بلال اسکول جانے کے لیے نکلا، وہ اپنی نانی کے کمرے سے آرہا تھا۔ لان کے پاس نوشی پہلے ہی سے اُس کے انتظار میں کھڑی تھی۔
نوشی کے چہرے پر شرماہٹ زیادہ تھی یا مسکراہٹ یہ اندازہ لگانا مشکل تھا۔
”کیا اپ نے مجھے معاف کردیا ؟“ وہ پھولوں کے پاس کھڑی بولی بلال نے گردن کو اثبات میں ہلادیا۔
”آج رات کو ڈنر پر چلیں۔ صرف میں اور آپ“ وہ پھول کی پتیاں توڑتے ہوئے بولی جو اُس کے ہاتھ میں تھا۔
بلال نے اُس کے ہاتھوں کو دیکھا۔
”ٹھیک ہے …کتنے بجے…“ بلال نے حامی بھرلی۔
”ٹائم اور ریسٹورینٹ کا نام میں آپ کو ٹیکسٹ کردوں گی“
نوشی نے پنجوں پر اُچھل کر کہا، بلال وہاں سے اپنی گاڑی کی طرف چل دیا وہ اپنی گاڑی میں گیا تو نوشی پھر سے آٹپکی ”ایک کام تھا آپ سے“ نوشی سائیڈ مرر پر ہاتھ رکھ کر بولی۔
(جاری ہے)
بلال نے آنکھوں سے سوال کیا ”وہ ایک لڑکی ہے نوین اُسے توشی نے بھی بھیجا تھا آپ کے پاس پلیز اُسے میری خاطر رکھ لیں میں نے وعدہ کیا ہے اُس سے“
”نوشی جی آپ بھیج دو اُسے میں رکھ لوں گا“ بلال سنجیدگی سے بولا۔
توشی ٹیرس پر کھڑی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ اس کے بعد توشی Dj کے کمرے میں گئی، اُس سے پوچھا توشی اور ڈاکٹر کس ریسٹورینٹ میں گئے تھے، اُس نے ساری معلومات لے کر بلال کو ٹیکسٹ کردیا تھا۔جب نوشی دادی کے کمرے میں گئی تو وہاں پہلے ہی سے توشی موجود تھی۔
”تم بہن نہیں ڈائن ہو“ نوشی نے توشی کو دیکھتے ہی کہہ دیا ”دادو آپ کو معلوم ہے یہ بلال کو کہتی ہے مجھ سے شادی نہ کرے۔
“توشی خاموش رہی یہ بات سن کر دادی کو تشویش لاحق ہوئی۔
دادی نے توشی کی طرف دیکھا جو گردن جھکائے خاموش بیٹھی تھی۔
”کیوں توشی…یہ کیا کہہ رہی ہے“ دادی نے توشی کا موٴقف طلب کیا۔
”یہ کیوں بولے گی …اِس کی تو خود نظر تھی بلال پر اُس نے انکار کردیا تو اِس نے میرے خلاف اُس کے کان بھرنے شروع کردیئے“ نوشی طنزیہ لہجے میں بولی۔
”اپنی بکواس بند کرو …تمہیں شرم آنی چاہیے ایسی باتیں کرتے ہوئے …میں بہن ہوں تمہاری ۔۔۔ “ توشی نے غصے سے جواب دیا۔
”تم بہن نہیں ہو میری …ڈائن ہو ڈائن “ نوشی چیخ کر بولی۔
”بیٹا ایسا کیا ہوگیا ہے …تم دونوں میں …جو اتنا غصہ کررہی ہو…“دادی پریشانی سے بولی۔
”داداو میں بتاتی ہوں آج سب کچھ بتاوٴں گی“ توشی زخمی آواز سے سرخ آنکھوں کے ساتھ بولی۔
”بچپن سے لے کر آج تک ماما، بھائی اور میری اِس بہن نے بلال کے ساتھ زیادتی کی اُسے ہرٹ کیا ہر جگہ ہر موقعے پر تمہیں معلوم ہے نسیم جمال وہ سینڈوچ کیوں کھاتا ہے، اور ہمارے گھر کا کھانا کیوں نہیں کھاتا اس لیے ایک دفعہ وہ فش کھا رہا تھا تو ماما نے اُس کے آگے سے فش اُٹھالی تھی۔ اور ماما کے الفاظ مجھے آج تک یاد ہیں“ توشی نے اپنے آنسو صاف کیے۔
”یہ تمہارے باپ کے پیسوں سے نہیں بنی جو اسے کھارہے ہو۔ غفوراں اِسے سینڈوچ وغیرہ دے دیا کرو یا پھر بچا ہوا کھانا۔ ماما نے یہ BG سے کہا…
تم نے اور بھائی نے کیا کم کیا تھا، خود روپے اُس کے بیگ میں ڈالے اور ماما کو بتاکر اُس پر چوری کا الزام لگادیا …
دادو اور پاپا نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی……
پاپا نے آج تک اُسے اُس کا حق نہیں دیا، پھوپھو کا دیا ہوا قرض جو واپس نہیں کیا……
ماما اور ہم سب مل کر ظلم کرتے رہے اور وہ سہتا رہا……
اور دادو آپ نے ہمیشہ اُسے اپنی محبت کے نام پر بلیک میل کیا۔
اُس نے جب بھی اجازت مانگی اِس گھر سے جانے کی دادو نے اپنی محبت کا واسطہ دے کر روک دیا……
یہ جو محبت کی مسیحا بنی بیٹھی ہو نسیم جمال، اصل میں تم نفرت کی دیوی ہو۔“توشی مسلسل بول رہی تھی۔دادی اور نوشی چپ چاپ سب سُن رہیں تھیں۔
”دادو آپ میں اور ماما میں کوئی خاص فرق نہیں ہے …اگر ماما نے نوشی کو نفرت کے پنجرے میں قید کیا ہوا ہے …تو آپ نے بھی بلال کو محبت کے پنجرے میں قید کر رکھا ہے۔
اور اُس محبت کے قیدی کی خوراک نفرت، الزام تراشی، طنزیہ جملے، بہتان ہے۔“
کمرے میں بالکل خاموش تھی توشی پھر گھائل آواز کے ساتھ بول پڑی اپنے آنسو صاف کرتی ہوئی
”میں نے ایک دفعہ اُس سے کہا اپنی محبت کو مانگ لو اللہ سے، تو اُس نے جواب دیا شرم آتی ہے ۔ سچ کہا تھا، بلال نے ایسی محبت کو مانگتے ہوئے واقعی شرم آنی چاہیے۔ “ توشی نے نوشی کی طرف حقارت سے شہادت کی انگلی اٹھائی تھی۔
”رہا میرا سوال میری جگہ کوئی بھی دل رکھنے والی ہوتی تو وہ بلال پر مرمٹتی جان دے دیتی اُس پر۔ بلال کہتا ہے محبت مانگتے نہیں ہیں محبت دیتے ہیں، میں بھی اُسے بے شمار محبت دینا چاہتی تھی، اس لیے کہ وہ سارے غم بھول جائے۔ نسیم جمال میری بہن میں نے اپنی دعاوٴں میں اُسے مانگا ہے تمہارے لیے ۔۔۔ صرف تمہارے لیے ۔۔۔ اپنے لیے نہیں ۔۔۔
کبھی نہیں ۔۔۔ “
توشی اپنے آنسو صاف کرتی ہوئی کمرے سے چلی گئی، دادی اور نوشی گم سم وہیں بیٹھی رہیں نہ جانے کتنی دیر تک۔
###
”یہ سارا کھیل مانگنے اور دینے کا ہے۔ جس سے مانگنا چاہیے اُس سے مانگتے نہیں اور جن کو دینا چاہیے اُن کو دیتے نہیں۔ اگر بندے کو مانگنے کا طریقہ آجائے اور دینے کا سلیقہ آجائے تو بندے کی بہت ساری پریشانیاں ختم ہوجائیں۔
۔۔ وہ کہتا ہے مدد مانگنی ہے تو مجھ سے مانگو۔ اللہ تبارک تعالیٰ مانگنے والے سے خوش ہوتا ہے کیونکہ دینے کے قابل وہی ایک ذات ہے باقی کوئی نہیں ہے“
”بابا جی ۔۔۔ اگر ایک انسان کسی دوسرے انسان کو دیتا ہے۔ روپیہ، کپڑے، کھانا وغیرہ وہ بھی تو مدد ہی ہے“ عادل عقیل نے اپنا نقطہ نظر بیان کیا، بلال خاموشی سے سن رہا تھا۔
”دیکھو ہاشمی صاحب ایک حق ہے اور دوسرا فرض ہے اگر آپ اپنے بوڑھے ماں باپ کو روپیہ، کپڑے اور کھانا دیتے ہیں تو یہ آپ کا فرض ہے اور اُن کا حق ہے اگر بچے چھوٹے ہیں تو یہی کام والدین کریں تو والدین کا فرض اور بچوں کا حق ہے ۔
۔۔
اِسی طرح اللہ نے جو مال آپ کو عطا کیا ہے، اُس کے اوپر زکوٰة فرض ہے، اگر آپ کسی مستحق کو زکوٰة ادا کرتے ہیں تو یہ آپ کا فرض ہے جس کو آپ نے ادا کیا اُس کا حق ہے…آپ نے اپنا فرض ادا کیا ہے، اُس کی مدد نہیں کی مدد صرف اللہ تبارک تعالیٰ کرتا ہے“ بابا جمعہ نے بات سمجھانے کی کوشش کی۔
”اگر کوئی شخص زکوٰة سے زیادہ رقم ادا کردے تو پھر تو مدد کہلائے گی… نا … “
عادل عقیل ہاشمی نے اپنی طرف سے مضبوط دلیل رکھی
”عادل صاحب پھر وہ ایثار ہوگا، سخاوت ہوگی، وہ بندہ غنی کہلائے گا … دیکھو بیٹا ہم فرض اور حق کے درمیان ہیں اور اللہ تبارک تعالیٰ کے اوپر کچھ فرض نہیں اور کسی کا کوئی حق نہیں اُس کی ذات پر کہ وہ اُس سے اپنا حق مانگے … جب وہ اپنے بندے کو عطا کرتا ہے تو وہ مدد ہوتی ہے، اُس پر فرض نہیں ہے
مانگنا ہے تو صرف اپنے رب سے مانگو۔
جھکنا ہے تو اُس کے آگے جھکو …
حضرت اقبال نے کیا خوب ارشاد فرمایا ہے
جو اِک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
حضرت علامہ اقبال جیسے لوگ بھی صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں“بابا جمعہ نے اپنی بات ختم کی۔ عادل کی بے قراری اب بھی موجود تھی اِس سے پہلے وہ کوئی اور سوال پوچھتا بلال نے بابا جمعہ سے جانے کی اجازت مانگ لی۔
”بابا جی مجھے اجازت دیں ۔۔۔ ایک دوست کی طرف چائے پر جانا ہے …“
”ٹھیک ہے بیٹا…جاوٴ…اللہ تمہیں اپنی امان میں رکھے “ بابا جمعہ نے دُعا کے ساتھ رخصت کیا بلال وہاں سے چلا گیا عادل کے سوال ابھی باقی تھے۔
”بابا جی یہ جوتا مرمت کرنا ہے“ ایک عورت نے کہا ”کتنے پیسے لیں گے“
”بیٹی جتنے تم آسانی سے دے سکو دے دینا اگر نہیں ہیں تو کوئی بات نہیں“
بابا جمعہ نے جوتا پکڑا اور مرمت شروع کردی
عادل عقیل کسی نئے سوال کی تلاش میں تھا۔
###