Episode 158 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 158 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

ہیلو سویٹ ہارٹ! کیسا لگا سرپرائز؟“ دوسری طرف سے کال ریسیو ہوتے ہی وہ چہکا۔
”اٹس سو ورنڈر فل! میں تو بہت خوش ہوں آج ،آنٹی مجھے انگوٹھی پہنا کر گئی ہیں ،مٹھائی بھی کھلائی ہے۔“ دوسری جانب عادلہ اپنی انگلی میں پہنائی گئی انگوٹھی کو چومتی ہوئی سرشار لہجے میں گویا ہوئی تھی۔
”اوہ… آئی سی۔ اب تم کب آ رہی ہو میرا منہ میٹھا کرنے کیلئے۔
”کیا مطلب ہے؟“ اس کا لہجہ عجیب سا تھا۔
”بہت دن ہو گئے ہیں ،ہمیں ملے ہوئے ،کل آ جاؤ۔“
”سوری شیری! میں اب تمہاری باتوں میں آنے والی نہیں ہوں۔“ وہ بے حد سنجیدہ و پراعتماد لہجے میں گویا ہوئی۔
”کیا تم میری بات سے انکار کرو گی ،بات نہیں مانو گی؟“ وہ خونخوار انداز میں غرایا تھا ،دوسری طرف سیل فون کان سے لگائے عادلہ خوف سے کانپ اٹھی تھی۔

(جاری ہے)

”پلیز شیری! سمجھنے کی کوشش کرو۔“
”گو ٹو ہیل… پھر تم نہیں آؤ گی کل…؟“ اس کا انداز پہلے سے زیادہ سخت و پتھریلا ہو گیا تھا۔
”میں کس طرح سمجھاؤں تمہیں ،پہلے ممی کی اجازت تھی مگر اب وہ بالکل بدل گئی ہیں ،وہ مجھے اب تم سے تنہائی میں ملنے کی اجازت ہرگز نہیں دیں گی۔“ وہ اسے سمجھاتے ہوئے رو پڑی تھی۔
”مجھے پروا نہیں ہے کسی کی۔
”شیری کیا ہو گیا ہے تمہیں؟“
”تم آ رہی ہو یا نہیں ،صرف کنفرم کرو۔“ وہ سخت بے حس بنا ہوا تھا۔
”اگر تم نہیں آئیں تو میں منگنی ختم کروا دوں گا اور تمہاری ساری تصویریں اور ویڈیوز فیاض انکل اور دادی…“
”پلیز ایسا مت کرنا میں کل آ جاؤں گی۔“
”جب گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو انگلی ٹیڑھی کرنی پڑتی ہے۔“ اس کی ہنسی مکروہ تھی۔
###
”چائے بنا رہی ہو یا پائے؟ مجھے دیر ہو رہی ہے میٹنگ ہے میری۔“ وہ کف لنگ لگاتا ہوا اس سے آ کر کچن میں بولا تھا۔
”ارے آپ نے چائے کا منع کر دیا تھا ،میں دادی کیلئے دلیہ تیار کرنے لگ گئی اچھا ابھی دو منٹ میں بنا دیتی ہوں۔“ وہ اس کو سر پر کھڑے دیکھ کر حسب عادت گھبرا کر کہہ اٹھی۔
”رہنے دو ،دیر ہو رہی ہے آکر پیوں گا ،تم ذرا یہ کالر کا بٹن بند کر دو مجھ سے بند نہیں ہو رہا ہے۔
“ وہ قریب آ کر بولا۔ اس کی نگاہوں کی تپش ،ملبوس سے اٹھتی دلآویز مہک پری کے دل کی دھڑکنیں منتشر ہونے لگی تھیں۔ ہاتھ بے جان سے ہو گئے تھے۔
”تم پھر مجھ پر یعنی میری نیت پر شک کر رہی ہو؟“ وہ سنجیدگی سے گویا ہوا تھا۔
”نہیں… ایسی بات… نہیں ہے…“ وہ دور ہو کر پھر قریب ہوئی تھی اور اس کے کالر کی طرف بڑھتے ہاتھوں میں پھر لرزش سی پیدا ہو گئی تھی۔
”کانپ کیوں رہی ہو ڈر رہی ہو مجھ سے؟“ اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کے ہاتھوں کو تھام لیا تھا۔ کچھ شرافت کے موڈ میں تھا یا اس کی سفید پڑتی رنگ پر ترس آ گیا تھا جو بہت آہستگی سے اس کا ہاتھ چھوڑ کر خود ہی کالر کا بٹن لگا لیا تھا وہ نگاہیں جھکائے کھڑی تھی۔
”دیکھو مجھے ایسی بزدل اور اعتماد سے محروم لڑکیاں کبی بھی پسند نہیں رہی ہیں ،اگر میری گڈ بک میں اپنا نام دیکھنا چاہتی ہو تو بہادر بنو ،اعتماد و حوصلہ پیدا کرو اپنے اندر۔
“ لیمن اور وائٹ جارجٹ کے سوٹ میں وہ دل میں اترتی جا رہی تھی ،شاید وہ نہا کر بال سلجھا کر یہاں آ گئی تھی۔ سیاہ گھنے بال کچھ شانوں پر بکھرے ہوئے تھے اور کچھ پشت پر پڑے تھے اور اس کے حسن کو مزید نکھار رہے تھے۔ وہ بے اختیار آگے بڑھا تھا اور پشت پر پھیلے بالوں کو ہاتھ میں لے کر لبوں تک لے گیا تھا صرف ایک لمحے میں یہ ہوا تھا اور دوسرے لمحے وہ تیزی سے وہاں نکل گیا تھا ،وہ شاکڈ رہ گئی تھی۔
###
صباحت نے بے نیازی سے نیم دراز فیاض کو دیکھا جو ان کی موجودگی کو نظر انداز کئے بڑے انہماک سے ٹی وی پر کوئی ٹاک شو دیکھ رہے تھے ،وہ ان کے قریب بیٹھ کر استفسار کرنے لگیں۔
”کیا غلطی ہوئی ہے مجھ سے فیاض! آپ کتنے دنوں سے مجھے سے ڈھنگ سے بات کر رہے ہیں ،میری موجودگی میں بھی آپ چپ رہتے ہیں۔“
”بات کرتا تو ہوں اور کس طرح بات کروں بتاؤ مجھے؟“ انہوں نے ان کی طرف دیکھے بغیر ہی لٹھ مار انداز میں جواب دیا۔
”پرسوں بھی آپ مجھے گھر میں ہی چھوڑ گئے پری کی منگنی کے موقع پر۔“
”تم سے کہا تو تھا اب تم نہیں مانی تو تمہارے پاؤں پکڑ کر کہتا؟“
”اگر میری جگہ مثنیٰ ہوتی پھر بھی آپ کا یہی رویہ ہوتا؟“
”کیا…“ انہوں نے شدید غصے میں ہاتھ میں پکڑا ریموٹ پھینکا تھا۔
”مثنیٰ… مثنیٰ… مثنیٰ… گئی کب ہے یہاں سے؟ تم نے اسے جانے ہی کہاں دیا ہے نہ اس گھر سے‘ نہ میرے دل سے اور نہ میری یادوں سے ،چوبیس گھنٹوں میں چار سو بار تم یہ نام لیتی ہو نہ خود بھولتی ہو اور نہ مجھے بھولنے دیتی ہو،آخر تم کیسی عورت؟“ صباحت ہک دک کھڑی ان کی اشتعال انگیزی دیکھ رہی تھیں۔
”مجھ سے شکوہ کرتی ہو ساتھ نہ لے جانے کا لیکن اپنے رویئے پر کبھی غور کیا ہے؟ نہ تم کبھی پری کو ماں کا پیار دے سکیں اور نہ کبھی بیوی بن کر میرے دل سے مثنیٰ کا نام مٹانے کی سعی کی۔“
”کیا وہ نام آپ مجھے مٹانے دے فیاض!“
”جب وہ مجھے چھوڑ کر گئی تھی تب میں شکستہ و کمزور ہو گیا تھا ،تم چاہتیں تو آسانی سے مجھے اپنا بنا سکتی تھیں ،پری کو ماں کا پیار دے کر مجھ کو بے مول خرید سکتی تھیں مگر تم میرے مخالف سمت چلتی رہیں۔
پری کو دشمن سمجھنے لگیں اور اسی وجہ سے اماں سے بھی دور ہو گئیں کہ وہ پری سے پیار کرتی تھیں ،میرے دل میں جھانکنے کی تم نے کبھی زحمت ہی نہیں کی اور طلاق ہونے کے بعد بھی اس کو مجھ سے جوڑے رکھا ،خود کبھی اس کی جگہ لینے کی جستجو نہیں کی ایک عورت کا دکھ دوسری عورت بھلاتی ہے۔ ایک عورت کی جگہ دوسری عورت ہی پر کرتی ہے۔“
”سارا الزام آپ مجھے ہی کیوں دے رہے ہیں فیاض! آپ نے کبھی کوشش کی مجھے مسیحا بنانے کی ،میری ہر حرکت آپ کیلئے ناپسندیدہ تھی ،میرا بننا سنورنا بولنا ،چلنا پھرنا کچھ بھی تو آپ کو پسند نہ تھا باہر اپنے ساتھ لے جانا پسند نہیں کرتے تھے۔
”کیا فضول بحث لے کر بیٹھ گئی ہو اس وقت تم۔“ وہ اکتائے ہوئے لہجے میں کہتے ہوئے لیٹ گئے تھے۔
”فیاض…“ وہ ان کے قدموں کے پاس بیٹھ کر پست لہجے میں بولیں۔
”میں بہت شرمندہ ہوں اپنی کوتاہیوں پر مجھے نہیں معلوم تھا آپ کو پانے کے چکر میں الٹا آپ کو کھو رہی ہوں۔“
”اوکے چلو آ کر سو جاؤ ،رات گہری ہو رہی ہے۔“ انہوں نے نرم لہجے میں کروٹ بدل کر کہا تھا۔
”میری اتنی بڑی زیادتیوں کو آپ نے اتنی جلدی معاف کر دیا؟“
”صباحت معاف کرنا سیکھو ،جب کسی کو معاف کرتے ہیں تو ہمارے اندر ایسا سکون اترتا ہے کہ ہم تمام تکالیف و دکھوں کو بھول کر ایک خوبصورت جہاں کی سیر کرتے ہیں۔“
###
”اوہ توبہ ،اب ایسا بھی کیا اعتراض کرنا ،تم گھبرانا چھوڑ دو گی ،طغرل بھائی تمہیں چھیڑنا چھوڑ دیں گے ،وہ یہ ساری حرکتیں تمہیں چڑانے کی خاطر ہی کرتے ہیں اور کوئی وجہ نہیں ہے۔
”تم یہ اتنی سی باتیں کہہ رہی ہو حد ہوتی ہے بھئی ،بے شرمی و ڈھیٹ پن کی بھی ،مجھے وہ سب پسند نہیں ہے۔“
”اوفوہ… چھوڑو بھی اب ،تم کہہ رہی تھیں انہوں نے میسج بھیجا تھا ،معافی کا پھر کیوں بھڑک رہی ہو۔ ایک خوشخبری سنو ،فاخر آ گئے ہیں مجھے لینے کیلئے ،میں اسی ہفتے چلی جاؤں گی۔“
”اورئیلی مگر وہ ان کی شادی…“
”وہ شادی نہیں ہوئی تھی۔“ اس نے ساری بات بتاتے ہوئے کہا۔
”ارے یہ تو بہت اچھی خبر ہے آؤ دادی کو سناتے ہیں۔“ وہ مسکراتی ہوئی آگے بڑھی تھی۔
”ایک بات ہے پری! منگنی کے بعد تم میں بہت چینج آیا ہے ،ہنسنا مسکرانا سیکھ گئی ہو اور اچھی بھی لگتی ہو۔“

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط