”نانو میں ناراض ہی کب تھا ماموں سے “بلال نے جمال کے جوڑے ہوئے ہاتھوں کو چوما اور اپنے ہاتھوں سے اُن کے آنسو صاف کیے اور اُن کو بڑے ادب سے دیوان پر بٹھایااورد وزانو اُن کے سامنے بیٹھ کر بولا ”میں آپ کی بہن کی قسم کھا کر کہتا ہوں میں آپ سے ناراض نہیں ہوں“ جمال رندھاوا نے بلال کو اُٹھایا اور اپنے گلے لگالیا ”مجھے فخر ہے کہ تم میری بہن کے بیٹے ہو“ جمال رندھاوا تفاخر سے بولا ”مجھے فخر ہے تم پر …… “
سب خوشی خوشی جاچکے تھے اپنے اپنے کمروں میں بلال اپنے بیڈ پر بیٹھا ہوا تھا کمبل کے اندر اپنے ماں باپ کی تصویر ہاتھوں میں لیے دروازے پر پھر سے عاجزانہ دستک ہوئی۔
”YES“ بلال نے اجازت دی توشی ہارے ہوئے جواری کی طرح کمرے میں داخل ہوئی جو اپنی پہلی ہی بازی میں سب کچھ ہار چُکا ہو۔
(جاری ہے)
وہ بلال کے سامنے روہانسی کھڑی تھی حواس باختہ خالی ہاتھ کنگال کھوئی کھوئی سی۔ بلال نے اُسے دیکھا تو فوراً اُٹھا اور اُسے کرسی پر بٹھایا اور خود اُس کے سامنے بیڈ پر بیٹھ گیا ۔
”کیا ہوا …… سب ٹھیک تو ہے“ بلال نے فکر مندی سے پوچھا۔
”عذرا آنٹی نے رشتے سے انکار کردیا ہے ابھی محسن کا میسج آیا“توشی کی آواز پاتال سے آئی ”تم جاکر سوجاوٴ …… میں خالہ عذرا سے خود بات کروں گا“ بلال نے تسلی دی مگر توشی کو تسلی نہیں ہوئی بلال نے اپنا ہاتھ توشی کے سرپر رکھا اُس نے بلال کی آنکھوں میں دیکھا وہاں اُسے پاک محبت نظر آئی اپنے لیے۔ اُس سے بڑھ کر وہ محبت جو حیا کا لباس پہنے ہوئے تھی وہ محبت جو روح کو روح سے ہوتی ہے جسموں کی قید سے آزاد وہ محبت جو سورج کی کرنوں کو انسانی جسم سے ہے وہ صرف جسم کو حرارت پہنچاتی ہیں جلاتی کبھی نہیں ہیں۔
توشی اٹھی اور اپنے کمرے میں آکر لیٹ گئی اپنے بیڈ پر نوشی کے پہلو میں منہ دوسری طرف کرکے اُس کے لیٹتے ہی نوشی نے اُسے پکڑا اور اُس سے چمٹ گئی۔
”پلیز مجھے معاف کردو“ نوشی روتے ہوئے بول رہی تھی ”مجھے تمہارے جیجا جی کی طرح باتیں نہیں آتیں آفٹر آل میں تم سے 5 منٹ بڑی ہوں“ یہ سُن کر توشی مسکرااُٹھی اُس کا چہرہ کلی کی طرح کھل گیا اب دونوں بہنیں بیڈ پر بیٹھ چکی تھیں اور ایک دوسری سے لپٹی ہوئیں تھیں ”5 منٹ کی بچی“ توشی نے الفاظ دہرائے اُسی انداز میں۔
”تمہیں سمجھ آ ہی گئی “ توشی نے نوشی کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا ہوا تھا۔
”تم دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی ہو جو بلال کی دلہن بنو گی۔ وہ واقعی لاکھوں میں ایک ہے میں آج بہت خوش ہوں“ توشی چہک چہک کر بتا رہی تھی۔
”مگر وہ لوگ تو …… مجھے نہیں لگتا کہ آنٹی ہمارے ماں باپ کی اصلیت جان کر بھی اِس رشتے پر رضامند ہوں گی“ نوشی نے سنجیدگی سے کہا آج پہلی بار وہ اتنی سنجیدہ تھی۔
”مگر تم پھر بھی اتنی خوش ہو“ توشی کے چہرے پرمسکراہٹ اُبھر آئی ”میں تمہاری خوشی میں خوش ہوں ڈفر تمہارے لیے اور جہاں تک میری بات ہے بلال سب ٹھیک کردے گا۔ بلال کہتا ہے کسی کے غم میں شریک ہونا اتنی بڑی بات نہیں جتنی بڑی بات کسی کی خوشی میں شریک ہونا ہے“
نوشی کی آنکھوں میں فتح کی خوشی تھی ”واقعی تمہارا جیجا جی لاکھوں میں ایک ہے“ اُس نے شرماتے ہوئے کہا اور توشی کے گلے لگ گئی۔
###
اگلے دن بلال کے ساتھ جہاں آرا بیگم اور جمال رندھاوا ڈاکٹر محسن رضا کے گھر پہنچے بلال نے محسن کو اپنے آنے کی اطلاع کردی تھی۔ اُس کو کہا تھا اپنی والدہ کو مت بتانا ہمارے بارے میں محسن نے اپنی ماں سے کہا کچھ مہمان آرہے ہیں۔ کھانے کا بندوبست کروادیں۔ عذرا رات کا کھانا تیار کروانے کے لیے خانساماں کے ساتھ کچن میں تھیں۔ جب وہ لوگ اُن کے گھر پہنچے محسن نے اُن کا استقبال کیا باہر مین گیٹ پر اور انہیں بڑے ادب سے لاوٴنج میں بٹھایا جہاں آرا ایک سمدھن کی طرح سارے گھر کا جائزہ لے رہیں تھیں۔
”فیصل ٹاوٴن میں ایک کنال کا گھر کیوں جمال گھر بار تو ٹھیک ہے“ جہاں آرا نے گھر کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے بیٹے سے کہا تھا۔ ”جی ماں جی لوگ بھی اچھے ہیں“ جمال نے تائید کی اپنی ماں کی محسن اور بلال وہاں نہیں تھے۔ بلال کچن میں چلا گیا تھا۔ جہاں عذرا کھانے تیار کروانے میں مصروف تھی۔ اُن کا منہ دوسری طرف تھا۔ بلال نے اُن کے پیچھے کھڑے ہوکر کہا۔
”اسلام علیکم پھوپھو جان“ عذرا اچانک چونک کر پلٹی بلال کو دیکھ کر عذرا کی آنکھوں میں چمک تھی ”پھوپھو صدقے پھوپھو واری میرا بچا“ عذرا نے بڑھ کر بلال کو گلے لگالیا تھا۔
”تم تو ہمیشہ سے مجھے خالہ جی کہتے آئے ہو۔ آج یہ پھوپھو کیسے بن گئی تمہاری میں …… “
عذرا نے خوشی خوشی پوچھا ”وہ ایسے آپ میرے ابا کی شادی کے پہلے ہی سے، اُن کی بہن ہیں تو اصل اور خالص رشتہ تو وہی ہوا نا“ بلال دھیمی آواز میں بولا۔
”بلال بیٹا ہم تین بہنیں ہیں ہمارا بھائی کوئی نہیں تھا۔ اِس لیے تیرے باپ کو بھائی بنالیا تھا مجھے خالہ کہنے والے تو بہت سارے ہیں۔ پھوپھو کبھی کسی نے نہیں کہا اب تم مجھے ہمیشہ پھوپھو ہی کہو گے“
”پھوپھو جان آپ کے بھائی کی قسم میں نے کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگا آج مانگتا ہوں اس رشتے پر مان جائیں“ بلال نے بغیر توقف کے اپنے آنے کا مقصد بیان کردیا ۔
”بیٹا آج تو میری جان بھی مانگتا تو دے دیتی …… یہ آج کل کے بچے بزرگوں کو شدائی سمجھتے ہیں میں تو دوپہر کو ہی سمجھ گئی تھی جب محسن نے کہا مہمان آرہے ہیں …… ایک بات یاد رکھنا ہاں میں نے تمہاری وجہ سے کی ہے۔ ماں کو اپنے بچے سب سے پیارے ہوتے ہیں مجھے اپنے تینوں بیٹے پیارے ہیں مگر میرے بیٹوں میں سے ایک بھی تیرے جیسا نہیں ہے سب نالائق ہیں …… “
”یہ لو …… “ ڈاکٹر بٹ نے توشی کی نقل اُتاری خوشی میں جُھوم کر۔
”پھوپھو دیکھ لیں ابھی سے اُس کی بولی بول رہا ہے“ بلال نے عذرا سے کہا سب کھل کر ہنس دیئے۔
”بلال بیٹا مجھے رات بہت غصہ تھا تیرے ماموں پر اس لیے میں وہاں سے آگئی تھی میں نے رشتہ کے لیے رضامندی ظاہر کردی ہے انہیں ابھی مت بتانا میں اپنے حساب سے بات کروں گی“
عذرا بڑے اخلاق سے ملتی ہے۔ جمال اور اُس کی ماں سے رات کا کھانا عذرا نے اپنی خاندانی روایت کے مطابق کیلوریز سے بھرپور تیار کروایا تھا پیور لاہوری کھانا۔
”بہن جی آپ کل ناراض ہوکر چلی آئیں۔ اچھا کیا آپ نے مجھے جھنجھوڑا میری اوقات یاد کرائی مجھے۔ آپ کے جانے کے بعد میں نے بلال سے معافی مانگی۔ آج صبح سترہ سال بعد اپنی بہن کی قبر پر گیا اُس سے معافی مانگنے کے لیے میرے گناہوں کی سزا میری بیٹی کو نہ دیں اُس نے رات سے کچھ نہیں کھایا“ جمال رندھاوا نے عذرا سے کہا سنجیدگی سے توشی اپنے بیڈروم میں پہلے ہی سے پیزامنگواکر بیٹھی ہوئی تھی۔
جیسے ہی عذرا نے کچن میں حامی بھری اُسی لمحے ڈاکٹر محسن نے توشی کو میسج کردیا تھا۔ امی نے بلال کی وجہ سے ہاں کردی ہے۔ میسج پڑتے ہی ”ہپ ہپ ہورے نوشی مجھے مبارک دو آنٹی مان گئیں“ اور پیزے پر ٹوٹ پڑی کھانے کے لیے SMS اور DJ بھی وہیں کھڑے ہوئے تھے۔
”آپی تھوڑی نظریں کرم اِدھر بھی ہوجائے۔ دعائیں کرکرکے میرا تو گلہ خشک ہوگیا ہے“ SMS نے پیزا سے اپنا حصہ مانگا اور DJ نے اُس کی تائید کی۔
توشی کے بیڈ روم میں پیزا پارٹی جاری تھی اِس دوران
”بھائی صاحب بلال نے مجھ سے ہاں کروالی ہے لیکن میری کچھ شرطیں ہیں“ عذرا نے کہا جمال نے مسرت بھرے لہجے میں پوچھا ”کہیں کہیں آپ کی ساری شرطیں مجھے قبول ہیں “ جہاں آرا کی آنکھیں چمک اُٹھی تھیں۔ بلال دیکھ رہا تھا محسن کی طرف جس کے چہرے پر مسرت تھی جسے وہ بلال سے چھپانا چاہ رہا تھا۔
”آج سے لے کر ہماری زندگیوں تک ہمارے سارے معاملات آپ خود دیکھیں گے توشی کی ماں کا عمل دخل اُن میں نہیں ہوگا۔ بڑی کپتی ہے آپ کی بیوی اور دوسری بات کل ہم لوگ منگنی کی رسم ادا کرنے آرہے ہیں اور کل ہی ہم دن بھی رکھ لیں گے اور آخری بات بارات ہماری بہت زیادہ ہوگی اور بارات کا کھانا بہت اچھا ہونا چاہیے “ عذرا نے اپنی ساری شرطیں بتادیں ”مجھے آپ کی ساری شرطیں منظور ہیں۔
کل سال کا پہلا دن ہے آپ کل آجائیں ایک گزارش میری بھی سُن لیں جنوری میں میری بہن کی برسی ہے اور فروری میں اباجی کی۔ شادی ہم مارچ تک کرسکتے ہیں“ جمال نے جواب دیا۔
”مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے ویسے بھی دو مہینے تو تیاری میں لگ جائیں گے “عذرا نے کہا
جمال اور اُس کی ماں وہاں سے آگے بلال کو عذرا نے روک لیا اور جمال سے کہا”محسن چھوڑ آئے گا بلال کو آپ بے فکر ہوجائیں“
”کل منگنی پر تم ہمارے ساتھ چلو گے ہماری طرف سے“ عذرا نے بلال کو حکم دیا۔
”پھوپھو اور کون کون ہوگا“ بلال نے پوچھا۔
”کوئی نہیں ہم تینوں ہی بس“ عذرا نے خفگی سے کہا۔
”معاف کردیں اُن کو آخر وہ محسن کے بھائی ہیں“ بلال نے درخواست کی ”اس کے بھائی ہوتے تو اِسے برابر حصہ دیتے باپ کی جائیداد سے دونوں سائڈو سائڈو بن گئے بھائی نہ بنے اِس کے اور میری بہن اُس نے ایک دفعہ بھی اپنی بیٹیوں کو نہیں سمجھایا۔
جن کی پڑھائی ہوئی پبٹی تھی سلمان اور عثمان کو رہنے دو“ عذرا اپنے فیصلے پر ڈٹ گئی تھی۔
”پھوپھو اگر سلمان اور عثمان بھائی کو آپ معاف نہیں کرسکتیں تو پھر میں بھی آپ کے ساتھ نہیں جاسکوں گا“ بلال نے نفرت کی جمی ہوئی برف کو محبت کی حرارت سے پگھلانے کی کوشش کی اور آخر میں وہ کامیاب ہو ہی گیا عذرا نے بلال کی یہ بات بھی مان لی۔