دونوں بہنوں کا فگر قد کاٹھ کمال کا تھا۔ رنگت دودھ کی طرح سفید چلتی تو ایسے جیسے افریقہ کے جنگل میں دو ہرنیاں جارہی ہوں۔ زمین پر کم اور ہوا میں زیادہ سفر کرتیں۔ جنہیں جنگلی بھیڑیے دبوچنا تو چاہیں مگر دل کی آروزو پوری نہ ہوسکے۔
یہ افریقہ نہیں لاہور شہر کا ماڈرن جنگل ہے جہاں جگہ جگہ بھیڑیے اور چیتے گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ کب کہیں شکار نظر آئے اور وہ اُس کی عزت اُس کی آبرو کا خون پئیں ان جانوروں کو بھی معلوم ہے۔
حیا کا خون پینے کے بعد جنگل کی طرح ان پر بھی کوئی فرد جرم عائد نہیں ہوگی۔ یہ دو ہرنیاں اب تک محفوظ ہیں۔ اس لیے کہ ان کی رفتار بہت تیز ہے اور دوسری وجہ اس شہر میں چیتے کم ہیں۔
نوشی بھی توشی کی طرح Sameلباس پہنے ہوئے تھی۔ وہی لائٹ بلوجینز اوپر سفید کرتا، بال کھلے ہوئے دونوں بہنیں ہمیشہ ایک جیسا لباس پہنتیں، موبائل ایک جیسے، لیپ ٹاپ، ٹیب لیٹ، گاڑی وہ ایک ہی استعمال کرتیں، ایک بیڈ پر سوتیں کھانا ساتھ کھاتیں دونوں کی شکلیں بہت ملتی تھیں شاید جڑواں ہونے کی وجہ سے، حلیے میں صرف ایک فرق تھا نوشی کے لمبے بال مگر گولڈن کلر کے اس کے برعکس سیاہ کالے بال توشی کے تھے۔
(جاری ہے)
دونوں کی عادتوں میں بھی ایک ہی فرق تھا نوشی سخت طبیعت اور منہ پھٹ تھی جبکہ توشی نرم طبیعت اور دید لحاظ کرنے والی۔ اس فرق کی وجہ ان کے والدین تھے۔
نوشی اپنی ماں ناہید رندھاوا کے قریب تھی اور توشی اپنے باپ جمال رندھاوا کے قریب کی تھی۔
”لو تمہاری محبت آگئی …“توشی نے تیکھے انداز میں بتایا، ہولے سے۔
بلال گردن موڑے دیکھ رہا تھا اسی انداز میں بولا۔
”آجائیں…اندر آجائیں“اس کی آنکھوں میں چمک تھی۔ نوشی کے لیے وہ چمک جس کی تلاش میں توشی کے دو نین تھک کر ہلکان ہوگئے تھے۔
”آپ دونوں کو سردی نہیں لگتی“بلال نے نوشی کو دیکھ کرکہا، اب بلال کو کوئی بتائے ایک جوانی کی تپش اوپر سے دولت کی گرمی اس عمر میں سردی کم ہی لگتی ہے۔
”دادو پوچھ رہی تھیں آپ کے بارے میں سو میں پتہ کرنے آگئی ۔
“نوشی نے خود ہی صفائی پیش کردی،بلال کرسی سے کھڑا ہوچکا تھا اور نوشی اس سے کچھ فاصلے پر کھڑی تھی۔ بلال نے دیوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعتمادسے اپنی مخصوص انداز میں کہا۔
”آپ بیٹھیں…“نوشی دیوان پر اپنی ٹانگ کے اوپر ٹانگ رکھ کر بیٹھ گئی جیسے شہزادی دوسری سلطنت میں جاکر اپنے نازوانداز دکھاتی ہے۔ اور وہ اپنی موٹی موٹی براؤن آنکھوں سے کمرے کا جائزہ لے رہی تھی وہ کافی سالوں بعد بلال کے روم میں آئی تھی ۔
"Different "So nice" "fantastic"نوشی نے گردن ہلاتے ہوئے چہرہ ارد گرد گھماتے ہوئے انگلش کے تین الفاظ بولے، اس کا ایکسنٹ کمال کا تھا۔
”سارا دن آپ نظر نہیں آئے “نوشی نے آنکھوں کے براؤن ڈیلے گھما کر پوچھا نوشی پچھلے چند دنوں سے بلال کی طرف متوجہ ہوئی تھی اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ پچھلے دس سال سے ہر سنڈے نظر نہیں آتا۔
توشی جوکہ کافی شانت بیٹھی ہوئی مکئی کے دانے کی طرح کھل کھلا کر ہنس پڑی اور دل میں سوچا میری بہن نے جھک ماری ہے اور ایک نظر بلال کی طرف دیکھا کہ یہ جھلا اس سے محبت کرتا ہے۔
جسے اس کی دس سال پرانی روٹین ہی کا پتہ نہیں۔
محبت کرنے والے تو محبوب کی سانسوں کا بھی حساب رکھتے ہیں۔
###
تھوڑی دیر بعد وہ تینوں جہاں آرا کے کمرے میں تھے ۔
بلال نے زیتوں کے تیل والی شیشے کی بوتل پکڑی تو پتہ چلا کہ نوشی نے پہلے ہی دادی کے پیروں اور ٹانگوں کی مالش کردی ہے۔
کل کی طرح آج بھی وہ بلال کے آنے سے پہلے یہ سعادت حاصل کرچکی تھی۔
جہاں آرا بیگم آج بہت خوش تھیں کیونکہ نوشی پچھلے کچھ دنوں سے بلال میں کافی انٹرسٹ لے رہی تھی جوکہ توشی کو عجیب لگ رہا تھا۔ شاید بُرا بھی ساری خاموشی کو توشی کی آواز توڑتی ہے۔
”دادو…دادوجی…یہ محبت کا اظہار کیسے کرتے ہیں “توشی نے سیدھا سوال کیا بلال کی طرف دیکھ کر، سب ہکا بکا رہ گئے توشی کا سوال سن کر…دادی نے اختصار سے جواب دیا۔
”بیٹا…میں…میں کیا جواب دوں…میں تو صرف پرائمری پاس ان پڑھ ہوں تم سب پڑھے لکھے ہو…ہاں بلال ضرور بتاسکتا ہے “
دادی بے شک پرائمری پاس دیہاتی خاتون تھیں مگر زمانہ شناس اور جوہری کی آنکھ رکھتی تھیں انہیں معلوم تھا یہ سوال کیوں ہوا ہے اور جواب کس سے مانگا گیا ہے۔ ”بلال بیٹا بتاؤ محبت کا اظہار کیسے کرتے ہیں “
”محبت خود ہی اظہار ہے۔
خاموش محبت بھی مقرر کو مات دے دیتی ہے۔ محبت ماننے کا نام ہے…کسی کو ماننے…یا کسی کی ماننے …اور ماننے والا منزل پالیتا ہے۔ “
بلال نے کسی دانشور کی طرح جواب دیا، اطمینان اور سکون سے اب باری نوشی کی تھی وہ کھنکتی آواز میں بول اٹھی شرارتی لہجہ میں ۔
”محبت اور عشق میں کیا فرق ہے …“
”کیوں خیریت ہے؟“
بلال نے شرماتے ہوئے پوچھا نوشی کے چہرے پر جان لیوا مسکراہٹ تھی اور براؤن آنکھوں میں کالا کاجل غضب ڈھارہا تھا توشی جوں کی توں مجسمہ بنی دیکھ رہی تھی۔
”بلال بیٹا جواب دو…“جہاں آرا بیگم نے تفاخر سے ایک بوڑھی ملکہ کی طرح حکم صادر فرمایا۔
”محبت میں آسانی ہے اور عشق میں کاوش…
محبت مسلسل عمل کا نام ہے … آج کل عشق وقتی بخار ہے…محبت کم یا زیادہ نہیں ہوتی بس محبت ہوتی ہے… اس دور کا عشق کم یا زیادہ ہوتا رہتا ہے آج آپ کسی کے لیے جان دینے کو تیار ہوئے ہیں۔ دو سال بعد اس کی جان کے دشمن (ماں اپنے بچوں سے محبت کرتی ہے عشق نہیں کرتی ۔
ماں کی محبت 6سال کے چھوٹے بیٹے سے بھی اتنی ہوتی ہے جتنی 66سال کے بڈھے بیٹے سے نہ کم نہ زیادہ“)
”آپ نے کبھی محبت یا عشق کیا ہے …“نوشی نے جھپاک سے پوچھا، جیسے سندیسہ پڑھ کر سنایا ہو۔
توشی نے یہ سن کر دل میں سوچا زبان سے خاموش رہی۔
”میری بہن بھی جھلی ہے …اس نے پھر بونگی ماردی“
”ہاں محبت کی ہے …اصل عشق بڑے لوگوں کا کام ہے …جیسے انبیاء کرام، صحابہ کرام، اولیاء اللہ …میرے جیسے چھوٹے لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے وہ عشق کرنا۔
اصل عشق میں جان ہتھیلی پر رکھنی پڑتی ہے۔ “
بلال نے سیدھا اور صاف جواب دیا، نوشی اور توشی دونوں کی آنکھوں میں چمک تھی اور جہاں آرا کا چہرہ کہکہشاں کی طرح کھل چکا تھا۔
توشی نے ایویں موضوع تبدیل کردیا۔ ”تم نے کافی دنوں سے کوئی شعر نہیں سنایا ، کیوں دادو…“
بلال توشی کے چہرے پر لکھی ہوئی ساری تحریریں پڑھ چکا تھا اور شعر کی فرمائش بھی خوب سمجھتا تھا۔
پھر بھی اس نے گلزار صاحب کے چند اشعار سنادیے۔
ہاتھ چھوٹیں بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے
وقت کی شاخ سے لمحے نہیں توڑا کرتے
لگ کے ساحل سے جو بہتا ہے اسے بہنے دو
ایسے دریا کا کبھی رخ نہیں موڑا کرتے
شہد جینے کا ملا کرتا ہے تھوڑا تھوڑا
جانے والوں کے لیے دل نہیں تھوڑا کرتے
یہ صرف اشعار نہیں تھے۔ توشی کو پیغام تھا۔ زندگی کا سبق تھا۔
###