”اگر کبھی عادل مجھے کاٹ لے تو آپ ہی سے دم کرواؤں گی “ عظمی کھل کھلا کر ہنستے ہوئے بولی اور گاڑی سے خوشی خوشی اُتر گئی۔
بلال نے گاڑی ماڈل ٹاؤن سے ڈیفنس کی طرف موڑ لی تھوڑی دیر بعد وہ گھر پرتھا گاڑی سے اُترنے سے پہلے اُسے عظمی کا مسیج ملا جس میں لکھا ہوا تھا۔
Bilal thank you again I should Adil new mobile number.
بلال نے عظمی کو عادل کا نیا نمبر مسیج کر دیا تھا۔
بلال جب اپنے کمرے میں پہنچا تو عصر کی نماز کا وقت ہو چکاتھا۔اُس نے گرم پانی سے غسل کیا اور نماز ادا کی اس کے بعد ایک کپ گرین ٹی بنائی اور مگ لے کر چھت پر چلا گیا چھت پرایک پرانی ایزی چیئر پڑی ہوئی تھی۔ جس کے اوپر بیٹھ کر وہ ڈوبتے ہوئے سورج کو دیکھ رہا تھا۔ فروری کی 9 تاریخ اتوار کا دن اورسال 2014 غروب ہوتا سورج، اور بلال گرین ٹی سے لطف اندوز ہوتا ہوا سوچوں میں گم تھا۔
(جاری ہے)
سورج کی شعاعیں اُس کے حسین چہرے کو مزیدروشن بنارہیں تھیں۔ اور وہ سورج ہی کے متعلق غور و فکر کررہاتھا۔ دن21 دسمبر کا ہو یا 21 جون سورج کو غروب ہونا ہی پڑتا ہے۔اُسی طرح انسان 10 سال کی عمر میں مر جائے یا 100 سال بعد اُسے مرنا ہی پڑتا ہے۔
پرندے اپنے اپنے گھروں کوواپس لوٹ رہے تھے۔ انسان کوبھی واپس اللہ کے حضور لوٹنا ہی پڑتا ہے۔
سب کوواپس لوٹ کر جانا ہی پڑے گا کسی کو پہلے اور کسی کو بعد میں جانا سب کو ہے…اور باقی … پیچھے کون… رہنا کس نے ہے … بلال دل میں سوچ رہا تھا … مغرب کی اذان شروع ہو چکی تھی …
اَ للّٰہ اَکْبَرْ …اَ للّٰہ اَکْبَرْ… اَ للّٰہ اَکْبَرْ … اَ للّٰہ اَکْبَرْ
اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
بلال کو اُسی لمحے جواب مل گیا وہ مسکرایا اپنا گرین مگ پکڑا اور مسجد کی طرف رُخ کیا جب وہ نماز پڑھ کر واپس لوٹا تو نوشی اس کے انتظار میں بیٹھی ہوئی تھی۔
”میں کافی دن سے آپ سے ایک بات کرنا چاہ رہی تھی۔ “ نوشی جھجھکتے ہوئے بولی۔
بلال نے اثبات میں سر ہلایا نوشی کی طرف دیکھ کر جیسے کہہ رہا ہو جی بتائیں۔
”میری خواہش ہے اگر آپ مان لیں تو … دراصل میں یہ چاہتی تھی … جس طرح آپ نے شادی کے بارے میں سوچا تھا… میرے بھی کچھ ارمان تھے اپنی شادی کو لے کر … “
”نوشی جی آپ کھل کر بات کر سکتی ہیں میں بالکل بھی بُرا نہیں مانوں گا “ بلال نے حوصلہ بڑھایا نوشی کا، وہ اُس کی پریشانی دیکھ رہا تھا۔
وہ بلال سے بات نہیں کر پا رہی تھی۔
”دراصل میں یہ چاہتی ہوں نکاح آپ کی مرضی سے ہو اور ولیمہ میری مرضی سے کسی بڑے ہوٹل میں ہمارے سٹیٹس کے عین مطابق “ نوشی نے ہمت کرکے دل کی آدھی بات کہہ دی۔
”ٹھیک ہے … اور کچھ … مجھے جگہ بتا دیں… اور مینیو بھی ڈیسائیڈ کر لیجیے گا۔ “
بلال نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
”ارے میں تو ایسے ہی کنفیوز تھی۔
یہ تو بڑی جلدی مان گیا نکاح کا بھی بول دیتی ہوں۔ “
نوشی اپنے دل کے اندر خود ہی سے مخاطب تھی۔
” مسجد میں نکاح پر بھی آپ کو اعتراض ہوگا۔“ اس دفعہ بلال نے پوچھا تھا۔
”ہاں… نہیں وہ … نکاح تو ٹھیک ہے “ نوشی نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا۔
”نوشی جی بیٹھ جائیں “ بلال نے نوشی کوبیٹھنے کو کہا جو کہ بلال کے سامنے کھڑی تھی۔
نوشی بیٹھ گئی دیوان پر بلال کرسی لے کر اُس کے سامنے بیٹھ گیا تھا۔
”میاں بیوی کا رشتہ اُس وقت ٹوٹ جاتا ہے جب وہ دوسروں کی سنتیں ہیں اور دوسروں سے کہتے ہیں۔ آپس میں بات کرنے سے اُن کا رشتہ مضبوط ہوتا ہے۔ “
”جی میں سمجھ گئی، اب میں چلتی ہوں۔ “ نوشی نے بلال سے جان چھڑائی اور وہاں سے نکل آئی۔
تھوڑی دیر بعد نوشی توشی کو ساتھ لے کر آ گئی، دوبارہ بلال کے روم میں توشی تھوڑی دیر اِدھر اُدھر کی باتیں کرتی رہی پھر وہ اصل بات کی طرف آئی تھی۔
”بلال دراصل نوشی تم سے کچھ پوچھنا چاہتی ہے۔ “ توشی ترجمان بنی ہوئی تھی نوشی کی ۔
”جی پوچھیں سب کچھ جو آپ جاننا چاہتی ہیں میرے بارے میں “ بلال نے سنجیدگی سے کہا۔
”آپ نے کبھی جھوٹ بولا ہے۔ “ نوشی دیوان کے بازو پر ناخن رگڑتے ہوئے بولی۔
”میٹرک میں تھا تب بولا تھا۔میں خود میٹرک کی تیاری کر رہا تھا۔مجھے پیسوں کی ضرورت تھی۔
دو لڑکیاں وہ بھی میٹرک میں پڑھتی تھی۔ اُن کے پیرنٹس سے کہا، میں FSc کر چکا ہوں، اس طرح مجھے جھوٹ بول کر اُن کی ٹیویشن مل گئی تھی۔ “
”کبھی کسی کیساتھ دھوکہ کیا یا بے ایمانی کی۔ “
”کبھی نہیں “
”سگریٹ، شراب، یا کوئی دوسرا نشہ زندگی میں کیا ہو۔ “
”کبھی نہیں آج تک ہاتھ نہیں لگایا ان میں سے کسی بھی چیز کو۔ “
”کوئی اسکینڈل کوئی فلرٹ کوئی لڑکی جو آپ کی زندگی میں ہو۔
“
”کوئی اسکینڈل نہیں کبھی کسی کیساتھ فلرٹ نہیں کیا ہاں میری زندگی میں ایک لڑکی ہے۔ “ بلال نے سنجیدگی سے جواب دیا نوشی اور توشی کا چہرہ زرد پڑ گیا پریشانی اُن کے چہرے پر واضح تھی۔
”وہ کون ہے۔ “ نوشی نے پریشانی سے پوچھا۔
”اس وقت میرے سامنے بیٹھی ہے اور اگلے مہینے میری اُس سے شادی ہونے والی ہے۔ “
بلال نے نوشی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سنجیدگی سے کہا نوشی نے شرما کر نظریں جھکا لیں اور اُٹھ کر وہاں سے چلی گئی۔
”بلال پتہ نہیں کون اس کے ذہن میں اُلٹی سیدھی باتیں ڈال دیتا ہے۔پھر یہ مجھ سے پوچھتی ہے بھلا میں کیا جواب دوں اس کے سوالوں کا کبھی کہتی ہے بلال کی زندگی میں بہت ساری لڑکیاں ہیں۔ کل کہنے لگی اُس نے مجھ سے کبھی محبت کا اظہار نہیں کیا … پھر نکاح اور ولیمے کی بات لے کر بیٹھ گئی جیسے جیسے شادی کے دن قریب آ رہے ہیں مجھے تو فکرہو رہی ہے“ توشی نے اپنی پریشانی بیان کی۔
بلال نے ایک لمبی ٹھنڈی سانس لی اوربولا۔
”توشی جی میری زندگی میں کوئی لڑکی نہیں ہے۔اللہ کے فضل سے میں ہر قسم کے نشے سے محفوظ رہا ہوں۔ ولیمہ کی بات میں مان چکا ہوں۔ رہی بات محبت کے اظہار کی۔ تو ہر بات وقت پر اچھی لگتی ہے۔ اور جب وقت آئے گا تو میں اظہار بھی کروں گا … اگر ایمانداری سے دیکھا جائے تو محبت خود ہی اظہار ہوتی ہے۔
اورآخری بات آپ بھی یاد رکھنا اوراپنی بہن کو بھی بتا دیجیے گا ۔بغیر تصدیق کے کبھی سنی سنائی بات پر یقین نہ کریں۔ “
بلال کو اس طرح سے نوشی اور توشی کا سوال کرنا پسند نہیں آیا تھا۔وہ سوچ رہا تھا کون ہے۔ اور کیوں نوشی کو یہ سب کچھ بتا رہا ہے۔اُس کے ذہن میں اپنی ممانی اور شعیب کا نام آیا اُس نے نوشی کوآواز دی اور کہا نوشی کو بلا کر لائے چند منٹ بعد وہ دونوں بہنیں وہاں موجودتھیں۔
بلال نے دروازہ بند کیا پردے آ گے کیے اور اُن دونوں کے سامنے بیٹھ گیا وہ دونوں بہنیں دیوان پر بیٹھی ہوئیں تھیں۔بلال اُن کے سامنے کرسی لے کر بیٹھ گیا تھا۔
”میں نے آٹھ سال سے 26 سال تک ان 18 سالوں میں صرف ایک لڑکی کو چاہا جس کا نام نسیم جمال رندھاوا ہے… جس دن میری ماں نے کہا تھا۔بلال بیٹا نسیم سے شادی کرنا میں نے اُس دن سے نسیم کا ہاتھ تھام لیا تھا دل سے …یہ میرے کچے ذہن کی پکی محبت ہے۔
میرا ماننا ہے نہ محبت چھینی جاتی ہے، اور نہ ہی مانگی جاتی ہے … بلکہ محبت کی جاتی ہے … یا پھر محبت دی جاتی ہے … اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔“
نوشی اور توشی ایک دوسری کو دیکھ رہیں تھیں۔ انہیں بالکل اندازہ نہیں تھا۔ بلال اس طرح دو ٹوک بات کرسکتا ہے۔ نوشی کا تو دل چا ہ رہا تھا۔ کہ وہ اسی وقت بلال کے گلے لگ کر اُس کی ہو جائے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اُسے توشی کا بھی کوئی خیال نہ ہوتا، اگر وہ بلال سے نہ ڈرتی ایک دفعہ پہلے بھی اُس نے ایسی حرکت کی تھی۔
تب تو بلال نے اُسے پیار سے سمجھایا تھا، لیکن اس دفعہ شاید ایسا نہ ہوتا اس لیے نوشی نے اپنے جذبات کو شٹ اَپ کہا۔
”میں آپ سے ہی شادی کرنا چاہتی ہوں۔یہ میرا اٹل فیصلہ ہے۔ “ نوشی گردن جھکائے بولی
”تو پھر ممانی اورشعیب کو اعتراض ہوگا۔ اس رشتہ پر “ بلال نے خدشہ ظاہر کیا۔
”اگر ممانی اور شعیب کو اعتراض ہے۔ تو میں یہ شادی نہیں کروں گا۔
اور اُن کا نام بھی نہیں آئے گا سارا اعتراض میں اپنے سر پر لے لوں گا۔“
”ماما اورشعیب بھائی خوش نہیں ہیں اس رشتے پر “ توشی نے صاف گوئی سے کام لیا۔
”آپ اُن سے پوچھ کر مجھے بتا دو میں خود انکار کردوں گا۔ “ بلال نے کہا۔
”میں اُن دونوں کو یہاں بھیجتی ہوں تمہارے پاس“ توشی نے کہا۔
”نہیں ممانی بڑی ہیں۔ میں خود اُن کے پاس چلا جاتا ہوں۔ “ بلال نے جواب دیا۔
”ماما اس وقت شعیب بھائی کے روم میں ہوں گئی۔ “ توشی نے آواز لگائی بلال کو جاتے ہوئے دیکھ کر۔
بلال نے شعیب کے روم کے دروازے پر دستک دی اندر سے آواز آئی۔
” Yes come in “ بلال روم میں داخل ہو گیا۔