Episode 55 - Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 55 - بلال صاحب - شکیل احمد چوہان

نوشی ساری باتیں سُن کر خاموش ہوگئی اور کسی گہری سوچ میں تھی اور اپنی گردن جھکائے گم سم تھی اور توشی اُس کو دیکھ رہی تھی۔ وہ صوفے سے اُٹھی اور نوشی کو گلے لگایا اور گلے ملتے ہوئے گردن سے اپنی بہن کو چوما ”یہی ٹھیک ہے جو میں کہہ رہی ہوں“ نوشی نے توشی کی طرف دیکھا جواب بیڈ پر اُس کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی۔
”اور وہ لڑکی کون تھی …… جو آج بلال کے ساتھ تھی …… “ نوشی نے پوچھا۔
”وہ ڈاکٹر عظمی افگن ہے “ توشی نے خوشی خوشی بتایا۔
”مگر وہ بلال کے ساتھ کیوں تھی۔ “نوشی نے بے تاثر چہرے اور آواز کے ساتھ پھر سے سوال کیا۔
”اس لیے کہ وہ بلال سے شادی کرنا چاہتی ہے۔“ توشی نے مسکراتے ہوئے بتایا۔
نوشی جوکہ کافی حد تک شانت ہوچکی تھی۔ لاوے کی طرح اُبل پڑی اُس نے قہر آلود نگاہوں سے اپنی بہن کو دیکھا اُس کے تن بدن میں جیسے آگ لگ گئی ہو۔

(جاری ہے)

”اچھا تو یہ ہے …… اندر کی بات…… “ نوشی دانت پیستے ہوئے بولی اُس کا ایک ایک لفظ نفرت کے پانی سے گیلا تھا ۔
”تم واقعی ڈائن ہو بہن نہیں ہو میری …… تم نے سوچا بلال اگر میرا نہیں ہوسکا تو اِس سے بھی چھین لوں“ وہ غصے سے چیخی پاگلوں کی طرح …… دونوں بہنیں اب کھڑی ہوچکیں تھیں۔ نوشی پھر اپنے منہ سے آگ اگلنے کے لیے تیار تھی۔
”مجھے تمہیں بہن کہتے ہوئے شرم آرہی ے تم ایک بدنیت اور بدکردار لڑکی ہو، جس کی اپنے بہنوئی پر نظر ہے“ توشی نے یہ بات سُن کر ایک زوردار تھپڑ اپنی بہن کے بائیں گال پر رسید کیا اور خود روم سے چلی گئی ٹیرس پر۔ نوشی وہیں کھڑی تھی اُس کے گال پر انگلیوں کے نشان باقی تھے۔
”شادی تو میں بلال ہی سے کروں گی“ نوشی غصے سے چیخی ٹیرس کی طرف منہ کرکے توشی کے کانوں میں یہ الفاظ پڑے جوکہ بلال کے روم کی طرف منہ کرکے کھڑی تھی۔
اُس نے دل میں دُعا کی (یا اللہ اِس دوموہی کے زہر سے بلال کو محفوظ رکھنا)
توشی نہ جانے کتنی دیر وہیں ٹیرس پر کھڑی رہی اُس کی آنکھیں نمناک تھیں۔ تھوڑی دیر بعد آنسو آنکھوں سے ٹپ ٹپ گرنا شروع ہوگئے۔ آنسو گرنے کی صحیح وجہ کا اُسے خود اندازہ نہیں تھا کہ یہ آنسو کیوں ٹپ ٹپ گررہے ہیں۔بلال کی وجہ سے یا نوشی کے گندے الفاظ جو تھوڑی دیر پہلے اُس کے متعلق اُس کی اپنی ہی بہن نے کہے تھے۔
وہ بہن جو دو جسم اور اِک جان والا معاملہ تھا۔ بیمار ایک ہوتی تکلیف دوسری محسوس کرتی۔ وہ اپنی بہن کی ہر خوشی کا خیال رکھتی مگر آج اُسے تھپڑ ماردیا۔
”میں نے بالکل صحیح کیا“ توشی نے خود سے کہا اُس کے نزدیک یہی اُس کے لیے بہتر ہے کہ وہ بلال سے شادی نہ کرے ۔
”مجھے یہ شادی ہر صورت میں روکنی ہے“ توشی نے دل میں ارادہ کیا اُس کے دل میں دادی کا خیال آیا۔
 
وہ ٹیرس سے اپنے روم میں واپس آئی نوشی بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی، اُس نے آہٹ سُنی تو آنکھیں موند لیں۔ توشی نے نوشی کی طرف دیکھا جو کہ بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی اور جاگتے ہوئے سونے کا ناٹک کررہی تھی۔ توشی کے چہرے پر زخمی مسکراہٹ اُبھری۔ یہ ایک ٹھٹھڑتی رات تھی۔ اُس نے گیس ہیٹر جلایا اور صوفے پر بیٹھ گئی۔ وہ ممکنات پر غور کررہی تھی۔ وال کلاک کی ایک سوئی مسلسل ڈانس کررہی تھی کلاک کے سینے پر جبکہ دوسری ایسے چل رہی تھی کہ کہیں پاوٴں میں موچ نہ آجائے۔
دھیرے دھیرے ہولے ہولے توشی کی نظریں وال کلاک پر تھیں اور وہ ذہنی خلفشار میں مبتلا تھی۔ توشی اپنی بہن سے خائف ضرور تھی، مگر اُس کا دل اب بھی اُس کی محبت میں دھڑک رہا تھا۔
دوسری طرف نوشی بیڈ پر لیٹی ہوئی اپنے ارادوں میں کامیابی کے منصوبے بنارہی تھی۔ اور عظمی اُسے اپنی رقیب محسوس ہورہی تھی۔ اب اُس کی آنکھیں کھلیں تھیں وہ اس لیے کہ توشی اُس کی پشت کی طرف صوفے پر بیٹھی تھی۔
نوشی جوکہ سیدھی لیٹی ہوئی تھی،اب اپنے دائیں طرف کروٹ لے چکی تھی۔
روم میں باہر گیٹ سے ہارن کی آواز آئی۔ توشی نے دیکھا ٹیرس سے کمرے میں کھلنے والا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ اُسے دروازہ بند کرنے کا ہوش ہی نہیں تھا۔ اُس نے ٹیرس سے دیکھا اُس کا باپ امریکہ سے واپس آچکا تھا۔ جمال رندھاوا گاڑی سے اُتر کر گھر کے اندر داخل ہورہے تھے اور گل شیر اُن کے پیچھے تھے۔
ہاتھ میں بریف کیس پکڑے ہوئے اور ڈرائیور بلیک مرسڈیز سے سامان نکال رہا تھا۔ وہ اپنے روم میں واپس آگئی۔ اُس نے کلاک پر نظر ڈالی 2 بج رہے تھے اُس کو معلوم تھا اُس کا باپ فریش ہوکر سوجائے گا، اور اٹھنے پر سب سے پہلے اپنی ماں کے حضور حاضر ہوگا۔
توشی اپنے باپ سے پہلے اپنی دادی سے ملنا چاہتی تھی جس کے لیے اُسے ڈھائی گھنٹے مزید انتظار کرنا تھا۔
ساڑھے 4 کے آس پاس اُس کی دادی تہجد کے لیے اُٹھتی تھی۔
گل شیر خان ائیرپورٹ سے واپسی پر 10 منٹ کی ڈرائیو کے دوران ہی جمال رندھاوا کو چند دن پہلے رونما ہونے والے واقعہ کا آنکھوں دیکھا حال سُنا چکا تھا۔
اب جمال رندھاوا نے فیصلہ کرنا تھا، حتمی فیصلہ اپنی بیٹیوں کی شادی کا اور توشی یہ فیصلہ موٴخر کروانا چاہتی تھی، کسی بھی طرح وہ خود تو ڈاکٹر بٹ سے شادی کے لیے تیار تھی مگر نوشی کی بلال کے ساتھ شادی کے حق میں نہیں تھی۔
چند گھنٹے پہلے ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ نوشی کے کمرے میں داخل ہونے پر وہ بلال کا نام لے کر اپنی بہن کو چھیڑ رہی تھی اور اُس کی دلی خواہش تھی کہ اُس کی بہن ہی بلال کی دلہن بنے مگر اب وہ اِس حق میں نہیں تھی۔ اِن چند گھنٹوں میں وہ بہت کچھ جان چکی تھی۔ اُسے اپنی بہن کی نیت پر شک تھا۔ 
اِس سازش میں نوشی اکیلی ہے یا اور بھی کوئی اِس کے ساتھ ہے۔
میری بہن اکیلے ایسا کچھ نہیں کرسکتی ضرور کوئی اِس کے پیچھے ہے کون ہے اور کیوں ہے؟
توشی نے نوشی کی طرف دیکھ کر سوچا جوکہ اُسی پوزیشن میں لیٹی ہوئی تھی۔وہ صوفہ پر بیٹے ہوئے کڑی سے کڑی ملانے کی کوشش کررہی تھی۔ بلال نے یہ کیوں کہا میری جاسوسی ہورہی ہے اور نوشی کو کس نے بتایا بلال کے سارے دن کا حال احوال اور جب وہ واپس آئی تو نوشی کس سے بات کررہی تھی۔
میرے پوچھنے پر نوشی گھبراکیوں گئی اور اُس نے بات کیوں گول کردی۔ کل تک تو سب ٹھیک ٹھاک تھا ایک دن میں …… یہ سب …… وہ اپنی سوچوں میں گم تھی۔ 
نوشی کوئی 12 فٹ کے فاصلے پر اپنی بہن سے دور بیٹھی ہوئی تھی، صوفہ پر۔ مگر یہ 12فٹ 12کوس سے زیادہ تھے۔ فوجی پریڈ کی طرح قدم سے قدم ملا کر ایک سمت میں چلنے والی بہنیں اب ایک دوسرے کی مخالف سمت پر رواں دواں تھیں۔
ایک کی منزل مشرق اوردوسری کی منزل مغرب …… ۔
وال کلاک نے بڑی دیر سے ساڑھے چار بجائے توشی جلدی سے اُٹھی اور دبے پاوٴں دھیرے دھیرے اپنی دادی کے کمرے کی طرف چل دی۔
نوشی نے بھی اپنی موندیں ہوئی پلکوں کے کواڑ کھولے اُسے اندازہ تھا، کہ توشی دادی کے کمرے ہی میں گئی ہوگی۔ وہ بھی ہولے ہولے دادی کے کمرے کے باہر پہنچ گئی اُس کا اندازہ ٹھیک نکلا توشی اندر تھی وہ وہاں نہیں رُکی تھوڑی دیر سوچ بیچار کے بعد اُس نے بلال کے دروازے پر دستک دے دی۔
”خان صاحب آجائیں دروازہ کُھلا ہے“ بلال نے واش روم سے صدا لگائی جو وضو کرکے ٹاول سے اپنے بازو صاف کررہا تھا۔ 
”ماموں جان آتے ہیں تو آپ کا دیدار ہوجاتا ہے…… ورنہ آپ تو عید کے چاند“ نوشی کمرے میں آچکی تھی اور واش روم کے دروازے پر نظریں جمائے کھڑی تھی بلال باہر آتا ہے تو اُس کی نظر سامنے کھڑی نوشی پر پڑتی ہے ۔ بلال کوئی بات نہیں کرتا اُسے حیرت بھی نہیں ہوئی پہلے کئی دفعہ رات کے اِس پہر نوشی اُس کے کمرے میں آچکی تھی۔
اس بار اُس کی آنکھوں کی تحریر الگ تھی۔ 
”میں تم سے کچھ پوچھنا چاہتی ہوں“ نوشی نے لب کشائی کی۔
”دادو میں آپ کو کچھ بتانا چاہتی ہوں بہت ضروری بات ہے“ توشی نے عجلت میں کہا۔
”بیٹا میرا وضو ٹوٹ جائے گا پہلے مجھے نفل ادا کرنے دو بار بار وضو نہیں ہوتا اتنی سردی میں“جہاں آرا بیگم نے جواب دیا شگفتگی سے۔
”میں آٹھ رکعت ادا کرلوں تہجد کا وقت نکل جائے گا آپ بیٹھو …… بعد میں آرام سے بات کرتے ہیں“ بلال نے اپنی نفیس آواز میں بڑی نفاست سے کہا۔
دونوں بہنوں کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی نماز سے فارغ ہوکر بلال نے جائے نماز اپنی جگہ یعنی دیوان کے بازو پر رکھا اور خود کچن کی طرف چل دیا۔ نوشی رائٹنگ ٹیبل والی چیئر پر بیٹھی ہوئی تھی۔ بلال کو کچن میں مصروف دیکھ کر بولی۔
”مجھے کافی نہیں پینی ہے“ ”ok“ بلال نے جواب دیا جوکہ کچھ گرم کررہا تھا۔
دادی ے انٹرکام پر دو کپ دودھ زینب کو کہا جوکہ نفل ادا کرچکی تھیں۔
اُس کے بعد توشی کی طرف متوجہ ہوئیں اور اپنی موونگ چیئر پر بیٹھی ہوئی بولیں۔
”مجھے پتہ ہے تم نے کیا ضروری بات کرنی ہے“
”کیا تم مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہو“ نوشی نے بلال کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھ کر کہا جس کے ہاتھ میں ٹرے تھی جس میں دو خوبصورت مگ رکھے ہوئے تھے پینک اور گرین کلر کے پینک مگ اُس نے نوشی کی طرف بڑھادیا۔ نوشی نے سوالیہ نظروں سے دیکھا مگ پکڑتے ہوئے۔ 

Chapters / Baab of Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط