Episode 54 - Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 54 - بلال صاحب - شکیل احمد چوہان

”میٹھی ہے“ بلال نے جواب دیا ”تم کیسے پی لیتے ہو ایک کافی اوپر سے پھیکی“
”بس عادت ہوگئی ہے“ بلال نے جواب دیا۔
”تم نے کچھ کھایا بھی ہے“ توشی نے پوچھا۔
”ہاں …… آج دوستوں کے ساتھ لنچ کیا تھا۔ تین ساڑھے تین بجے“ بلال نے بتایا۔
”دوستوں کے ساتھ …… لنچ اور تم نے …… تمہارے دوست بھی ہیں“ توشی حیرت سے بولی 
”ویسے کون ہیں دوست جن کو میں نہیں جانتی“
”ڈاکٹر منال نقوی اور اُس کا شوہر طلحہ نقوی اور ڈاکٹر عظمی افگن“ بلال نے تفصیل بتائی۔
”آج کل کبھی ڈنر اور کبھی لنچ چکر کیا ہے“ توشی نے مسکرا کر پوچھا 
”ڈاکٹر عظمی افگن کا شوہر نہیں آیا تھا لنچ پر … “
”اُس کی ابھی شادی نہیں ہوئی“ بلال نے جواب دیا۔
”منگنی تو ہوئی ہوگی“ توشی نے اندر کی بات جاننے کے لیے کہا۔

(جاری ہے)

”نہیں وہ منگنی کے حق میں نہیں ہے۔ وہ سیدھا شادی کرنا چاہتی ہے مجھ سے“ بلال نے توشی کی آنکھوں میں دیکھ کر صاف گوئی سے کام لیا۔
توشی بلال کی بات سُن کر ہکا بکا رہ گئی۔ وہ حیران تھی بلال نے اتنی بڑی بات بڑے آرام سے کہہ دی۔ توشی کے لیے یہ بُری خبر تھی حالانکہ اُس نے بلال کو منع کیا تھا کہ وہ اُس کی بہن سے شادی نہ کرے پھر بھی اُس کا دل اِس رشتے کے حق میں تھا، توشی گم سم تھی یہ بات سُن کر اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیابات کرے۔
”میں یہ سمجھتی تھی کہ میں تمہارے بارے میں سب کچھ جانتی ہوں“ توشی نے خفگی سے کہا۔
”میں نے اپنے بارے میں کبھی کچھ نہیں چھپایا…… “بلال نے جواب دیا۔
”پچھلے دس سال سے تم ہر سنڈے کہاں جاتے ہو کسی کو کچھ خبر نہیں ایک مسٹری ہے اور تم کہتے ہو کہ تم نے کچھ نہیں چھپایا“ توشی دل کی بات زبان پر لے آئی۔
”اِس کے علاوہ کچھ اور ……؟ “ بلال نے سوالیہ نظروں سے پوچھا۔
”میں پچھلے دس سال سے ہر سنڈے مینٹل ہاسپٹل جاتا ہوں وہ اس لیے کہ میری ماں پاگل ہوکر مری تھی اُس سے کوئی پاگل خانے ملنے نہیں جاتا تھا …… “
میری ماں کی طرح بہت سارے پاگل ہیں جن سے کوئی بھی مینٹل ہاسپٹل ملنے کے لیے نہیں آتا جب میری ماں مینٹل ہاسپٹل میں تھی تو مجھے وہاں جانے سے ڈر لگتا تھا تب میں آٹھ سال کا تھا“ بلال کی آنکھیں چمک رہیں تھیں، مگر آنسو آنکھوں میں قید تھے ابھی اُن کی رہائی کا وقت نہیں آیا تھا۔
 ” مجھے ڈر اس لیے لگتا تھا ایک دن میں ماں سے ملنے کے لیے گیا تو مجھے ایک بوڑھے پاگل نے پکڑ لیاشاید اپنا پُوتا سمجھ کر وہ مجھ سے پیار کررہا تھا اور میں ڈر رہا تھا …… اُس کے بعد میری کبھی ہمت نہیں ہوئی کہ میں ماں سے ملنے کے لیے جاوٴں“
توشی کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو بہہ رہے تھے اور بلال ایسا جسم تھا جو بغیر روح کے بیٹھا ہو وہ تھوڑی دیر خاموش رہا پھر بھری ہوئی آواز کے ساتھ بولا۔
”ممانی میری ماں کو گھر لانے کے لیے تیار نہیں تھیں، اور میں وہاں جانے کے لیے تیار نہیں تھا۔ پھر ایک دن میری ماں گھر واپس آگئی اپنی روح کے بغیر چند گھنٹوں کے لیے، یہاں سے سفید لباس پہنا اور رخصت ہوگئی ہمیشہ کے لیے اِس گھر سے …… ایک بات بتاوٴں توشی جی میری ماں پاگل نہیں تھی …… ہاں غیرت مند ضرور تھی۔ میں اپنی ماں کے مرنے پر بہت رویا پھر آج تک نہیں رویا “ بلال کی آنکھیں سرخ انگاروں کی طرح دہک رہیں تھیں۔
آنسو آنکھوں میں پٹرول کا کام کررہے تھے مگر اُنہیں گرنے کی اجازت نہیں تھی۔ بلال نے سائیڈ ٹیبل پر پڑے جگ سے ایک گلاس پانی لیا اور تین سانس میں ختم کیا اور پھر کافی دیر خاموش بیٹھا رہا۔ 
”ڈاکٹر عظی افگن مجھے دو سال پہلے مینٹل ہاسپٹل میں ملی تھی ،ہے تووہ خود پاگلوں کی ڈاکٹر مگر خود پاگل ہونے کے قریب تھی اُس کی خالہ ڈاکٹر ہاجرہ مجھے ایک مہینے بعد اِسکول ملنے آئیں ڈاکٹر ہاجرہ نے میری ماں کا اُسی مینٹل ہاسپٹل میں بہت خیال رکھا تھا۔
انہوں نے مجھ سے درخواست کی بیٹا میری مری ہوئی بہن کی نشانی ہے عظمی جب سے تم اُسے ملے ہو اُس کے دل میں جینے کی آرزو جاگ اُٹھی ہے پلیز اُسے ہر سنڈے تھوڑا سا ٹائم دے دیا کرو …… میں نے بس ایک دوست کی طرح اُس کا خیال رکھا۔ آج ڈاکٹر عظمی کہتی ہے کہ میں شادی صرف تم سے کروں گی۔اور جس سے میں شادی کرنا چاہتا ہوں وہ مجھ پر شک کرتی ہے۔ میری جاسوسی کرتی ہے کبھی خود اور کبھی کسی اور سے کرواتی ہے۔
تمہیں بھی تو آج اُس نے بھیجا ہے اندر کی بات معلوم کرنے کے لیے …… “ بلال نے سرخ آنکھوں کے ساتھ توشی کی طرف دیکھا جو شرم سے پانی پانی ہوہی تھی۔
”تم نوشی سے کیوں شادی کرنا چاہتے ہو۔“ بلال نے توشی کی طرف دیکھا جو گردن جھکائے بول رہی تھی۔
”اس لیے کہ وہ میری ماں کی پسند تھی …… “
”صرف اس لیے …… کوئی اور وجہ …… “ توشی نے گردن جھکائے ہی پوچھا، بلال خاموش رہا اُس نے کوئی جواب نہیں دیا 
”اور تمہاری محبت جس کا تم ہمیشہ ہی سے دم بھرتے آئے ہو …… “ توشی نے تیکھے انداز میں کہا گردن تن کر۔
”محبت آسمان کی بلندی کو بھی چھولے۔ عقیدت کے قدموں سے آگے نہیں بڑھ سکتی اور مجھے میری ماں سے عقیدت ہے اور اُس سے محبت صرف اس لیے ہے کہ وہ میری ماں کی پسند تھی“
”اگر وہ خود تم سے شادی سے انکار کردے تو ……؟ “ توشی نے پوچھا۔
”عقیدت میں شرعی حدود کو پار نہیں کیا جاتا۔ یہ اُس کا شرعی حق ہے“بلال نے جواب دیا اور آنکھیں بند کرکے لیٹ گیا۔
توشی کو پریشانی ہوئی اُس نے اُس کی کلائی چیک کی بخار پہلے سے کم تھا۔ وہ بلال کے اوپر کمبل اچھی طرح ڈال کر کمرے سے نکل آئی اور نکلنے سے پہلے کمرے کی لائٹ بند کردی۔ بلال اب نیند کی آغوش میں تھا۔ 
توشی اپنے روم میں لوٹی تو نوشی جاگ رہی تھی۔ نوشی نے توشی کو دیکھا تو فوراً پوچھا۔
”تم نے پوچھا بلال سے کہ وہ لڑکی کون ہے اور بلال کیوں اُس کے ساتھ تھا “ نوشی کھڑی تھی۔
”تم بیٹھ جاوٴ …… میں سب بتاتی ہوں“ نوشی اپنے بیڈ پر بیٹھ گئی اور توشی صوفہ پر ٹیک لگاکر بیٹھ گئی۔
”بتاوٴ بھی کیا بات ہوئی بلال سے …… “ نوشی کے بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔
”Relax میں بتاتی ہوں“ توشی نے گلاس میں پانی ڈالا اور ایک ہی سانس میں سارا پانی پی گئی۔ ”پانی پیو گی……“ توشی نے نوشی سے پوچھا”میں کچھ پوچھ رہی ہوں اور تم …… “
”ٹھنڈ رکھو نوشی میڈم …… “ توشی نے تحمل سے جواب دیا۔
”تم بلال سے کیوں شادی کرنا چاہتی ہو؟“ توشی نے پوچھا دوبارہ سے۔
”اگر یہی سوال میں تم سے کروں کہ تم ڈاکٹر بٹ سے کیوں شادی کررہی ہو؟“ نوشی نے سوال پر سوال کردیا۔
”اس لیے کہ شادی تو کرنی ہی ہے اور ڈاکٹر بٹ مجھ سے محبت بھی کرتا ہے “ توشی نے آرام سے جواب دیا۔
”کیا تم ڈاکٹر بٹ سے محبت نہیں کرتی؟“ نوشی نے پوچھا۔
”محبت تو نہیں کہہ سکتی ہاں بٹ صاحب کو پسند ضرور کرتی ہوں۔ بلال کہتا ہے نکاح کی برکت سے محبت جنم لیتی ہے جب ہماری شادی ہوگی تو محبت بھی ہوجائے گی …… “
توشی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا اپنی بہن کو۔
”اب تم بتاوٴ تم کیوں بلال سے شادی کرنا چاہتی ہو؟“
”اس لیے کہ بلال بھی مجھ سے محبت کرتا ہے“ نوشی نے فخریہ انداز میں کہا۔
”اور تم بلال سے کیا کرتی ہو …… عشق کہا تھا تم نے …… کیسا عشق ہے جس میں شک ہی شک اور عشق کی کوئی خبر نہیں …… میں کل بٹ صاحب کو منع کردیتی ہوں کہ وہ لوگ نہ آئیں …… تم اپنے لیے کسی اور کو پسند کرلو پہلے تمہاری بات پکی ہوگی“
توشی نے نوشی کی طرف دیکھ کر ساری باتیں کردیں۔
”کیا مطلب ہے تمہارا کسی اور کو پسند کرلوں شادی تو میں بلال ہی سے کروں گی“
نوشی نے دوٹوک انداز میں اپنا ارادہ بتادیا۔
”یہ تمہاری ضد ہے …… شادی نہیں ہے …… اِس طرح تم خوش نہیں رہ پاوٴ گی …… اور بلال بھی …… پلیز نوشی بات کو سمجھو …… میں پاپا سے اور دادو سے بات کرلوں گی …… بلال کو بھی تمہارے انکار پر اعتراض نہیں ہے …… بلکہ وہ تو کہتا ہے اپنی پسند سے شادی کرنا تمہارا شرعی حق ہے“

Chapters / Baab of Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط