Episode 19 - Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 19 - بلال صاحب - شکیل احمد چوہان

”یہ جو بلال صاحب آپ کے منگیتر ہیں…یہ بھی الگ سیمپل ہیں۔ جب یہ خود پڑھتے تھے تو سارا پاکستان گھوم چکے تھے اب یہ 4سال سے اسکول چلارہے ہیں تو سارا مڈل ایسٹ دیکھ لیا ہے اور سارک کے سارے ممالک بھی۔ کھانا کھانے کے شوقین ہیں اور بنانے کے بھی ،جمعہ والے دن پیاز گوشت پکاتے ہیں سب کو کھلاتے ہیں اور مغرب سے پہلے کسی کے لیے لے کر جاتے ہیں کہاں جاتے ہیں کسی کو پتہ نہیں…پچھلے تین سال سے رمضان میں عمرہ کے لیے جاتے ہیں، دس دن عمرے کے لیے اور باقی پندرہ دن دوسرے مڈل ایسٹ کے ممالک گھومتے ہیں۔
مصر، عمان، امارات، کویت، بحرین اور ترکی بھی جناب دیکھ چکے ہیں اور آپ سے یعنی میری بہن سے بہت محبت کرتے ہیں۔ تمہاری ہر پسند اور ناپسند کا پتہ ہے، بچپن سے …آج تک۔ بے شمار لڑکیاں مرتی ہیں بلال صاحب پر مگر وہ مسٹر تم پر فدا ہے “
”چلو چلیں“نوشی نے ہاتھ پکڑا توشی کا ”اس کے کمرے میں…“
”پاگل ہو ٹائم تو دیکھو“توشی نے ہاتھ چھڑایا اور وال کلاک کی طرف اشارہ کیا 
”بارہ ہی تو بجے ہیں “نوشی نے معصومیت سے جواب دیا۔

(جاری ہے)

 
”تمہارے ویسے بھی بارہ بج گئے ہیں“توشی اسٹائل سے بولی۔ 
”نوشی جی …وہ صاحب سردی ، گرمی دس بجے سوجاتے ہیں، آج تو ہماری وجہ سے جاگ رہے تھے…مسٹر بلال کو صبح تہجد کے لیے اٹھنا ہوتا ہے پھر گھنٹہ قرآن پاک پڑھتے ہیں اس کے بعد نماز سے فارغ ہوکر جاگنگ کے لیے پھر پودوں کو پانی پرندوں کو دانہ اس کے بعد گرم پانی سے نہاتا ہے پھر ناشتہ، جانے سے پہلے دادو کے پاس بیٹھ کر حال پوچھ کر اسکول جاتا ہے۔
”تم بڑی خبر رکھتی ہو اس کی “نوشی ابرو چڑھا کر بولی۔ 
”میرے پاس تو اس کی صرف خبر ہے اس کے پاس تمہارا سارا حساب کتاب موجود ہے کہتا ہے محبت کرنے والے محبوب کی سانسوں کا حساب بھی رکھتے ہیں…نوشی جی مجھے آرہی ہے نیند میں سونے لگی ہوں “توشی نے کمبل اوپر لیا اور بیڈھ پر ڈھیر ہوگئی ۔ 
آج توشی نیند کی آغوش میں تھی اور نوشی بے قرار اور اس کے کانوں میں توشی کے الفاظ گونج رہے تھے ”محبت کرنے والے محبوب کی سانسوں کا بھی حساب رکھتے ہیں … “توشی کی دوسری صدا گونجی ’اسے تمہاری ہر پسند اور ناپسند کا پتہ ہے،وہ تم پر فدا ہے…فدا…فدا…فدا ہے“
12بجے سے صبح 4بجے کا سفر توشی کے 4جملوں میں ختم ہوگیا، موبائل پر ٹائم دیکھا 4بجے ہوئے تھے، وہ ٹیرس پر گئی، بلال کے کمرے کی لائٹ Onتھی۔
بلال جائے نماز کو سمیٹ کر دیوان کے بازو پر رکھتا ہے سفید شلوار قمیض میں ملبوس اور گرم سیاہ چادر اوڑھے ہوئے اس نے قرآن پاک کے شیلف پر رکھے چودہ نسخوں میں سے ایک اٹھایا اور باآواز بلند تلاوت کرنے لگا ۔ تھوڑی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی ۔ 
”آجائیں خان صاحب دروازہ کھلا ہے “بلال نے بغیر دیکھے صدا لگادی اس کی نظریں قرآن پاک پر تھیں دوازہ کھلتا ہے کسی کے قریب آنے کی آواز بڑھ جاتی ہے وہ نظریں اٹھا کر دیکھتا ہے ، سامنے ٹراؤزر اور شرٹ میں ملبوس نوشی کھڑی تھی اس کی آوارہ لٹیں اس کے رخساروں کو چوم رہی تھیں اور اس کی آنکھیں سرخ تھیں مگر وہ زبان سے خاموش تھی، جو بت بنی بلال کے سامنے کھڑی تھی ۔
 
بلال نے اسے دیکھا تو سب سے پہلے قرآن پاک کو عقیدت اور احترام سے شلف پر رکھا اس کے بعد اپنی گرم چادر اتار کر نوشی کے اوپر ڈال دی مگر اس کے جسم کو چھوئے بغیر کالی گرم چادر میں لپٹی ہوئی نوشی ایسے لگ رہی تھی جیسے ہیرا کوئلے کی کان میں چمک رہا ہو۔ 
”آپ بیٹھ جاؤ “بلال نے دیوان کی طرف اشارہ کیا اور خود کچن میں چلا گیا تھوڑی دیر بعد سائیڈ ٹیبل پر کافی کے دو مگ او ر بسکٹ موجود تھے بلال نے گیس ہیٹر پہلے ہی لگادیا تھا۔
 
”کافی پیو“بلال نے مگ نوشی کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا ۔ کافی بالکل ویسی تھی جو نوشی کو پسند تھی چینی زیادہ دودھ زیادہ اور کافی کم مگر دوسرا مگ مختلف تھا دودھ کم اور بغیر چینی کے ۔ 
نوشی نے کافی کا سپ لیا، وہی ذائقہ جو اس کو پسند تھا …اس کے کانوں میں آواز آئی اسے تمہاری پسند اور ناپسند کا معلوم ہے، بلال نے بسکٹ اس کے آگے کیے نوشی نے بغیر دیکھے بسکٹ منہ میں ڈالا اس کی زبان نے ٹیسٹ اس کے دماغ کو میسج کیا یہ تو ہی ہے جو مجھے پسند ہے اس نے دائیں ہاتھ میں بسکٹ کے آدھے پیس کو دیکھا بالکل وہی تھا۔
 
نوشی نے اس دوران پہلی بار بلال کو آنکھیں اٹھا کر دیکھا بہت غور سے دور…آنکھوں میں اندر بہت اندر تک…
”تم آئے کیوں نہیں“اس نے نینوں کی زبان سے پوچھا۔ آج زندگی میں پہلی بار نوشی نے نینوں سے زبان کا کام لیا مگر بلال اس زبان میں ڈگری ہولڈر تھا۔ 
”تم نے بلایا ہی نہیں“بلال نے آنکھوں سے جواب دیا۔ 
”تمہیں کیسے پتہ مجھے یہ بسکٹ اور کافی پسند ہے “
”بس پتہ ہے …میرے پاس تو یہ بسکٹ ہمیشہ موجود ہوتے ہیں Expire Date ہونے سے پہلے پرانے والے کھالیتا ہوں اور نئے لے آتا ہوں “
”تمہیں اتنا یقین تھا میرے آنے کا “نوشی کے نینوں نے پوچھا۔
 
”ہاں بالکل “بلال کی آنکھوں نے جواب دیا۔ 
”اور کیا جانتے ہو میرے بارے میں “
”تم سے زیادہ …بہت زیادہ …سب سے زیادہ …“فجر کی اذان کی صدا گونجی دونوں طرف کے نینوں نے خاموشی اختیار کرلی۔ بلال کی کافی ٹیبل پر پڑی پڑی ٹھنڈی ہوچکی تھی۔ اور نوشی کا مگ اس کے ہاتھ میں ٹھنڈا ہوچکا تھا، اس نے ٹھنڈی کافی کا سپ لگایا اور بسکٹ کا آدھا پیس منہ میں ڈالا اور وہاں سے چلی گئی ۔ بلال کا معمول تھا کہ وہ سردیوں میں 4بجے صبح اٹھتا، وضو کرتا اس کے بعد جائے نماز پر تہجد کے لیے کھڑا ہوجاتا۔ تہجد کے بعد فجر کی نماز تک قرآن مجید پڑھتا فجر کی نماز کے بعد وہ جاگنگ کے لیے چلا جاتا ۔
###

Chapters / Baab of Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط