”کیا دیکھ رہی ہو“اس کی ماں ناہید پیچھے کھڑی پوچھ رہی تھی ۔ وہ یکدم ڈر جاتی ہے۔
”نہیں…کچھ نہیں…بس یونہی“
”میں سمجھ سکتی ہوں…مگر تمہارا باپ اور تمہاری دادی …وہ میری پیش نہیں جانے دیتے“ناہید دانت پیستے ہوئے بول رہی تھی۔
کوئی کہہ سکتا ہے …یہ فقرا ہے…دیکھو کیسی شاہانہ زندگی گزار رہا ہے۔ وہ بھی مفت میں…“
نوشی کو بس فقرا یا دتھا اپنی ماں کی باتوں سے ۔
”توشی بتارہی تھی کہ بہت جائیداد ہے اس کی پھر فقرا…کیسے ہوا…“
”تم اندر آؤ میں سب کچھ بتاتی ہوں “نوشی کمرے کے اندر آجاتی ہے اور اس کے پیچھے ناہید بھی…
”پہلے کچھ کھالو پھر بات کرتے ہیں “ناہید کا موڈ خراب ہوچکا تھا ، اور اسے اپنی چھوٹی بیٹی توشی پر غصہ آرہا تھا ، نوشی نے جوس کا گلاس منہ سے لگایا، ناہید دیکھ رہی تھی، (ایک تو یہ توشی،اسے بھی اپنے جیسی نہ بنادے باپ کی چمچی…) اس نے دل میں سوچا۔
(جاری ہے)
ناہید خدشات میں گھری ہوئی تھی ایسے …مگر…کیوں…ٹھیک ہے۔
”میں سوچ رہی تھی کہ تم میرے ساتھ والے روم میں شفٹ ہوجاؤ “
”وہ کیوں…“نوشی نے حیرانی سے سوال کیا۔
”اس لیے کہ اب تم دونوں جوان ہو، بچیاں تو نہیں ہو۔ سب کی اپنی اپنی پسند ہوتی ہے اور پرسنل لائف ہوتی ہے سب کی ۔ہاں وہ میں بتانا بھول گئی مسز لغاری ہیں نا ان کا بیٹا جنید لغاری پاکستان آیا ہوا ہے …تم اس سے مل لو…بہت اچھا لڑکا ہے۔
“
”وہ کیوں…اور کس لیے…“نوشی بول پڑی۔
”جان…اس لیے کہ اچھا لڑکا ہے …اگر تمہیں پسندآجائے تو …بات چلاؤں…شادی کے لیے مگر وہ…“نوشی نے الجھن سے جواب دیا۔
ناہید کی شاطر نگاہیں جانچ چکی تھیں کہ نوشی میں کچھ تبدیلی ہے، کیا ہے، کیوں ہے۔ (کہیں یہ…وہ…نہیں نہیں…کبھی نہیں…ہو ہی نہیں سکتا)اس نے دل میں سوچا۔ حالانکہ سوچ کا تعلق دماغ سے ہے مگر جب انسان حقیقت سے آنکھیں موڑ لے تو وہ دل سے سوچتا ہے دل نہ مانے تو …وہ اسے…شٹ آپ… کہہ دیتا ہے۔
”ماما وہ ڈیڈ کہاں ہیں “اس نے پوچھا۔
”وہ تو کہہ رہے تھے کہ نوشی سے بات ہوئی تھی “
”ہاں…وہ…میں بھول گئی تھی “نوشی نے کچھ یاد کیا “ہاں کل ڈیڈ کا فون آیا تھا ایئر پورٹ سے“ اسے یاد آگیا۔
”تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے “ناہید نے تفتیشی لہجے میں پوچھا۔
”ہاں میں ٹھیک ہوں…بالکل ٹھیک …“نوشی نے مصنوعی مسکراہٹ سے جواب دیا۔
ناہید کو تسلی نہیں ہوئی اس نے ہاتھ لگاکر اس کا ماتھا چیک کیا۔
”میں ڈاکٹر کو بلاتی ہوں “ناہید بولی۔
”نہیں ماما میں بالکل ٹھیک ہوں بس کچھ تھک گئی ہوں “
”اگر تم اس کی وجہ سے پریشان ہو تو میں ایسا بالکل نہیں ہونے دوں گی ۔ تم پریشان مت ہو“ناہید نے نوشی کے گالوں کو سہلاتے ہوئے کہا۔
”ہے تو یہ جمیلہ ہی کا بیٹا اس کی ماں نے تھوڑا تمہارے باپ کو پریشان کیا تھا، اگر اچھی ہوتی ، اس کی ماں تو کیوں نکالتے سسرال والے گھر سے “
توشی کمرے میں داخل ہوتی ہے، ناہید اسے دیکھ کر خاموش ہوجاتی ہے۔
”بڑا پیار ہورہا ہے …ماں بیٹی میں “توشی نے دیکھ کر کہا۔
”تمہیں تو توفیق نہیں کہ ماں کی خبر لے لوں“ناہید نے تیکھا جواب دیا۔
”کہاں سے اور کیسے خبر لوں …ماما“توشی نے ترش جواب دیا۔ ’
’ہفتہ ، ہفتہ آپ سے ملاقات نہیں ہوتی یہ تو ہم ایک دوسرے کے سہارے…خیر چھوڑیں“نوشی بچ بچاؤ کے لیے بیچ میں بول پڑی۔
”خاک سہارا ہے …تمہارا…تم نے صبح سے خبر لی میری زندہ ہوں یا مرگئی “
”تو میں کس کے لیے آئی ہوں، تمہارے لیے …دوپہر سے دس دفعہ فون ملایا مگر تمہارا نمبر offہے…میں نے ارم سے کہہ دیا بھئی میں جارہی ہوں تم دیکھ لینا بعد میں۔
“ توشی آگے بڑھی اور بیڈ کے اوپر ناہید اٹھ کر چلی گئی کھانے کی ٹرالی کو دیکھ کر بولی۔
”اوہو…عیاشی ہورہی ہے “گلاس میں جوس ڈالا غٹاغٹ پی گئی۔
”ویسے…بائی دا وے…یہ ڈنر ہے…لنچ ہے…یا پھر بریک فاسٹ…بریک فاسٹ…“نوشی مسکرا کر بولی ۔ توشی کے آنے سے جیسے اس میں جان آگئی ہو۔
”میں فریش ہوجاؤں…تم بھی ریڈی ہوجاؤ…چلتے ہیں“
”بتاتی ہوں سب بتاتی ہوں تم ریڈی ہوجاؤ“
توشی یہ کہہ کر واش روم میں چلی گئی نوشی نے وارڈ روب کھولی اور کپڑے دیکھنے لگی اور تیز رنگوں والا ایک سوٹ نکال کر پہن لیا اور اس کے اوپر ہلکا میک اپ بھی کرلیا۔
توشی کمرے میں واپس آئی تو نوشی موجود نہیں تھی اس نے اِدھر اُدھر دیکھا ٹیرس پر گئی تو نوشی بلال کے روم کی طرف دیکھ رہی تھی۔
عابد پروین کی آواز واضع سنی جارہی تھی۔
’کہیں وہ بادشاہ تخت نشین…کہیں کاسہ لیے گدا دیکھا۔ ‘
بلال کے کمرے کا ریلنگ والا شیشے کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور وہ دیوان پر ایک بادشاہ کی طرح تخت نشین اور دائیں ہاتھ میں ایک موٹی سی کتاب مولانا جلال الدین رومی کی مثنوی شریف لیے بیٹھے تھا۔ دور سے دیکھو تو ایسے محسوس ہورہا تھا جیسے کوئی بادشاہ تخت پر کاسہ لیے بیٹھا ہو اور اپنے اللہ سے مانگ رہا ہو۔
مثنوی اس کے دائیں ہاتھ میں ایسے محسوس ہورہی تھی جیسے فقیر کا قاصہ ہو اور اس کا بیٹھنا بائیں بازو کو دیوان کے ساتھ ٹیک لگائے ٹانگ کے اوپر ٹانگ ۔ دراز قد، گوری رنگت، سیاہ کالے گھنگھریالے بال۔
’کہیں وہ در لباس معشوقہ۔ برسرناز اور ادا دیکھا۔ ‘
وہ سفید لباس میں ملبوس اوپر کالی گرم چادر لیے ہوئے بیٹھا تھا، وہ سامنے لگی وال کلاک کو دیکھتا ہے اور اٹھ کر میوزک بند کرتا ہے اور واش روم میں چلا جاتا ہے۔
”چلو آؤ…عشا کی اذان کا وقت ہوگیا ہے…وہ وضو کرے گا…اور مسجد جائے گا…نماز پڑھنے کے لیے…“توشی پیچھے کھڑی بول رہی تھی ۔ نوشی دم بخود حیرت میں مبتلا تھی اور پھٹی پھٹی نگاہوں سے توشی کو دیکھ رہی تھی۔
”تم اندر آؤ مجھے تم سے بہت سی باتیں کرنی ہیں“توشی بولی۔ اور کمرے میں واپس آگئی اور نوشی اس کے پیچھے ہولی۔
”ادھر صوفہ پر آجاؤ“توشی بولی نوشی اور توشی صوفہ پر آمنے سامنے بیٹھ گئیں۔
”دیکھو…نوشی…بلال بہت اچھا لڑکا ہے …وہ تمہیں بہت خوش رکھے گا میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے …اس کو دیکھ رہی ہوں … جتنی محبت وہ تم سے کرتا ہے …اس سے بہت زیادہ میں اس سے کرتی ہوں…“وہ رکی، ٹھنڈی سانس لی اور دوبارہ بول پڑی۔ نوشی اسے دیکھ رہی تھی
”مگر…اس نے کبھی بھی مجھے اس نظر سے نہیں دیکھا…تمہیں یاد ہے …اتوار والے دن جب تم اس کے کمرے میں آئی تھیں، میں نے اس کی آنکھوں میں سب کچھ دیکھا، سوائے اس کے جس کی مجھے تلاش تھی“ توشی کی آنکھیں چمک رہی تھیں، نمکین پانی سے…وہ پھر بولی۔
”سچ کہوں تو …نمونہ ہے…نمونہ…کاش مجھے بھی ایسا نمونہ مل جائے“توشی نے نوشی کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیا۔
”میں تمہاری بہن ہوں اصل زندگی والی، ڈراموں والی بہن نہیں کہ اپنے ہی جیجا جی پر نظر رکھوں…شاید ایسا ہوتا بھی …مگر بلال کے ساتھ رہ کر تھوڑا بہت سیکھا ہے۔ محبت چھینی نہیں جاتی بلکہ دی جاتی ہے ۔ “
”تم نے مجھے…کچھ بتایا کیوں نہیں…“نوشی بچے کی طرح بولی۔
”بتایا…سب کچھ بتایا…مگر تم نے سنا ہی نہیں “
”بلال کہتا ہے …محبت اور قابلیت کو سفارش کی ضرورت نہیں ہوتی “
”ہے تو وہ نمونہ ہی…تبھی تو سردی میں دروازہ کھول کر بیٹھا ہوا تھا “نوشی مسکرا کر بولی جیسے کچھ دیکھ رہی ہو، خیالوں ہی خیالوں میں……