بلال نے پہلے سنوکر کلب کا رخ کیا جو کہ بند تھا، چھٹی کی وجہ سے یا پھر گوگی بٹ نے خود بند رکھا ہوا تھا وجہ اسے پتہ نہیں چلی، اس کے بعد اس نے شادی ہال کا رخ کیا، سکیورٹی گارڈ سے ملا پھر آفس میں منیجر سے ملا لیکن کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی، اس کے بعد وہ اپنے اسکول چلا گیا جوکہ شادی ہال کے بالکل سامنے سڑک کے دوسری طرف تھا۔ بلال اپنے آفس میں بیٹھا ہوا تھا، تین بج رہے تھے اس نے صبح سے کچھ کھایا پیا نہیں تھا، موبائل پر بیل ہوتی ہے وہ کال ریسیو کرتا ہے۔
”خیریت تو ہے …آپ ٹھیک تو ہیں…میں پریشان تھی…آپ آج آئے کیوں نہیں“فون کرنے والی کوئی لڑکی تھی جس نے میٹھی اور نفیس آواز میں بہت سارے سوال ایک ساتھ پوچھ لیے۔
”میں بزی تھا …اس لیے آج نہیں آسکا…Next sunday I will comeاللہ حافظ“بلال نے کال ڈس کنیکٹ کردی تھی۔
(جاری ہے)
اور ایک بار پھر سوچوں کے سفر پر روانہ ہوگیا، وہ ان کمینوں کا پتہ لگانا چاہتا تھا ۔
جلد سے جلد۔
###
”تم دیکھ لینا…کوئی لڑکی کا چکر ہے…بڑی چمچی بنی پھرتی ہو اس کی …“ناہید نے نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے توشی کو دیکھ کر کہا جو کہ اس کے سامنے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھی ہوئی تھی، شعیبی اور ناہید کھانا کھانے میں مصروف تھے، نوشی توشی ایک دوسرے کو دیکھ رہی تھیں۔
”دیکھ لیا اس کا بی ہیوئیر…مجھ سے نہیں پوچھا…اتنی چوٹیں لگی ہیں مجھے…ماما سے افسوس نہیں کیا میں اور ماما کتنا سٹریس فیل کر رہے ہیں…اس انسی ڈینس کے بعد“شعیب سوپ پیتے ہوئے بولا۔
”وہ تو میں دیکھ رہی ہوں“توشی تیور دکھاتے ہوئے بولی تھی۔
”اس کے پیچھے کیوں پڑی ہو…دیکھو کیا حال ہوگیا ہے…میرے بچے کا“ناہید نے توشی کو غصے سے جواب دیا۔ ”وہ جو صبح سے دفع ہوگیا ہے …اُسے تو کچھ نہیں کہا تم نے…“
”بھائی یہ ہے میرا…وہ نہیں اُسے کیا کہوں“توشی غصے سے چلائی۔
”اس کا تو منگیتر ہے…وہ بھی بچپن سے…کیا اس سے بھی کوئی رشتہ نہیں ہے “ناہید آنکھیں نکالتی ہوئی بولی۔
”شکر ہے…آپ اسے منگیتر تو مانتی ہیں…ہاں ایک اور بات وہ بولتا کم ہے اور کرتا زیادہ ہے …مجھے یقین ہے وہ کچھ کر رہا ہوگا…اس وقت بھی…آپ لوگوں کی طرح…“کھاجانے والی نظروں سے دیکھتی ہوئی توشی وہاں سے جاچکی تھی۔
”کوئی مرجائے…کھانا تو پھر بھی نہیں چھوڑا جاتا…انسان ہیں…“ناہید نے جواز پیش کیا۔
###
بلال نے فوزیہ کی خیریت معلوم کرنے کے لیے اسے فون کیا تھا۔
”سرمیں تو…خود آپ سے بات کرنا چاہتی تھی…میں عصر کی نماز کا انتظار کر رہی تھی کب آپ کا نمبر کھلے تو آپ کو اطلاع دوں “فوزیہ نے کال ریسیو کرتے ہی اپنی باتیں کہہ دیں۔
”کیوں خیریت ہے…“بلال نے پوچھا۔
”سر وہ…کل رات کو جوہوا آپ کو پتہ ہے میں بھی وہاں تھی “
”تم گھر پر ہو“بلال نے پوچھا۔ ”جی سر“فوزیہ بولی۔
”میں آتا ہوں “بلال نے جواب دیا وہ اپنے آپ کو ملامت کر رہا تھا، مجھے فوزیہ کا خیال کیوں نہیں آیا، خیال آتا بھی کیسے DJ اور توشی نے فوزیہ کا ذکر ہی نہیں کیا تھا ساری گفتگو کے دوران، بلال جلدی سے فوزیہ کے گھر پہنچا مغرب کی اذان سے کچھ دیر پہلے ۔
فوزیہ نے رات والی بات بتانا شروع کی ابھی اس کی بات پوری نہیں ہوئی تھی، کہ مغرب کی اذان شروع ہوچکی تھی۔
”میں نماز پڑھ کر آتا ہوں“بلال اٹھا اور نواں پنڈ گاؤں کی مسجد کی طرف روانہ ہوگیا، مسجد جاتے ہوئے اس نے DJکو فون کیا۔
”اگر طبیعت ٹھیک ہے تو فوزیہ کے گھر آجاؤ“بلال نے فون پر کہا۔
DJنے بتایا ”گل شیر خان صاحب بھی موجود ہیں “”ان سے میری بات کراؤ خان صاحب آپ DJکو لے کر آسکتے ہیں، جوہر ٹاؤن“بلال نے پوچھا۔
”کیوں نہیں…ضرور…ضرور“گل شیر خان بولے تھے۔
بلال واپس آیا تو فوزیہ کی والدہ نے چائے اور بسکٹ وغیرہ کا بندوبست کر رکھا تھا، چند منٹ بعد DJ نے فون پر اطلاع دی ”ہم باہر خان صاحب کی گاڑی میں ہیں“بلال نے بیٹھک کا دروازہ کھولا اور انہیں بٹھایا جو چائے اس کے لیے فوزیہ کی والدہ نے بنائی تھی ، ان کو دی ”آپ چائے پئیں میں پانچ منٹ میں آتا ہوں “بلال یہ بول کر واپس فوزیہ کے کمرے میں چلا گیا۔
”سر ایک کا نام وقاص ہے ، اسے وکی کہتے ہیں اور دوسرا ارسلان ہے اسے سنی کہتے ہیں ان دونوں کی بہنیں ہمارے اسکول میں پڑھتی ہیں…سابقہ MNA چوہدری یعقوب کا ایک بیٹا ہے اور دوسرا بھتیجا ہے“فوزیہ نے ساری بات تفصیل سے بتادی۔ آج بلال کو فوزیہ پر پیار آرہا تھا ہمیشہ اس نے اسے BBC کہہ کر تنگ کیا تھا مگر آج BBC کی تفصیلی رپورٹ اسے اچھی لگی، اس نے محبت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔
”خوش رہو…ہمیشہ…“کسی درویش کی طرح دعا دی اور کمرے سے نکل گیا۔ خالہ ثریا چائے کا مگ ہاتھ میں لیے ہوئے بولیں ”بیٹا چائے تو پی لو…“
”امی وہ نہیں پئیں گے جب تک …“”کیا جب تک “فوزیہ کی والدہ بولی۔
صحن میں خالہ نصرت سے بلال کی ملاقات ہوگئی وہ رکا اور خالہ کو غور سے دیکھا اور ان کا دائیاں ہاتھ چھوم لیا وہ بغیر کچھ کہے سب کچھ کہہ گیا۔
خالہ نصرت اسے مڑ کر دیکھ رہی تھیں جاتے ہوئے وہ گھر سے باہر آگیا اور گلی والے دروازے سے DJاور گل شیر خاں کو چلنے کے لیے کہا۔
”آپ میرے پیچھے آجائیں“تھوڑی دیر بعد وہ محل نما ایک کوٹھی کے باہر تھے DJگاڑی کی ونڈ اسکرین سے کوٹھی کو دیکھ کر حیران ہورہا تھا۔ سکیورٹی گارڈ نے انٹر کام پر اطلاع دی۔
”بلال صاحب آئے ہیں، زینت اور مہوش بی بی کے اسکول والے“بڑی بڑی مونچھوں والے چھ فٹ سے زیادہ لمبے شخص نے اجازت ملنے کے بعد بلال کو سلیوٹ کیا اور گیٹ کھول دیا گیا۔
بلال کی گاڑی کے پیچھے خان صاحب اور DJ کی گاڑی اندر داخل ہوگئی اندر بڑی مونچھوں والے کئی سکیورٹی گارڈ تھے جن کے ہاتھ میں جدید اسلحہ تھا ۔
