بلال فجر کی نماز سے فارغ ہوکرنانو کے کمرے میں تھا، آج جمعے کا دن تھا اور اس نے روزہ رکھا تھا اس لیے وہ جاگنگ کے لیے نہیں گیا ۔
”رات وہ دیر تک میرے پاس روتی رہی…تمہارے پاس آئے گی…بیٹا معاف کردینا۔ “نانو بلال کے گال پر ہاتھ رکھ کے محبت سے اسے سمجھا رہی تھیں بلال کا چہرہ روشن چمکدار اور نکھرا ہوا تھا، بالکل بارش کے بعد کی دھوپ جیسا، تبسم پھولوں کی کلیوں کی طرح اس کے ہونٹوں پر تھا۔
”وہ تو میں معاف کردوں گا…میں ڈھیٹ ہوچکا ہوں، ایسی باتیں سن سن کر اس وقت مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے “
”ہاں بیٹا بولو…“دادی کو خدشہ تھا یہ وہی بات کرے گا پھر بھی انہوں نے حوصلے سے کہا۔
”آپ مجھے اس قید سے رہائی دے دیں۔ میں آزاد ہونا چاہتا ہوں…“
بلال کچھ دیر خاموش رہا…وہ بہت کچھ کہنا چاہتا تھا …مگر ارادہ بدل دیا۔
(جاری ہے)
”میرے جیتے جی تو یہاں رہو…میں مر کھپ جاؤں تو چلے جانا…“
نانی اپنی محبت کا رونا رو رہی تھیں، بلال اپنی عزت اور خودداری کا سوالی بن کر بیٹھا ہوا تھا، نانی کے قدموں میں سرجھکائے ہوئے۔
”نانو…میں نے آپ سے زندگی میں کچھ نہیں مانگا…آج مانگ رہا ہوں …ان رشتوں کی قید سے رہائی …نانو میں تو بے گناہ ہوں…پھر بھی قید کیوں…کیوں…آپ مجھے جانے نہیں دیتیں…“بلال کرب سے بول رہا تھا۔
”اس لیے کہ صبح و شام تمہیں دیکھ لیتی ہوں…ایک بار تم چلے گئے تو واپس تھوڑی آؤگے…آلنے سے گرے ہوئے بوٹ واپس آلنے میں نہیں آتے۔ ہاں میرے مرنے پر ضرور آؤگے مگر قبرستان، گھر پھر بھی نہیں آؤگے“
نانی کھوئی کھوئی آنکھوں سے ایسے بول رہی تھی جیسے مستقبل کو آنکھوں سے دیکھ رہی ہو اور بلال کی آنکھیں ایسے جیسے پتھر کی ہوں، نمکین پانی سفید نمک کی طرح چمک رہا تھا، آنکھوں میں مگر کیا مجال کے زمین پر گرجائیں یہ نمکین پانی کے قطرے۔
”تو آپ میرے ساتھ چلیں“بلال نے درخواست کی ۔
”بیٹا…پیٹ پہلے آتا ہے …اور گھٹنے بعد میں…ایک ماں اچھی منصف کبھی نہیں بن سکتی…تو میری بیٹی کا بیٹا ہے …اور وہ میرا بیٹا ہے …کیسے انصاف ہوسکتا ہے …ہاں…اگر تیری جگہ تیری ماں ہوتی…تو پھر…دھڑا …برابر کا تھا …“
###
بلال گاڑی لے کر نکلنے ہی والا تھا عین اس وقت توشی آگئی اچانک جیسے ڈاکو لوٹنے کے لیے پتہ نہیں اچانک کہاں سے نکل آتے ہیں، بالکل اسی طرح اور دروازہ کھول کو سائیڈ والی سیٹ پر بیٹھ گئی۔
”آپ کے سونے کا وقت تھا اور آپ یہاں توشی جی “بلال نے مسکراتے ہوئے بولا۔ ”پاپا بالکل ٹھیک کہتے ہیں کہ تم سے زیادہ Selfless بندہ آج کل ملنا مشکل ہے، رات میں نے تمہارے ساتھ زیادتی کی الٹی سیدھی بکواس کی اور تم مسکرا رہے ہو تمہیں تو مجھ پر غصہ آنا چاہیے تھا مگر تم تو …“توشی سنجیدگی سے بات کر رہی تھی۔
”پہلی بات تو یہ کہ میں Selflessنہیں Selfish ہوں، اس مسکراہٹ میں بھی کوئی غرض ہے اور جہاں تک غصے کی بات ہے تو میں ڈھیٹ ہوچکا ہوں جیسے واٹر پروف ہوتا ہے ویسے ہی بے عزتی پروف ہوں۔
آپ پلیز اتریں مجھے دیر ہورہی ہے …“
اسی لمحے بلال کے موبائل پر ایک کال آتی ہے وہ ریسیو کرتا ہے اب فکر مندی اس کے چہرے پر واضع تھی۔
”آپ پلیز اترو ایک ایمرجنسی ہے مجھے وہاں جلدی پہنچنا ہے میں نے آپکو معاف کیا بابا جاؤ“بلال نے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ساری بات کی ۔
”کیا ہوا کچھ بتاؤ تو سہی“توشی پوچھ رہی تھی۔
”فوزیہ ایمرجنسی میں ہے اس کی خالہ کا فون آیا تھا “بلال نے جواب دیا۔
”کیا مطلب ایمرجنسی میں ہے “توشی نے تفصیل مانگی۔
”جناح ہسپتال کی ایمرجنسی میں، اللہ خیر کرے، آپ پلیز نیچے اترو، مجھے ہاسپٹل جانا ہے“
”میں بھی تمہارے ساتھ چلتی ہوں “توشی نے جواب دیا۔
بلال اس کی ضد سے واقف تھا اس لیے خاموشی سے گاڑی ڈرائیو کرنے لگا تھوڑی دیر بعد وہ دونوں جناح ہاسپٹل کی ایمرجنسی میں تھے۔
ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوتے ہی فوزیہ کی ماں نے بلال کو دیکھ لیا دور ہی سے اٹھ کر اپنی جگہ سے ہاتھ کا اشارہ کردیا۔
”فوزیہ تیرا سر آگیا ہے “ہولے سے فوزیہ کو باخبر کردیا اس کی ماں نے
فوزیہ جو کہ ہوش میں تھی اس نے آنکھیں بند کرلیں جیسے بے ہوش ہو ڈرپ اسے لگی ہوئی تھی اس کی ماں اور اس کی خالہ یعنی ہونے والی ساس پاس بیٹھی ہوئی تھیں اتنے میں بلال ان کے پاس آگیا، توشی اس کے ساتھ تھی بلال نے سلام کیا اور فوزیہ کے پاس بیڈ کے بائیں طرف دیوار کے ساتھ کھڑا ہوگیا یہ اس ہال کا آخری بیڈ تھا، دیوار کے ساتھ …
بلال نے فوزیہ کی ماں اور خالہ کے چہروں کو پڑھا تو دونوں کے چہرے مطمئن تھے ”شکر ہے یااللہ “بلال نے دل میں کہا، اب اس نے فوزیہ کی طرف نظر کی اس کا چہرہ بغیر میک اپ کے قدرے بجھا ہوا لگ رہا تھا، مرجھائی ہوئی گلاب کی کلی کی طرح، کلی تو وہ تھی۔
بلال نے لب کشائی کی۔
”خالہ جان کیا ہوا ہے …فوزیہ جی کو …“بلال نے اس کی ماں سے پوچھا۔
”بیٹا ہونا کیا ہے …بس مقدر ماڑے…نیند کی گولیاں کھالیں تھیں وہ بھی …پورے کا پورا پتا…“
”مگر کیوں…کس لیے…کل تو بہت خوش تھی اور بتارہی تھی کہ جنوری میں شادی ہے …“بلال نے حیرت سے پوچھا۔
”وہی تو …خصم نون کھانے…لیاقت علی نے …ادھر شارجہ میں کسی …پھینی سے ویاہ کرلیا ہے“خالہ نصرت بتارہی تھی ”اگر میری بچی کو کچھ ہوجاتا تو میں نے لیاقت علی نہیں بخشنا تھا، خالہ نصرت دانت پیستے ہوئے بولی”وہ تو میں نے رات اس کے کمرے میں چاتی ماری تو کمپیوٹر لگا ہوا تھا اور یہ بے ہوش تھی وہ تو رفیق رکشہ والا ہمارا کرایہ دار اسے اٹھایا دس منٹی ہسپتال آگئے، اللہ بھلا کرے رفیق کا ابھی آپ کے آگے آگے اٹھ کے گیا ہے “فوزیہ کی ماں ثریا نے آنکھوں دیکھا حال بیان کردیا۔
”ڈاکٹر نے کچھ بتایا کب تک ہوش آجائے گا “بلال نے پوچھا۔
”ہوش تو آگیا ہے خیر سے …آپ کو دیکھ کر ڈرامہ کر رہی ہے “فوزیہ کی ماں ثریا دوپٹے سے آنسو صاف کرتے ہوئے بول رہی تھی ۔
بلال کو شرارت سوجھی میڈیکل رپورٹ کے پاس ایک پیپر پن پڑی ہوئی تھی اس نے اٹھائی اور ہلکے سے فوزیہ کے بائیں ہاتھ پر چبھودی۔
فوزیہ یک لخت بول پڑی
”ہائے اللہ جی …“اور اس نے آنکھیں کھول دیں۔
بلال اس کے سامنے کھڑا تھا اور اسے دیکھ رہا تھا فوزیہ کی آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے اس کا دماغ ماؤف ہوچکا تھا اور اس کا سینہ چھلنی چھلنی ہوچکا تھا اس کے چہرے پر ہارے ہوئے سپاہی کی طرح شکستگی پڑھی جاسکتی تھی اس کے ارمانوں کا خون سفاکی اور بے رحمی سے کردیا گیا تھا، اور وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اپنے مسیحا کو دیکھ رہی تھی۔
فوزیہ اکثر بلال کو کہتی تھی، سر آپ کے پاس ہر مرض کا علاج ہوتا ہے فوزیہ کو کہی ہوئی بات یاد تھی اور بلال کو وہ سنی ہوئی بات یاد تھی۔
”ایسے تھوڑی کرتے ہیں …“مسیحا نے اپنا ہاتھ مریض کے ماتھے پر رکھا تو آنسو آنکھوں سے جاری ہوگئے جو اب تک قید تھے، جیسے ان کو رہائی مل گئی ہو۔ وہ مسلسل بہہ رہے تھے۔ بغیر کسی آواز او رہچکی کے، تھوڑی دیر میں فوزیہ کا تکیہ دونوں اطراف سے بھیگ چکا تھا، یہ آنسو نہیں تھے اس کا درد اور غم تھا…جو مسیحا کے چھونے سے سارے کا سارا بہہ چکا تھا…
تھوڑی دیر بعد فوزیہ نم آنکھوں اور گھائل آواز کے ساتھ بولی۔
”سر…میں نے مرنے کی کوشش تو بہت کی …لیکن کامیاب نہیں ہوسکی…“
”کوشش ہمیشہ جینے کی کرو…کامیاب ہو یا نہ ہو …“بلال نے جواب دیا۔
”سر…کہنا بہت آسان ہے اور سہنا بہت مشکل…“
”فوزیہ جی …آپ صرف سہنے کی کوشش کرو…ہمت دینا اس کا کام ہے …“
”سر…آپ کو کیا معلوم محبت کے غم کتنے بڑے ہوتے ہیں…“
”فوزیہ جی …محبت کے غم کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں…زندگی جیسی نعمت سے چھوٹے ہی رہتے ہیں…اور آپ اس زندگی کو ختم کرنے چلی ہو…“
”سر…اگر آپ کے ساتھ ایسا ہوتا …تو…“