”ہاں ایک بات تھی۔ عادل بہت لائق تھا۔ ہمیشہ کلاس میں سب سے اچھے گریڈز لیتا تھا۔ میٹرک میں تو اس نے بورڈ میں ٹاپ کیا تھا۔ اور FSc میں آئی تھینک سیکنڈ پوزیشن تھی پھر یہ آرمی میں چلا گیا وہاں سے یہ چند روز میں واپس آ گیا، پھر کہنے لگا MBA کروں گا، وہ بھی بیچ میں ہی چھوڑ دیا۔ آج کل شاید انگلش لٹریچر کر رہا ہے … کبھی اسے صحافی بننے کا بخار بھی چڑھا تھا۔
بیچ میں کسی مشہور اخبار میں چھوٹے موٹے کالم بھی لکھتا رہا ہے۔
میری اور اس کی ہمیشہ لڑائی رہی ہے۔ ایک سال سے یہ مجھ سے سخت ناراض ہے دیکھا نہیں آپ نے مجھے آنکھ اُٹھا کر دیکھا بھی نہیں ہمیشہ مجھے اُلٹے نام سے بلاتا تھا۔ اور آج دیکھو آپ کی نقل کر رہا تھا۔ عظمی جی … عظمی جی … یہ بھی اس نے جھوٹ بولا تھا، میرا روزہ ہے۔
(جاری ہے)
جھوٹا کہیں کا اس نے اپنی پوری زندگی میں کبھی رمضان کے روزے نہیں رکھے“ عظمی نے ساری طوطا کہانی سنا کر ہی دم لیا شاید اُس کا گلہ خشک ہو گیا تھا۔
”عادل جھوٹا نہیں ہے اور اُس نے روزہ بھی رکھا ہوا تھا … اور جہاں تک میری نقل کی بات ہے … ہم دونوں ہی بابا جمعہ کی نقل کرتے ہیں۔ بابا جی جب بھی کسی چھوٹی بڑی عورت کو مخاطب کرتے تھے، تو ساتھ جی ضرور لگاتے تھے۔ اور جب کسی بچے بوڑھے یا جوان کو بلاتے تو اُس کے نام کے ساتھ صاحب ضرور لگاتے تھے“۔ بلال نے سنجیدگی سے عظمی کوبتایا۔
”انکل ہاشمی تو اسے لندن لے کر گئے تھے کسی مشہور سائیکا ٹرسٹ کو چیک کروانے کے لیے، اور پاکستان میں بھی شاید ہی کوئی سائیکا ٹرسٹ ہو جس سے عادل عقیل کی میٹنگ نہ ہوئی ہو۔
اس کا زندگی میں کوئی مقصد نہیں اور نہ ہی کوئی منزل تھی یہ ایک اُلجھا ہوا ذ ہنی مریض تھا۔ یہ کیسے ٹھیک ہو گیا۔“
عظمی عادل کی شخصیت پر تبصرہ کر رہی تھی۔
”عظمی جی یہ آپ کا خیال ہو سکتا ہے ویسے بھی جس کلاس سے آپ کا اور عادل کا تعلق ہے وہاں سائیکا ٹرسٹ کے پاس جانا ایک فیشن ہے۔ بابا جی کے بقول عادل کے ساتھ ایک مسئلہ تھا کہ وہ سوال تلاش کرنے میں دماغ استعمال کرتا تھا۔
اب وہ غور و فکر کرتا ہے اور خود جواب تلاش کرتا ہے۔ قرآن کو پڑتا ہے ترجمے کے ساتھ اور نماز کی بھی پابندی کرتا ہے۔
بابا جی جاتے ہوئے اُسے آخری سبق یاد کرا گئے ہیں جسے وہ زندگی بھر نہیں بھولے گا۔
ہم نے محبت کے رستے پرچل کر علم تلاش کرنا ہے اور ہماری منزل اللہ اور اُس کے حبیبﷺ کی رضا ہونی چاہیے۔“
عظمی کے جانے کے بعد نیناں بلال کے آفس میں آئی ”سر میرا موبائیل ٹیبل کے دراز کے اندر ہے وہ لے لوں“ بلال نے اشارہ کر دیا تھا موبائیل لینے کا۔
###
5 دن بعد فوزیہ کی شادی لیاقت علی کے ساتھ ہوگئی۔ بلال نے شادی میں شرکت کی تو شی اور نوشی کے ساتھ شادی کے تینوں دن۔ بلال نے فوزیہ اور لیاقت کوشادی پر الگ الگ تحائف دئیے شادی کے ایک ہفتہ بعد اُس نے لیاقت فوزیہ خالہ ثریا اور خالہ نصرت کی ایک شاندار دعوت کی جوہر ٹاؤن کے مشہور ریسٹورنٹ میں اس دوران بلال عظمی اور عادل کے اختلافات ختم کروانے کی بھی کوشش کرتا رہا۔
جمال رندھاوا اپنے بزنس کے سلسلے میں سیالکوٹ ہی میں تھے۔ نوشی اور توشی کے پاس باپ کی دی ہوئی اچھی خاصی رقم تھی جسے وہ شاپنگ کرکرکے اُڑا رہیں تھیں۔ ناہید اپنے سازشی ذہن کے ساتھ بلال کے خلاف کوئی منصوبہ بنا رہی تھی۔ جس میں شعیب اور ولید کی مدد اُسے حاصل تھی۔ جہاں آرا بیگم اپنی زندگی کے آخری دونوں میں توبہ استغفار میں مصروف رہتی تھیں۔
عادل اب بھی بابا جمعہ کے موچی خانے پر جاتا تھا۔ جہاں پر اُسے بابا جمعہ نظر نہیں آتے تھے وہاں شتہوت کا درخت بھی اُداس تھا اور نیم کا درخت بھی پریشان تھا۔ فائبر کی گرین شیٹ سائباں کیے ہوئے تھی۔ مگر اب اُس کے نیچے کوئی نہیں بیٹھتا تھا۔
بابا جمعہ کا سارا سامان اقبال نے اپنے پاس محفوظ کر لیا تھا۔ سوائے لکڑی کے بڑے بینچ کے جسے وہیں، لوہے کی زنجیر سے بجلی کے کھمبے کے ساتھ باندھ دیا گیا تھا۔
بجلی ہی کے کھمبے کے پاس بابا جمعہ کا گھڑا بھی پڑا ہوا تھا۔ جس میں پانی توتھا مگر وہ پھر بھی خشک ہی لگ رہا تھا۔ بابا جمعہ کو دنیا سے کوچ کیے ہوئے 23 دن گزر چکے تھے۔ عادل کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ جنہیں وہ بار بار اپنے ہاتھ کی پشت کے ساتھ ایک چھوٹے بچے کی طرح صاف کر رہا تھا۔ اب عادل چلتے چلتے بابا جمعہ کے اڈے کے پاس کھڑا تھا۔ جب اچانک اُس کی نظر لکڑی کے بینچ کے نیچے پڑی جہاں اُسے وہ کالی بلی نظر آئی جو عادل ہی کو دیکھ رہی تھی۔
جیسے اُس سے سوال پوچھ رہی ہو۔بابا جی کب آئیں گے۔ وہ کالی بلی بالکل صحت مند تھی ویسے ہی جیسے 23 دن پہلے ہواکرتی تھی۔ ”مگر اس کو دودھ، چائے، کھانا کون دیتا ہے“ اُس نے سوچا، اُسی لمحے اسے احساس ہوا کوئی اُس کے پیچھے کھڑا تھا۔ عادل فوراً واپس مڑا بلال ہاتھ میں ایک شاپر بیگ اُٹھائے ہوئے تھا۔ بلال کے چہرے پر ہمیشہ کی طرح ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔
بلال نے وہ شاپر بیگ لکڑی کے بینچ پر رکھا اور اُس میں سے دودھ کا ڈبہ نکال کر کالی بلی کے پیالے میں دودھ ڈال دیا۔ ”مجھے اس بلی کا خیال کیوں نہیں تھا۔“ عادل نے خود کو دل ہی دل میں ملامت کی۔”میں بابا جمعہ سے جتنی بھی محبت کر لوں بلال کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔“ اُس نے پھر سوچا۔ بلال نے بلی کودودھ ڈالنے کے بعد سڑک کے دوسری طرف بس اسٹاپ سے پہلے ایک کھجور کے درخت کے نیچے ایک مٹی کی بڑی سے کنالی میں پانی ڈالا اور بہت سارا دانہ پانی کے گرد بکھیر دیا دانہ بکھیرنے کی دیر تھی بہت سارے کبوتر جنگلی کبوتر پتہ نہیں کہاں سے آ گئے فوراً جیسے وہ انتظار میں بیٹھے ہوں۔
بلال واپس عادل کی طرف آ گیا فون کرتے ہوئے اب وہ دونوں لکڑی کے بینچ پر ٹانگیں لٹکائے ہوئے بیٹھے تھے۔
”عادل صاحب ایک بات یاد رکھو، موت سب سے بڑی حقیقت ہے۔ جسم پر تومٹی ہی کا حق ہوتا ہے۔ دو مقصد ہونے چاہئیں ایک آخرت کے لیے کہ کسی طرح اللہ اور اُس کا محبوب راضی ہو جائے … اور دوسرا کچھ ایسا کر جائیں جس سے بعد میں اللہ کی مخلوق کا فائدہ ہوتا رہے۔
انسان تب تک دنیا میں زندہ رہتا ہے۔ جب تک اُس کی سوچ زندہ رہتی ہے۔اوراُس کے شروع کیے ہوئے اچھے کام چلتے رہتے ہیں۔
تم بابا جی کو زندہ رکھ سکتے ہو اگر اُن کی سوچ کو نہ مرنے دو اُن کے شروع کیے ہوئے کام جاری رکھو۔“
”بلال بھائی چائے “ ببلو نے بڑی محبت سے کہا جو چائے کی ٹرے لیے کھڑا تھا۔ ”بابر اس وقت یہاں“ بلال حیرت سے بولا۔
”بلال بھائی آپ کو بتایا تو تھا میں سنڈے کو اوور ٹائم کرتا ہوں“
”سٹڈی کیسی چل رہی ہے“ بلال نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔”تمہاری کلاس انچارج بتا رہی تھی۔ اس بار کمپیٹیشن بہت سخت ہے“۔
”بلال بھائی آپ خود ہی تو کہتے ہو بابر محنت کر اللہ کسی کی محنت رائیگاں نہیں کرتا۔ “ بابر نے اعتماد سے بلال کو جواب دیا۔
”بلال بھائی میں چلتا ہوں دکان پر بہت کام ہے۔
“ بابر جاتے ہوئے بولا عادل حیرت سے دیکھ رہا تھا بابر کو جاتے ہوئے۔
”اسے آپ کیسے جانتے ہیں “عادل نے پوچھا۔
”یہ میرے اسکول میں پڑھتا ہے۔ “ بلال بھی بابر کو دیکھ رہا تھا جاتے ہوئے اُس نے عادل کی طرف دیکھے بغیر کہا تھا۔ (عادل بیٹا کسی دن بلال کے اسکول ضرور جانا) عادل کے ذہن میں بابا جمعہ کے الفاظ گونجے۔
”بلال بھائی بابا جی کی سوچ کیا تھی اور اُن کے کون سے کام تھے۔
جن کو جاری رکھا جائے۔ “
عادل چائے پیتے ہوئے حیرت میں مبتلا پوچھ رہا تھا۔بلال کے چہرے پر ملین ڈالر مسکراہٹ اُبھر آئی۔
”ویری سمپل … اُن کی سوچ یہ تھی کہ محبت عام ہو جائے … اور کام یہ تھا، محبت کو عام کرنے کے لیے محبت کرتے تھے۔ اللہ کی مخلوق سے اللہ ہی کے لیے …
محبت پانی کے قطرے کی طرح ہوتی ہے پانی کے قطرے مسلسل گِر گِر کر پتھر میں بھی اپنے نشان چھوڑ جاتے ہیں۔
یہ بینچ کے نیچے محبت کا ثبوت ہے، یہ بلی جانور ہے، مگر اسے محبت کی ڈوری نے باندھا ہوا ہے مجھے یاد ہے سخت سردی میں ایک بلی کا بچہ بابا جی سڑک سے اُٹھا کر لائے تھے جو سردی اور بھوک کی وجہ سے مرنے کے قریب تھا۔ بابا جی نے اپنا گرم سویٹر اُتارا اور اُس میں بلی کے بچے کو لپیٹا اُس کے بعد سے یہ بلی یہاں سے نہیں گئی۔
اگلے دن میں ایک فوم کی گدی لے کر آیا تھا، اس بلی کے لیے آج پانچ چھ سال ہو گئے اس بات کو اور وہ سامنے کبوتر بابا جی 31 سال سے اُن کو دانہ ڈال رہے تھے بابا جی جب صبح صبح ان کو دانہ ڈالتے تو یہ اُن کے کندھوں پر بیٹھ جاتے یہ بھی محبت ہی تو ہے …“
بلال نے اپنی کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی میں وقت دیکھا صبح کے نو بج رہے تھے۔
بڑی چمکیلی دھوپ نکلی ہوئی تھی فروری کی دھوپ فروری کی دھوپ چودویں رات کی چاندی کی طرح ہی حسین اور خوبصورت ہوتی ہے۔
”عادل مجھے جانا ہے منیٹل ہاسپٹل میں چلتا ہوں “ بلال یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔ عادل نے پنجوں کے بل بیٹھ کر بینچ کے نیچے دیکھا وہ بلی ایک چیتھرے چیتھرے ہوئے سویٹر پر بیٹھی ہوئی تھی بلال کی گدی کے اوپر اُس نے چائے کے برتن اُٹھائے اور اقبال کی دکان کی طرف چل دیا برتن واپس کرنے کے بعد عادل واپس آیا اور سڑک کے دوسری طرف کھڑی ہوئی اپنی گاڑی کی طرف چل دیا، گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے وہ کبوتروں کے بیچ میں بیٹھا مگر اُسے دیکھ کر سارے کبوتر اُڑ گئے کوئی بھی اس کے کندھے پر نہیں بیٹھا تھا۔
عادل وہاں سے جانے کے لیے اپنی گاڑی میں بیٹھ چکا تھا۔تب اُس نے اپنی پیشانی کو دیکھا سنٹر والے مرر میں تب اُسے بابا جمعہ کی کہی ہوئی ایک اور بات یاد آئی۔
محبت فرض ہے … اللہ اور اُس کے رسول ﷺ سے … اور اللہ کی ساری مخلوق سے … محبت فرض ہے …
###