Episode 159 - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 159 - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

قسمت عادلہ پر مہربان تھی صباحت زینب کے ہاں گئی تھیں عائزہ کے ہمراہ۔ وہ خود بھی دادی اور پری کے سامنے ان کے پیچھے اس طرح نکلی تھی جیسے کسی وجہ سے پیچھے رہ گئی ہو تو جب وہ روڈ پر آئی تھی ان کی کار وہاں سے جا چکی تھی ،وہاں سے ٹیکسی لے کر وہ شیری کے گھر روانہ ہو گئی تھی۔ شیری کے جارحانہ رویئے نے اس کی ساری خوشی کافور کر دی تھی،وہ تہیہ کر چکی تھی کہ تنہائی میں اس سے نہیں ملے گی ،سیدھی جا کر وہ آنٹی کے پاس بیٹھے گی اور وہیں سے اٹھ کر گھر واپس آئے گی۔
وہاں جا کر معلوم ہوا مسز عابدی گھر پر نہیں تھیں البتہ شیری اپنے روم میں موجود تھا اور کہیں جانے کی تیاری کر رہا تھا ،وہ کہاں جا رہا تھا یہ اسے معلوم تھا ملازمہ کو ٹال کر وہ تیزی سے کوریڈور سے گزر رہی تھی معاً بھاری قدموں کی دھمک سے فضا گونج اٹھی تھی اور ابھی وہ سوچ بھی نہ پائی تھی کہ کیا کرے؟ کس طرح اس سے خود کو چھپائے وہ اس کے سر پر پہنچ گیا۔

(جاری ہے)


”تم… میں نے تمہیں یہاں تو نہیں بلایا تھا پھر تم کیوں آئی ہو یہاں پر کس کی اجازت سے بتاؤ؟“ اس نے بری طرح اس کے بازو میں انگلیاں گڑاتے ہوئے سخت تند لہجے میں کہا۔
”میں… میں آنٹی سے ملنے آئی تھی یہاں۔“ وہ درد سے کراہ کر رہ گئی۔
”ممی سے ملنے یا میرے ہی گھر میں مجھ سے چھپنے آئی تھیں۔“
”شیری… کیا ہو گیا ہے تمہیں ،چھوڑو درد ہو رہا ہے۔
“ اس نے خود کو چھڑانے کی سعی کی لیکن ناکام رہی۔
”درد… بتاتا ہوں ابھی تمہیں درد کیسا ہوتا ہے۔“ وہ اسے گھسیٹتا ہوا کوریڈور سے ملحقہ کمرے میں لے گیا اور اندر لے جا کر اسے کسی بے جان شے کی طرح اچھال دیا تھا وہ چیختی ہوئی دیوار سے ٹکرا کر کارپٹ پر گری تھی۔
”سالی… مجھ سے شادی کے خواب دیکھ رہی ہے ،میں شادی کروں گا تجھ جیسی گھٹیا لڑکی سے۔
“ وہ اس وقت حواسوں سے باہر سخت وحشی و جنونی انداز میں کارپٹ پر گری عادلہ کو جوتوں کی ٹھوکریں مارتے ہوئے نفرت بھرے لہجے میں کہہ رہا تھا۔
”آہ… آہ… شیری مت مارو مجھے… مت مارو۔“ عادلہ مچھلی کی مانند تڑپ رہی تھی ،چیخ رہی تھی لیکن اس کے جنون میں کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا وہ مارتا جا رہا تھا ،کہتا جا رہا تھا۔
”کمینی… کل میرے سامنے گر گئی تھی ،آج کسی اور کے ساتھ تو کل کسی کے سامنے پھر مجھے آ کر کہے گی میں تمہارے بچے کی ماں بننے والی ہوں۔
آخ تھو… تجھ جیسی لڑکی پر میں کبھی یقین نہ کروں ،نامعلوم کس کس کے ساتھ منہ کالا کرنے والی لڑکی ہے تو۔“ اس کے منہ سے کراہیں نکل رہی تھیں وہ نیم بے ہوش ہو گئی تھی۔
شیری کا پھولا ہوا سانس نارمل ہونے لگا تھا اس کی آگ کی مانند تپتی رنگت سفید ہونے لگی ،آنکھوں کی وحشت کم ہوتے ہوئے غائب ہو گئی تھی ،وہ واش روم میں گھس گیا، واش بیسن کا نل کھول کر چہرے پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارتا رہا پھر ٹاول سے ہاتھ منہ صاف کرکے کمرے میں آ گیا ،ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہو کر بالوں میں برش کرنے کے ساتھ ساتھ کارپٹ پر حرکت کرتے وجود کو بھی دیکھتا رہا تھا ،وہ سسکتی ،کراہتی اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کر رہی تھی۔
اس نے برش رکھا پرفیوم کی بوتل اٹھا کر اسپرے کیا پھر نارمل سے انداز میں مسکراتا ہوا اس کے قریب بیٹھ کر اٹھنے میں اس کی مدد کرنے لگا وہ خوف زدہ انداز میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔
”عادلہ ڈارلنگ! ڈرو نہیں ،آرام سے بیٹھو ،ریلیکس ریلیکس۔“
”تم نے مجھے اتنی بے رحمی سے کیوں مارا ہے؟“ وہ روتے ہوئے بولی۔
”شش… چپ روؤ نہیں۔
“ وہ ہونٹوں پر انگلی رکھ کر بولا۔ وہ بمشکل اٹھ کر بیٹھی تھی ایک دم سہم کر چپ ہو گئی۔
”شاباش گڈ گرل! اسی طرح میرا کہنا مانو گی تو میں تمہیں نہیں ماروں گا اور اگر تم نے میری بات نہیں مانی ،چالاکی دکھانے کی کوشش کی تو تمہارا وہ حال کروں گا جو تم سوچ بھی نہیں سکتی۔“ اس کا لہجہ و انداز پھر وحشی و جنونی ہو گیا وہ تڑپ کر بولی۔
”نہیں نہیں… میں تمہاری ہر بات مانوں گی ،تم جو کہو گے وہ کروں گی۔
”ویری نائس ،گڈ… ویری گڈ۔ اسی طرح تعاون کرو گی تو میں تمہیں بے حد پیار کروں گا ،بہت چاہوں گا تمہیں۔“ وہ محبت سے اس کے رخسار تھپتھپاتا ہوا گویا ہوا۔
”میں اب جاؤں گھر ،تم جب بلاؤ گے تو آ جاؤں گی۔“ وہ ڈرتے ڈرتے بولی اس کا یہ جلاد صفت روپ بالکل نیا تھا۔
”پہلے میری بات سنو ایک کام کرنا ہے تمہیں میرے لئے۔“ وہ جھکا آہستہ آہستہ کہہ رہا تھا۔
”کام… کیسا کام…؟“ وہ خوف سے اسے دیکھنے لگی۔
”پہلے میری بات سنو ،ابھی میں نے تمہیں بہت پیار سے مارا ہے ،دیکھو تمہارے چہرے کو چھوا تک نہیں ہے میں نے۔ تمہارے ہاتھ بھی میری ٹھوکروں سے محفوظ رہے ہیں اگر تم میری بات مانو گی تو میں تمہیں پیار کروں گا ورنہ… مانو گی ناں…؟“
”میں نے کہا ناں مانو گی ،بولو کیا کام ہے؟“
”وہ ایسا ہے کہ تمہیں پری کو میرے پاس لانا ہے ،آج رات کو… لاؤ گی ناں بولو… بولو… بولو…؟“
###
انہی دو گھروں کے قریب ہی‘ کہیں آگ لے کے ہوا بھی تھی
نہ کبھی تمہاری نظر گئی‘ نہ کبھی ہماری نظر گئی
نہ غموں کا میرے حساب لے‘ نہ غموں کا اپنے حساب دے
وہ عجیب رات تھی کیا کہیں‘ جو گزر گئی سو گزر گئی
”تڑاخ…“ اس کا ہاتھ پوری شدت سے عادلہ کے گال پر پڑا تھا۔
”میں کیا پوچھ رہا ہوں؟ سمجھ نہیں آ رہی ہے میری بات ڈیم اٹ۔“ اس نے کھڑے ہو کر ایک ٹھوکر اور ماری تھی۔ عادلہ میں چیخنے کی سکت بھی نہ رہی تھی وہ خوف زدہ نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی جو انسانی روپ میں کوئی وحشی درندہ لگ رہا تھا ،اذیت پسندی اس کی نگاہوں سے مترشخ تھی۔
”بولو ،مانو گی ناں میری بات؟“ وہ یک دم غرایا۔
”پری کو لاؤ گی نا؟ کسی بھی طرح ،کسی بھی بہانے سے۔
وہ تمہاری بات مانتی ہے ،تم پر اعتبار کرتی ہے صرف ایک بار لے آؤ اسے… صرف ایک بار پھر جو تم کہو گی میں کروں گا۔“
”لیکن… وہ…“ وہ کراہتی ہوئی اٹھ کر بیٹھی تھی۔
”کیا کہنا چاہتی ہو سویٹ گرل۔“ وہ پل میں تولہ پل میں ماشہ تھا۔ اس کے چہرے پر رضا مندی دیکھ کر اس کی زبان میں مٹھاس بھر گئی تھی۔
”طغرل بھائی کو معلوم ہو گیا تو… وہ زندہ نہیں چھوڑیں گے مجھے۔
“ عادلہ نے خود کو سنبھالتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا تھا۔
”تم پری کو لانے میں ناکام رہی تو میں زندہ نہیں چھوڑوں گا تمہیں۔“ وہ لفظ لفظ چبا کر کہہ رہا تھا۔
”وہ ڈیم فول تو تمہیں کچھ نہیں کہے گا مگر میں تمہارا کیا حال کروں گا یہ تم اچھی طرح سمجھ گئی ہو گی ،تم نے اگر کوئی چالاکی دکھانے یا مجھے ڈاج دینے کی کوشش کی تو یاد رکھنا۔ بچ نہیں پاؤ گی۔
“ اس نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے خوفناک لہجے میں کہا۔
”اگربھاگنے اور چھپنے کی حماقت کی تو پاتال سے بھی ڈھونڈ نکالوں گا تمہیں پھر جو ہوگا وہ تم جانتی ہی ہو‘ ہے ناں؟“
”ہاں… میں… میں… ایسا کچھ نہیں کروں گی ،قسم سے۔ میں آپ کو چیٹ نہیں کروں گی ،یہ میرا وعدہ ہے آپ سے۔“ خوف اور وحشت اس کی نگاہوں اور کانپتی آواز سے واضح تھا۔
”کم ان میں تمہیں ڈراپ کر دیتا ہوں۔“ اس نے ہاتھ پکڑ کر اس کو کھڑے ہونے میں مدد دی ،وہ پھولوں کی طرح رہتی آئی تھی ایسا بدترین تشدد کبھی خواب میں بھی اس نے نہیں سہا تھا پھر وہ اس وقت دہرے درد میں مبتلاہو چکی تھی۔ شیری نے اس کے جسم کو ہی نہیں روح کو بھی گھائل کر دیا تھا وہ جو اس کے ساتھ تعلق جڑنے پر دل سے تمام شکوے شکایت بھلا کر ایک نئی خوبصورت زندگی شروع کرنے کے خواب دیکھنے لگی تھی اس کی باتیں سن کر ایک جھٹکا لگا تھا۔
کتنا بڑا دھوکا دیا تھا اس نے کیسی اذیت ناک ،تذلیل کی تھی کہ اس کی ہستی متزلزل ہو کر رہ گئی تھی۔ پری تک پہنچنے کیلئے اس کو پل کے طور پر استعمال کرنا چاہتا تھا ،مچھلی کو کانٹے میں پھانسنے کیلئے اس کو ہی چارے کے طور پر استعمال کرنا چاہ رہا تھا۔
”یاد ہے ناں تمہیں آج… ہوں… آج رات اسی جگہ پر۔“ کار گیٹ سے کچھ فاصلے پر روکتے ہوئے وہ سخت لہجے میں اس کو بار بار کی جانے والی یاد دہانی پھر کروا رہا تھا وہ سر ہلا کر باہر نکل آئی تھی۔
###
گھپ اندھیرے میں یکدم چکا چوند روشنی پھیلی گئی تھی۔ کئی لمحوں تک اس کو کچھ دکھائی نہ دیا تھا اس نے پلکیں جھپکا جھپکا کر اپنی بصارت کو روشنی سے مانوس کرنے کی کوشش کی۔
”ہا… بی بی جی!“ ملازمہ نے لائٹ آن کرتے ہوئے حیرانگی سے صوفے پر بیٹھی ماہ رخ کو دیکھا پھر کہا۔
”آپ صبح سے ایسے ہی بیٹھی ہیں ،جیسے میں چھوڑ کر گئی تھی۔
سارا دن آپ نے ایسے بیٹھے بیٹھے گزار دیا ہے بی بی! صاحب آئیں گے اور انہیں معلوم ہو گیا تو وہ کتنا خفا ہوں گے۔“
”ایک گلاس پانی لے کر آؤ ناجیہ! بہت پیاس لگی ہے حلق خشک ہو کر رہ گیا ہے۔“ وہ اٹھی ہوئی گویا ہوئی تھی۔
ماضی کی کشتی میں یادوں کے چپو چلاتے چلاتے اس کے بازو شکل ہو گئے تھے۔ ٹانگوں میں چلنے کی طاقت ہی نہ رہی تھی پانی پی کر وہ ملازمہ کا سہارا لے کر بیڈ تک آئی تھی۔
”بی بی صاحبہ! آپ تو بہت تھکی ہوئی لگ رہی ہیں آپ کو دیکھ کر لگتا ہے کہیں بہت دور سے پیدل سفر کرکے آئی ہوں۔“
”ہاں ناجیہ! بالکل ٹھیک کہہ رہی ہو تم ،بہت ہی دور سے سفر کرکے آئی ہوں میں۔ بچپن پھر جوانی اور جوانی سے ادھیڑ عمری کا سفر۔ خواہش ،آرزوئیں اور لغزشوں ،لالچ و حرص کی سزاؤں کی مسافت کانٹوں سے اٹی ہوتی ہے۔ میں نے یہ راہ ابھی پوری طرح عبور نہیں کی یہاں ابھی میری سزا ختم نہیں ہوئی ہے ،میرے گناہوں کا کفارہ ابھی باقی ہے نامعلوم کب مجھے معافی ملے گی۔
”میں آپ کیلئے چائے بنا کر لاتی ہوں ،ایک تو آپ سوچتی بہت ہیں ،سر میں درد ہوتا ہے زیادہ سوچنے سے میں ابھی کڑک چائے بنا کر لائی۔“ وہ اسے خاموش دیکھ کر بولتی ہوئی چلی گئی۔
ماہ رخ نے اس کے جانے کے بعد تکیے پر سر رکھ کر آنکھیں بند کر لی تھیں۔ ایک طویل تھکا دینے والی اعصاب شکن مسافت جو ختم نہیں ہو رہی تھی ،وہ اور گلفام مل کر بھی نہ مل سکے تھے۔
گلفام اس کو اعوان کے فلیٹ سے گلشن لے آیا تھا جہاں اس نے خوبصورت سرسبز و شاداب بنگلہ خریدا ہوا تھا۔ وہ بنگلہ ایسا ہی تھا جس کا وہ خوابوں میں عکس دیکھا کرتی تھی،بعض عکس اس وقت ابھر کر سامنے آتے ہیں جب اس کی جستجو ختم ہو چکی ہوتی ہے کچھ خواہشات اس عمر میں پوری ہوتی ہیں جب انہیں پانے کی حسرتیں تمام ہو چکی ہوتی ہیں۔ اسے بھی سب حاصل ہوا تھا مگر بے رنگ پھولوں کی مانند ،گلفام اسے پاکر بے حد خوش تھا۔
اس کی دیوانگی ماہ رخ کی جدائی میں پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی تھی ،وہ سارا دن ہی اسے وقتاً فوقتاً اظہار محبت کرتا رہا ،بڑی پاکیزگی حجاب و محتاط روی تھی اس کے لہجے میں وہ آج بھی پہلے کی طرح ہی نگاہیں جھکا کر متانت و تہذیب سے گفتگو کرتا تھا البتہ پہلے کی نسبت اس میں بدلاؤ آ گیا تھا آج شال نے اس کے سر اور وجود کو ڈھانپا ہوا تھا۔ نفرت و حقارت اور ناپسندیدگی سے گھورتی ہوئی نگاہیں شرمندگی دکھ اور پشیمانی سے جھکی ہوئی تھیں۔
گلفام نے نکاح کیلئے رضا مندی معلوم کرکے ایک دن بعد سادگی سے شادی کرنے کا پروگرام بنا لیا تھا لیکن یہاں بھی اس کی بدقسمتی آڑے آئی تھی ،مسجد و مدرسے کی تعمیر کیلئے لی گئی زمین کا ایک اور دعویدار نکل آیا اور اس نے بات کو بیٹھ کر سلجھانے کے بجائے نشے کی حالت میں فائرنگ شروع کر دی تھی اور اپنی چلائی گئی گولی کا خود ہی شکار ہو کر مر گیا ،الزام گلفام پر آ گیا اور اس نے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر مخالف پارٹی بہت اثر و رسوخ والی تھی۔
اس نے اندھے قانون کو خرید لیا اور گلفام کو عمر قید کی سزا دے دی گئی تھی اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مسجد و مدرسے کی زمین پر قبضہ کرنے کے بعد وہ بنگلے پر بھی قابض ہو گئے تھے۔
ماہ رخ کو بھی انہوں نے اغواء کرنے کی کوشش کی تھی مگر جیل میں ملاقات کے دوران گلفام اس کو خبردار کر چکا تھا وہ اسی وجہ سے بچ گئی تھی پھر ان لوگوں کی وجہ سے اسے کئی گھر بدلنے پڑے تھے پھر اس علاقے میں وہ لوگ نہیں پہنچ سکے تھے۔ یہاں بھی گمراہ کن مردوں نے اس کی تنہائی سے فائدہ اٹھانے کی ہر ممکن کوشش کی جس کو وہ بڑی بہادری سے توڑتی آئی تھی پھر رجا کی صورت میں اسے اپنا آپ نظر آیا تھا اور یہاں اس پر مسلسل نظر رکھ کر وہ ایک ماہ رخ کو لٹنے سے محفوظ کرنے میں کامیاب ہوگئی۔

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط