Last Episode - Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

آخری قسط - بھیگی پلکوں پر - اقراء صغیر احمد

فیاض صاحب نے کال کرکے پری سے کہا تھا وہ جب تک چاہے وہاں رک جائے ،اماں کے اسلام آباد جانے میں ابھی وقت ہے وہ وہاں بے فکری سے ٹائم گزارے اور یہاں تو سب کے ساتھ ٹائم اچھا گزرا تھا۔ پہلی بار مثنیٰ کو بھی اس نے ہنستے ہوئے دیکھا تھا سب ہی خوش و مطمئن تھے سعود طغرل سے ملنے کا خواہش مند تھا کیونکہ وہ آفس سے لیٹ ہونے کی وجہ سے اسے باہر سے ہی ڈراپ کر گیا تھا۔
دوسرے دن وہ عادلہ کی وجہ سے بے حد پریشان تھا۔
وہ سونے کیلئے لیٹی تو اس کا ذہن اسی طرح الجھا ہوا تھا عادلہ کی وہ باتیں جو اس نے طغرل سے کہی تھیں سماعتوں میں گونجنے لگی تھی۔ اسے یقین تھا شیری اور عادلہ کے درمیان کوئی رنجش چل رہی ہے شروع شروع میں وہ بھی شیری کے کریکٹر سے مطمئن نہیں تھی وہ اس سے پیچھا چھڑانے کی سعی میں رہتی تھی لیکن پھر رفتہ رفتہ اس نے شیری کے رویے میں چینج محسوس کیا وہ عادلہ کو پسند کرنے لگا تھا اور اس رشتے سے وہ اس کی عزت کرتا تھا بے حد احترام سے پیش آیا تھا اس کی نظریں بدلی تھیں تو پری کے بھی احساسات اس کیلئے نرم ہو گئے تھے کہ وہ اس کا ہونے والا بہنوئی تھا۔

(جاری ہے)

بہت سوچنے کے بعد اس نے شیری کو کال کرنے کا فیصلہ کیا چند لمحوں بعد کال ریسیو کی گئی تھی اس نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔
”ہیلو شہر یار صاحب! میں پری بات کر رہی ہوں۔“
”جی! آپ نہیں بھی بتاتی تو میں پہچان جاتا۔“ شیری کی آواز میں پہلے سخت حیرانی پھر شوخی شامل ہو گئی تھی۔
”آپ پارٹی میں کیوں نہیں آئیں ،کتنا انتظار کیا تھا آپ کا۔
”میرے آنے نہ آنے سے فرق نہیں پڑتا شہریار! عادلہ تو آ گئی تھی اور اس کا آنا ہی وہاں امپورٹنٹ تھا۔ ایک بات کرنی ہے آپ سے۔“
”ایک بات کیا ،میں چاہتا ہوں آپ ساری زندگی مجھ سے بات کرتی رہیں۔“
”پلیز بی سیریس! مجھے یہ بتائیں آپ کے اور عادلہ کے درمیان کوئی جھگڑا ہے؟“
”بات تو کچھ ایسی ہے اگر آپ مجھ سے آ کر ملیں تو میں سچ سچ بتاؤں گا لیکن کسی کو بتائے بغیر تنہا میرے پاس آنا ہوگا۔
بات ایسی ہے کہ طغرل سے بھی شیئر نہیں کی جا سکتی۔“
وہ پہلے دن سے ہی پری کو پسند کرتا تھا اس سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے۔ عادلہ بھی پریشانیوں کا بوجھ اٹھائے نڈھال ہو گئی تھی۔ طغرل کے دوستانہ رویے نے اسے بھی دل کا بوجھ ہلکا کرنے کا موقع دیا تھا اور وہ اسے سب بتاتی چلی گئی۔
”صرف دعویٰ کرتا ہے وہ… محبت نہیں… محبت کرنے والوں کے دل بھی وسیع ہوتے ہیں اور محبوب کیلئے جذبات پاکیزہ ہوتے ہیں اگر اس کی نیت صاف ہوتی تو وہ کبھی پری کو پانے کیلئے تمہیں چارے کے طور پر استعمال نہیں کرتا۔
اس کی نیت میں کھوٹ ہے وہ بھٹکا ہوا شخص ہے اور ایسے مردوں سے کس طرح ڈیل کی جاتی ہے وہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے۔“ ساری رات وہ بے قراری کا شکار رہا تھا پری کی تصاویر اس کے سینے پر دھری تھیں اس کے ذہن میں آتش فشاں ابل رہا تھا۔
”طغرل بھائی پلیز آپ پاپا سے بات کیجئے وہ حقیقت جان کر مجھے جان سے مار دیں گے۔ مجھے اپنی زیادتیوں کی سزا منظور ہے مجھے مار کر وہ زندہ شیری کو بھی نہیں چھوڑیں گے اسی طرح سے آپ کی خوشیوں پر پڑنے والا وہ منحوس سایہ دور ہو سکتا ہے۔
“ عادلہ نے رندھی آواز میں کہا۔
”تم جاؤ یہاں سے اور اپنی زبان بند رکھنا اس معاملے میں تمہیں کچھ بولنے کی ضرورت نہیں ہے جو بھی کرنا ہے وہ خود کروں گا۔“
”نہیں ،میں آپ کو تنہا…!“
”جاؤ عادلہ اور اپنی زبان بند رکھو یہ میرا حکم ہے۔“ اس کے سرد لہجے میں ایسا کچھ تھا وہ خاموشی سے نکل گئی۔ اس کے جانے کے بعد وہ ہاتھوں سے سرتھام کر بیڈ پر گر سا گیا،سمجھ نہیں آ رہی تھی کس طرح سے اس معاملے کو ہینڈل کرکے کہ عادلہ کا وقار بھی مجروح نہ ہو اور شیری بخوشی اسے اپنا بنانے پر راضی بھی ہو جائے۔
جانے سے قبل اس نے طغرل کو انفارم کرنا بہتر سمجھا تھا لیکن اس کا سیل آف ملا تھا وہ ممی کو گھر جانے کا کہہ کر شیری کے ہاں چلی آئی تھی۔ وہ اسے گیٹ کے قریب ٹہلتا ہوا مل گیا تھا پری کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں چمک سی در آئی تھی وہ لپک کر اس کے قریب آیا تھا۔
”السلام علیکم! کیسے ہیں آپ شہریار صاحب۔“
”آئم فائن اینڈ یو؟“ اس کے چہرے پر دلکش مسکراہٹ تھی۔
”جی میں بھی ٹھیک ہوں ،آنٹی اپنے روم میں ہیں کیا؟“ اس نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پوچھا اور اس کے ساتھ چلنے لگی۔
”مجھے یقین نہ تھا آپ کے آنے کا۔“ وہ اس کی بات ان سنی کرکے مسرور لہجے میں گویا ہوا تھا۔
”عادلہ میری چھوٹی بہن ہے اس کی خوشیوں کی خاطر مجھے جہاں بھی جانا پڑتا میں جاتی۔ عادلہ کو اس عرصہ میں ،میں نے آنسو بہاتے دیکھا ہے میں اس کیلئے بہت فکر مند ہوں۔
”اتنی محبت کرتی ہیں آپ اپنوں سے۔“ وہ اسے باتوں میں لگائے ہوئے اپنے پورشن کی طرف جاتی سیڑھیوں تک لے آیا تھا۔ وہاں آ کر ہی وہ چونکی تھی اور رکتے ہوئے گویا ہوئی۔
”ارے یہ آپ مجھے کہاں لے کر جا رہے ہیں۔ گھر میں اتنی خاموشی کیوں ہے؟ آنٹی گھر پر نہیں ہیں کیا؟“
”ممی ڈیڈ کے ساتھ کسی رشتہ دار کی عیادت کو گئی ہیں رات تک آئیں گی۔
”آنٹی کی غیر موجودگی میں آپ کو مجھے نہیں بلانا چاہئے تھا۔“
”میں نے آپ سے کہا بھی تھا کہ تنہائی میں بات کرنا چاہتا ہوں۔“ وہ اس کے چہرے کو تک رہا تھا۔ گلابی کنول جیسا ترو تازہ حسن دوپٹے کو حصار کی مانند اوڑھے ہوئے اس سادہ سے حلیے میں بھی ہو خاص لگ رہی تھی۔ اس کے اندز میں عجب سا وقار تھا۔
”لیکن ایسی کیا بات ہے جو آپ آنٹی کے سامنے کرنا نہیں چاہتے اور میں ایسی کوئی بھی بات ان کی غیر موجودگی میں نہیں سنوں گی۔
جا رہی ہوں یہاں سے۔“ وہ غصے سے کہتی ہوئی پلٹی تھی تب ہی وہ آگے بڑھا اور اسے دونوں بازوؤں سے پکڑ کر غرایا۔
”شیر ہاتھ آیا شکار چھوڑ سکتا ہے۔ مگر شہریار گھر آئے شکار کو اپنی مرضی کے بغیر جانے نہیں دے گا ،چلو میرے ساتھ بہت نخرے دیکھے ہیں۔ میں نے تمہارے ،اب تمہیں وہ کرنا ہوگا جو میں چاہوں گا۔“ کہہ کر وہ اسے اوپر کی جانب گھسیٹنے لگا تھا۔
”لیومی شہریار،دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا؟ میں تم پر اعتماد کرکے یہاں تک آئی ہوں اور تم کیا سمجھ رہے ہو ،کیا چاہتے ہو تم؟“ اس سے بازو چھڑا کر وہ تیز لہجے میں کہہ رہی تھی۔ اس کے سامنے ڈری سہمی پری نہیں کھڑی تھی۔ اس کا یہ روپ بے حد پراعتماد بے خوف تھا وہ متعجب کھڑا رہ گیا۔
”ایک مرد ،ایک عورت سے کیا چاہتا ہے؟ وہی میں چاہتا ہوں تم سے۔
“ وہ بولتا ہوا اس کے قریب ہوا۔
”عورت تمہاری ماں بھی ہے اور عورت تمہاری بہن بھی ہے کیا تم ان سے بھی ایسی ہی چاہتیں رکھتے ہو شہریار؟“
”شٹ اپ۔“ وہ پوری شدت سے چیخا۔
”اپنی ماں بہن کے نام پر چیخ اٹھے نا تم کس طرح تمہاری غیرت نے جوش مارا کیوں تم درد سے بلبلا اٹھے۔؟“
”بکواس بند کرو اپنی ،مجھے کچھ نہیں سننا ہے؟“
”سنو کان کھول کر سنو جو تم آج کرنا چاہتے ہو ایسا ہی کل تمہاری بہنوں اور پھر بیٹیوں کے ساتھ ہو گا یہ دنیا اعمال کی کھیتی ہے یہاں جو بوئے گا وہی کل کاٹے گا۔
“ وہ حیرت سے کھڑا اسے پراعتماد لہجے میں بولتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔
”ابھی بھی وقت ہے تم ،اپنے ارادوں سے توبہ کرو ،معافی مانگ لو اللہ سے۔“
”تم کیا سمجھتی ہو میں تمہاری بے سرو پا باتوں میں آکرتمہارے حصول سے دستبردار ہو جاؤں گا ایسے ہی جانے دوں گا تمہیں؟“ اس نے بے ہنگم قہقہہ لگایا اور پھر عجیب بات ہوئی تھی قہقہہ اس کے حلق میں ہی گھٹ کر رہ گیا اس نے دیکھا سامنے پری نہیں شمع کھڑی ہے اس کا بڑھتا ہوا ہاتھ رک گیا بہت تیزی سے اس نے آنکھیں ملی تھیں اب شازیہ سامنے کھڑی تھی۔
پری نامعلوم کہاں چلی گئی تھی اس کے دماغ میں آندھی چلنے لگی۔
”میں اتنا گرا ہوا ہوں اپنی بہنوں کے ساتھ بھی۔“ پری اس کے ارادوں سے باخبر ہونے کے بعد اپنی ہمدردی پر پچھتا رہی تھی وہ سوچ رہی تھی جان دیدے گی مگر اسے کامیاب نہیں ہونے دے گی یہ فیصلہ کرکے وہ پلٹی ہی تھی جب اس نے شیری کو عجیب حالت میں گڑگڑاتے ہوئے پایا وہ ہاتھ جوڑے معافیاں مانگ رہا تھا۔
”شمع مجھے معاف کر دو شازیہ میرا یقین کرو۔“ اللہ نے دادی کی دعاؤں کی لاج رکھ لی تھی وہ جو گھر سے نکلتے وقت ہر نماز کے بعد ان کا حصار قائم کرتی تھیں آج اس حصار کے طفیل وہ شیری بدنیتی سے محفوظ رہی تھی۔
وہ وہیں اپنے رب کے حضور سجدہ میں گر گئی تھی۔ آنسوؤں کے درمیان اس نے کال کرکے طغرل کو سب بتایا تھا اسے معلوم تھا وہ کچھ دیر میں یہاں موجود ہوگا شیری دماغی دباؤ کے زیر اثر ہوش میں نہیں تھا۔
وہ سائیکو کیس تھا ہسپتال میں اسے فوری ایڈمٹ کر لیا گیا اور دو ہفتے گزر گئے تھے اس کا ٹریٹمنٹ چل رہا تھا ایک ہفتے تک وہ کسی کو بھی پہچان نہ سکا تھا۔ دوسرے ہفتے میں اس کی طبیعت قدرے بہتر ہوئی تو اس نے سب کو پہچاننا شروع کر دیا مگر اس کے ہونٹوں پر جامد چپ تھی وہ آنکھیں بند کئے پڑا رہتا تھا۔
ان کے درمیان جو ہوا تھا اس سے صرف طغرل اور عادلہ واقف تھے۔
ڈاکٹرز کی رپورٹس کے مطابق وہ کچھ نفسیاتی عوارض کا برسوں سے شکار تھا جس کا اظہار اس کے شدید غصے اور جنوبی پن سے بھی ہوتا تھا۔ مسز عابدی اور عابدی صاحب ابھی مل کر گئے تھے شیری کی خواہش پر وہاں طغرل عادلہ کو لے کر آیا تھا دانستہ طور پر عادلہ کو کوریڈور میں روک کر خود اندر آ گیا پری کے ساتھ ساتھ شیری نے آنکھیں بند کر لی تھیں۔ وہ کس طرح اس سے آنکھیں ملا سکتا تھا وہی تھی جو اسے ہوس و بے راہ روی کے کیچڑ سے نکال کر رشتوں کی پاکیزگی و انسانیت کا وقار سمجھا گئی تھی۔
وگرنہ اس سے قبل عورت اس کیلئے کھلوانے کا نام تھا۔ پری نے چند لمحے کھڑے ہو کر اسے دیکھا وہ اس اکڑی گردن و بہکی نگاہوں والا شیری نہیں تھا۔ چند دنوں میں ہی وہ بدل کر رہ گیا تھا۔ وہ چلی گئی تو طغرل نے اس کے قریب جھک کر سرگوشی میں کہا۔
”شہریار ،میں جانتا ہوں تم بیدار ہو پلیز آنکھیں کھولو پارس چلی گئی ہے۔ تم نے عادلہ کو لانے کا کہا تھا وہ باہر موجود ہے۔
”میری آنکھیں تاحیات اب پارس کے سامنے اٹھ نہیں سکیں گی۔“
”یار تم میرا ایک کام کر دو۔‘ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر ملتجی لہجے میں گویا ہوا اس کی آنکھیں نم ہو رہی تھیں۔
”اس سے کہنا مجھے معاف کر دے اور میں کچھ نہیں چاہتا۔“
”ڈونٹ وری پارس تمہیں معاف کر چکی ہے تم بھی سب بھول جاؤ ہم نے کسی کو کچھ نہیں بتایا تو تم ہر بوجھ سے آزاد ہو جاؤ تاکہ تم ڈسچارج کئے جا سکو اور پھر ہم ایک گرینڈ پارٹی کریں گے۔
“ وہ اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے وہاں سے نکل آیا تھا۔
عادلہ اندر گئی تو پہلی بار شیری نے محبت سے اس کا ہاتھ تھاما تھا۔
”عادلہ کیا مجھ جیسے پاگل کا ہاتھ تھامنا تم پسند کرو گی۔“
”ایسے مت کہیں مجھے آپ کا ساتھ ہر حال میں منظور ہے شیری۔“ اس نے روتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام کر کہا۔
”کاش وہ راستہ تم مجھے پہلے ہی دکھا دیتیں تو میں آج اس طرح تمہارے سامنے اس حالت میں ہرگز نہیں بیٹھا ہوتا عادلہ۔
”جو ہوتا ہے اچھے کیلئے ہوتا ہے۔“ اس نے مسکراتے ہوئے آنکھیں بند کر لی تھیں۔ اس کی ویران زندگی میں ایک دم سے ہی بہار آئی تھی ہر سو پھول ہی پھول کھل اٹھے تھے۔
###
گھر میں افراتفری کا عالم تھا دادی عائزہ کے ساتھ جا رہی تھیں۔
”پری تھوڑا ریسٹ کر لو جا کر فجر کے بعد تم لیٹی نہیں ہو اب جو پیکنگ رہ گئی ہے وہ میں کر لوں گی۔
“ صباحت نے اسے زبردستی وہاں سے بھیجا اور وہ لان میں چلی آئی جہاں موسم خوشگوار ہو رہا تھا۔ کئی دنوں کا حبس ختم ہوا تو آسمان سرمئی بادلوں سے ڈھک گیا تھا ہوا بند ہوئی تو ننھی ننھی بوندیں گرنے لگی تھیں۔
آج وہ بے حد خوشی سے گرتی ہر بوند کو محسوس کر رہی تھی۔ اس کی دشوار زندگی کی تمام الجھنیں گزرتا موسم اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ اس عرصہ میں اس نے محسوس کیا تھا طغرل بھی اس کی خوشیوں کا باعث بنا تھا اگروہ نہیں ہوتا تو وہ کبھی بھی مسرتوں کا مزہ نہ چکھ سکتی تھی۔
”تم میرے بارے میں ہی سوچ رہی تھی نا؟ دیکھو تم نے یاد کیا اور میں آ گیا دل سے دل کا کنکشن اسی کو کہتے ہیں۔“ وہ کمرے سے نکل کر سیدھا اس کے پاس چلا آیا تھا بلو جینز وائٹ ٹی شرٹ میں اس کا مضبوط جسم نمایاں تھا۔
اس نے کوئی بات نہ کی وہ یک ٹک اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ بھی اس کی پیشانی پر چمکتے چاند نما باریک سے نشان کو دیکھ رہا تھا جو اس کے بچپن کی لگائی گئی چوٹ کا نشان تھا جس کو اس سے چھپاتی آئی تھی اور آج اسے کچھ ہوش نہیں تھا۔
”پارس… کہاں گم ہو؟“ اس کی آواز ابھری۔
”سوچ رہی ہوں یہ سب خواب ہے یا جو گزر گیا وہ خواب تھا۔“ اس نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”چھو کر دیکھو مجھے خود ہی معلوم ہو جائے گا تمہیں۔“ اس نے مسکراتے ہوئے شرارتی لہجے میں کہا اور دوسرے لمحے وہ حیرت و مسرت کے احساس سے گنگ رہ گیا جب اس نے پری کے ہاتھ کو اپنے پر محسوس کیا تھا اس کا نرم و گداز مہکتا ہاتھ چہرے پر لمس چھوڑ گیا تھا۔
”تھینک گاڈ یہ خواب نہیں ہے۔“ اس کا لہجہ پراعتماد تھا۔
”اتنے حیران کیوں ہو رہے ہیں آپ؟ ایک عرصہ آپ کے ساتھ رہ رہی ہوں آپ کی یہ چھونے والی بیماری مجھے لگنی تھی سو لگ گئی۔“ اس کے بے تکلف انداز پر طغرل کا قہقہہ ماحول میں گونج اٹھا تھا۔
ختم شد

Chapters / Baab of Bheegi Palkon Par By Iqra Sagheer Ahmed

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

ذقسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

قسط نمبر 156

قسط نمبر 157

قسط نمبر 158

قسط نمبر 159

قسط نمبر 160

قسط نمبر 161

قسط نمبر 162

قسط نمبر 163

قسط نمبر 164

قسط نمبر 165

قسط نمبر 166

قسط نمبر 167

آخری قسط