ایک دن ہم سب باہر باغیچے میں بیٹھے ہوئے تھے عصر کے بعد چائے پینے کے لیے تم سب کھیل رہے تھے ماں سے زیادہ تم دونوں اپنی پھوپھو سے پیار کرتیں تھیں۔ تم اپنی پھوپھو کی گود میں بیٹھی ہوئی تھی اور تیری بہن نسیم نے ضد شروع کردی اِسے اُتار دو اور مجھے بٹھاوٴ تیری پھوپھو نے نسیم کو بھی بٹھالیا اپنی گود میں مگر اُس کی ضد تھی تمہیں اُتار دو وہ مسلسل رورہی تھی پھر تیری پھوپھو نے تمہیں کان میں کہا تسلیم بیٹا تم اپنی ماما کی گود میں بیٹھ جاوٴ اور تم اُتر کر اپنی ماں کی گود میں بیٹھ گئی …
اُسی وقت تیری ماں نے کہا ”جمیلہ نسیم کو اپنی بیٹی بنا لو جمیلہ بولی “یہ دونوں میری بیٹیاں تو ہیں تیری ماں نے کہا ”نہیں تم سمجھی نہیں اِس کو اپنی بہو بنانا“جمیلہ بولی ”آپ بھی کمال کرتی ہیں، بھابھی بچے چھوٹے ہیں اِن کے سامنے ایسی باتیں نہ کریں۔
(جاری ہے)
کچا ذہن کچی مٹی کی طرح ہوتا ہے۔ کچے ذہن میں بیٹھی ہوئی بات اور کچی مٹی سے بنی ہوئی چیزیں سوکھنے کے بعد ٹوٹ سکتیں ہیں۔ اُن کی ساخت میں فرق نہیں پڑتا، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے اِس رشتے پر مگر وقت آنے پر فیصلہ کروں گی ابھی نہیں“تیرا باپ بولا ہنستے ہوئے
”کیا ہماری نسیم اتنی بُری ہے جمیلہ جو تم جان چھڑارہی ہو“ جمیلہ نے جواب دیا ”نہیں لالہ آپ کیسی باتیں کررہے ہیں میں تو بس …… “
”بس کیا جمیلہ ہاں کر بھائی کے ساتھ رشتہ جوڑ لے تم دو بہن بھائی تو ہو“ ہاں کردے بیٹی میں نے زور دے کر کہا جمیلہ نے نسیم کو چُوما اور اپنے سینے سے لگا کر بولی ”تو پھر نسیم آج سے میرے بلال کی ہوئی میرے بلال کی، بلال اپنی ماں کے ساتھ کھڑا ہوا سن رہا تھا اور نسیم کو دیکھ رہا تھا۔
“ جمیلہ نے بلال کو بازو سے پکڑا اور کہا
”اگر میں مربھی جاوٴں تو یاد رکھنا یہ تمہاری منگیتر ہے اور تمہیں اِس سے شادی کرنی ہے ہاں ایک اور بات یاد رکھنا اِس کی مرضی کے خلاف نہیں اگر یہ ہاں کرے تو۔“
”لالہ اور بھابھی تو آج سے نسیم میری بہو“ اِس طرح یہ رشتہ ہوا تھا۔
(اگر میں مربھی جاوٴں تو یاد رکھنا یہ تمہاری منگیتر ہے اور تمہیں اِس سے شادی کرنی ہے۔
اِس کی مرضی کے خلاف نہیں اگر یہ ہاں کرے تو) بلال ٹیک لگائے سترہ سال پیچھے دیکھ رہا تھا اپنی ماں کو کہتے ہوئے۔
”یاد رکھنا میری شرطیں“ نوشی کی آواز بلال کے کانوں میں پڑی بلال سترہ سال کا سفر ایک لمحے میں مکمل کرکے واپس آگیا۔
”یاد ہے“ بلال نے بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیا نوشی اُٹھ کر جانے لگی۔
”ٹھہرو …… کیا یہ شادی آپ اپنی مرضی سے کررہی ہو؟ …… بغیر کسی دباوٴ کے …… بلال نے نوشی سے پوچھا“
”ہاں اگر تم میری شرطیں مان لو تو“ نوشی نے فیصلہ کن انداز میں جواب دیا۔
”نوشی جی …… شرطوں پر شادی ہوسکتی ہے …… شادی شرطوں پر چلتی نہیں ہے ……الگ گھر کی شرط آپ کا حق ہے وہ میں ضرور لوں گا۔ جہاں تک اسکول کی بات ہے میں اُسے بزنس سے زیادہ فرض سمجھتا ہوں۔ میں آپ کا حق دوں گا بغیر مانگے مگر شرطیں کبھی نہیں مانوں گا نہ اب اور نہ آئندہ زندگی میں اور جہاں تک بینک سے لُون کی بات ہے وہ بھی میں نہیں لوں گا وہ سُود ہے …… نوشی جی …… محبت آپ کو پابند بناتی ہے …… باغی نہیں …… “
بلال نے نوشی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تحمل اور سنجیدگی سے جواب دیا نوشی کے لیے بلال کا یہ نیا روپ تھا، اُس کی وجہ یہ تھی اُس نے اُس کے ماں باپ کو کبھی پلٹ کر جواب نہیں دیا تھا۔
اُس کی اور اُس کے بھائی شعیب کی زیادتیوں پر وہ ہمیشہ خاموش رہا کبھی لڑائی جھگڑا نہیں کیا وہ شریف تھا، بزدل یا کمزور نہیں اس کا کچھ اندازہ تو اُسے سنی اور وکی کے واقعے کے بعد ہوگیا تھا۔
”یہ میری شرطیں نہیں ہیں اصول ہیں اور جہاں میں غلط ہوتا ہوں میں اپنے بنائے اصول توڑ دیتا ہوں بات صرف غلط اور صحیح کی ہے میری یا آپ کی نہیں ہے “نوشی کی سوچ کے تسلسل کو بلال کے الفاظ نے توڑ دیا تھا۔
”دادو …… اِس میں غلط کون تھا …… “ توشی نے پوچھا اپنی دادی سے جو خاموش بیٹھیں تھیں (میری چُپ) میں ساری زندگی بیٹے کی محبت میں چُپ رہی اور ساری زندگی یہ سمجھتی رہی ۔
(دوت پرایا گوت) مگر اب میں بات کروں گی صحیح کو صحیح کہوں گی اور غلط کو غلط، غلط صرف میں تھی جب تک تیرا دادا زندہ تھا سارے فیصلے تیرا دادا کرتا تھا، سوائے ایک کے تیرے باپ سے تیری ماں کی شادی یہ میری ضد تھی۔
بہشتی بڑا سیانا تھا میرے جیسی کوڑ دماغ کو سارے شریکے برداری میں دانی پردانی بناکر رکھا تھا۔
میری ماں اکثر کہتی تھی جہاں آرا یہ تیرا کمال نہیں ہے تجھے اللہ نے ور اچھا دے دیا ہے۔“
فجر کی اذان شروع ہوچکی تھی جہاں آرا نے کہا ”بیٹا نماز کا وقت ہوگیا“
”میں نماز پڑنے جارہا ہوں مسجد میں آپ بھی نماز ادا کرلیں“ بلال یہ کہہ کر کمرے سے نکل گیا۔
نوشی وہیں کھڑی تھی بلال کے کمرے میں اور اُس کے ہونٹوں سے یہ الفاظ نکلے۔
”نماز …… اور …… میں “
”توشی اپنی دادی کے رُوم سے جاچکی تھی، مطمئن ہوکر اُس کا پلان کچھ اور تھا اور بات کو ٹالنے کے لیے دادی کی باتیں سُن کر اُس نے اپنی بات نہیں کی اُسے یقین آگیا تھا کہ دادی اب لازمی پھوپھو کے قرضے والی بات کریں گی پاپا سے جب ماما کو پتہ چلے گا تو وہ قیامت کھڑی کردیں گی اور کبھی نہیں مانیں گی اِس بات پر تو بات خودبخود کھٹائی میں پڑے جائے گی۔
اور دوسری طرف نوشی کچھ اور سوچ رہی تھی۔ وہ بلال کے روم سے نکل کر سیدھا اپنی دادی کے کمرے میں آئی تب تک توشی مطمئن ہوکر جاچکی تھی۔ اُس نے اپنی دادی سے کہا ۔
”دادو مجھے صرف بلال سے شادی کرنی ہے اور ڈاکٹر بٹ اور توشی کے رشتے پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے“ اُس نے صرف اتنا کہا اور چلی گئی وہاں سے جہاں آرا بیگم کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا اُن کی برسوں پرانی دُعا پوری ہوگئی۔
توشی اپنے بیڈ پر لیٹی ہوئی سوچ رہی تھی ”اب یہ شادی نہیں ہوگی“ اُس نے آنکھیں بند کرلیں مطمئن ہوکر اُس کے پہلو میں نوشی دوسری طرف منہ کرکے لیٹی ہوئی تھی اُس نے اپنے دل میں کہا ”اب اِس شادی کو کوئی نہیں روک سکتا“ وہ بھی اطمینان سے سوگئی۔
###