Episode 41 - Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 41 - بلال صاحب - شکیل احمد چوہان

”عظمی بیٹی اُٹھو، نہیں تو نماز کا وقت نکل جائے گا“ڈاکٹر ہاجرہ نیازی نے کمبل کے اندر ہاتھ ڈال کر عظمی افگن نیازی کو اٹھایا، عظمی جلدی سے اٹھی اپنے کھلے ہوئے کالے سیاہ گیسوسمیٹے اور اپنی گرم شال اوڑھ کر واش روم کی طرف چل دی۔ 
عظمی نے فجر کی نماز ادا کی اس کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کی اور ٹریک سوٹ پہن کر لاؤنج میں آئی اور پروفیسر زمان افگن نیاز ی کے روم کی طرف چل دی دروازے پر دستک دی اندر سے ڈاکٹر ہاجرہ نیازی کی آواز آئی ۔
 
”آجاؤ عظمی“
”انکل کہاں ہیں…آنی…“عظمی نے پوچھا۔ 
”وہ تو واک پر چلے گئے…تمہارے کمرے میں گئے تھے…انہوں نے ہی مجھے آکر بتایا کہ تم اب تک سوئی ہوئی ہو“ڈاکٹر ہاجرہ نیازی نے جواب دیا۔ 
”میں بھی چلتی ہوں “عظمی جلدی سے بولی ۔

(جاری ہے)

 

”رکو عظمی …بہت دھند ہے باہر…یہاں بیٹھو میرے پاس“ہاجرہ نے صوفے پر دائیں ہاتھ سے اپنے پہلو میں عظمی کو بیٹھنے کو کہا اور بائیں طرف شیشے کے سائیڈ ٹیبل پر کتاب رکھ دی جس کووہ پڑھ رہی تھی ۔
 
”جی آنی…کوئی خاص بات ہے…“عظمی بیٹھتے ہوے بولی۔ 
”کل تم کچھ ڈسٹرب تھی…رات کھانا بھی نہیں کھایا…اپنے کمرے میں بھی جلدی چلی گئی “ہاجرہ اپنی انگلیوں کے پوروں سے عظمی کے بالوں کو سہلاتے ہوئے بولی۔ 
”نہیں کچھ خاص نہیں…بس ایسے ہی…“عظمی نے بات گول کرنی چاہی 
”اماں کہا کرتی تھیں…ماسی یعنی ماں جیسیمیں نے تم کو ماں بن کر پالا ہے 
مجھے نہیں بتاؤگی“ہاجرہ نے صوفہ پر اپنی پوزیشن تبدیل کی اور عظمی کی طرف منہ کرکے بیٹھ گئیں۔
 
”ہر سنڈے تم بہت خوش ہوتی ہو مگر کل …بلال نے کچھ کہا تھا …“ہاجرہ نے پوچھا۔ 
”آنی وہ کل نہیں آیا تھا …پچھلے دو سال میں پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ وہ اس سنڈے کو نہیں آیا جب میں نے فون کیا تو اس کا بی ہیویئر عجیب سا تھا …جیسے مجھے جانتا ہی نہ ہو“عظمی پریشانی سے بتارہی تھی ۔ 
”وہ ایسا تو نہیں …جب وہ آٹھ سال کا تھا …میں تب سے اسے جانتی ہوں وہ تو بڑے اچھے اخلاق والا بچہ ہے “ہاجرہ کچھ سوچتے ہوئے بولی۔
 
”وہ بچپن سے اپنے ماموں کی بیٹی سے منسوب ہے کیا نام تھا اس کا ہاں نسیم جمال رندھاوا۔ نوشی کہتے ہیں جسے “
”مجھے معلوم ہے …اس کی منگنی ہوچکی ہے …اس نے مجھے خود بتایا تھا “عظمی سرجھکائے ہاتھ کی ہتھیلیوں کو دیکھ رہی تی ڈاکٹر ہاجرہ کچھ دیر عظمی کو دیکھتی رہی وہ کچھ کہنا چاہتی تھی مگر مناسب الفاظ نہیں مل رہے تھے 
”پروفیسر صاحب مجھے رات کو کہہ رہے تھے …اگر ہمارے دونوں بیٹے شادی شدہ نہ ہوتے …تو میں عظمی کو اپنی بہو بنا کر یہاں سے جانے نہ دیتا“عظمی ہاتھ ملتے ہوئے، ہاجرہ کی طرف دیکھ کر مسکرائی ہاجرہ اس کا چہرہ غور سے دیکھ رہی تھی 
”تم بلال کو پسند کرتی ہو“ہاجرہ نے عظمی کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
 
”نہیں…میں اس سے محبت کرتی ہوں…“عظمی نے صاف گوئی سے جواب دیا۔ 
”اور …وہ…“ہاجرہ کے وہ میں بہت سارے سوال تھے۔ 
”آنی…اس نے ان دو سالوں میں کبھی مجھے آنکھ بھر کر نہیں دیکھا…کبھی غلطی سے بھی مجھے چھوا نہیں…کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے مجھے لگے کہ وہ بھی مجھ سے محبت کرتا ہے…میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا ہے …جہاں میرے لیے حیا ہے…احترام ہے…ہاں میں اسے اچھا دوست کہہ سکتی ہوں…اور بس“
”تو پھر …بیٹی سائے کے پیچھے نہیں بھاگتے“ہاجرہ نے سمجھانے کے انداز میں کہا
”تم شادی کرلو“
”کرلوں گی…اس کی شادی کے چار دن بعد“عظمی نے بھولی صورت بناکر کہا 
”چار دن بعد کیوں “ہاجرہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
 
”تین دن سوگ کے اور چوتھے کو شادی…“عظمی مصنوعی مسکراہٹ سے بولی۔ ہاجرہ ہنستے ہوئے بولی۔ 
”کملی نہ ہو تومیں اس کے اسکول کا ایڈریس دیتی ہوں مل آؤویسے بھی آج تمہاری چھٹی ہے اور شام کو جلدی آجانا میں نے اور پروفیسر صاحب نے ایک پروگرام بنایا ہے تمہارے لیے “
###
”یار تمہارا اسکول تو بڑا شاندار ہے…الگ مختلف…پاکستانی اسکول تو بالکل نہیں لگتا…کسی بھی اینگل سے…میں نے سارے کلاس روم دیکھے ہیں…انگلش کے پیریڈ میں ٹیچر بچوں سے صرف انگلش بول رہا تھا اور دوسری کلاس میں سارے بچے عربی بول رہے تھے “ڈاکٹر بٹ چائے پیتے ہوئے تبصرہ کر رہا تھا۔
 
”تم نے آج پھیکی چائے کیوں لی “بلال نے پوچھا۔ 
”میں انگلش اور عربی کی بات کر رہا ہوں اور تم چائے کا پوچھ رہے ہو“ڈاکٹر بٹ بولا۔ 
”تمہیں عربی بولنا آتی ہے “بلال نے پوچھا ۔ ڈاکٹر بٹ نے نہیں میں سرہلادیا۔ 
”اور انگلش بول سکتے ہو“بلال نے پھر پوچھا۔ 
”وہ میں گزارہ کرلیتا ہوں “ڈاکٹر بٹ جلدی سے بولا۔ 
”میرے اسکول میں کلاس Fiveکا بچہ ہم دونوں سے اچھی انگلش اور عربی بول سکتا ہے وہ اس لیے کہ یہاں پانچویں کلاس تک بچوں سے زبان بولی جاتی ہے پڑھائی نہیں جاتی “
”تو پھر بچوں کے سبجیکٹ کون سے ہیں؟انگلش تم نہیں پڑھاتے، عربی اور اردو بھی نہیں پڑھاتے“ڈاکٹر بٹ حیرت سے پوچھ رہا تھا۔
 
”قرآن مجید…سائنس، کمپیوٹر اور میتھ، دنیا کا سب سے بڑا سبجیکٹ قرآن مجید ہے وہ ہم نے ایصال ثواب کا ذریعہ بنالیا ہے ہم قرآن کو سمجھ نہیں پاتے اس لیے کہ ہمیں عربی نہیں آتی میں خود ترجمعے والا قرآن مجید پڑھتا ہوں …عربی زبان آجائے گی بچوں کو تو وہ قرآن کو سمجھ جائیں گے ترجمہ مفہوم کے قریب لے جاتا ہے پورا مفہوم ترجمعے سے بیان نہیں ہوتا …رہا انگلش کا سوال تو اس وقت سارے علوم انگلش میں ہیں، ہم جیسے تیسے کرکے انگلش میں پاس ہوجاتے ہیں بول پھر بھی نہیں سکتے میں نے وہ پاس فیل کا چکر ختم کردیا ہے، انگلش زبان ہے سبجیکٹ نہیں “
”ویسے تم عجیب بات کر رہے ہو “ڈاکٹر بٹ نے اختلاف کیا”انگلش زبان ہے سبجیکٹ نہیں…“
”تم چائنہ میں کتنے سال رہے ہو“بلال نے پوچھا۔
 
”یہی کوئی پانچ چھ سال “
”چائنیز آتی ہے “
”اب تو فر فر بول لیتا ہوں “ڈاکٹر بٹ فخریہ انداز میں بولا۔ 
”چائنیز زبان تم نے پڑھ کر سیکھی تھی “بلال نے پوچھا۔ 
”نہیں تو…شروع میں ایک سال تو بڑی مشکل ہوئی …پھر میں غور سے سنتا تھا اور بولنے کی کوشش کرتا تھا …جیسے جیسے میں بولتا گیا مجھے زبان کی سمجھ آگئی “
”تو بات سیدھی سی ہے زبان بولنا آجائے تو آپ اس میں لکھی ہوئی تحریر آسانی سے سمجھ سکتے ہیں، اسی لیے چھوٹے بچوں کو یہاں بولنے کی تربیت دی جاتی ہے اور چھٹی کلاس سے پھر ان کو پڑھایا جاتا ہے “
”بھائی تو دو بچوں کی سیٹ رکھ لے ابھی سے “ڈاکٹر بٹ نے کہا۔
 
”وہ کس کے بچے ہیں “
”بھائی میرے ہونے والے بچے اور کس کے “ڈاکٹر بٹ مسکراتے ہوئے بولا۔ 
”اماں کو توشی بہت پسندآئی ہے اور وہ رشتہ مانگنے کے لیے آنا چاہتی ہیں “بلال تھوڑی دیر خاموش رہا اور پھر بولا۔ 
”دیکھو بٹ صاحب میں تمہارے ساتھ دو سال تک پڑھا ہوں اور تمہاری طبیعت سے اچھی طرح سے واقف ہوں…وہ تمہارے ٹائپ کی لڑکی نہیں ہے…دیکھنے میں شوخ و چنچل ہے اندر سے اتنی معصوم اور بھولی اور تم ایک دل پھینک عاشق ہو مائنڈ مت کرنا …“
”کمال ہے…بلال صاحب پیار سے بے عزتی کرکے کہتے ہو مائنڈ مت کرنا “ڈاکٹر بٹ ناراضی سے بولا۔
 
”دیکھو بٹ صاف گوئی کو بے عزتی کا نام مت دو جو میرے دل میں تھا میں نے کہہ دیا “بلال نے اپنی صفائی پیش کی۔ 
”بلال میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں …فلرٹ نہیں کر رہا ہوں …اور دوسری بات ابا جی کی وفات کے بعد میں بدل گیا ہوں …“ڈاکٹر بٹ نے اپنا موقف بیان کیا۔ 
”خیر…ایک دو دن میں ماموں امریکہ سے آنے والے ہیں…اس سے پہلے تم توشی سے بات کرلو اگر اسے کوئی اعتراض نہیں ہے …تو آپ لوگ آجاؤ…حتمی فیصلہ ماموں اور ممانی نے کرنا ہے “
”بلال میں واقعی سچ کہہ رہا ہوں …مجھے اس سے محبت ہوگئی ہے “
”تم پھر…بات کرلو…توشی سے…“بلال نے جواب دیا۔
 
”تم بات کرو اس سے “ڈاکٹر بٹ نے درخواست کی ۔ 
”اگر اس سے محبت ہے …تو پھر میری سفارش کی ضرورت نہیں …ہاں بٹ ایک بات یاد رکھنا کوئی ایسی حرکت مت کربیٹھنا کہ میری اور خود کی نظروں میں گرجاؤ “

Chapters / Baab of Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط