Episode 48 - Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 48 - بلال صاحب - شکیل احمد چوہان

”کیا ہے تمہارا…پلان …“ولید ہاشمی بیڈ پر سیدھا لیٹا ہوا پوچھ رہا تھا۔
”وہ وقت آنے پر بتاوٴں گی“ اِرم واسطی کہنی کے بل اُس کے پہلو میں لیٹی ہوئی تھی اور اپنے گلے میں پڑی سونے کی چین کو ہونٹوں میں لیے کسی گہری سوچ میں تھی۔ ولید نے اُسے یہ کرتے ہوئے دیکھا تو بولا۔
”سونا تمہاری بہت بڑی کمزوری ہے…“
”نہیں ہیرا ہے …وہ ہیرا ہے…‘ وہ کھوئی ہوئی بولی بہت دور سے۔
”تم کس کی بات کررہی ہو“ ولید خفگی سے بولا۔
”بلال کی …بالکل زیرومیٹر گاڑی کی طرح صاف ستھرا اندر باہر سے “ارم واسطی ولید کو دیکھ کر بولی۔
”میرے لیے ڈوب مرنے کی بات ہے …میرے ساتھ…میرے بستر پر تم کسی اور مرد کے بارے میں سوچو …“ ولید نے تیور دکھائے۔
”شٹ اپ …ولید“ ارم پیار سے بولی ولید کے ہاتھ کو چومتے ہوئے۔

(جاری ہے)

”تعریف بھی کی ۔ رقیب کی تو…شوروم کی سیلز گرل کی طرح …“ ولید نے کہا۔
”سچ کہہ رہی ہوں ۔۔۔ایسا مرد لاکھوں میں ایک ہوتا ہے…جو اپنی حیا کی گاڑی بچا کر رکھتا ہے …شادی والے دن اپنے محبوب کو ساتھ والی سیٹ پر بٹھاتا ہے۔ پھر اُس زیرومیٹر گاڑی کو زندگی کے نئے سفر پر لے جاتا ہے… “
وہ اٹھ کر بیٹھ گئی ”تم شرط لگالو میرے ساتھ اِس بندے نے زندگی میں، اُس نظر سے کسی لڑکی کو چھوا تک نہیں …دو چار بار ملاقات ہوئی ہے میری …بوتیک میں مجھ جیسی کو اُس نے عزت کی نگاہ سے دیکھا …ورنہ مرد کی نظر تو آنکھوں ہی سے چھلنی چھلنی کردیتی ہے“ وہ ایک تجربہ کار عورت کی طرح تجزیہ پیش کررہی تھی۔
 
”اِسی لیے تم نے …یہ ماسٹر پلان بنایا ہے“ ولید نے طنز سے کہا۔
”کمہار کے ہاتھ لال لگ جائے تو وہ گدھے کے گلے میں ڈال دیتا ہے…ہیرے کی قدر جوہری کو ہوتی ہے …وہ اِس کے قابل ہی نہیں ہے …میری باس……“
”تو پھر تمہارا ہیرا تو بے وقوف ہوا ناں“ ولید اٹھ کر بیٹھ گیا۔
”محبت کرنے والے بے وقوف نہیں ہوتے جو اُس محبت کی قدر نہ کرے وہ بے وقوف ہوتا ہے “اِرم اپنے ماضی کو یاد کرکے بولی۔
 
###
”لڑکا ذہین بھی ہے …اور شریف بھی …مجھے پسند آیا“ پروفیسر زمان بولے ناشتہ کرتے ہوئے ڈائننگ ٹیبل پر اُن کے ساتھ ہاجرہ اور عظمی بھی تھیں۔
ہاجرہ نیازی ہکا بکا رہ گئیں یہ سُن کر ”شکر ہے خدا کا آپ بھی کسی کے معترف ہوئے بشمول میرے آپ کے معیار پر کون پورا اُتر سکا ہے آج تک“
”معترف نہیں ہوا ہوں …بس ٹھیک ہے“ پروفیسر زمان چائے کا سپ لیتے ہوئے بولے۔
”بیگم آپ بات چلاوٴ …‘ پروفیسر زمان کو نہیں پتہ تھا کہ بلال کی منگنی ہوچکی ہے ہاجرہ اور عظمی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ 
”اچھا بھئی میں چلتا ہوں …اللہ حافظ … “پروفیسر زمان وہاں سے چلے گئے کالج کے لیے۔
”عظمی غلطی کی تمہارے انکل کو بتا کر اب یہ بات نہیں چھوڑیں گے… “
ہاجرہ کو فکر لاحق ہوگئی۔
”آنی فکر نہ کریں …میں بات گول کردوں گی “ عظمی نے تسلی دی۔
”پھر اُس کے بعد … “ ہاجرہ کو دوسری پریشانی لاحق ہوئی۔
”اُس کے بعد میری شادی بلال کے ساتھ … “ عظمی نے مسکرا کر کہا۔
”آج تم مجھے ڈاکٹر نہیں لگی … تمہاری منطق میری سمجھ سے باہر ہے …“ ہاجرہ نے سنجیدگی سے کہا۔
”محبت میں ڈاکٹر بھی مریض بن جاتا ہے … اور مریض کو صرف شفا سے غرض ہوتی ہے دوا یا دُعا سے نہیں … آپ صرف دُعا کریں دوا دارو میں خود کرلوں گی“ عظمی پراعتماد لہجے کے ساتھ بولی۔
”تم واقعی بدل گئی ہو … دو سال پہلے والی عظمی تو نہیں ہو … بس بیٹی ایک بات کا خیال رکھنا کسی کی محبت چھین کر محبت نہیں ملتی… محبت تو ٹھیک ہے اِسے روگ مت بنالینا… “ ہاجرہ نے سمجھایا شفقت سے ہاجرہ کو عظمی کی بلال میں دلچسپی بُری نہیں لگی تھی ، وہ اِس لیے جب سے بلال اُس کی زندگی میں آیا تھا وہ خوش رہتی، باتیں کرتی، زندگی سے اُسے پیار ہوگیا تھا۔
 
اِس کے ساتھ ساتھ ایک ڈر بھی تھا کہ بلال اگر اُسے نہ ملا تو پھر کیا ہوگا۔
###
اعجاز جنجوعہ اپنے مخصوص انداز میں دائیں ہاتھ میں چائے کا کپ اور بائیں ہاتھ سے اپنی مونچھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف پریس کررہے تھے اور نظریں ٹیبل پر پڑے ہوئے اخبار پر جمی ہوئیں تھیں جب طارق رامے اپنے آفس میں داخل ہوتا ہے۔
”او ہو … جنجوعہ یار اتنے دن لگادیئے“ طارق رامے اعجاز جنجوعہ کو گلے لگاتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”بس وہ …باجی کی بیٹی کی شادی تھی پھر پنڈی میں اتنی ساری رشتے داری دن تو لگ جاتے ہیں۔ “
”یار تو نہیں تھا …تو بوریت ہوگئی تھی…پچھلے ہفتے تیرے بغیر میں اور بلال بھی کہیں نہیں گئے … مجھے تو بلال اُس دن سے نظر ہی نہیں آیا …جب یہ خراب ہوئی تھی“ رامے نے جنجوعہ کی گاڑی کی طرف اشارہ کیا۔ 
جو دفتر کے سامنے کھڑی تھی ”ویسے تو گاڑی بدلتا کیوں نہیں …بھابھی کے پاس نئی گاڑی اور تیرے پاس یہ فراری“ رامے نے فراری ایسے کہا جیسے گاڑی کو گالی دے رہا ہو۔
”بحریہ ٹاوٴن والے مکان کا کوئی گاہک تلاش کر ایک دو دن میں تیار ہوجائے گا۔“ اعجاز جنجوعہ نے طارق رامے کو کہا ”مکان سیل ہوتا ہے تو گاڑی بھی بدلتا ہوں رامے جب میرے پاس کچھ نہیں تھا، تب یہ گاڑی خریدی تھی، بڑی برکت والی ہے یہ فراری“ اعجاز جنجوعہ نے اپنی گاڑی کی طرف دیکھ کر کہا ”بیچنے کو دل نہیں کرتا ……“
”ویسے مجھے ایک بات تو بتا ……بلال کے پاس بھی تو پرانے ماڈل کی گاڑی ہے اُس کا تو مذاق نہیں اُڑاتا“ اعجاز جنجوعہ نے طارق رامے سے گلہ کیا۔
”ناں ……وئی ……ناں ……وہ بندہ وکھری ٹائپ کا ہے ……اُسے مذاق کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے……“ طارق رامے نے کہا ”تو نے کبھی اُس کے ساتھ مذاق والی بات کی ہے جو مجھے مشورہ دے رہا ہے “ اعجاز جنجوعہ طارق رامے کی بات سن کر مسکرایا۔
”رامے بات تو تیری ٹھیک ہے۔ میرے اندر بھی کبھی ہمت نہیں ہوئی کہ اُس سے مذاق کروں……وہ واقعی مختلف ، سفید و خوبصورت، ٹھنڈا بالکل تاج محل کی طرح ایک عجوبہ“ اعجاز جنجوعہ کے اندر سے اعجاز ٹھیکیدار بول رہا تھا۔
”کل میں نے اُسے ماڈل ٹاوٴن کے قبرستان کے اندر جاتے ہوئے دیکھا تھا ……“
”ماں باپ کی قبر پر گیا ہوگا“ طارق رامے نے اندازہ لگایا۔
”اس کی ماں کی قبر تو ڈیفنس کے S بلاک والے قبرستان میں ہے……تجھے یاد ہے…… وہ قبرستان کے سامنے والا مکان“ جنجوعہ نے رامے کو کچھ یاد کرایا۔
”ہاں ……وئی ……جنجوعہ تیرے اُس مکان نے تو ذلیل کروادیا تھا، کوئی گاہک لینے کو تیار نہیں تھا ……جسے دکھاوٴ ……قبرستان کے سامنے …… کہہ کر گیا اور واپس نہیں آیا۔
طارق رامے حیرت سے بولا ”جنجوعہ صاحب مجھے دس سال ہوگئے پراپرٹی کا کام کرتے ہوئے ایک بات کی سمجھ نہیں آئی۔ مسجد اور قبرستان کے پاس پلاٹ بھی سستا ملتا ہے اور مکان بھی گاہک لینے سے پھر بھی کتراتے ہیں…… لوگوں کو قبرستان سے اتنا ڈر کیوں لگتا ہے“
طارق رامے نے کہا ”بلال تو روز صبح اپنی ماں کی قبر پر جاتا ہے …… جب وہ مکان بن رہا تھا کئی بار تو میں نے خود دیکھا میرے چوکیدار نے بھی بتایا تھا کہ جنجوعہ صاحب آٹھ ماہ سے میں ہر روز اسے دیکھ رہا ہوں، قبرستان میں آتے ہوئے دُعا کرتا ہے، اور چلا جاتا ہے“
اعجاز جنجوعہ طارق رامے کو بتارہا تھا۔
”تم بھی کبھی دُعا کرنے گئے ہو……اپنے ماں باپ کی قبروں پر……“ طارق رامے نے پوچھا
”ہر سال محرم کے مہینے میں جاتا ہوں۔ 22 سال ہوگئے ہیں اُن کی وفات کو……“
”کہاں دفن ہیں؟…… ڈیفنس میں……“ طارق رامے نے سوال کے ساتھ خیال ظاہر کیا
”نہیں …… نہیں…… شاہدرہ میں بوٹاپارک کے قبرستان کے اندر پہلے دس سال تک میں ابا کی قبر پر مٹی ڈالتا رہا ہوں اب ضرورت ہی نہیں پڑتی……“
”کیوں ……قبر پکی کروادی ہے……“ طارق رامے نے کہا۔
”نہیں تو ……“ اعجاز جنجوعہ کے پیلے دانت نکلے جن کی رنگت قدرتی طور پر پیلی تھی۔
”دس سال بعد ایک اور آدمی نے مٹی ڈالنا شروع کردی دو سال پہلے ایک تیسرا بندہ بھی شروع ہوگیا ہے“
”کیا مطلب ……؟“ طارق رامے کو تجسس ہوا۔
”اِس محرم میں دعا کے لیے گیا تو ایک آدمی پہلے ہی سے اباجی کی قبر پر دُعا مانگ رہا تھا۔ قبر پر مٹی بھی اُسی نے ڈالی تھی۔
وہ چلا گیا تو میں نے بند آنکھوں سے دُعا شروع کی جب آنکھیں کھولیں تو میرے پیچھے ایک لڑکا کھڑا تھا ……وہ کہنے لگا ابا جی سچ کہتے تھے تم لوگ میری قبر پر نہ بھی آئے تو میرے شاگرد ضرور مجھے اپنی دعاوٴں میں یاد رکھیں گے۔ وہ ہیڈماسٹر شریف کا بیٹا تھا۔ جس نے مٹی ڈالی وہ مستری عنایت کا بیٹا تھا۔“
طارق رامے ہنسی سے لوٹ پوٹ ہورہا تھا وہ ہنستے ہوئے بولا
”ایک قبر اور ابے تین……جنجوعہ صاحب تیرے اباجی کی مرمت مستری عنایت کردے گا اور سبق ماسٹر شریف پڑھائے گا……“
طارق رامے اور اعجاز جنجوعہ کے اندر والے میراثی جاگ چکے تھے۔
وہ دونوں پاگلوں کی طرح ہنس رہے تھے۔ اچانک طارق رامے کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ یکدم خاموش ہوگیا۔ اعجاز جنجوعہ کی نظر پڑی تو وہ بھی خاموش ہوگیا۔
”کیا ہوا رامے ……خیریت تو ہے……“ اعجاز جنجوعہ نے فکر مندی سے پوچھا۔
”کچھ نہیں جنجوعہ …… اباجی یاد آگئے…… تم تو سال میں ایک مرتبہ اپنے اباجی کی قبر پر چلے جاتے ہو ……میں تو ……وہ بھی ……“طارق رامے کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے۔
وہ بھری ہوئی آواز کے ساتھ بولا
”کتنا نالائق بیٹا ہوں میں ……پانچ سال ہوگئے ……اباجی کی وفات کو …… ماں نے کتنی بار کہا اپنے باپ کی قبر پر فاتحہ پڑھ آوٴ مگر میں ایک بار بھی نہیں گیا ……“
”اب جب بھی دینہ جاوٴ، تو ضرور جانا اُن کی قبر پر اعجاز جنجوعہ نے تاکید کی۔ طارق اب بھی خاموش بیٹھا ہوا تھا۔ اعجاز جنجوعہ نے بات بدلی اُسے خوش کرنے کے لیے۔
”ویسے ایک بات ہے …… ڈیفنس کا قبرستان ٹھیک ہے۔ سب قبروں پر نمبر لگے ہوئے ہیں۔ قبرستان بھی خوبصورت ہے۔ غریبوں کے پارک سے بھی زیادہ اور مزے کی بات ایک قبر میں صرف ایک مردہ ہے۔ ایک قبر اور ابے تین والا معاملہ نہیں ……“
”وہ دونوں پھر ہنس پڑے اور دیر تک ہنستے رہے۔ اُسی دن انہوں نے ہفتے کا پروگرام بنایا۔ رات کو کھانا باہر کھانے کا بلال کو جنجوعہ صاحب نے فون کرکے بتادیا تھا۔“
###

Chapters / Baab of Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط