”Ok no problemچھوڑ دیتے ہیں، تم لوگ آؤ میں DJکو کہتی ہو گاڑی سامنے لے آئے “یہ کہہ کر وہ ہال سے باہر چلی گئی اس کا Phone بھی DJ کے پاس تھا، اس لیے گاڑی کو دیکھنے کے لیے ہال کے ساتھ خالی پلاٹ میں گئی، جہاں گاڑیوں کی پارکنگ تھی۔
DJ گاڑی میں بیٹھ کر عطا اللہ خاں نیازی کے گانے سن رہا تھا، بند دروازوں کے ساتھ۔ نوشی نے آواز دی ۔ ”DJ…DJ…“مگر اس نے سنا نہیں شور کی وجہ سے۔
”ہم چھوڑ دیتے ہیں…چھمک چھلو…“ایک لڑکا نوشی کی کلائی پکڑتے ہوئے بول رہا تھا۔
”How dare youچھوڑو مجھے…حرام زادے…“نوشی چیخی کلائی چھڑواتے ہوئے ۔
”ڈانس تو کرینہ سے بھی اچھا کرتی ہو…چھمک چھلو…“دوسرا لڑکا بولا۔
اتنے میں DJ کی نظر پڑ جاتی ہے، وہ آگے بڑھتا ہے دوسرا لڑکا اسے زور سے گھونسا مارتا ہے اس کے پیٹ میں اور دھکا دیتا ہے DJزمین پر گر جاتا ہے کمر کے بل اسی دوران ہال کے مین دروازے پر خالہ نصرت یہ سب دیکھ لیتی ہے۔
(جاری ہے)
”اوئے …بے غیرتوں…کتے د ے پتروں…چھڈ دو بچی نوں“خالہ نصرت ایک بہادر دیہاتی عورت کی طرح ان پر لپکی توشی اور فوزیہ ہال کے مین دروازے پر کھڑی یہ منظر دیکھ رہی تھیں۔ خالہ نصرت نے جاتے ہی جس لڑکے نے کلائی پکڑی تھی اس کے گال پر تھپڑ رسید کردیا ،لیاقت کا سارا غصہ اس کے گال پر نکلا وہ دونوں لڑکے آناً فاناً گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے بھاگ گئے۔
ایک شور مچ گیا، چور چور سب لوگ باہر دوڑے ”کیا ہوا…خیریت تو ہے …چور تھے پولیس کو فون کرو…کوئی نقصان تو نہیں ہوا…سکیورٹی گارڈ کہاں تھا…منیجر کو بلاؤ۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ یہ سکیورٹی گارڈ آگیا ۔ کسی نے بتایا“
”تم کہاں تھے “اعظم بسرا غصے سے بولے رانیہ کے والد”سروہ میں پیچھے کھانا کھارہا تھا “گارڈ ڈرتے ڈرتے بولا۔
”منیجر کہاں ہے “”سر وہ ابھی چلے گئے “آفس کا ایک لڑکا بولا۔
اس دوران نوشی خالہ نصرت کے ساتھ لپٹی ہوئی تھی اور وہ کانپ رہی تھی ایک سردی اور دوسرا ڈر اس کی عزت پر حملہ ہوا تھا۔ پاس پہنچ کر اعظم بسرا بولے”میں پولیس کو فون کرتا ہوں “
”نہیں…پاجی…بچت ہوگئی…موبائل چھین رہے تھے …چور تھے یہ DJنے بڑی بہادری دکھائی …پولیس کو فون مت کریں بڑے سوال پوچھتے ہیں “خالہ نصرت نوشی کو اپنی چادر میں لپیٹتے ہوئے بول رہی تھی ۔
DJاپنی تکلیف بھول کر مسکرا رہا تھا۔ سب DJ کی بہادری پر اس کو داد دے رہے تھے، DJصابن کی جھاگ کی طرح کھل اٹھا تھا۔
”یہ بہادری نہیں بے وقوفی ہے موبائل ہی تو تھا اگر بچی کو کچھ ہوجاتا …تو…“اعظم بسرا غصے سے بولے۔
DJ کی بہادری کی جھاگ اعظم بسرا کے غصے سے فوراً بیٹھ گئی اسے اپنی تکلیف پھر یاد آگئی ۔
”میں تم لوگوں کو چھوڑ کر آتا ہوں “اعظم بسرا بولے۔
”نہیں انکل …Thank you ہم چلے جائیں گے “توشی بولی پریشان چہرے کے ساتھ۔ وہ سب گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے نکل آئے راستے میں فوزیہ بولی۔
”خالہ…آپ نے یہ کیوں کہا چور تھے…میں ان کمینوں کو اچھی طرح جانتی ہوں“
”تم ابھی بچی ہو…عزت کی سفید چادر پر …بدنامی کا ایک چھینٹا بھی نظر آجاتا ہے“
”گھر پہنچ کر فون کردینا“گاڑی سے اترتے ہوئے فوزیہ بولی توشی کو دیکھ کر۔
خالہ نصرت نے نوشی کا ماتھا چوما جو اس کے ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی اور وہ بھی گاڑی سے اتر گئی۔
سارے رستے نوشی نے ایک لفظ نہیں بولا جیسے کومے میں ہو، وہ گھر پہنچے تو 12بج چکے تھے، ان کے آنے سے چند منٹ پہلے ہی ناہید اور شعیبی کسی پارٹی سے لوٹے تھے، لاؤنج میں نوشی کی نظر اپنی ماں پر پڑی تو اس نے گلے لگ کر زور زور سے رونا شروع کردیا، اس کی آواز سن کر شعیبی نیچے آگیا، جو سیڑھیاں چڑھ رہا تھا اپنے کمرے میں جانے کے لیے۔
”کیا ہوا…بے بی…میری جان…کیا ہوا…کوئی بتائے گا مجھے…“ناہید نے غصے سے ری ایکٹ کیا۔
”توشی کیا ہوا بتاؤ مجھے …Djتم بتاؤ مجھے…“ناہید غصے سے چلائی…DJنے سارا معاملہ بتادیا جو کچھ اس نے دیکھا تھا۔
”کون تھے وہ لوگ…“شعیبی جذباتی ہوکر بولا۔ ”اُن کی تو میں…ان کی یہ ہمت“
”میں نہیں جانتا ان کے نام…ہاں ان کو پہچان لوں گا“DJآہستہ سے بولا۔
”میں ابھی پولیس کو فون کرتی ہوں“ناہید نے اپنے پرس سے فون نکالتے ہوئے کہا۔
”ر ک جائیں ماما“توشی نے آواز لگادی اس کے کانوں میں خالہ نصرت کے الفاظ گونجے”عزت کی سفید چادر پر بدنامی کا ایک چھینٹا بھی نظر آجاتا ہے“
”کیا بتائیں گی پولیس کو…جو ہوا ہے اور ہم کن کے خلاف کمپلین فائل کریں گے…ہم لوگ تو ان کا نام پتہ کچھ بھی نہیں جانتے “
DJکو کچھ یاد آیا”شیعبی سر…ان کو میں نے دو تین دفعہ ایک سنوکر کلب ہے، وہاں دیکھا تھا، شاید وہاں مل جائیں…“
”چلو…چلتے ہیں…تم پہچان تو لوگے ان کو…“شعیبی کرخت لہجے میں بولا۔
”شعیب رکو…میری بات سنو…بس معلومات لینا ان کے بارے میں باقی بعد میں دیکھیں گے“ناہید نے سمجھایا۔
”ماما دیکھنا کچھ نہیں ہے …ان کو مجھ سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنی ہوگی…بس“نوشی جلالی آواز کے ساتھ بولی۔
”تم معافی کی بات کر رہی ہو …میں تو ان کو برباد کردوں گی “ناہید آنکھیں پھاڑ کر بولی۔
DJ کو اپنی بے وقوفی پر غصہ آرہا تھا، کیوں اس نے پوائنٹ اسکور کرنے کی کوشش کی تھی سارا سنوکر کلب انہوں نے دیکھ لیا مگر وہ نہیں ملے کلب سے نکل کر جب شعیبی اور DJ گاڑی میں بیٹھنے لگے تو شعیبی والی سائیڈ پر آکر ایک گاڑی پارکنگ میں رکی۔
”کیوں شعیبی کدھر جارہے ہو“وکی نے آواز دی جو گاڑی سے اتر رہا تھا ۔
”مال لے کر آیا ہوں …آجا…یاد کرے گا“دوسری آواز گونجی جو کہ سنی کی تھی۔
”چھمک چھلو تو ہاتھ سے نکل گئی…مگر یہ تو ہے “وکی نے چرس کا ایک ٹکڑا شعیبی کو دکھایا۔
”یہی تھے …ہاں بالکل …یہی تھے “DJعجلت میں بولا شعیبی کے کندھے کو ہلاتے ہوئے جوکہ اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا اور وہ ونڈ اسکرین سے ان کو دیکھ رہا تھا۔
شعیبی کا چہرہ غصے سے لال ہوگیا۔ وہ نیچے اترا اور سنی کو مارنے لگا، وکی نے دیکھا جو کہ سنی سے کچھ آگے چل رہا تھا۔ واپس پلٹا اور شعیبی پر چڑھ دوڑا وکی اور سنی جسامت میں DJاور شعیبی سے زیادہ طاقتور تھے۔ ان دونوں نے DJاور شعیبی کی خوب دھلائی کی، شور مچ گیا سنوکر کلب سے لڑکے باہر آگئے۔
”حرام زادوں وہ میری بہن تھی“شعیبی ماتھے اور ہونٹوں سے بہتے ہوئے خون کے قطروں کے ساتھ بولا۔
”جن کے اوپر تو اپنے گندے ہاتھ صاف کرتا تھاوہ بھی کسی کی بہنیں تھیں“ سنی غصے سے چیخا اسے کچھ لڑکوں نے پکڑا ہوا تھا۔
”چھوڑومجھے…بڑا غیرت مند بنتا ہے…ہمارے کیے ہوئے شکار پر کتنی دعوتیں اڑائی ہیں…اس حرام زادے نے“وکی اپنے آپ کو لڑکوں سے چھڑاتے ہوئے بول رہا تھا۔
اتنے میں سنوکر کلب کا مالک آگیا۔ ”وکی اور سنی نکلو یہاں سے پولیس آگئی تو معاملہ بگڑ جائے گا…نکلو…نکلو“اس نے آنکھ کا اشارہ کیا۔
”نکلو بادشاہو“گوگی بٹ سنوکر کلب کا مالک پھر سے بولا ۔وکی اور سنی جلدی سے وہاں سے کھسک گئے
”بادشاہو آپ بھی کمال کرتے ہو…کل تک اکٹھی عیاشی کرتے آئے ہو اور آج جوتیوں جوتی ہورہے ہو۔ رات گئی بات گئی…ایک صلاح میر ی لے لو…اگر معاملہ پولیس میں لے کر گئے تو ننگا وہ تمہیں بھی کردیں گے…آگے آپ کی مرضی“گوگی بٹ نے DJ کی طرف دیکھا
”اس غریب کو بھی لے جاؤ اور خود بھی پٹی شٹی کرواکر جانا چلو میں بھی چلتاہوں تمہارے ساتھ۔
اوئے پپو کلب بند کردے“گوگی بٹ نے پاس ہی پرائیویٹ ہسپتال سے دونوں کی مرہم پٹی کروادی اور ان دونوں کو گھر بھیج دیا اور فون ملایا سنی کو…
”بادشاہو…اگر کیس پولیس میں جاتا تو لاکھوں کا خرچہ تھا اور خواری وکھری بچت کروادی ہے…تم دونوں کی…اب چا پانی پہنچادیناok bye“