”اتنی زیادہ بھی نہیں “بلال نے نظریں اُٹھا کر فوزیہ کی طرف دیکھا تو ہنس دیا۔ فوزیہ Pink کلر کا گرم سوٹ پہنے ہوئے کھڑی تھی۔ بالوں کو بغیر مانگ نکالے پیچھے کلپ لگایا ہوا تھا۔ ہمیشہ کی طرح ہلکا سا میک اپ کیا ہوا تھا۔
جس چیز کا اضافہ تھا وہ مرجنڈا کلر کی ایک خوبصورت جیکٹ پہنے ہوئے تھی فوزیہ ایک سادہ لڑکی تھی جسے کپڑے پہننے کا شوق تو تھا مگر ڈریسنگ کی سوجھ بوجھ زیادہ نہیں تھی ۔
جب دو سال پہلے وہ بلال کے آفس میں آئی تو گائے تھی۔ بلال نے اسے بہت کچھ سکھایا۔ اٹھنا، بیٹھنا، بات کرنا، کپڑے پہننے کا ڈھنگ۔ اب فوزیہ دو سال پہلے والی فوزیہ نہیں تھی۔ وہ پراعتماد، خوش شکل، خوش اخلاق، باحیا اور ذہین لڑکی تھی مگر اُس کا بچپنا باقی تھا جوکہ بلال کو پسند بھی تھا۔
(جاری ہے)
بلال اکثر اُس کی بے تکی باتیں سنتا رہتا مگر کچھ کہتا نہیں۔
آج بھی بلال اس کے بچپنے کی وجہ سے ہنس دیا دراصل اس نے نئی جیکٹ پہنی تھی اور وہ بلال کو دکھانا چاہتی تھی۔
”سر لیاقت علی نے شارجہ سے بھیجی ہے جس سپر مارکیٹ میں وہ کام کرتا ہے وہاں سے خرید کر “
”اچھا …“لمبا سا اچھا کہا بلال نے فوزیہ کو معلوم تھا بلال جب اس کی ٹانگ کھینچتا ہے تو لمبا سا اچھا کہتا۔
”سر قسم سے یہ لیاقت علی نے بھیجی ہے “فوزیہ معصومیت سے بولی۔
”اچھا جی …اچھا جی …نائمن …نائمن“بلال نے مسکرا کر جواب دیا۔
فوزیہ نائمن نائمن سمجھ نہیں پائی اور فٹ سے بول پڑی۔
”سر قسم سے …یہ لنڈے سے نہیں خریدی “فوزیہ نے فوراً اپنی صفائی دی قسم سے فوزیہ کا تکیہ کلام تھا۔
”سر کیا لنڈے کے کپڑے پہننا اتنا بڑا گناہ ہے“فوزیہ زخمی آواز کے ساتھ بولی۔
”فوزیہ جی حلال کی کمائی سے خریدے ہوئے لنڈے کے کپڑے بہتر ہیں، حرام کے پیسوں سے خریدے ہوئے لندن کے کپڑوں سے …
شارجہ میں جب کوئی بہت خوبصورت لگتا ہے تو اسے نائمن کہتے ہیں۔
“ فوزیہ کا چہرہ مکئی کے دانے کی طرح کھل گیا جو کہ ہلکی سی حرارت پر کھل جاتا ہے یہ حرارت تعریف کی تھی جس نے فوزیہ کا چہرہ کھلادیا تھا۔
”سر کیا آپ نے بھی کبھی لنڈے کے کپڑے پہنے ہیں؟ “
”جی …فوزیہ جی …جب میں کالج میں پڑھتا تھا تو لنڈے سے خریدے ہوئے کوٹ پہنتا تھا “بلال نے تفاخر سے جواب دیا۔ فوزیہ نے پھر سے پوچھا، جاسوسی کے اندا زمیں۔
”سر یہ والا کوٹ بھی لنڈے کا ہے “فوزیہ نے شہادت کی انگلی اور انگوٹھے کا (L)بناکر بلال نے جو کوٹ پہنا تھا اس کی طرف اشارہ کردیا۔
”نہیں …نہیں …فوزیہ جی …یہ تو میں نے مدینہ منورہ سے خریدا تھا “جب میں اور نانو حج پر گئے تھے ۔
جب بلال نے مدینہ منورہ کا نام لیا تو اس کی زبان عقیدت میں ڈوبی ہوئی تھی۔
”فوزیہ جی …کچھ کام بھی کرلیں …آپ مجھے 9th, 10thکی مڈٹرم رزلٹ کارڈ شیٹ دیں“
”جی سر ابھی لائی …سر پرنٹ نکال دوں …یا فائل دے دوں“
”فائنل دو …“
فوزیہ نے فائل بلال کے سامنے رکھتے ہوئے پھر لب کشائی کی ۔
”سر ہفتے والے دن آپ کو رامے اسٹیٹ پر دیکھا تھا ۔ “
”ہاں میں رینٹ دینے گیا تھا“بلال فائل دیکھتے ہوئے بولا۔
”سر مجھے سمجھ نہیں آتا کہ آپ کی طارق رامے جیسے بندے سے اور اعجاز ٹھیکیدار سے کیسے دوستی ہے “
”فوزیہ جی دوستی تو نہیں ہے ہاں اچھی ہائے ہیلو ضرور ہے …آپ ایسے کرو بیٹھ جاؤ آج ہم صرف باتیں کریں گے “بلال نے بات لگائی۔
”جی سر ٹھیک ہے “فوزیہ خوشی سے بیٹھ گئی ۔ بلال کا طنز اُسے سمجھ نہیں آیا۔
”سر اعجاز ٹھیکیدار تو کچھ ٹھیک ہے مگر طارق رامے ایک نمبر کا فراڈیا ہے“
”فوزیہ جی …آپ سے کیا فراڈ کیا اُس نے “فوزیہ سوچتے ہوئے بولی۔
”کچھ نہیں …سر ہمارا کرایہ دار تھا کئی سال پہلے دینہ جہلم کا رہنے والا ہے کرایہ بھی وقت پر دے دیتا تھا، سر ایک دفعہ امی کی رکشے سے ٹکر ہوگئی تو امی کو ہسپتال بھی لے کر گیا ۔
سر ڈاکٹر نے کہا خون چاہیے تو ایک بوتل خون بھی دیا اپنا…“
”فوزیہ جی …فراڈیے خون نکالتے ہیں خون دیتے نہیں“بلال نے جواب دیا۔
”فوزیہ جی دیکھو مکمل انسان تو کوئی بھی نہیں ہوتا کچھ خامیاں تو سب میں ہوتی ہیں “
”سر وہ تو میری سہیلی کی بڑی بہن لبنیٰ ہے وہ اسے فراڈیا کہتی ہے اس لیے میں بھی …کہہ لیتی ہوں “
”فوزیہ جی …جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے ہر سنی سنائی بات پر یقین کرلیں، اب ہم کچھ کام کرلیں تو اچھا ہے آپ 9th, 10thکی کلاس انچارج کو بلائیں …“بلا ل نے نہایت سنجیدگی سے فوزیہ کو دیکھ کر جواب دیا۔
فوزیہ سمجھ گئی بلال مزید گوسپز سننے کے موڈ میں نہیں ہے ۔
###
بلال اُس دن عصر کے بعد بابا جمعہ کے پاس گیا، تو محمد طفیل موجود تھا پہلے سے جوکہ ظہر کے بعد ہی سے بلال کا انتظار کر رہا تھا۔
بلال نے بابا جمعہ اور طفیل صاحب کو سلام کیا اور بیٹھ گیا۔ جسٹ اقراء ہائی اسکول کا انویلپ کھولا تو اس میں اشٹام پیپر پر ایک تحریر تھی جو کہ بابا جمعہ کی طرف بڑھادی ۔
بابا جمعہ نے بغیر پڑھے ہوئے محمد طفیل کی طرف کردی اور سنجیدگی سے بولے۔
”محمد طفیل اس کو پڑھ لو اور دستخط کردو اور انگوٹھا لگادو“
محمد طفیل نے پڑھنا شروع کیا تحریر کا مضمون انتہائی مختصر تھا۔
”میں بلال احمد بیس لاکھ روپیہ محمد طفیل کو قرض دے رہا ہوں بغیر کسی شرط اور فائدے کے جس کے گواہ ہیں
جمعہ خاں میواتی اور محمد اقبال میو۔
“
”محمد طفیل قرآن میں اللہ کا حکم ہے جب لین دین کرو تو لکھ لو اور گواہ بھی رکھو یہ میرا مشورہ تھا “بابا جمعہ محمد طفیل کی طرف دیکھ کر بولے محمد اقبال ایک کپ چائے لے کر آگیا تھا ،اقبال نے چائے کا کپ محمد طفیل کی طرف بڑھادیا۔ بلال نے پین اور تھم پیڈ محمد طفیل کے آگے رکھ دیا محمد طفیل نے بغیر کسی حیل و حجت کے دستخط کردیے اور انگوٹھا لگادیا اور چائے پینے میں مصروف ہوگیا ۔
اس کی نظروں میں عقیدت کی روشنی تھی جسے کسی مسیحا نے اُس کے زخموں پر مرہم رکھ دیا ہو ۔
بلال نظریں جھکائے بابا جمعہ کو دیکھ رہا تھا جوکہ گواہ کی جگہ پر سائن کر رہے تھے اور انگوٹھا لگا رہے تھے، اب دوسرے گواہ کی باری تھی، محمد اقبال میو کے نیچے اقبال نے اپنا نام لکھا اور اپنا انگوٹھا لگایا اور کاغذ بلال کے حوالے کردیا۔
بلال نے اپنے بلیک کوٹ کی اندرونی پاکٹ میں ہاتھ ڈالا اور بیس لاکھ کا چیک بابا جمعہ کے حوالے کردیا، بابا جمعہ نے چیک پر بیس لاکھ کی رقم کو غور سے دیکھا اور محمد طفیل کے ہاتھ میں تھمادیا۔
”دیکھو محمد طفیل اس بچے کی حق حلال کی کمائی ہے جس طرح لے رہے ہو اسی طرح خوشی سے واپس بھی کردینا“
”جی جی …جی بابا جی …ضرور انشاء اللہ “محمد طفیل بہت کچھ کہنا چاہتا تھا مگر الفاظ نہیں تھے، اس نے ایک بار پھر بلال کے رخسار کی زیارت کی جس پر ہلکا سا تبسم تھا۔ اس نے آنکھوں سے شکریہ ادا کیا۔ بلال نے آنکھوں کی پتلیاں بند کرکے اس کے شکریہ کا جواب دیا۔
محمد طفیل کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کیسے وہ بابا جمعہ اور بلال کا شکریہ ادا کرے وہ اٹھا اور بولا …
”میں مٹھائی لے کر آتا ہوں “
”نہیں محمد طفیل مٹھائی مت لاؤ“
”وہ کیوں جی “محمد طفیل نے پوچھا۔
”بلال تو کھاتا نہیں اور میں کتنی کھالوں گا، ہاں بچوں کے لیے ضرور لے جانا “
”نہیں نہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے “کہتے ہوئے چلا گیا۔
مغرب کی اذان کا وقت ہونے والا تھا جب محمد طفیل مٹھائی کا ڈبہ ہاتھ میں لیے کھڑا تھا ساتھ ہی Kبلاک کے کمرشل ایریا میں ایک مشہور مٹھائی کی دکان تھی اس نے دیکھا کہ بابا جمعہ ، محمد اقبال اور بلال دائرہ بنائے بیٹھے دعا کر رہے تھے۔ اُسی لمحے نورانی مسجد سے اللہ اکبر کا نعرہ بلند ہوا مغرب کی اذان ہورہی تھی ان تینوں نے ہاتھ منہ پر پھیرے اور کھجوروں سے روزہ افطار کیااور بابا جمعہ کی نظر محمد طفیل پر پڑی۔
”آؤ محمد طفیل روزہ کھولو …بابا جمعہ نے دعوت دی “
”جی وہ مگر …کچھ دیر سوچا، جی ضرور …جی ضرور“
ان سب نے آرام سکون سے روزہ کھولا نورانی مسجد میں جماعت ہوچکی تھی۔ بابا جمعہ نے دوبارہ جماعت کرائی اور ان تینوں نے بابا جمعہ کے پیچھے نماز ادا کی۔
###