Episode 23 - Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 23 - بلال صاحب - شکیل احمد چوہان

”نہیں وہ نمونہ نہیں ہے اسے رات کی رانی کی خوشبو بہت پسند ہے…اس لیے ٹیرس کا دروازہ کھول دیتا ہے…اس کے ٹیرس پر دو بڑے بڑے گملوں میں رات کی رانی لگی ہوئی ہے …“
”تم جلدی سے تیار ہوجاؤ…“توشی نے حکم صادر کیا۔ 
”تیار تو ہوں…“نوشی نے کپڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا۔ 
”آج تم میری مرضی کا لباس پہنوگی“توشی نے پھر سے حکم صادر کیا۔
 
”یہ پہنوں …یہ والا…“وہ اٹھی وارڈ روب سے کپڑے نکال کر اس کے سامنے بیڈ پررکھ دیے مگر ہم کہاں جا رہے ہیں“نوشی تشویش سے پوچھ رہی تھی۔ 
”Waar Movieدیکھنے…ڈئں…ڈئں…ڈاڈاں…ڈاڈاں“توشی نے اپنے بیگ سے تین ٹکٹیں ہوا میں لہرادیں۔ 
”میں اور آپ اور وہ “توشی شرارتی انداز میں بولی۔ 
”وہ کون…“نوشی بھولی بچی بنی پوچھ رہی تھی ۔

(جاری ہے)

 
”وہ…وہ…وہ…“ہونٹوں کی سیٹی بناکر بولی۔ 
”رات کی رانی والا…راجہ بلکہ جیجا…جیجا…جیجا“
”سچ کہوں تو میں آج بہت خوش ہوں تمہارے اور بلال کے لیے …“وہ بیڈ پر سیدھی لیٹ گئی اور اپنے دونوں ہاتھ اپنی چھاتی پر رکھے اپنے دل کی دھڑکن سن رہی تھی…
”تم دونوں کی جوڑی بہت خوبصورت لگے گی…اللہ نظر بد سے بچائے…“نوشی اب تک صوفے پر بیٹھی ہوئی خوش ہورہی تھی اپنی خوشی سے زیادہ توشی کو دیکھ کر جو خوشی سے پھولی جارہی تھی۔
تھوڑی دیر بعد وہ بلال کے کمرے کے دروازے پر دستک دے رہی تھی، کوئی رسپانس نہیں ملا تو دروازے کو دھیرے سے کھولا اور ہولے سے اندر داخل ہوئی کمرے میں روشنی بہت کم تھی، صرف اوپن کچن کا ایک انرجی سیور روشن تھا، کمرہ رات کی رانی کی خوشبو سے مہک رہا تھا اور اس کی فضا میں بلال کی سانسوں کی مہک بھی تھی، اس نے کمرے کی لائٹ On کی کمرہ چمک رہا تھا ہر چیز اپنی جگہ پر نفاست سے رکھی ہوئی تھی۔
 
وہ سیاہ رنگ کا چوڑی دار پائجامہ اور سیاہ فراق جس کے گلے پر سرخ رنگ کا تھوڑا سا کام ہوا تھا ۔ پاؤں میں ملتانی کھسہ اور گلے میں لمبا سا ڈوپٹہ گلے سے پیچھے کی طرف لٹکا ہوا تھا، ڈوپٹے کے نیچے کھلی سی سیاہ جرسی جس کے سارے بٹن کھولے ہوئے تھے وہ کسی ماڈل کی طرح کیٹ واک کرتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی، اس کے بائیں ہاتھ میں اپنا Phone تھا۔
 
ڈوپٹے کا ایک پلو ماربل کے براؤن فرش سے دست و گریباں ہورہا تھا۔ وہ آئی اور اس نے اپنی براؤن آنکھوں سے سارے کمرے کا جائزہ لیا، کتابوں کا آشیانہ اس کی نظر وہاں ٹھہری، وہ پاس گئی۔”وہ کتاب کہاں ہے…“۔ دل میں سوال کیا اور دماغ سے پوچھا اسے یاد آیا موٹی تھی اور کلر کون سا…مل گئی…ہاتھ آگے بڑھے اور اس نے کتاب، کتابوں کے درمیان سے نکالی کچھ صفحے پڑھے، وہ مثنوی کا اردو ترجمہ تھا۔
 
اردو تو وہ پڑھ لیتی تھی مگر وہ تحریر اس کی عقل و دانش سے ماورا تھی، اس نے کتاب کو اسی جگہ رکھ دیا…وہ مڑی اور اس جگہ کو دیکھا جہاں وہ بیٹھا ہوا تھا …وہ چلی…اور اسی جگہ بیٹھ گئی…دیوان پر…اسی انداز میں…اس نے گردن موڑی اور اپنے ٹیرس کو دیکھنے لگے… مگر …سی گرین کلر کے پردوں نے اس کی نظر کا راستہ روکا…وہ اٹھی اور پردوں کو پیچھے ہٹایا…ریلنگ ڈور کھولا…اور واپس اسی انداز میں آکر بیٹھ گئی …پھر دوبارہ گردن گھمائی اور اپنے ٹیرس کی طرف دیکھا…وہاں اسے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔
 
دماغ نے اسے بتایا…نہیں نہیں…واپس دیکھو…پھر سے اس نے نظر دوڑائی …یہ وہاں کون ہے…اور اس طرف کیوں…بے قراری اور یکسوئی سے دیکھ رہی تھی بے قراری اس کے جسم میں تھی اور یکسوئی نظروں میں اس نے انگشت شہادت اس طرف کرتے ہوئے خود سے پوچھا …
”یہ کون ہے…“جانچتی نگاہوں سے وہ اٹھی اور بلال کے ٹیرس پر چلی گئی اور سامنے دیکھنے لگی …اس کے دونوں ہاتھ سلور کے گول راڈ پر تھے…جوکہ ٹیرس کی دیوار پر لگا ہوا تھا…اوپر کی طرف۔
 
”یہ…یہ…میں ہوں…یہ کیسے ہوسکتا …میں خواب دیکھ رہی ہوں…یا میں پاگل ہوچکی ہوں “ موبائل شور مچادیتا ہے …جوکہ دیوان پر پڑا ہوا تھا…وہ مڑتی ہے…اور موبائل کی طرف دیکھتی ہے ایک نظر واپس اپنے ٹیرس پر…اب وہاں کوئی نہیں تھا۔ 
اس کے قدم رک جاتے ہیں…اچانک اس کی نظر رات کی رانی کے دونوں گملوں پر پڑتی ہے …جو دائیں بائیں پڑے ہوئے تھے۔
رات کی رانی …کا راجہ…توشی کا جملہ اس کے کانوں میں گونجتا ہے۔ موبائل دوبارہ سے بول اٹھتا ہے…وہ کمرے میں آتی ہے اور موبائل سے کال ریسیو کرتی ہے۔ 
”Where Are you? “توشی بول رہی تھی دوسری طرف سے۔
”دادو کے کمرے میں آجاؤ میں یہاں ہوں اور بلال صاحب بھی آچکے ہیں “توشی نے تفصیل بتادی۔ اس نے کال رسیو کرنے کے بعد ۔ 
”میں پاگل ہو گئی ہوں “خود سے کہا اور موبائل اپنی پیشانی پر لگایا بایاں ہاتھ اپنی کمر پر رکھا اور ارد گرد نظر دوڑائی ٹیرس کا دوازہ بند کیا پردے اسی طرح سیٹ کیے لائٹ بند کی اور کمرے سے نکل گئی ۔
 
چند منٹ بعد وہ دادی کے کمرے میں تھی۔ توشی موبائل کے ساتھ مصروف تھی اور بلال مصروف تھا۔ گپ شپ میں نانی کے ساتھ۔ جب وہ کمرے میں داخل ہوتی ہے تو نظریں ٹکراتی ہیں، چند لمحوں کے لیے …نوشی نے اپنے گولڈن بال گالوں سے اٹھاکر کان کے پیچھے کیے اور آکر توشی کے پہلو میں بیٹھ گئی اسی انداز میں، ایک جیسا لباس، دونوں بہنوں کااگر بالوں کا فرق نہ ہو تو پہچان کرنا مشکل تھا، دونوں بہنوں میں…
”ماشاء اللہ …ماشاء اللہ …اللہ نظر بد سے بچائے “جہاں آرا بیگم، آنکھوں میں چمک اور الفاظ میں مٹھاس لیے بول پڑی تھیں۔
 
”کہیں جارہی ہو …تم دونوں “دادی نے پوچھا۔ 
”ہاں پروگرام تو ہے…اگر بلال صاحب مان جائیں …“توشی ٹھہر ٹھہر کر بول رہی تھی۔ شرارتی آنکھوں کے ساتھ ۔ بلال اس کی طرف متوجہ ہوگیا اس نے اپنے بیگ سے ٹکٹیں نکالیں اور بلال کو آنکھوں سے اشارہ کیا، میں آپ اور یہ اپنے پہلو کی طرف اشارہ کیا۔ 
”بلال چلوگے ناں“توشی اپنی زباں کو تالو سے لگاکر بولی۔
بلال خاموشی سے اس کو دیکھ رہا تھا اور نوشی بلال کو دیکھ رہی تھی۔ دادی ان سب کو دیکھ رہی تھیں۔ 
”چلے جاؤ بیٹا“نانی نے مشورہ دیا۔ 
”وہ…میں…“بلال کے پاس الفاظ ختم ہوگئے تھے۔ 
”چلیے نا …“نوشی نے اپنی گردن جھکا کر کہا 
چلیے نا …چلیے نا …حکم تھا …عرضی تھی…یا فرمائش…بلال کو سمجھ نہیں آیا…مگر جو بھی تھا جانے کے لیے کافی تھا۔
 
آدھا گھنٹہ بعد وہ تینوں پورچ میں تھے، بلال نے اپنا پسندیدہ ڈریس پہنا وائٹ شرٹ لائٹ اسکائی بلوجینز اور اوپر بلیک کوٹ بالوں میں انڈونیشیا کی بنی ہوئی Jony Andrean کریم لگائی جو کہ اسے بہت پسند تھی۔ اور اپنا پسندیدہ عطر عود بھی لگایا تھا۔ 
وہ بہت ڈیسنٹ لگ رہا تھا۔ 
”جانا کہاں ہے “بلال نے پوچھا۔ 
”یہ لالک Round Aboutکے آگے جو سینما ہے وہاں“توشی نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا ”یہ پاس ہی تو ہے دس منٹ کی واک ہے “نوشی کی طرف دیکھ کر بولی ۔
 
”As you like“نوشی نے جواب دیا۔ 
”کتنے بجے کا شوہے “بلال نے پوچھا۔ 
”ساڑھے دس بجے والا۔“توشی نے بتایا۔ 
”واپسی تک ڈیڑھ دو بج جائیں گے…سردی بھی ہے…اور حالات تو…“بلال نے اپنا نقطہ نظر بیاں کیا۔ 
”تو پھر گاڑی پر چلتے ہیں “توشی نے فیصلہ سنادیا”مگر Key تو DJ کے پاس ہے میں لے کر آتی ہوں نہیں فون کردیتی ہوں وہ آجاتا ہے“

Chapters / Baab of Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط