” کھویا ہوا مقام کیسے حاصل کرسکتے ہیں“ عادل عقیل نے پوچھا بابا جمعہ سے آج وہ مطمئن تھا اور اُس کی شخصیت میں ٹھہراوٴ بھی تھا۔ عادل عقیل نے ہمیشہ اپنے دادا جلیل ہاشمی کی کرامات سُنی تھیں، لوگوں سے اور اپنی دادی سے ، اُس نے اپنے دادا کی جن خوبیوں کا ذکر سُنا تھا وہ ساری خوبیاں بلال میں تھیں۔ اِس لیے وہ بلال سے حسد کرتا تھا۔ مگر آج وہ بدلا ہوا عادل عقیل تھا جس کی نظروں میں بلال کی عزت تھی احترام تھا۔
”مقام ملتا ہے فقیری سے اور فقیری نصیب ہوتی ہے عاجزی سے اور بیٹا عاجزی کا سفر تم شروع کرچکے ہو جس کو فقیری عطا کردیتا ہے میرا اللہ وقت کے بادشاہ اُس کے منگتے ہوتے ہیں“ بابا جمعہ کھانستے ہوئے آہستہ آہستہ بول رہے تھے آج اُن کے چہرے پر تھکاوٹ تھی مگر وہ مطمئن تھے عادل عقیل نے ایک اور سوال پوچھا عادل کے سوال آج سیکھنے اور سمجھنے کے لیے تھے آج وہ سوال سے سوال نہیں نکال رہا تھا۔
(جاری ہے)
” فقیری اور پیری میں کیا فرق ہے“
” بیٹا فقیری اور پیری ایک ہی تصویر کے دو رُخ تھے مگر آج کل ایسا نہیں ہے۔ اب فقیری بھی کاروبار بن گئی ہے اور پیری بھی دھندا ہے پہلے پیر بھی دیتا تھا مخلوق کو اور فقیر بھی خدمت کرتا تھا اللہ کے بندوں کی“
” تو کیا پہلے سارے فقیر اور پیر ٹھیک تھے آج کے مقابلے میں “عادل نے سنجیدگی سے پوچھا ”نہیں بیٹا ایسا نہیں ہے۔
اچھے اور بُرے لوگ ہر عہد اور ہر زمانے میں ہوتے ہیں۔ تناسب کا فرق آگیا ہے۔ پہلے اچھے لوگ زیادہ تھے اور بُرے کم تھے۔ اب اچھے فقیر اور پیر نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سارے ہی دین کو بیچ رہے ہیں کوئی تعویذ گنڈے کے نام پر کوئی کوئی جہاد کے نام پر کوئی عشق کی دکان سجائے بیٹھا ہے اور میرے نبی ﷺ کی محبت بیچ رہا ہے نعتیں پڑھ کر اُن کی قیمت لی جاتی ہے دُعا کرکے اُجرت لی جاتی ہے لوگوں سے ہی جہاد کا چندہ اکٹھا کرتے ہیں پھر انہیں کو کافر کہہ کے مار دیتے ہیں۔
یہ ہے آج کا جہاد اور عشق رسول سب دکھاوا اور جھوٹ …… “ بابا جمعہ کھانستے ہوئے خاموش ہوگئے اور کافی دیر خاموش رہے عادل آج بلال کی طرح سُن زیادہ رہا تھا اور بول کم بابا جمعہ نے پھر سے لب کشائی کی۔
” تمہارے پاس کاغذ قلم ہے“ بابا جمعہ نے عادل کو دیکھ کر پوچھا عادل نے اثبات میں سرہلایا اور اپنے شولڈر بیگ سے ایک نوٹ بُک اور پین نکالا بابا جمعہ نے دیکھا تو بولے ”بیٹا لکھو جو فقیر اور پیر لینے والا ہے وہ جھوٹا اور فریبی ہے اور جو اللہ کے بندوں کو تقسیم کرتا ہے اُس کی عزت اور احترام کرو مگر ادب اور عقیدت اپنی حدود میں رہیں شرک سے دور۔
اپنے اوپر محبت فرض کرلو اللہ سے اُس کے حبیب ﷺ سے اور اللہ کی ساری مخلوق سے یاد رکھنا عادل بیٹا عبادت وہی قبول ہوتی ہے جس میں محبت شامل ہو اور اپنے ملک سے بھی محبت کرو یہ بھی ایمان کا حصہ ہے جو چیز اللہ کے نام پر قربان ہوجائے وہ ختم نہیں ہوتی بلکہ امر ہوجاتی ہے اور جو چیز اللہ کے نام پر بنائی جائے وہ مٹ نہیں سکتی بلکہ قائم رہتی ہے اور یہ ملک اللہ کے نام پر بنایا گیا ہے۔
یہ انشاء اللہ قائم رہے گا …… “ باباجمعہ یہ سب بول کر پھر سے خاموش ہوگئے وہ کچھ سوچ رہے تھے۔
” تم آج یونیورسٹی نہیں گئے“ بابا جمعہ کو اچانک خیال آیا ”چلو بھئی چائے تو پلوادو “
عادل نے اقبال کو فون کردیا اِس کے بعد بابا جمعہ نے عادل کو ساتھ لیا اور K بلاک میں واقع ایک بینک میں اپنا اکاوٴنٹ اوپن کروایا اور اپنے بعد بلال کو نومینیٹ کیا۔
اُس اکاوٴنٹ میں ایک اچھی خاصی بڑی رقم جمع کروادی۔ یہ رقم بابا جمعہ کے مکان کی تھی انہوں نے اپنا مکان اقبال چائے والے کو بیچ دیا تھا۔ اِس شرط پر جب تک میں زندہ ہوں میں ہی اِس مکان میں رہوں گا میرے مرنے کے بعد یہ تمہارا ہے۔ بینک سے فارغ ہونے کے بعد جب عادل اور بابا جمعہ واپس آئے تو محمد طفیل اُن کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا اور چائے پڑی پڑی ٹھنڈی ہوچکی تھی بابا جمعہ نے کہا ”عادل بیٹا نیچے بلی کا پیالہ پڑا ہوا ہے یہ چائے اُس میں ڈال دو اور اقبال سے کہو خود چار کپ چائے لے کر آجائے اور بسکٹ بھی بول دو اُسے “
تھوڑی دیر بعد اقبال چار کپ چائے لے کر آگیا سب نے چائے پی اِس کے بعد بابا جمعہ نے ایک اشٹام پیپر اپنی بوری کے نیچے سے نکالا جس کے اوپر وہ خود بیٹھے تھے اور اُس کے ایک کونے کے نیچے اشٹام پیپر رکھا تھا۔
”محمد طفیل اور عادل بیٹا میں نے اپنا مکان محمد اقبال کو بیچ دیا ہے تم دونوں گواہ ہو اِس اشٹام پیپر پر میں نے دستخط اور انگوٹھا لگادیا ہے تم دونوں بھی گواہوں کی جگہ دستخط کردو اور یہ کاغذ اقبال کو دے دو“
انہوں نے ایسا ہی کیا خاموشی سے بغیر کچھ پوچھے ہوئے اور کاغذ اقبال کو دے دیا اقبال چائے والا مکان خرید کر بھی اُداس تھا ”اقبال بیٹا مبارک ہو تمہیں “ بابا جمعہ نے اقبال کوواپس اپنی دکان کی طرف جانے سے پہلے کہا اقبال جاچکا تھا۔
”آج بلال صاحب نظر نہیں آرہے ہیں “ محمد طفیل نے بابا جمعہ سے پوچھا۔
” محمد طفیل وہ عصر کے بعد آتا ہے ابھی تو ظہر بھی نہیں ہوئی“
” بابا جی یہ پانچ لاکھ ہے میری کمیٹی نکلی تھی۔ دوسری کمیٹی ہی نکل آئی تھی ، آج میں لے کر حاضر ہوگیا ہوں“ محمد طفیل نے ایک کالے کپڑے میں لپٹے ہوئے چھوٹے بڑے نوٹ بابا جمعہ کو احترام سے دیئے ”عادل بیٹا یہ پیسے پکڑلو اور گھر جاکر گنتی کرنا یہاں نہیں یہ میرے بلال کی امانت ہے تمہارے پاس“ عادل نے جلدی سے وہ رقم پکڑلی اور اپنے بیگ میں ڈال لی۔
”بابا جی میں آپ کا اور اُس بچے کا دین نہیں دے سکتا۔ آپ نے مجھے تباہی سے بچا لیا میں نے بینک کا قرض بھی اُتار دیا ہے۔ بلال کے دیئے ہوئے پیسوں سے اور میرا کاروبار بھی بہت اچھا چل پڑا ہے اور اپنی بہنوں کا حصہ بھی میں نے دینے کا وعدہ کرلیا ہے اُن کے ساتھ “
” محمد طفیل ایک صحابی تھے حضرت عبدالرحمن بن عوف انہوں نے اپنے انتقال کے وقت 3 ارب 10 کروڑ 20 لاکھ دینار چھوڑے اور ایک دینار تقریباً ماشے وزن کا سونے کا سکہ تھا۔
عادل بیٹا باقی حساب کتاب تم کرلینا اُن کی دولت کا ……
اُن کی تجارت کے 4 اصول تھے …… یاد رکھو بلکہ عادل بیٹا لکھ لو ……
-1 انہوں نے کبھی اُدھار مال نہیں خریدا تھا۔
-2 کبھی اُدھار نہیں بیچا تھا۔
-3 ذخیرہ کبھی نہیں کیا زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے گاہک لگ گیا تو سودا دے دیا۔
-4 اور کبھی اپنے سودے کا عیب نہیں چھپایا تھا۔
محمد طفیل اِن باتوں پر عمل کرنا پھر دیکھنا اللہ کی رحمت کیسے برستی ہے تم پر اور آخری بات جلدی سے جلدی بلال کا قرض اُتار دینا۔ “
نورانی مسجد میں ظہر کی اذان شروع ہوچکی تھی ”چلو بھئی مالک نے بلایا ہے “ وہ تینوں مسجد کی طرف چل دیئے عادل نے وہ بیگ اپنی گاڑی میں رکھ دیا جس میں پانچ لاکھ روپے تھے بلال کی امانت۔ نماز سے فارغ ہوکر اُس نے وہ روپے بھی بابا جمعہ کے اکاوٴنٹ میں جمع کروادیئے۔
عادل کا اکاوٴنٹ بھی اُس بینک میں تھا اور اُس کے ریفرنس کی وجہ سے باباجمعہ کا اکاوٴنٹ اوپن ہوا تھا۔
###
” تمہارا اسکول تو بڑا شاندار ہے“ جمال رندھاوا سارا اسکول دیکھنے کے بعد بلال کے آفس میں چائے پیتے ہوئے بولے گل شیر خان اُن کے ساتھ تھا بلال نے انہیں اپنا پلاٹ بھی دکھایا جو اُس نے خریدا تھا۔ اسکول کی بلڈنگ بنانے کے لیے جمال رندھاوا بلال کی ترقی سے بہت خوش تھے۔
اُن سے زیادہ گل شیر خان کے چہرے پر خوشی تھی اُن کے جانے کے بعد۔
”تمہارے بڑے دانت نکل رہے ہیں “ بلال نے فوزیہ سے کہا جو ہنسنے کے بہانے ڈھونڈ رہی تھی فوزیہ آج بہت خوش تھی۔
”سر آپ کی شادی طے ہوگئی ہے اس لیے “ فوزیہ نے اپنی ہنسی کی وجہ بتائی تھی۔
” وہ تو ٹھیک ہے مگر یہ خوشیاں کچھ اورظاہر کررہیں ہیں۔ سچ سچ بتاوٴ اندر کی بات“
” سر آج رات کو لیاقت علی آرہا ہے اور اُس کے دس دن بعد ہماری شادی ہے …… قسم سے …… سر آپ بڑے تیز ہیں کچھ بھی کرلو آپ کو خبر ہوجاتی ہے چہرہ دیکھ کر آپ دل کی بات جان لیتے ہیں۔
“
دروازے پر دستک کے بعد نیناں ایک فائل پکڑے ہوئے آفس داخل ہوتی ہے اُس نے وہ فائل بلال کے سامنے رکھی ”سر آپ چیک کرلیں “ نوین عرف نیناں بولی ”ٹھیک ہے آپ جاوٴ میں چیک کرکے بجھواتا ہوں “ بلال نے فائل پر نظریں جمائے ہوئے جواب دیا نوین کی طرف دیکھا بھی نہیں نوین بلال کے چہرے کو دیکھ رہی تھی اور فوزیہ اُن دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ نوین کے جانے کے بعد فوزیہ اُس کا حجاب دیکھ کر بولی۔
” سر جس چہرے پر نقاب ہو اُسے کیسے پڑھتے ہیں آپ “
” فوزیہ جی …… یہ جو آنکھیں ہیں ناں …… بڑی سچی ہوتی ہیں …… ہمیشہ سچ ہی دکھاتی ہیں اور آپ کے اندر کا سچ چھپاتی بھی نہیں ہیں …… بس آنکھ سچ دیکھنے والی اور سچ پڑھنے والی ہونی چاہیے“ فوزیہ کا دماغ کالے جامنوں کی طرح بلال نے ہلادیا جیسے کالے جامن برسات کے دنوں میں ڈبے میں ڈال کر اوپر سے کالا نمک ڈال کر جامن بیچنے والا ہلاتا ہے اِس طرح بہت ساری آنکھوں کی باتوں نے فوزیہ کا دماغ ہلا کر رکھ دیا تھا۔
” سر آپ کی باتیں، آنکھیں، سچ، میری سمجھ سے باہر ہیں“ فوزیہ سر کھجاتے ہوئے بولی۔
” سر میں ہی پاگل ہوں جو اُلٹے سیدھے سوال پوچھتی ہوں بعد میں مشکل جواب سننے پڑتے ہیں۔ سیدھی بات یہ ہے نیناں اچھی لڑکی ہے کسی سے فضول بات نہیں کرتی بس دیکھتی رہتی ہے قسم سے …… سر میں بھی اِس کا چہرہ دیکھ نہیں سکی ابھی تک ہمیشہ نقاب کرکے رکھتی ہے“”کسی کا چہرہ دیکھ کر بھی آپ اُس کا اصلی چہرہ نہیں دیکھ پاتے …… کبھی ایسا بھی ہوتا ہے، بن دیکھے ہی آپ دیکھ لیتے ہیں …… اندر تک اُس کے باطن کو“ بلال نے سنجیدگی سے کہا ”سر آج آپ کچھ زیادہ ہی مشکل باتیں کررہے ہیں “
” اچھا ایسا کرو ایک گرین ٹی کا بول دو میرے لیے اور اپنے لیے بھی کچھ منگوالو“
اِس کے بعد بلال فائل چیک کرنے میں مصروف ہوگیا تھا۔
اور فوزیہ اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔ تھوڑی دیر بعد آفس بوائے گرین ٹی اور چائے رکھ گیا تھا بلال نے فوزیہ کی طرف دیکھا جس نے چائے میں چینی نہیں ڈالی تھی۔ وہ ساری بات سمجھ گیا ”کیوں آج پھیکی چائے؟ “ بلال نے گرین ٹی کا سپ لیتے ہوئے پوچھا۔
” سر ویسے ہی آپ ہمیشہ کہتے ہیں چینی کم ڈالا کرو چائے میں“ فوزیہ کھسیانی ہوکر بولی ۔
بلال کے چہرے پر ملین ڈالر مسکراہٹ اُبھر آئی۔
” سر آپ مسکرا کیوں رہے ہیں“فوزیہ کو اندازہ تھا بلال کس بات پر مسکرایا پھر بھی اُس نے پوچھ لیا ”بس یونہی “ بلال نے فوزیہ کی طرف دیکھ کر کہا
” قسم سے …… سر آپ کی نظریں کوئی بات نہیں چھپ سکتی اِن سے “ فوزیہ نے چائے کا کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
”فوزیہ جی …… تم لڑکیاں شادی سے پہلے جتنا ویٹ لوز کرتی ہو شادی کے بعد اُس سے ڈبل گین کرلیتی ہو، ایک مہینہ کے اندر اندر شادی کے بعد دعوتوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
میری بات یاد رکھو اگر خود کو بدلنا چاہتی ہو تو اپنا لائف اسٹائل بدلو ایسا نہیں ایک مہینہ ڈائٹنگ اور دو مہینے عیاشی …… کرو
سب کچھ کھاوٴ بھوک رکھ کے …… اور ہلکی پھلکی ورزش کم ازکم ہفتہ میں پانچ دن اور ٹھنڈا پانی بند کردو تازہ پانی پیو اگر ہوسکے تو نیم گرم پانی صحت مند رہو گی ہمیشہ …… “
” سر آپ میٹھا کیوں نہیں کھاتے“ فوزیہ نے اعتراض کیا بلال کی عادت پر
تمہیں کس نے کہا میں میٹھا نہیں کھاتا بس میں چینی کا استعمال نہیں کرتا۔ میں شہد استعمال کرتا ہوں اور گڑبھی کھاتا ہوں“بلال اپنی پھیکی گرین ٹی ختم کرچکا تھا۔
” سر آپ گڑ کھاتے ہیں“ فوزیہ حیرت سے بولی جیسے گڑ نہ ہو زہر ہو۔
###