ایک ملازم بلال کے استقبال کے لیے کھڑا تھا، وہ سب کو بڑے سے ڈرائنگ روم میں لے گیا، ڈرائنگ روم کی دیواروں پر تلواریں، شیر کی کھال اور بڑی بڑی تصویریں لگی ہوئی تھیں۔ تصویریں شاید چوہدری یعقوب کے آباؤ اجداد کی ہوں گی۔
”آپ تشریف رکھیں میں چوہدری صاحب کو اطلاع دیتا ہوں“ملازم ادب سے کہہ کر اندر چلا گیا چند منٹ بعد ایک بڑی سی ٹرالی نمودار ہوئی جس کے اوپر چائے کے ساتھ کیک، فروٹ، بسکٹ، ڈرائی فروٹ اور نہ جانے کیا کیا تھا۔ وہی ملازم پھر بولا۔ ”آپ چائے پئیں چوہدری صاحب ابھی تشریف لاتے ہیں “DJاور خان صاحب چائے پینے میں مصروف ہوگئے۔
’آج تو ہمارے گھر بڑے لوگ تشریف لائے ہیں ’“چوہدری یعقوب اندر داخل ہوتے ہوئے بولا۔
اور بلال کو گلے لگالیا ان کے پیچھے پیچھے زینت اور مہوش بھی آگئی تھیں۔ ان کی نظروں میں اپنے سر کے لیے بڑی عزت و احترام تھا جیسے ان کے گھر ان کا پیرومرشد آگیا ہو۔
”بابا آپکو پتہ ہے پچھلے مہینے ایک لڑکے نے میری سہیلی کی کلائی زبردستی پکڑی تھی سر نے اس سے کہا چھوڑدو اور ابھی معافی مانگو مگر وہ نہ مانا تو پھر سر نے اسے بہت مارا اور پولیس کو اطلاع دی“مہوش اپنے باپ کو بتارہی تھی۔
”اور وہ تو تم نے تو بتایا نہیں…جب پولیس والے نے کہا “”بلال صاحب آپ نے قانون ہاتھ میں لیا ہے“زینت اپنے تاؤجی کو بتارہی تھی۔
”تو سر نے جواب دیا نہیں میں نے قانون ہاتھ میں نہیں لیا ابھی تو صرف مارا ہے اگر قانون ہاتھ میں لیتا تو جان سے ماردیتا“
”بلال صاحب آپ چائے پیو“چوہدری یعقوب بولا۔
”پہلے آپ سے ایک فیصلہ کروانا ہے “بلال سنجیدگی سے بولا۔
چوہدری یعقوب سیاست دان تھا وہ سمجھ گیا بات کچھ سنجیدہ نوعیت کی ہے
”بیٹا آپ دونوں اندر جاؤ“چوہدری یعقوب نے زینت اور مہوش کو حکم دیا۔
”چوہدری صاحب میرے اسکول میں 127بچیاں نویں دسویں کی ہیں جو کہ سب جوان ہیں اُن سے یہ دو بچیاں آپ کی بھی ہیں……یہ سب میری عزت ہیں اگر کسی ایک بچی کے ساتھ میرے اسکول میں یا اس کے آس پاس کوئی بدتمیزی کرے کسی بچی کی عزت پر ہاتھ ڈالے تو میں اس کا منہ توڑ دوں “چوہدری یعقوب نے DJ کی طرف دیکھا جس کے چہرے اور ماتھے پر پٹیاں لگی ہوئی تھیں۔
”بلال صاحب آپ کھل کر بات کرو…میں فیصلہ کروں گا“چوہدری یعقوب نے اپنی مونچھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تھا۔
”DJبتاؤ…چوہدری صاحب کو ساری بات …“بلال نے DJ کی طرف دیکھ کر اعتماد سے کہا۔ DJ نے ساری بات بتائی شادی ہال سے لے کر سنوکر کلب تک گل شیر خان غور سے بلال کو دیکھ رہے تھے۔ چوہدری یعقوب نے ساری بات اطمینان سے سنی اور تھوڑی دیر کی اجازت مانگ کر ڈرائنگ روم سے باہر چلا گیا۔ چوہدری یعقوب اچھی طرح جانتا تھا بلال کے تعلقات کو شہر کی ساری ایلیٹ کلاس کے بچے اس کے اسکول میں پڑھتے تھے اور سب سے بڑھ کر اس کی نیک نامی اور سوشل ورک سے بھی سب واقف تھے۔