Episode 53 - Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 53 - بلال صاحب - شکیل احمد چوہان

”اچھا یہ ہیں …… وہ …… “ منال نقوی نے عظمی کے چہرے کو غور سے دیکھا۔
”آپ کو کہیں دیکھا ہے …… “ منال نقوی سوچ رہی تھی۔
”منال ہم دونوں کلاس فیلو تھیں کالج میں …… “ عظمی نے منال کی پریشانی دور کی۔
”آپ بیٹھیں کھڑے کیوں ہیں …… “ عظمی نے بیٹھنے کو کہا ،اور چاروں ایک جگہ پر بیٹھ گئے۔
”تم عظمی افگن نیازی ہو …… اومائی گاڈ …… یار تم تو بالکل بدل گئی ہو …… چلو اٹھو گلے لگو …“
منال نقوی اور عظمی افگن گلے ملیں جیسے برسوں بعد ملی ہوں۔
”طلحہ یہ عظمی ہماری کلاس کی سب سے لائق سٹوڈنٹ تھی۔ ہر لڑکی اس سے دوستی کرنا چاہتی تھی۔ میں بھی اُن میں شامل تھی مگر یہ تو کسی سے بھی بات نہیں کرتی تھی۔“ منال نے طلحہ کی طرف دیکھ کر ساری داستان سنائی۔

(جاری ہے)

”اور اکثر لڑکیاں مجھے نفسیاتی مریضہ کہتی تھیں“ عظمی نے یاد دہانی کرائی ”ہاں …… اور میں بھی یہی سمجھتی تھی تمہارے بارے میں مگر تم میں یہ تبدیلی مگر کیسے …… “
عظمی نے مسکرا کر بلال کی طرف دیکھا۔
”یہ کریڈٹ بھی بلال کو ہی جاتا ہے“طلحہ مسکراتے ہوئے بولا ”آپ سے مل کر خوشی ہوئی بلال “
منال نے طلحہ کی بات کاٹ دی اور جلدی سے بولی۔
”ماشا اللہ بہت خوبصورت جوڑی ہے تم دونوں کی …… شادی کب ہے …… “
”بہت جلد …… “عظمی نے جلدی سے کہہ دیا۔ بلال نے عظمی کی طرف دیکھا مگر وہ منال کی طرف دیکھ رہی تھی۔
ان سب نے اکٹھے کھانا کھایا اُس ریسٹورنٹ میں مغرب سے کچھ دیر پہلے بلال عظمی کو ڈراپ کرنے کے لیے ماڈل ٹاوٴن پہنچا تو سارے رستے اُن دونوں میں کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔
گاڑی عظمی کے گھر کے باہر کھڑی تھی۔ اُترنے سے پہلے عظمی بولی
 ”آپ نے میری خواہش پوری کردی …… شکریہ …… “ بلال نے اُس کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھا جیسے آنکھیں کچھ بول رہی ہوں 
”شکریہ میرے ساتھ لنچ کرنے کا …… “ بلال اُس کی طرف مسلسل دیکھ رہا تھا
 ”Sorry …… نہیں کہوں گی …… کیونکہ میں سیریس ہوں اور آپ سے شادی کرنا چاہتی ہوں …… “ بلال صرف دیکھ رہا تھا۔
 ”مجھے سب پتہ ہے نوشی کے بارے میں مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا میں آپ کی دوسری بیوی بن کر رہ لوں گی اب بھی تو آپ ہفتے میں ایک بار مجھے ملتے ہو، شادی کے بعد بھی صرف ایک دن ہفتے میں میرے ساتھ باقی پورا ہفتہ آپ نوشی کے ساتھ گزارلو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا …… بلال جتنی محبت آپ نوشی سے کرتے ہو اُس سے کہیں زیادہ میں آپ سے کرتی ہوں “ 
عظمی افگن جذباتی انداز میں بولی
 ”میں آپ کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہوں۔
میں پورا ہفتہ سنڈے کا انتظار کرتی ہوں آپ سے ملنے کے لیے میں نے اپنی ڈیوٹی ٹائمنگ چینج کروالیں ہیں۔ تھوڑی دیر گاڑی میں خاموشی رہی جیسے طوفان آنے سے پہلے والی خاموشی۔ بلال گردن جھکائے کچھ سوچ رہا تھا اور عظمی بلال کو دیکھ رہی تھی کہ وہ کیا جواب دیتا ہے۔“
”آپ خاموش کیوں ہیں …… کچھ تو بولیں …… “ عظمی فکر مندی سے بولی۔
”شاید پروفیسر زمان ٹھیک کہتے تھے …… میرا ہی قصور ہوگا …… جو آپ نے میری دوستی کا یہ مطلب لے لیا “ بلال نظریں جھکائے رُک رُک کر بولا ”ورنہ آپ ایسی بات کبھی نہ کرتیں …… “
”میں نے کوئی غلط بات نہیں کی …… میں آپ سے شادی کرنا چاہتی ہوں …… اور اپنی پسند سے شادی کرنا میرا حق ہے …… اِس میں آپ کا کوئی قصور نہیں ہے مجھے آپ سے محبت ہوئی ہے۔
شادی کے بعد بھی آپ دوست بن کے رہنا میں آپ کی بیوی بن کر رہوں گی “عظمی اپنے موٴقف پر قائم تھی اُس نے اطمینان سے جواب دیا۔
”میں آپ سے شادی نہیں کرسکتا“ بلال نے بے تاثر لہجے میں کہا۔
”لیکن میں آپ سے ہی شادی کروں گی “ عظمی نے جواب دیا اور غصے سے گاڑی سے اُترگئی۔ گھر کے گیٹ سے اندر جانے سے پہلے اُس نے واپس مڑ کر دیکھا سرخ آنکھوں کے ساتھ آنکھوں میں غصہ زیادہ تھا یا محبت، یہ اندازہ لگانا مشکل تھا۔
###
”کیوں اتنے غصے میں ہو …… آخر بتاوٴ تو سہی …… ہوا کیا ہے“ توشی بولی صوفے پر بیٹھے ہوئے نوشی کو دیکھ کر جو کہ غصے سے کمرے میں داخل ہوئی تھی اور توشی اپنے Mobile پر مصروف تھی۔ ڈاکٹر بٹ کے ساتھ WhatsApp پر گپ شپ لگانے میں ۔
”تمہیں اِس سے کیا…… “ نوشی دکھی انداز میں بولی ”آخر میرا تمہارا رشتہ کیا ہے؟“
”یہ لو …… اب رشتہ بھی ختم ہوگیا“ توشی Mobile پر نظریں جمائے آرام سے بول رہی تھی۔
 
”تم تو بڑی تعریفیں کرتی پھرتی تھی بلال ایسا ہے بلال ویسا ہے“ نوشی غصے سے بولی۔
”آج دو لڑکیوں اور ایک لڑکے کے ساتھ ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھا رہا تھا۔ اُس کے بعد ایک لڑکی کو اُس نے ماڈل ٹاوٴن اُس کے گھر چھوڑا، یہاں بات ختم نہیں ہوئی وہ لڑکی دس منٹ تک اُس کی گاڑی میں بیٹھی رہی اپنے گھر کے باہر …… “
”یہ لو …… نیا شوشہ سنو …… “ توشی نے نوشی کا مذاق اُڑایا۔
”میں سچ کہہ رہی ہوں “ نوشی نے توشی کو یقین دلایا اپنی خبر پر۔
”تم …… بلال کا پیچھا کرتی ہو“ توشی کو تشویش ہوئی۔
”نہیں …… وہ …… مجھے کسی نے خبر دی تھی“ نوشی نے عجلت میں جواب دیا۔
” اِس لیے تو میں کہتی ہوں کہ مت کرو، بلال سے شادی تمہارا اور اُس کا کیا جوڑ۔ وہ ایک معمولی اسکول ٹیچر اور تم …… “ توشی نے طنزیہ انداز میں کہا نوشی نے اپنی بہن کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور غصے سے واش روم میں چلی گئی توشی سوچ رہی تھی بلال کن کے ساتھ تھا اور آج سنڈے بھی ہے کہیں یہ اُس نے دل میں سوچا نہیں نہیں بلال ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔
نوشی واش روم سے نکل آئی۔
”پاپا آج رات کو آرہے ہیں …… کل ڈاکٹر بٹ اور اُن کی امی رشتے کے لیے آئیں گی، ماما اور شعیب بھائی کو بھی اعتراض نہیں ہے صرف پاپا کی ہاں چاہیے “ توشی مزے سے ساری خبر دے رہی تھی جان بوجھ کر نوشی کو۔
”بہت Selfish ہو اپنے بارے میں سوچتی ہو۔ میں کچھ کہہ رہی ہوں اور تم کچھ جواب دے رہی ہو“نوشی نے توشی سے گلہ کیا۔
”کل پاپا آتے ہیں تو میں بات کرتی ہوں کہ نوشی بلال سے شادی نہیں کرنا چاہتی میں تمہارے ساتھ کھڑی ہوں تم فکر مت کرو “ توشی نے پھر اپنی بہن کو تنگ کیا۔
”شادی تو میں بلال ہی سے کروں گی“ نوشی غصے سے بول کر کمرے سے نکل گئی۔
”یہ لو …… …… “توشی نے اسٹائل سے کہا۔
توشی صوفے سے اُٹھی اور ٹیرس کی طرف چل دی۔ عشاء کی نماز کے بعد خلاف توقع بلال اپنے کمرے ہی میں تھا۔
عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر یا تو وہ نانی کے کمرے میں ہوتا یا پھر کوئی کتاب لیے بیٹھا ہوتا مگر آج وہ اپنے بیڈ پر لیٹا ہوا تھا۔ سیدھا چھت کی طرف منہ کرکے کسی گہری سوچ میں تھا، اُس کا میوزک پلیئر بھی بند تھا۔ بلال کے روم والا ریلنگ ڈور کھلا ہوا تھا۔ توشی کھڑی ہوئی بلال کو واضح دیکھ رہی تھی۔
تھوڑی دیر بعد توشی دو کپ کافی بناکر اُس کے روم کے باہر تھی۔
ٹرے اُس کے ہاتھ میں تھی جب وہ Yes کی آواز پر کمرے میں داخل ہوئی تو بلال توشی کو دیکھ کر بیٹھ گیا۔
”کیوں جیجا جی …… کس کے خیالوں میں گم ہیں“ بلال نے اُس کے ہاتھ میں ٹرے دیکھی تو توشی پھر سے بول پڑی”سالی آدھی گھر والی ہوتی ہے اِس لیے سوچا ہمیشہ تم سے کافی پی ہے۔ آج میں بھی اپنے ہاتھوں سے بناکر پلادوں“بلال اُٹھا اور واش روم میں منہ دھونے چلا گیا جب وہ واپس آیا تو توشی نے اُس کا چہرہ غور سے دیکھا جس پر تھکاوٹ نمایاں نظر آرہی تھی۔
”تم ٹھیک تو ہو“ توشی فکرمندی سے بولی۔
”ہاں میں ٹھیک ہوں“ بلال نے آہستہ سے کہا توشی نے اُس کے ماتھے کو ہاتھ لگایا تو اُسے پتہ چلا بلال کا جسم تپ رہا تھا بخار کی وجہ سے 
”تمہیں تو تیز بخار ہے“توشی کی ساری شوخی فکر مندی میں تبدیل ہوگئی
” میں ڈاکٹر کو بلاتی ہوں“ اُس نے اپنا موبائل پکڑا فون کرنے کے لیے 
”لاوٴ کافی تو، پتہ نہیں کیا بناکر لائی ہو“بلال بے نیازی سے بولا جیسے اُسے بخار ہوا ہی نہ ہو۔
 ”دوائی میں نے لے لی ہے فون مت کرو ڈاکٹر کو …… “
”ویسے آج کل تم ڈاکٹروں سے بات کرنے کے بہانے ڈھونڈتی ہو…… “ بلال نے توشی کی ٹانگ کھینچی ”شٹ اپ بلال“ توشی شرماتے ہوئے بولی اور وارڈ روب سے کمبل نکال کر بلال کے اوپر ڈالا۔
 ” ایک بخار تھا، اور اوپر سے ایسے ہی لیٹے ہوئے تھے“ بلال اپنے بیڈ پر ٹیک لگائے ہوئے بیٹھا تھا، اور کافی پی رہا تھا”کافی کیسی بنی ہے“ توشی نے پوچھا۔

Chapters / Baab of Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط