”بات کیسے کروں یہی تو سمجھ نہیں آرہا “ڈاکٹر بٹ پریشانی سے بولا۔ بلال اسے دیکھ کر دل ہی دل میں مسکرایا، کیا یہ وہی محسن رضا بٹ ہے جو شرط لگا کر راہ چلتی لڑکیوں سے بات کرلیتا تھا اور ہمیشہ شرط بھی جیت جاتا تھا۔ جس لڑکی پر تعریف کا منتر پڑھ کر پھونک مار دیتا وہ اس کی ہوجاتی اس کی بے چینی ایک سو لہ سال کے اناڑی عاشق جیسی تھی جس کی بھوک پیاس ختم ہوجائے۔
(یہ تو واقعی بدل گیا ہے) بلال کے دل نے اسے بتایا ذہن نے دل کی بات پر تصدیق کی مہر لگادی اور آنکھوں نے دیکھ لیا سامنے بیٹھے ڈاکٹر محسن رضا بٹ کو۔
”کیا تم واقعی سیریس ہو “بلال کے جملے سے ڈاکٹر بٹ چونک گیا اور سر کو اثبات میں ہلادیا، بولا کچھ نہیں۔
”اچھا…ایسا کرو اس کا نمبر لے لو مجھ سے …اسے کھانے پر انوائیٹ کرو…اور Propose کردواگر اس نے تمہارا پروپوزل ایکسپٹ کرلیا تو میں ماموں سے بات کروں گا“بلال نے مشورہ دیا۔
(جاری ہے)
”اور وہ کیسے ری ایکٹ کرے گی؟ “ڈاکٹر بٹ نے بلال سے پوچھا۔
”کچھ نہیں کہے گی …تمہاری بات سن کر خاموش ہوجائے گی …اور شرم سے نظریں جھکائے گی…اور اپنے بال کان کے پیچھے کرتے ہوئے بولے گی میں سوچ کر بتاؤں گی جانے سے پہلے وہ گردن جھکا کر ہلکا سا مسکرائے گی …یاد رکھنا یہ ساری باتیں کھانے کے بعد کرنا “
”اگر اس نے میرا پروپوزل ریجیکٹ کردیا“ڈاکٹر بٹ بھولے پہلوان کی طرح بولا۔
”اگر تمہارے جذبوں میں سچائی ہوئی تو وہ انکار نہیں کرے گی “اتنے میں آفس بوائے آتا ہے ”سر وہ پولیو کے قطرے پلانے والے آئے ہیں اور ایک لڑکی بھی آپ سے ملنا چاہتی ہے “
”پولیو ٹیم کو پہلے چائے پلاؤ اور بسکٹ وغیرہ ضرور رکھنا اس لڑکی کا نام پوچھا۔ “
”سروہ…عظمی افگن بتایا انہوں نے “
”عظمی یہاں…بھیج دو ان کو “بلال حیرت سے بولا۔
”السلام علیکم …“عظمی آفس میں داخل ہوئی بلال صوفے سے اٹھ گیا اور اسے دیکھ کر ڈاکٹر بٹ بھی اٹھ گیا بلال نے مسکرا کر استقبال کیا اور جواب دیا
”یہ میرے دوست ڈاکٹر محسن رضا بٹ ہیں اور آپ ڈاکٹر عظمی افگن نیازی ہیں “بلال نے تعارف کرایا ڈاکٹر بٹ نے جانے کی اجازت مانگی۔
”بلال صاحب میں چلتا ہوں “ڈاکٹر بٹ بولا۔
”وہ نمبر تو لے لو“بلال نے ڈاکٹر بٹ کو توشی کا موبائیل نمبر لکھ کردیا۔
بلال اپنی آفس ٹیبل پر بیٹھا تھا اس نے آفس بوائے کو بلانے کے لیے بیل دی
”ارے آپ…بیٹھیں کھڑی کیوں ہیں“بلال صوفے کی طرف بڑھا، ڈاکٹر بٹ جاچکا تھا۔
”جی سر…“آفس بوائے بولا۔
”پولیو ٹیم کو چائے دی دی “بلال نے پوچھا۔
”سر…چائے بن رہی ہے “”اچھا ایسا کرو ایک چائے اور فروٹ کیک میڈم کے لیے بھی لاؤ “
”ایک چائے کیوں اور آپ کو کس نے بتایا مجھے فروٹ کیک پسند ہے “عظمی نے سوال پوچھا۔
”میرا روزہ ہے ایک چائے اس لیے “بلال نے بتایا۔
”اور وہ فروٹ کیک والی بات“عظمی نے بات چھوڑی نہیں۔
”آپ کو چائے کے ساتھ فروٹ کیک بہت پسند ہے کچنار اور قیمہ شوق سے کھاتی ہیں احمد فراز کی شاعری، قدرت اللہ شہاب کی تحریریں، جاوید چوہدری کے کالم، حسینہ معین کے ڈرامے، ٹینا ثانی کو سنتی ہیں،Blackاور Pinkآپ کے پسندیدہ کلر ہیں انگور بڑے شوق سے کھاتی ہیں “بلال نے عظمی کی ساری جنم کنڈلی بیان کردی اسے احساس تھا کہ کل اس نے عظمی سے اچھی طرح بات نہیں کی تھی شاید اسی لیے اسے مسکا لگارہا ہو، عظمی منہ کھولے حیرت میں مبتلا تھی آفس بوائے سینٹر ٹیبل پر چائے اور کیک رکھ رہا تھا، تب جاکے وہ حیرت کی دنیا سے واپس لوٹی بلال اس کے سامنے ٹیبل کی دوسری طرف صوفے پر بیٹھا ہوا تھا۔
”روزہ کیوں رکھا آج“چائے کا سپ لیتے ہوئے عظمی بولی۔
”جمعہ اور پیر کا روزہ رکھنا سنت ہے “بلا ل نے جواب دیا۔
”اسکول اور آفس تو بڑا شاندار ہے کیا اسکول اپنا ہے “عظمی نے پوچھا کیک کھاتے ہوئے
”بلڈنگ کرائے پر ہے، سیٹ اپ اپنا ہے “بلال نے جواب دیا”سامنے سڑک کی دوسری طرف کنال کے پلاٹ کا بیعانہ دیا ہے پندرہ بیس دن بعد ٹرانسفر ہوجائے گا “
”کتنے کا پلاٹ خریدا“عظمی نے پوچھا۔
”تین کروڑ پچیس لاکھ کا “بلال آرام سے بولا۔ عظمی نے بڑی مشکل سے چائے کا گھونٹ حلق سے نیچے اتارا (باپ نے خوب مال چھوڑا ہوگا )عظمی نے دل میں کہا(یا پھر بڑا ڈاکو ہے تبھی تو اتنا سب کچھ ہے تعلیم کے نام پر ڈاکہ ڈال رہا ہے )
”آپ کے والد صاحب بڑے بزنس مین ہیں“عظمی نے بات آگے بڑھائی
”نہیں ان کا انتقال ہوچکا ہے “بلال نے بتایا۔
”لگتا ہے کافی جائیداد چھوڑ کر گئے تھے آپ کے لیے …“عظمی پھر سے بولی
”نہیں وہ تو سفید پوش آدمی تھے یہ میری خود کی سیونگ تھی “بلال نے بتایا
”میں دو سال سے سیونگ کر رہی ہوں نو دس لاکھ ہی بچا پائی ہوں سوچ رہی ہوں میں بھی یہ بزنس شروع کرلوں جاب چھوڑ کر “عظمی نے مسکرا کر کہا۔
”بلال آپ ایک بات بتائیں گے سچ سچ؟ “بلال نے ہاں میں گردن ہلادی
”میرے بارے میں اتنا سب کچھ آپ کو کس نے بتایا ہے “
”آپ نے خود“بلال نے جواب دیا۔
”مگر میں نے تو کبھی کوئی بات نہیں کی آپ سے “
”دیکھیں میں اور آپ تقریباً دو سال سے مل رہے ہیں، ہر سنڈے۔ آج ہماری 100ویں ملاقات ہے آپ نے میرے ساتھ جب بھی چائے پی فروٹ کیک ضرور آرڈر کیا ریسٹورنٹ میں ہم چار بار گئے آپ نے کچنار کا ہر بار پوچھا وہ الگ بات ہے ہم کھا، ایک دفعہ بھی نہیں سکے، دو دفعہ آپ کی گاڑی میں بیٹھا آپ نے ٹینا ثانی کو ہی سنا، کپڑے آپ ہمیشہ Pink اور Balck پہنتی ہیں ان دو سالوں میں آپ نے چار شعر سنائے چاروں احمد فراز کے تھے آپ نے جتنے ڈراموں کا ذکر کیا مجھ سے وہ سارے حسینہ معین کے لکھے ہوئے تھے ۔
میں نے ہمیشہ آپ کو انگور کھاتے دیکھا ویری سمپل “
”کیا آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں “عظمی نے پوچھا آناً فاناً
”میں سب سے محبت کرتا ہوں بشمول آپ کے “بلال نے جوں کا توں جواب دے دیا ۔ انٹر کام پر بیل ہوتی ہے بلال اٹھ کر ریسیو کرتا ہے
”ٹھیک ہے آپ اندر آؤ“بلال نے انٹر کام پر کہا ۔ تھوڑی دیر بعد ایک لڑکا اندر آیا
”جی سر“سامنے کھڑے لڑکے نے کہا۔
”رشید ایسا کرو یہ پیسے لو سارے سٹاف کے لیے کھانا لاؤ اور پولیو ٹیم والوں کو کھانا ضرور کھلانا “بلال نے 20ہزار روپے دیے وہ لڑکا چلا گیا۔
”بلال میں آپ کو سمجھ نہیں پائی “عظمی پھر سے بولی”سارے سٹاف کو کھانا اور پولیو ٹیم والوں پر بڑے مہربان ہیں کوئی خاص وجہ “
”پولیو والے تو غریب لوگ ہیں میں نے اکثر دیکھا ہے لوگ ٹھیک طرح سے ان سے بات بھی نہیں کرتے حد تو یہ ہے کتنے لوگ مارے جاچکے ہیں پولیو کے قطرے پلانے والے ……
سٹاف کو کھانا اس لیے کہ آج میری امی کی سالگرہ ہے “
”دو دسمبر کو آج تو میری بھی سالگرہ ہے “عظمی فوراً بول پڑی ۔
”مجھے معلوم ہے پچھلے سال آپ شہر سے باہر تھیں تب آ پ سے دوستی نہیں تھی اس لیے آپ کو وش نہیں کیا۔ “
”This Time please accept my congratulations “
”اور یہ آپ کا گفٹ“بلال نے ایک پارسل عظمی کو پیش کیا۔
”جتنی میں کل ہرٹ ہوئی تھی اس سے کہیں زیادہ آج خو ش ہوں…شکریہ بلال “عظمی نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا ”ویسے آپ کی برتھ ڈے کب ہے“
”29فروری کو“بلال نے بتایا ۔
”سال کونسا تھا “عظمی نے پوچھا ۔
”29فروری 1988کو میں پیدا ہوا تھا“بلال نے تفصیل بتائی۔
”آپ بہت اچھی ہیں میں امید کرتا ہوں آ پ مجھے غلط نہیں سمجھیں گی۔ عظمی جی میں نے ہمیشہ آپ کو ایک دوست کی طرح دیکھا ہے آج کے علاوہ میں نے کبھی آپ سے کوئی بات نہیں کی ہمیشہ آپ کو سنا ہے دو چار دفعہ آپ کے ساتھ کھانا کھالیا آپ کی خواہش پر، میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا تھا میری منگنی ہوچکی ہے وہ بھی بچپن سے ، رہا محبت کا سوال، میرے نزدیک محبت فرض ہے آپ نے پوچھا تھا کیا مجھے آپ سے محبت ہے بالکل ہے جیسے ایک دوست کو دوسرے دوست سے ہونی چاہیے “
عظمی غور سے بلال کو دیکھ رہی تھی خلاف توقع اس نے بلال کی کسی بات کو محسوس نہیں کیا اور نہ ہی خائف ہوئی تھی یہ ساری باتیں تو وہ پہلے سے جانتی تھی بلال کے منہ سے سن کر اسے اچھا لگا نہ کہ برا بلکہ وہ اور مرمٹی بلال پر پہلے سے زیادہ کہیں زیادہ۔
###