! مجھے نہیں بتاؤں گی؟“
”بتاؤں گی ضرور بتاؤں گی پہلے آپ یہاں سے جانے کی تیاری کریں۔
میرا مطلب ہے ایک بار اعوان صاحب سے مل لیں وہ اس وقت محل کے عقبی حصہ میں ہیں وہاں کوئی نہیں جاتا ان دنوں پھر بھی آپ زیادہ ٹائم نہ لگایئے گا دلربا کس ٹائم کیا کر گزرے کچھ معلوم نہیں ہے۔“
”دلربا کو شک ہو گیا اور وہ وہاں آ گئی تو پھر کیا ہوگا؟“ وہ اندیشوں در اندیشوں کا شکار بنی ہوئی تھی۔
”میں اس کو وہاں آنے نہیں دوں گی آپ بے فکر ہو کر جائیں رئیس بھی اپنے کمرے میں قیلولہ کر رہے ہیں ایک گھنٹے سے قبل وہ بیدار ہونے والے نہیں ہیں۔
یہ ان کی پرانی عادت ہے۔“ حاجرہ کی موت نے اس کے اندر بغاوت کو ابھارا تھا وہ پل بھر میں یہاں سے جانے کا فیصلہ کر بیٹھی۔ ذاکرہ اس کو پیغام دے کر جا چکی تھی ذاکرہ اس محل کے تمام ان چور راستوں سے واقف تھی جن سے غفران احمر خفیہ لوگوں کو محل میں لاتا تھا جو اس کی عیاشیوں کیلئے سامان مہیا کیا کرتے تھے اور ان میں کچھ راستے ایسے بھی تھے جو اس علاقے سے باہر جا کر ختم ہوتے تھے ایسے راستوں کی خبر شاید دلربا کو بھی نہیں تھی۔
###
دوسرے دن دادی جان گھر آ گئی تھیں۔ طغرل نے ان دونوں کو سختی سے منع کر دیا تھا کہ اس کے زخم کے بارے میں دادی کو بالکل نہ بتایا جائے اور اس نے بازو کو بھی بہت خوبصورتی سے جیکٹ پہن کر کور کر لیا تھا وہ دادی سے محو گفتگو تھا۔
”شرمین کا رشتہ پسند آیا آپ کو دادی جان! کیسے لوگ ہیں وہ؟“
”بڑے اچھے لوگ ہیں لڑکا سرکاری نوکری کرتا ہے پڑھا لکھا سلجھا ہوا نیک فطرت بچہ ہے۔
میں نے آصفہ سے پہلے ہی ہاں کر دی تھی۔“
”اسی لئے تو آصفہ پھوپھو نے آپ کو بلایا تھا آپ سے بڑھ کر لوگوں کو جانچنے و سمجھنے کی صلاحیت کسی اور میں کہاں ہے دادی جان۔“
”ہوں بیٹا! اس میں میرا کوئی کمال نہیں ہے یہ سب تجربہ عمر سے آتے ہیں تم آج آفس بھی نہیں گئے پھر مجھے کچھ پژمردہ و نڈھال سے بھی نظر آ رہے ہو کیا تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے؟“ وہ اس کے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے گویا ہوئی تھیں۔
”میں ٹھیک ہوں دادی جان! موسم چینج ہوا ہے تو بدلتے موسم کے وائرس کا معمولی شکار ہو گیا ہوں آپ فکر مت کریں میں ویسے بالکل ٹھیک ہوں۔“ اس نے مسکراتے ہوئے ان کی تشویش کو کسی حد تک کم کرنے کی سعی کی۔
”یہ بدلتے موسم کا اثر تم پر کل اس وقت تک نہیں تھا جب میں یہاں موجود تھی میرے جاتے ہی تم پر اس وائرل نے حملہ کر دیا بیٹے؟“ وہ اس کی آنکھوں میں پھیلی اداسی کو دیکھ رہی تھیں اس کی بجھی بجھی سی آنکھیں اس کے مسکراتے لبوں کا ساتھ نہیں دے رہی تھیں وہ خاصا بکھرا بکھرا سا لگ رہا تھا اور کچھ کمزور بھی اپنے آپ کو چھپاتا ہوا سا۔
”ایسے کیا دیکھ رہی ہیں دادی جان! کوئی گستاخی ہو گئی ہے مجھ سے؟“ دادی کو اپنی جانب یک ٹک دیکھتے ہوئے وہ سراسیمگی سے بولا۔
”مجھے سچ سچ بتاؤ کل میرے جانے کے بعد کیا ہوا ہے؟ ایک دن میں تم کمزور بیمار کس طرح ہو گئے ہو کیا ہوا ہے آخر؟“
”یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا ہے نہ آپ مجھے چھوڑ کر جاتیں اور نہ میں بیمار پڑتا نہ جایا کریں مجھے چھوڑ کر آپ دادی جان!“ اس نے بڑھ کر اس کے شانے پر سر رکھ دیا۔
”اہم کام ہوں تو جانا پڑتا ہے بیٹا پھر اب تم کوئی ایسے ننھے نونہال بھی نہیں ہو جو تم اپنا خیال نہ رکھ سکو۔“
”میں تو آپ کا ننھا نونہال ہی ہوں دادی جان! آپ مانیں یا نہ مانیں مجھے آپ کی جدائی برداشت نہیں ہوتی اور بنگلے کی کنسٹرکشن مکمل ہونے تک آپ یہاں رہ لیں پھر میں آپ کو اپنے ساتھ ہی لے کر یہاں سے جاؤں گا۔“
”ہاں چلوں گی تمہارے ساتھ بھی دونوں گھر ہی میرے بچوں کے ہیں فراز ہو یا فیاض یا تم ہو یا طلحہ مجھے دل سے عزیز ہو۔
“ اس کی کوششوں سے وہ اس پر سے توجہ ہٹانے میں بھول چکی تھیں کہ بات کس موضوع پر ہو رہی ہے وہ دل ہی دل میں شکر ادا کر رہا تھا۔
”عائزہ! یہ تمہاری ماں کبھی عقل پکڑے گی یا اسی طرح بے عقلی و بے پروائی کے مظاہرے کرتی رہے گی جب اس کو معلوم تھا میں آصفہ کے گھر رات رکوں گی تو پھر وہ وہاں کیوں ٹھہری؟“ اماں آتی ہوئی عائزہ سے مخاطب ہوئیں۔
”محسوس ہوتا ہے ممی کچھ سمجھنا ہی نہیں چاہتی ہیں حالانکہ کہہ کر یہی گئی تھیں شام آنٹی کے گھر سے آ جائیں گی وہاں سے کال کر دی نہ آنے کی بابا بھی کل ہی ایک ہفتے کے ٹور پر گئے ہیں اگر طغرل بھائی اور معید بھائی گھر پر نہیں ہوتے تو نامعلوم میرا اور پری کا مارے ڈر کے رات بھر کیا حال ہوتا؟“ وہ بھی ان کی ہم خیال تھی۔
”صباحت آنٹی نے مجھے کال کرکے کہا تھا گھر کا خیال رکھوں وہ کسی کلوز فرینڈز کے اچانک آنے کی وجہ سے مجبوراً وہاں رک رہی ہیں میں نے کہہ دیا تھا وہ فکر نہ کریں میرے ساتھ معید بھی موجود ہے۔“ طغرل کو یاد آیا وہ ہسپتال سے ڈریسنگ کروا کر گھر آیا ہی تھا اور تب ہی صباحت کی کال آئی تھی وہ اپنی تکلیف میں ان کی کال کو بھی بھول گیا تھا۔
”کھانا لگ گیا ہے دادی جان۔
“ عائزہ نے کہا۔
”ہوں چلو اپنی ماں کو فون کرکے پوچھو اس کا ارادہ آج بھی گھر آنے کا ہے یا وہیں رکے گی؟ عادلہ کو پہلے ہی وہاں چھوڑا ہوا ہے خود بھی وہاں جا کر پڑ گئی ہے نہ گھر کی پروا ہے اور نہ گھر والوں کا خیال۔“ وہ اٹھتے ہوئے طغرل کے بڑھے ہوئے بازو کا سہارا لینا چاہتی تھیں کہ عائزہ نے سرعت سے آگے بڑھ کر ان کو سہارا دیا اور طغرل کو اشارہ کیا اپنے زخم کا خیال رکھے اس کو عائزہ کی یہ محبت بالکل بہن جیسی لگی اسی نے آگے بڑھ کر دادی کو اپنے بائیں بازو کے حصار میں لیتے ہوئے کہا۔
”تمہارا بھائی اس بیماری میں اتنا بھی کمزور نہیں ہوا ہے کہ دادی کو بھی سہارا نہ دے سکے۔“ اس کے لہجے میں شفقت تھی پہلی بار وہ اس سے اچھے لہجے میں پیش آیا تھا وگرنہ وہ اس کی گزشتہ لغزشوں کے باعث ناپسند کرتا تھا آج پہلی بار اس کو اپنے رویے کی بدصورتی کا ادراک ہوا۔

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط