Episode 51 - Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 51 - بلال صاحب - شکیل احمد چوہان

”بلال صاحب جنجوعہ بات تو ٹھیک کررہا ہے۔ میں بھی لالچ کرکے سنڈے کو بھی دفتر کھلواتا تھا۔ اب میں بھی سنڈے کو چھٹی کرتا ہوں۔ دینہ بھی مہینے میں دو چکر لگاتا ہوں، ماں سے ملنے کے لیے اور ہر روز صبح ماں کو فون کرتا ہوں …… اگر تم مجھے نہ سمجھاتے تو شاید میں ایسا کبھی نہ کرتا اب تمہارے کہنے پر میں نے شادی کی حامی بھی بھرلی ہے“طارق رامے نے بلال کے ملنے کے بعد اپنے اندر رونما ہونے والی تبدیلیوں کا ذکر کیا ”اور بلال صاحب تم ہمارے لیے اپنی مصروفیت نہیں ختم کرسکتے…… “
”کیا بولا تو نے رامے شادی کی حامی بھری ہے“ اعجاز جنجوعہ کے کان کھڑے ہوگئے طارق رامے کی بات سُن کر ”یہ تو ویسا ہی ہے جیسے پرانے مکان کو خرید کر اُس کی مرمت کروا کر اُسے نئے سرے سے رنگ روغن کرکے نیا بناکر بیچا جائے۔

(جاری ہے)

اپنی عمر دیکھ اور اپنی حرکتیں دیکھ چالیس سال کا بڈھا کھوسٹ ہے“ اعجاز جنجوعہ کے پیلے دانت نکلے۔
”جنجوعہ شرم کر تجھ سے چھوٹا ہوں عمر میں میری عمر تو صرف 35 سال ہے اور تو 40 بتا رہا ہے“ طارق رامے نے اپنی صفائی دی۔
”اپنا پیٹ دیکھا ہے تو نے 35 سال والے نوجوان …… “اعجاز جنجوعہ نے طنز کیا۔
بلال اُن دونوں کی جگتوں سے لطف اندوز ہورہا تھا اور خاموش تھا۔
”رامے صاحب بڑی مہربانی آپ نے میری کہی ہوئی باتوں پر عمل کیا۔ ایک گزارش اور مان لیں آپ پلیز ایکسرسائز بھی شروع کردیں۔ اپنے آپ سے بھی محبت کریں، اور اپنی صحت کا بھی خیال رکھیں“ بلال نے طارق رامے کی طرف دیکھ کر ریکوسٹ کی۔
”کل کے پروگرام کی معذرت میں نہیں جاسکوں گا …… “
”ویسے تم ہر سنڈے کرتے کیا ہو…… “ اعجاز جنجوعہ کو تشویش ہوئی۔
”وقت آنے پر بتاوٴں گا۔ مجھے اجازت دیں میں چلتا ہوں…… “بلال یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا ”کیا کرتا ہے یہ ہر اتوار کو جو اِس کے پاس وقت نہیں ہوتا “اعجاز جنجوعہ اپنے چشمے کے اوپر سے بلال کو جاتے ہوئے دیکھ کر بولا۔
”جنجوعہ ایسے مت دیکھ پولیس والوں کی طرح شک کی آنکھ سے …… وہ لڑکا جنتی روح ہے …… کوئی عیب نہیں ہے اُس میں “طارق رامے بولا جنجوعہ کی طرف دیکھ کر۔
”معلوم ہے اسی لیے تو میں یہ چاہتا ہوں کہ میری بڑی سالی کی بیٹی ہے ماہ رخ اُس کے ساتھ بلال کا رشتہ ہوجائے اور تمہاری بھابھی کی بھی بڑی خواہش ہے …… “
”مگر اس کی تومنگنی بچپن سے طے ہے “طارق رامے نے اطلاع دی جنجوعہ کو
”مجھے معلوم ہے …… مگر اس کی منگیتر یہ شادی نہیں کرنا چاہتی“ اعجاز جنجوعہ بولا 
”تمہیں کیسے پتہ ہے اِن سب باتوں کا “ طارق رامے نے پوچھا
”تمہاری بھابھی بتا رہی تھی اُسے فوزیہ نے بتایا اور فوزیہ کو اُس لڑکی کی بہن نے کہا تھا“ اعجاز جنجوعہ نے کڑی کے ساتھ کڑی ملادی۔
”یا تو بلال کی منگیتر اندھی ہے یا پھر پاگل“ طارق رامے نے تبصرہ کیا۔
###
”اندھے اور پاگل ہیں وہ لوگ جو اپنے ملک کے بڑے لوگوں کی عزت نہیں کرتے اور اُن کا مذاق اُڑاتے ہیں“ بابا جمعہ مخاطب تھے عادل عقیل ہاشمی سے، اتوار کی چھٹی کی وجہ سے عادل صبح ہی بابا جمعہ کے پاس آگیا مگر بلال نہیں تھا۔
”بڑوں سے کیا مراد آپ کی …… “ عادل عقیل نے اپنا سوالوں والا فولڈر کھول لیا۔
”بیٹا ہر ملک کے کچھ بڑے لوگ ہوتے ہیں، جو اپنے ملک کے لوگوں کی تربیت کرتے ہیں جیسے علماکرام، دانشور، ادیب، شاعر لکھاری، صحافی، اُستاد، یہ سب لوگ اپنی اپنی جگہ پر درس گاہ کا درجہ رکھتے ہیں“
”لیکن چند دن پہلے تو آپ ایک کالم نویس کی کمائی کو حرام قرار دے رہے تھے“ عادل نے یاد دہانی کرائی بابا جمعہ کو۔
”بیٹا جس طرح جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے، اِس طرح جھوٹ لکھنا بھی گناہِ کبیرہ ہی ہے اور اُس سے حاصل شدہ کمائی بھی حرام ہی ہوگی“
”سچ جھوٹ کا فیصلہ کون کرے گا؟ “ عادل عقیل نے پوچھا۔
”حقیقت کرتی ہے سچ اور جھوٹ کا فیصلہ ابھی صبح کے دس بجے ہیں، یہ حقیقت ہے اورتم رات کے 10 بجے لکھ دو یہ جھوٹ ہے“
”بابا جی آپ کے معیار پر تو پھر کوئی بھی پورا نہیں اُترسکتا سچ اور جھوٹ کے معاملے میں…… “
”بیٹا …… میں کون ہوتا ہوں معیار بنانے والا …… گناہ گار بندہ ہوں ،معیار تو اللہ کے محبوب نے بتایا زندگی کے ہر معاملے میں …… ہرشعبے میں …… صرف ایک جھوٹ چھوڑنے سے بہت سارے گناہ چھوٹ جاتے ہیں“
”میں نے تو اتنا سچا بندہ کبھی نہیں دیکھا …… بابا جی …… جو اِس معیار پر پورا اُترتا ہو…… وہ بھی اِس دور میں“ عادل عقیل نے اپنا نقطہ نظر بیان کیا۔
”شرط معیار پر پورا اُترتا نہیں ہے، شرط کوشش کی ہے اور نیت کی ہے کہ آپ صاف نیت کے ساتھ کتنی کوشش کرتے ہیں سچ بولنے کی اب بلال ہی کو دیکھ لو ہمیشہ سچ بولتا ہے اگر اُسے کچھ نہیں بتانا ہوتا تو کہہ دیتا ہے، میں بتانا نہیں چاہتا اگر جھوٹ بولے تو اللہ سے بھی معافی مانگتا ہے اور اُس کے بندے سے معذرت کرلیتا ہے…… عادل بیٹا معیار 100بٹا 100 نہیں بلکہ پاس اور فیل ہے اور پاس وہی ہوتا ہے جو پاس ہونے کی کوشش کرتا ہے“
”اوئے بابا بوٹ پالش کردے“ ایک موٹا آدمی اپنے کالے بوٹ آگے رکھتے ہوئے بولا۔
بابا جمعہ نے اُس کے بوٹ پکڑے اور پالش شروع کردی۔ عادل عقیل نے اُسے قہر آلود نگاہوں سے دیکھا اور اُسے اُس آدمی کے انداز اور گفتگو کے اسٹائل پر غصہ آرہا تھا مگر وہ خاموش رہا۔ بابا جمعہ نے جوتے پالش کرکے اُس کے سامنے رکھ دیئے۔ اُس موٹے آدمی نے چند روپے بابا جمعہ کے سامنے پھینکے اور وہاں سے چلا گیا۔
”بابا جی آپ بھی کمال کرتے ہیں وہ اتنی بدتمیزی سے بولا اور آپ اتنے اخلاق سے بات کررہے تھے اُس موٹے کالے انجن کے ساتھ“ عادل عقیل نے کہا
”جو عزت نہ دے اُس کی بھی عزت کرو اور جو توڑے اُس کے ساتھ جوڑو، جو تمہیں اسلام نہ کریں اُنہیں لازمی اسلام کرو“ بابا جمعہ نے عادل کو سمجھایا۔
”ویسے آپ کو یہ موچی کا کام کرنے کی کیا ضرورت پڑی ہے۔ اکیلے آدمی ہیں آپ کوئی دوسرا کام کیوں نہیں کرلیتے“ عادل عقیل نے مشورہ دیا دراصل اُسے اُس موٹے آدمی کے رویے کی وجہ سے یہ خیال آیا کیونکہ اُس آدمی نے بڑی بداخلاقی کے ساتھ بابا جمعہ سے بات کی تھی۔ جوکہ عادل کو بُرا لگا تھا۔
”بیٹا میں بھی اپنی جوانی میں تمہارے جیسا ہی تھا۔
چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصے میں آجاتا تھا۔ غصہ عقل کو کھا جاتا ہے اور عقل اپنے علم پر فخر کرتی ہے، اور علم جتنا چاہتا ہے، عمل سے مگر یاد رکھو علم اور عمل ایک مومن کے دو بازو ہیں …… اور مومن تب کامیاب ہوتا ہے جب اُس کے دونوں بازوں سلامت ہوں …… اور اُن میں مقابلہ نہ ہو۔ غرور صرف میرے اللہ کو جچتا ہے…… ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔
دن کی ضد رات۔ خوشی کی ضد غمی۔ کڑوے کی ضد میٹھا۔ سفید کی ضد کالا اور غرور کی ضد عاجزی اور یہی مومن کی شان ہے کہ وہ عاجز رہے …… علم میں بھی عاجزی ہو اور عمل میں بھی عاجزی ہو …… اور یہ موچی کا کام عاجزی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے“
”کیا ہم کو عاجزی حاصل کرنے کے لیے موچی کا کام کرنا پڑے گا …… میرا مطلب ہے مجھے اور بلال کو “ عادل عقیل نے نیا سوال پوچھ لیا۔
بابا جمعہ عادل کی بات سُن کرمسکرائے
”چائے کا فون کردو اقبال کو …… “ بابا جمعہ نے کہا۔
”آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا …… بابا جی …… “عادل عقیل نے فون پر اقبال کا نمبر ملاتے ہوئے کہا ، اور چائے کے لیے اقبال کو کہہ دیا اور بابا جمعہ کی طرف متوجہ ہوگیا۔
”عاجزی ہونی چاہیے مسلمان میں طریقہ کوئی سا بھی ہوسکتا ہے عاجزی پانے کا …… “
بابا جمعہ بولے عادل کی طرف دیکھ کر
”میں کون سا طریقہ اپناوٴں عاجزی حاصل کرنے کا …… “ عادل عقیل نے پوچھا۔
”عادل بیٹا مجھے تو اُس کام پر بابا سلانی نے لگایا تھا۔ اللہ تبارک تعالیٰ اُن کے درجات بلند کرے تم یہ بات بلال سے پوچھنا میں نے اُسے ہمیشہ غرور اور تکبر سے دور دیکھا ہے“
”بلال سے …… “ عادل عقیل کو بابا جمعہ کی بات نے حیرت میں ڈال دیا
”بلال سے …… “ وہ پھر سے بولا بابا جمعہ کی طرف دیکھ کر
”میں سمجھا نہیں آپ کیا کہہ رہے ہیں“ عادل عقیل حیرت سے بولا
”بلال شاعر مشرق حضرت اقبال کا جوان ہے۔
جو آج کے پیروں سے بہت آگے ہے۔ بلکہ اُستاد ہے پیروں کا اور میں تو فقیر ہوں میرا بھی اُستاد ہے بلال …… میں نے اُس بچے سے بہت کچھ سیکھا ہے“
”میری سمجھ سے باہر ہے آپ کی منطق …… آپ بلال کو ولی پیر یا درویش کا درجہ دینا چاہتے ہیں۔“ عادل عقیل کو بابا جمعہ کے نقطہ نظر سے شدید اختلاف تھا۔

Chapters / Baab of Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط