دونوں بہنیں اپنے کمرے میں ڈبل بیڈ پر لیٹی ہوئی تھیں۔ کمرے میں روشنی قدرے کم تھی۔
ان کے اوپر سپین کا بنا ہوا پنک کلر کا پھلواڑی دار ڈبل پلائی کمبل، ماں کے سینے کی طرح حرارت پہنچارہا تھا مگر ان دونوں کی آنکھوں میں ضدی بچوں کی طرح نیند کے آثار دور دور تک نہیں تھے۔
دونوں بہنوں کے چہرے کمرے کی رنگین سیلنگ کو دیکھ رہے تھے۔ نظریں تو سیلنگ پر تھیں مگر دماغ عربی گھوڑوں کی طرح سوچ کر زمینوں پر صحرا کی ریت اُڑارہے تھے۔
ان کی سوچ کے عربی گھوڑے منزل کی تلاش میں اِدھر سے اُدھر بھاگ رہے تھے۔اچانک… یکایک…یک لخت موبائل چیخ مارتا ہے …ایک اسٹوپڈ بھولا بھٹکا میسج موبائل کی نیند خراب کردیتا ہے۔ سوچ کے عربی گھوڑے عرب کے صحراؤں سے ایک لمحے میں ڈیفنس کے دو کنال کے گھر کے بیڈروم میں واپس…
”بلال کس سے محبت کرتا ہے “نوشی نے سوال کیا۔
(جاری ہے)
خود سے بغیر کسی کو دیکھے ہوئے ۔
”مجھ سے تو نہیں کرتا“توشی بول اٹھی فی الفور
”پھر کون ہے …وہ…“نوشی اُسی انداز میں پھر مخاطب ہوئی ۔
”ڈفر تم ہو…تم ہو…صرف تم ہو“توشی نے حتمی فیصلہ سنایا۔
اب وہ بیڈ پر بیٹھ چکی تھی اور اس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑا ہوا لیمپ onکردیا تھا۔
”میں…میں…میں کیسے…میں کیسے ہوسکتی ہوں“نوشی حیرت میں مبتلا تھی
”مگر وہ میرے ٹائپ کا نہیں ہے دو دن اُس سے ہنس کر بات کیا کرلی اس نے سوچا بھی کیسے …میرے بارے میں “
”بلال کی سوچ تم سے شروع ہوکر تم پر ہی ختم ہوجاتی ہے “
”اور نسیم جمال مت بھولو تم اُس کی منگیتر ہو بچپن سے “
توشی نے ترش لہجے میں دوٹوک یاد دہانی کروادی اپنی بہن کو۔
”مگر میں اس سے شادی نہیں کرسکتی ایک معمولی اسکول ٹیچر…میری کلاس اور ہے میں کوئی بیوروکریٹ ،کوئی بزنس مین دیکھوں گی بلال سے شادی No, Neverکبھی نہیں …“
”پاپا نے تمہارا رشتہ طے کیا تھا …اور تم پھوپھو کی پسند ہو …“توشی نے نہ بھولنے والی بات دوبارہ پہاڑے کی طرح یاد کرادی۔
”مگر مجھے ہی کیوں پسند کیا تھا …پھوپھو نے…تمہیں کیوں نہیں “نوشی نے غصے سے جواب دیا۔
دونوں بہنوں کی چپقلش شروع ہوچکی تھی توشی طنزیہ لہجے میں پھر بولی۔
”میں بھی یہی کہتی ہوں …پھوپھو نے مجھے کیوں پسند نہیں کیا …تمہیں کیوں“اس نے لمبی سانس لیتے ہوئے کہا۔
”کاش …کاش پھوپھو مجھے پسند کرتیں …کاش“
”Are you mad?“نوشی نے شانے اُچکاتے ہوئے کہا۔
”مجھے پاگل تم لگ رہی ہو “توشی نے افسردگی سے جواب دیا۔
”کس چیز کا تمہیں غرور ہے میری سمجھ سے باہر ہے “توشی دوبارہ بول اٹھی۔
”کہاں میں اور کہاں وہ، میری اور اس کی کلاس میں بہت فرق ہے۔“نوشی نے ابرو چڑھا کر جواب دیا۔
”کس کلاس کی تم بات کر رہی ہو، سارے ڈیفنس کی لڑکیاں مرتی ہیں، اُس پر، میں بھی ان میں شامل ہوں…وہ تم سے زیادہ خوبصورت، تم سے زیادہ پڑھا لکھا، اور تمہارے لیے حیرت کی بات ہوگی ہم سب سے زیادہ اس کا بینک بیلنس ہے …اگر یقین نہ آئے تو ماما سے پوچھ لینا …کلاس …کلاس کی بات کرتی ہو“
نوشی بت بنی توشی کا چہرہ دیکھ رہی تھی جوکہ غصے سے اُٹھ کر باہر ٹیرس پر جاچکی تھی۔
نوشی بت بنی وہیں بیٹھی ہوئی تھی۔ توشی کو باہر سرد ہواؤں کا سامنا تھا۔ نومبر کی سرد رات اپنے جوبن پر تھی۔
توشی کی نگاہیں اپنے ٹیرس سے سفر کرتیں بلال کے کمرے پر مرکوز تھیں …جس کی لائٹ آف تھی اور اس کے دل میں شکوہ تھا، اے کاتب تقدیر اسے میرے نصیب میں کیوں نہیں لکھا …
###
اگلے دن یعنی پیر والے دن بلال اپنے آفس میں داخل ہوتا ہے فوزیہ جیسے اُسی کے انتظار میں بیٹھی ہو۔
اُس دن سردی بہت زیادہ تھی آفس میں داخل ہوتے ہی فوزیہ سلام کرتی ہے بلال اسے دیکھے بغیر جواب دیتا ہے اور اپنی سیٹ پر بیٹھ جاتا ہے۔
فوزیہ بلال کے آفس میں کام کرنے والی غریب گھرانے کی لڑکی جس کا باپ اور چچا ایک بم بلاسٹ میں تقریباً 14سال پہلے جاں بحق ہوگئے تھے ۔اس کا چچا اس کا خالو بھی تھا دونوں بہنیں ایک ساتھ بیاہی تھیں اور ایک ساتھ بیوہ ہوئیں۔
فوزیہ اس وقت کوئی چھ سال کی ہوگئی اور لیاقت 7سال کا ہوگا۔ لیاقت علی اس کا منگیتر جو شارجہ میں کرکٹ سٹیڈیم روڈ پر G&Pکے پاس Micro Super Market میں قصائی کا کام کرتا ہے …
فوزیہ کا دادا جوہر ٹاؤن کے علاقے میں نواں پنڈ گاؤں کا رہنے والا تھا اب یہ گاؤں جوہر ٹاؤن کے Hبلاک کے ساتھ واقع ہے۔ ڈیفنس کی طرح جوہر ٹاؤن بھی مختلف گاؤں کے زرعی رقبوں پر قائم ہوا تھا۔
پھر وہی ستم ظریفی 3200ایکڑ زرعی رقبہ رہائشی منصوبہ میں تبدیل ہوگیا، جوہر ٹاؤن چھوٹے بڑے کئی دیہاتوں کے رقبے پر قائم ہوا جن میں چار بہت اہم ہیں بیٹر، سمسانی، شادی وال اور نواں پنڈ فوزیہ نواں پنڈ کی دوشیزہ تھی۔
ڈیفنس کی طرح جوہر ٹاؤن میں بھی آپ کو ماڈرن زندگی اور دیہاتی زندگی کے رنگ دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ شوکت خانم کینسر ہاسپٹل ۔
لاہور کا Expo Center جوہر ٹاؤن میں ہی واقع ہیں۔ جہاں کبھی میٹھے پانی کے کنوئیں ہوتے تھے اب ان کی جگہ سیوریج کے گٹروں نے لے لی ہے ،کچے راستوں کی جگہ پکی سڑکیں بن گئی ہیں۔ جس جگہ کئی ہیریں اپنے رانجھوں کے لیے سر پر لسی کی چاٹی رکھے ہوئے ہاتھ میں روٹی کی چنگیرپکڑے کچی پکی راہوں پگ ڈنڈیوں پر ناگن کی طرح بل کھاتی لہراتی ہوئیں اپنے رانجھوں کو شاہ و یلا پہنچاتی تھیں۔
وقت کے خزانوں میں وہ لمحے محفوظ ہیں مگر ہم دیکھ نہیں سکتے جگہ وہی مقام وہی مگر لوگ نئے اب بھی وہی کچھ ہے مگر انداز مختلف، طریقہ الگ، مٹیار کی جگہ اب ماڈل آگئی ہے کچی پگڈنڈی کی جگہ ریمپ، پہلے مٹیار کی ٹور پر گھبرو مرتے تھے اور اب ماڈل کی کیٹ واک پر جوان جان دیتے ہیں میسی روٹی کی جگہ پیزا نے لے لی ہے لسی کی جگہ سافٹ ڈرنک، دودھ کی جگہ شراب، محبت کی جگہ مطلب۔
سادگی کی جگہ فیشن۔ اسی علاقے میں بلال کا اسکول ہے ایکسپو سنٹر کے گیٹ نمبر 2سے نہر کی طرح جائیں تو جوہر ٹاؤن کے Hبلاک میں آپ کو بلال کا اسکول ملے گا پین روڈ پر ۔
”سرگرین ٹی منگواؤں آپ کے لیے “فوزیہ نے پوچھا۔
”نہیں …“
”سرچائے یا کافی …“
”نہیں چاہیے …کچھ نہیں چاہیے“نرم شگفتہ لہجے میں جواب دیا اور اپنے کام میں مصروف رہا، فوزیہ کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ فوزیہ بلال کے ٹیبل کے سامنے کھڑی ہوگئی۔
”سر آج سردی بہت ہے “فوزیہ معصوم بچے کی طرح بولی۔