Episode 40 - Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 40 - بلال صاحب - شکیل احمد چوہان

”آپ اگر دل کی بازی ہار گئے…تو…؟“نوشی کے نینوں نے خدشہ ظاہر کیا۔ 
”محبت بازی نہیں ہے…محبت فرض ہے…فرض میں ہار جیت نہیں ہوتی…دعا ہے…بس…فرض قبول ہوجائے…“
ایک دھماکے کے ساتھ دروازہ کھلتا ہے توشی کمرے میں داخل ہوتی ہے۔ 
”یہ لو…قیامت کی نشانیاں…کیا سین چل رہا تھا…وہ بھی رات کے دو بجے…“توشی نے اپنی چھوٹی انگلی اور انگوٹھے کو منہ میں ڈالتے ہوئے سیٹی ماری اور خوشی سے جھوم اٹھی 
”پاگل ہو…اس وقت شور مچارہی ہو“بلال نے ڈانٹا نوشی گردن جھکائے اپنی آوارہ لٹیں جو چہرے پر تھیں کان کے پیچھے کر رہی تھی
”ایسا کچھ نہیں ہے…جو تم سوچ رہی ہو“بلال نے صفائی دی 
”تو کیسا ہے…بتاؤ جلدی سے…ورنہ میں سب کو بتادوں گی“توشی نے وارننگ دی ”جلدی جلدی بتاؤ کیا چل رہا تھا …غضب خدا کا رات کے دو بجے دسمبر کی رات، ایک خوبصورت لڑکی ایک جوان لڑکے کے ساتھ…اور ایسا کچھ نہیں ہے “
”میں ان کا شکریہ ادا کرنے آئی تھی “نوشی نے بھی صفائی پیش کی 
”شکریہ…مہربانی…وہ بھی ان کا…جن کی تم نے ہمیشہ تذلیل کی…ہرجگہ… ہر موقع پر… آج اچانک یہ ہمدردی وہ بھی ان کے لیے … ابھی چند گھنٹے پہلے ہی کیا کچھ نہیں کہا…تم نے اور ماما نے ان کی شان میں “توشی غصے سے گرجی 
”توشی جی…جانے دو کیوں تماشہ لگارہی ہو…چھوڑو پرانی باتیں“بلال دونوں بہنوں کو چپقلش سے بچانا چاہتا تھا۔

(جاری ہے)

 
”ان سب نے پوری زندگی تمہارا تماشہ بنایا تمہارا مذاق اڑایا آج میں نے اپنے بھائی اور ماں کو دیکھ لیا ہے…مجھے پتہ ہے…تم نے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا…DJ نے تمہیں فون کیا کہ وہ معافی مانگ کر جاچکے ہیں تب تم نے کھانا کھایا…میری ماں اور بھائی 3بجے کھانا ٹھوس رہے تھے …اور یہ دوموہی…کس منہ سے تمہارے پاس آئی ہے…اور کیا لینے آئی ہے…“توشی نے اپنی ماں اور بھائی کا غصہ نوشی پر نکالا۔
 
”تم کون ہوتی ہو پوچھنے والی…وہ میرا منگیتر ہے تم کیا لگتی ہو اس کی “نوشی غصے سے چیخی۔
”میں اس کی کزن ہوں ، دوست ہوں اور جہاں تک رشتے کا سوال ہے…ہمارا محبت کا رشتہ ہے …غور سے سن لو محبت کا رشتہ“توشی نے دعوے اور مان سے جواب دیا۔ 
”اور مجھے عشق ہے …ہاں عشق ہے …بلال سے“نوشی زور سے چیخی۔ 
”یہ لو…محبت کی میم سے واقف نہیں اور دعوے عشق کے …وہ کیا کہتے ہو تم…بلال صاحب…کہ ہم چھوٹے لوگ محبت ہی کرلیں تو بڑی بات ہے…عشق بڑے لوگوں کا کام ہے…اور یہ محترمہ عشق کرنے چلی ہیں…“نوشی غصے سے وہاں سے چلی گئی دروازہ زور سے مارتے ہوئے۔
 
”توشی جی …کیوں تم نے دل دکھایا اس کا …“بلال سنجیدگی سے بولا۔ 
”دل نہیں ہے، اس کے پاس…میری ماں نے ساری زندگی نفرت کا درس دیا ہے جو سینے میں دھڑکتا ہے …وہ گوشت کا لوتھڑا ہے …میں نے کوشش کی ہے کہ وہ دل بن جائے دوبارہ سے “
”میں نے تمہیں پہلے تو کبھی ایسی بڑی بڑی باتیں کرتے نہیں دیکھا…توشی جی…“بلال دیوان پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
”بیٹھ جاؤ اور پانی پیو“
”پانی نہیں کافی پلاؤ آخر آدھی گھر والی ہوں یعنی سالی جیجا جی سمجھے کیا “پانچ منٹ بعد وہ کافی پی رہے تھے۔ 
”یہ بیس گھنٹے میں نے انتہائی کرب میں گزارے پاپا نہیں تھے۔ ماما اور بھائی مجھے اپنے لگے ہی نہیں…دادو کو میں نے خود نہیں بتایا…تم بھی خاموشی سے اٹھ کر چلے گئے یہ حادثہ نوشی کے ساتھ نہیں میرے ساتھ ہوا ہے، میں ایسے محسوس کر رہی تھی اتنا پیسہ تعلقات ہونے کے باوجود کچھ نہیں…سچ کہوں تو بلال میں واقعی بڑی آج ہوئی ہوں میں اکثر تم کو کہتی تھی کہ تم اپنی عمر سے بڑی باتیں کرتے ہو…آج سمجھ آگئی…میں نے صرف دس گھنٹے ماں باپ کے بغیر گزارے، باپ یہاں تھا نہیں اور ماں ہو کے بھی نہیں تھی ……واقعی ماں باپ کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔
 توشی کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے اس نے بلال کی طرف دیکھا جو خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا، چہرے پر بغیر کسی تاثر کے ”ویسے میں نے آج ایک اور حساب لگایا ہے…تمہارے اندر بھی کوئی …دل شل نہیں ہے میں رو رو کر ہلکان ہورہی ہوں …اور تم بت بنے بیٹھے ہو“بلال کے چہرے پر جان لیوا مسکراہٹ آگئی توشی کی بات سن کر 
”مجھے اس کے نصیب پر رشک ہے…جس کے نصیب میں تم ہو…مجھ سے اگر کوئی پوچھے خوش قسمت لڑکی کون ہے تو میں کہوں گی جو بلال کی دلہن بنے گی…میں نے بھی تم کو ٹوٹ کر چاہا تھا بچپن سے آج تک پھر دادو نے مجھے سمجھایا پر میں نہیں مانی پھر میں نے خود تجربہ کیا تو دادو کی بات سچ نکلی“
بلال اپنی ٹانگ کے اوپر ٹانگ رکھ کے دایاں ہاتھ اپنی ٹھوڑی کے نیچے رکھے ہوئے خاموشی سے توشی کی باتیں سن رہا تھا۔
 
”اس کے بعد میری بڑی خواہش تھی کہ تمہاری شادی نوشی سے ہوجائے مگر آج میں خود کہتی ہوں نوشی سے بالکل شادی مت کرنا “
”تم بہن ہو کہ ڈائن ہو، اپنی بہن کے منگیتر کو غلط پٹیاں پڑھارہی ہو“بلال نے شرارت کی۔ 
”شٹ اپ…میں واقعی سیریس ہوں وہ تمہارے قابل نہیں ہے…“
”کیا کل تمہارا آخری دن ہے “بلال نے پوچھا۔ 
”میں سمجھی نہیں “توشی سوالیہ نظروں سے بولی۔
 
”مجھے کیوں لگ رہا ہے جیسے کل تم فوت ہوجاؤ گی…اسی لیے سارے نصیحتیں اور وصیتیں آج کر رہی ہو…“بلال نے پھر توشی کو چھیڑا۔ 
”فوزیہ بالکل صحیح کہتی ہے تمہارے بارے میں، سر بڑے چالو اور کھوچل ہیں ایویں مت سمجھنا“توشی نے حساب برابر کرلیا۔ فجر کی اذان شروع ہوگئی تھی ۔ 
”چلو اب جاؤ…اور نماز پڑھ کر سونا…“بلال نے توشی کو کہا۔ 
###

Chapters / Baab of Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط