توشی اپنی دادی کی گود میں سر رکھ کر لیٹی ہوئی تھی اور دادی اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہیں تھیں۔
”بیٹا وقت کیا ہوا ہے “دادی نے پوچھا۔
”گیارہ بجنے والے ہیں “توشی نے بند آنکھوں کے ساتھ غنودگی میں جواب دیا۔
”کیا تم آج اپنی دکان پر نہیں جاؤگی؟“دادی نے سوال کیا۔
”دادی آپ کو کتنی بار بتایا ہے دکان نہیں ہے بوتیک ہے بوتیک…بوتیک“
”اچھا …اچھا وہی جو تم کہہ رہی ہو بوتیک…“دادی نے جان چھڑائی۔
”آج میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے “دھیرے سے جواب دیا توشی نے۔
”پھر لڑائی ہوگئی تم دونوں بہنوں کی کتنی دفعہ لڑتی ہو دن میں“دادی توشی کے چہرے کی طرف دیکھ کر خود سے بولیں۔
”ایک دوسری پر جان بھی تو دیتی ہو، ابھی آجائے گی تمہیں منانے کے لیے “دروازے پر دستک ہوتی ہے۔
(جاری ہے)
”لو آگئی “دادی یکایک بول اٹھی ”اِسے کہیے گا میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے “
”توبہ توبہ میں جھوٹ نہیں بول سکتی “دادی نے فوراً کہا ۔
دروازے پر دوبارہ دستک ہوئی ۔
”آجاؤ بھئی آجاؤ “دادی نے آواز دی ”یہ تو اپنی غفوراں بی بی ہے “
”دودھ، بیگم صاحبہ“غفوراں نے کہا جو دودھ کا مگ ٹرے میں رکھے کھڑی تھی ۔
”بیٹھ جاؤ غفوراں “غفوراں قالین پر نیچے بیٹھنے لگی ”اوپر بیٹھو غفوراں کرسی پر نیچے مت بیٹھا کرو “
”وہ جی آپ کا ادب لحاظ کرتی ہوں اس لیے “غفوراں نے صفائی دی ۔
”غفوراں ادب لحاظ دل سے ہوتا ہے نیچے بیٹھنے سے نہیں “
”جی توشی بی بی تو سوگئی ہے “غفوراں نے بات بدلی۔ دروازے پر دوبارہ دستک ہوئی ”آجائیں جی آجائیں“ غفوراں نے بیگم صاحبہ کی طرف سے صدا لگادی ۔ نوشی پاؤں پٹختے ہوئے اندر داخل ہوئی اور چنگھاڑ کر بولی۔
”دادو یہ میرے ہاتھ سے قتل ہوجائے گی ۔ اب تک تیار نہیں ہوئی ۔ “
”قتل کروگی تو جیل جانا پڑے گا “توشی معصومیت سے بولی بند آنکھوں کے ساتھ۔
”بیٹا کیوں لڑتی رہتی ہو “دادی بول پڑیں بیچ بچاؤ کے لیے ۔
”دادو میری واقعی طبیعت خراب ہے میں نہیں جاسکتی آج “توشی نے دوٹوک فیصلہ سنادیا۔
”نوشی بیٹا تم جاؤ “دادی نے کہا اور کلائی پکڑ کر دایاں ہاتھ چوم لیانوشی کا۔
”دادو بہت ڈھیٹ اور کام چور ہے “نوشی نے شکایت لگائی اور مسکراتے ہوئے چلی گئی۔
”دروازہ بند کرکے جانا دادو کو سردی لگ جاتی ہے “توشی نے حکمیہ انداز میں کہا۔
غفوراں کرسی پر بیٹھی ساری باتیں سن رہی تھی۔ اچانک بول اٹھی جیسے کچھ یاد آگیا ہو۔
”بیگم صاحبہ مجھے اجازت دیں ورنہ وہ کام چور سجے کھبے ہوجائے گا “توشی نے بند آنکھوں سے آواز دی ۔ ”BG“
”جی پتہ ہے دروازہ بند کرنا ہے “باجی غفوراں نے جاتے ہوئے اپنی ذمہ داری کا ثبوت پیش کرنے کی کوشش کی۔
”چلو اب اٹھ جاؤ سب چلے گئے “دادی نے حکم دیا۔
”نہیں دادو مجھے نیند آرہی ہے “توشی نے بند آنکھوں سے ہی جواب دیا۔
”بیٹا مجھے بات کرنی ہے تم سے “توشی کے گالوں پر پیار کرتے ہوئے سنجیدگی سے کہا ۔ توشی اٹھ کر بیٹھ گئی اپنے بالوں کو کیچر سے کس کے باندھا اور اپنے گھٹنوں پر تکیہ رکھا۔
”جی دادو فرمائیے“دادی کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے بولی ۔
”بیٹا یہ کام وام چھوڑو اور شادی کرلو “دادی نے اس کے دائیں گال پر ہاتھ پھیر کر بولا۔
توشی یک لخت شوخی سے بولی۔
”اُو شادی …مگر وہ کم بخت…مانے تو…“
”بات ٹالنے کی کوشش مت کرو۔ تم دونوں کو کام کرنے کی کیا ضرورت ہے دو دو فیکٹریاں ہیں، تم دونوں کے پاس اپنا بہت کچھ ہے، اگر ماہانہ کرایہ بھی لو تو وہ لاکھوں میں ہے باپ تمہارے نے اپنی زندگی میں تم لوگوں کا حصہ تقسیم کردیا ہے “دادی نے اپنی بات تفصیل سے بیان کردی ۔
”وہ مانے تو “دادی نے جیسے سنا ہی نہیں۔
”شادی مگر کس سے کوئی لڑکا بھی تو ہو “ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے الفاظ بدل کر کہا توشی نے۔
”ویسے ایک لڑکا ہے اگر آپ بات کریں تو وہ مان جائے گا “
”وہ کون؟…“حیرت سے پوچھا دادی نے۔
توشی کھل کھلا کر ہنس پڑی اور اپنا سر تکیہ سے لگادیا جوکہ دادی کے بالکل سامنے تھا۔ دادی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا شگفتگی سے بولیں۔
”بیٹا وہ تمہاری بہن سے منسوب ہے وہ بھی بچپن سے تمہاری پھوپھو اور تمہارے باپ نے یہ رشتہ جوڑا تھا۔ اب یہ ممکن نہیں ہے “دادی نے سمجھانے کی کوشش کی ۔ توشی گردن اٹھا کر دادی کے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔ رنجیدگی سے بولی۔
”مگر نوشی اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی اور اُسے پسند بھی نہیں کرتی رہا میرا سوال تو میں اسے پسند بھی کرتی ہوں اور محبت بھی “
”دیکھو بیٹا شادی اس سے کرنی چاہیے جو آپ سے محبت کرتا ہو اور وہ نوشی سے محبت کرتا ہے اور وہ اس کی ماں کی پسند بھی ہے “
”پھوپھو نے مجھے کیوں نہیں پسند کیا “وہ معصومیت سے بولی”مگر دادو بلال کو تو مجھ سے شادی کرنی چاہیے کیونکہ میں اس سے محبت کرتی ہوں “
”نہیں بیٹا تم اس کو صرف پسند کرتی ہو۔
اس کی اچھائیوں کی وجہ سے اس کی خودداری کی وجہ سے اس کے اخلاق کی وجہ سے اور بس …“
”اور بس…دادو…اور بس…“وہ بھری آواز سے بولی جیسے اور بس اس کے گلے میں ہڈی بن کر پھنس گیا ہو۔ اس کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔ جیسے اور بس اس پر زبردستی مسلط کیا گیا ہو۔
”بیٹا مجھے غلط مت سمجھو مگر یہ حقیقت ہے تجربہ دنیا کی کسی درسگاہ سے نہیں ملتا یہ عمر گزار کر آتا ہے ۔یہ 82سال پرانی آنکھوں کا تجربہ ہے۔ میں نے ان دونوں کی آنکھوں میں محبت دیکھی ہے ایک دوسرے کے لیے بے پناہ محبت… “
دادی نے توشی کو بازو سے پکڑ کر اپنے سینے سے لگالیا وہ اپنی دادی کے گلے لگ کر بلک بلک کر روئی جیسے کوئی چھوٹا بچہ کھلونا نہ ملنے پر روتا ہے۔
###