”یہ جو بلال صاحب آپ کے منگیتر ہیں…یہ بھی الگ سیمپل ہیں۔ جب یہ خود پڑھتے تھے تو سارا پاکستان گھوم چکے تھے اب یہ 4سال سے اسکول چلارہے ہیں تو سارا مڈل ایسٹ دیکھ لیا ہے اور سارک کے سارے ممالک بھی۔ کھانا کھانے کے شوقین ہیں اور بنانے کے بھی ،جمعہ والے دن پیاز گوشت پکاتے ہیں سب کو کھلاتے ہیں اور مغرب سے پہلے کسی کے لیے لے کر جاتے ہیں کہاں جاتے ہیں کسی کو پتہ نہیں…پچھلے تین سال سے رمضان میں عمرہ کے لیے جاتے ہیں، دس دن عمرے کے لیے اور باقی پندرہ دن دوسرے مڈل ایسٹ کے ممالک گھومتے ہیں۔
مصر، عمان، امارات، کویت، بحرین اور ترکی بھی جناب دیکھ چکے ہیں اور آپ سے یعنی میری بہن سے بہت محبت کرتے ہیں۔ تمہاری ہر پسند اور ناپسند کا پتہ ہے، بچپن سے …آج تک۔ بے شمار لڑکیاں مرتی ہیں بلال صاحب پر مگر وہ مسٹر تم پر فدا ہے “
”چلو چلیں“نوشی نے ہاتھ پکڑا توشی کا ”اس کے کمرے میں…“
”پاگل ہو ٹائم تو دیکھو“توشی نے ہاتھ چھڑایا اور وال کلاک کی طرف اشارہ کیا
”بارہ ہی تو بجے ہیں “نوشی نے معصومیت سے جواب دیا۔
(جاری ہے)
”تمہارے ویسے بھی بارہ بج گئے ہیں“توشی اسٹائل سے بولی۔
”نوشی جی …وہ صاحب سردی ، گرمی دس بجے سوجاتے ہیں، آج تو ہماری وجہ سے جاگ رہے تھے…مسٹر بلال کو صبح تہجد کے لیے اٹھنا ہوتا ہے پھر گھنٹہ قرآن پاک پڑھتے ہیں اس کے بعد نماز سے فارغ ہوکر جاگنگ کے لیے پھر پودوں کو پانی پرندوں کو دانہ اس کے بعد گرم پانی سے نہاتا ہے پھر ناشتہ، جانے سے پہلے دادو کے پاس بیٹھ کر حال پوچھ کر اسکول جاتا ہے۔
“
”تم بڑی خبر رکھتی ہو اس کی “نوشی ابرو چڑھا کر بولی۔
”میرے پاس تو اس کی صرف خبر ہے اس کے پاس تمہارا سارا حساب کتاب موجود ہے کہتا ہے محبت کرنے والے محبوب کی سانسوں کا حساب بھی رکھتے ہیں…نوشی جی مجھے آرہی ہے نیند میں سونے لگی ہوں “توشی نے کمبل اوپر لیا اور بیڈھ پر ڈھیر ہوگئی ۔
آج توشی نیند کی آغوش میں تھی اور نوشی بے قرار اور اس کے کانوں میں توشی کے الفاظ گونج رہے تھے ”محبت کرنے والے محبوب کی سانسوں کا بھی حساب رکھتے ہیں … “توشی کی دوسری صدا گونجی ’اسے تمہاری ہر پسند اور ناپسند کا پتہ ہے،وہ تم پر فدا ہے…فدا…فدا…فدا ہے“
12بجے سے صبح 4بجے کا سفر توشی کے 4جملوں میں ختم ہوگیا، موبائل پر ٹائم دیکھا 4بجے ہوئے تھے، وہ ٹیرس پر گئی، بلال کے کمرے کی لائٹ Onتھی۔
بلال جائے نماز کو سمیٹ کر دیوان کے بازو پر رکھتا ہے سفید شلوار قمیض میں ملبوس اور گرم سیاہ چادر اوڑھے ہوئے اس نے قرآن پاک کے شیلف پر رکھے چودہ نسخوں میں سے ایک اٹھایا اور باآواز بلند تلاوت کرنے لگا ۔ تھوڑی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی ۔
”آجائیں خان صاحب دروازہ کھلا ہے “بلال نے بغیر دیکھے صدا لگادی اس کی نظریں قرآن پاک پر تھیں دوازہ کھلتا ہے کسی کے قریب آنے کی آواز بڑھ جاتی ہے وہ نظریں اٹھا کر دیکھتا ہے ، سامنے ٹراؤزر اور شرٹ میں ملبوس نوشی کھڑی تھی اس کی آوارہ لٹیں اس کے رخساروں کو چوم رہی تھیں اور اس کی آنکھیں سرخ تھیں مگر وہ زبان سے خاموش تھی، جو بت بنی بلال کے سامنے کھڑی تھی ۔
بلال نے اسے دیکھا تو سب سے پہلے قرآن پاک کو عقیدت اور احترام سے شلف پر رکھا اس کے بعد اپنی گرم چادر اتار کر نوشی کے اوپر ڈال دی مگر اس کے جسم کو چھوئے بغیر کالی گرم چادر میں لپٹی ہوئی نوشی ایسے لگ رہی تھی جیسے ہیرا کوئلے کی کان میں چمک رہا ہو۔
”آپ بیٹھ جاؤ “بلال نے دیوان کی طرف اشارہ کیا اور خود کچن میں چلا گیا تھوڑی دیر بعد سائیڈ ٹیبل پر کافی کے دو مگ او ر بسکٹ موجود تھے بلال نے گیس ہیٹر پہلے ہی لگادیا تھا۔
”کافی پیو“بلال نے مگ نوشی کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا ۔ کافی بالکل ویسی تھی جو نوشی کو پسند تھی چینی زیادہ دودھ زیادہ اور کافی کم مگر دوسرا مگ مختلف تھا دودھ کم اور بغیر چینی کے ۔
نوشی نے کافی کا سپ لیا، وہی ذائقہ جو اس کو پسند تھا …اس کے کانوں میں آواز آئی اسے تمہاری پسند اور ناپسند کا معلوم ہے، بلال نے بسکٹ اس کے آگے کیے نوشی نے بغیر دیکھے بسکٹ منہ میں ڈالا اس کی زبان نے ٹیسٹ اس کے دماغ کو میسج کیا یہ تو ہی ہے جو مجھے پسند ہے اس نے دائیں ہاتھ میں بسکٹ کے آدھے پیس کو دیکھا بالکل وہی تھا۔
نوشی نے اس دوران پہلی بار بلال کو آنکھیں اٹھا کر دیکھا بہت غور سے دور…آنکھوں میں اندر بہت اندر تک…
”تم آئے کیوں نہیں“اس نے نینوں کی زبان سے پوچھا۔ آج زندگی میں پہلی بار نوشی نے نینوں سے زبان کا کام لیا مگر بلال اس زبان میں ڈگری ہولڈر تھا۔
”تم نے بلایا ہی نہیں“بلال نے آنکھوں سے جواب دیا۔
”تمہیں کیسے پتہ مجھے یہ بسکٹ اور کافی پسند ہے “
”بس پتہ ہے …میرے پاس تو یہ بسکٹ ہمیشہ موجود ہوتے ہیں Expire Date ہونے سے پہلے پرانے والے کھالیتا ہوں اور نئے لے آتا ہوں “
”تمہیں اتنا یقین تھا میرے آنے کا “نوشی کے نینوں نے پوچھا۔
”ہاں بالکل “بلال کی آنکھوں نے جواب دیا۔
”اور کیا جانتے ہو میرے بارے میں “
”تم سے زیادہ …بہت زیادہ …سب سے زیادہ …“فجر کی اذان کی صدا گونجی دونوں طرف کے نینوں نے خاموشی اختیار کرلی۔ بلال کی کافی ٹیبل پر پڑی پڑی ٹھنڈی ہوچکی تھی۔ اور نوشی کا مگ اس کے ہاتھ میں ٹھنڈا ہوچکا تھا، اس نے ٹھنڈی کافی کا سپ لگایا اور بسکٹ کا آدھا پیس منہ میں ڈالا اور وہاں سے چلی گئی ۔ بلال کا معمول تھا کہ وہ سردیوں میں 4بجے صبح اٹھتا، وضو کرتا اس کے بعد جائے نماز پر تہجد کے لیے کھڑا ہوجاتا۔ تہجد کے بعد فجر کی نماز تک قرآن مجید پڑھتا فجر کی نماز کے بعد وہ جاگنگ کے لیے چلا جاتا ۔
###