”اسلام علیکم “ بلال نے اندر داخل ہوتے ہی سلام کیا کمرے میں LCD on تھی اور وہ ماں بیٹا ڈرائی فروٹ کھانے میں مصروف تھے۔ ناہید اور شعیب کے چہروں پر عجیب طرح کی پریشانی اور حیرانی نظر آ رہی تھی۔ مگر وہ دونوں اپنی جگہ سے نہیں اُٹھے بلال آج کوئی 15 یا 16 سال بعد شعیب کے روم میں گیا تھا۔
”آؤ مسٹر بلال کیسے آئے ہو۔ “ شعیب طنزیہ انداز سے بولا، ناہید نے کچھ بھانپ لیا اُس نے فوراً رنگ بدلا گرگٹ کی طرح۔
”آؤ بلال اِدھر بیٹھو میرے پاس … کیسے آنا ہوا … “
ناہید مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجائے ہوئے بولی تھی۔
”ممانی جان آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ “ بلال نے ناہید کی طرف دیکھ کر کہا۔
”بولو … ضروری بات۔ “ ناہید نے روکھے لہجے سے جواب دیا۔
”مجھے ایسا لگ رہا ہے۔
(جاری ہے)
جیسے آپ میری اور نوشی کی شادی پر خوش نہیں ہیں۔ اور یہ شادی آپ کی مرضی کے خلاف ہو رہی ہے۔
اگر ایسی کوئی بھی بات ہے تو میں یہ شادی نہیں کروں گا اور آپ پر بات بھی نہیں آئے گی۔ میں خود انکار کردوں گا۔“
شعیب اور ناہید نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا انہیں بھی امید نہیں تھی۔ بلال اس طرح کی بات کر سکتا ہے وہ دونوں ہکا بکا تھے۔ ناہید نے اپنا ترپ کا پتہ سنبھال لیا تھا۔ کسی اور وقت کے لیے شعیب آنکھیں جھپکا جھپکا کر بلال کو دیکھ رہا تھا۔
ناہید کشمکش میں تھی بلال کو کیا جواب دے۔
”نہیں نہیں … ایسی تو کوئی بات نہیں … شاید تمہیں کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے … کیوں شعیب “ مگر شعیب خاموش رہا اُسے آناً فاناً بدلتی ہوئی صورتحال سمجھ نہیں آ رہی تھی۔
”میں اس رشتے پر بہت خوش ہوں … بلال بیٹا۔ “ ناہید نے چالاکی سے بات بدلی تھی اُس کی زبان سے کوئی 18 سال بعد بلال کے ساتھ بیٹا نکلا تھا۔
”تم بے فکر ہو کر جاؤ۔“
بلال وہاں سے چلا گیا تھا۔
”آئی ایم شاکڈ۔ “ شعیب منہ کھولے بولا۔
”شعیب تم ابھی بچے ہو۔ اسی لیے تو کہتی ہوں بلال بہت چالاک ہے۔ اگر میں اُسے یہ کہہ بھی دیتی کہ مجھے اعتراض ہے اس رشتے پر تو ساری بات مجھ پر آ جاتی اور تمہارا باپ پھر بھی یہ شادی کروا دیتا وہ اُسے زمین بھی خرید کر دیتا وہی 50 ایکڑ اور بلال کو سلامی میں بھی اچھی خاصی رقم دیتا خواہ مخواہ برائی لینے والی بات تھی۔
یہ جو رندھاوا ہوتے ہیں۔ انہیں دیہاتوں میں جٹ کہتے ہیں۔ جس چیز پر اڑ جائیں جٹ کی اڑی بہت مشہور ہے۔ تمہارا باپ بھی جٹ ہے وہ اڑ چکا ہے۔ اس رشتے پر اور میں بھی رندھاوا جٹ ہی کی بیٹی ہوں۔ تمہارا باپ یہ شادی کروا نا چاہتا ہے۔ اور میں ہونے نہیں دوں گی۔“
”ممانی نہیں چاہتیں یہ شادی ہو۔ “ بلال اپنے روم میں آ کر بولا جہاں پر نوشی اور توشی اُس کا انتظار کر رہیں تھیں۔
”ایسا ماما نے خود کہا آپ سے۔ “ نوشی نے روہانسی ہو کر پوچھا جلدی سے۔
”نہیں انہوں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔ وہ تو اس شادی پر بہت خوش ہیں … ایسا کہا ہے۔ انہوں نے اُن کے الفاظ اُن کے چہرے کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ یہ میری رائے ہے … “
”اُف شکر ہے میں اپنی ماما کو جانتی ہوں اگر انہیں اعتراض ہوتا تو وہ صاف کہہ دیتیں آپ کو وہم ہے اچھا بھئی میں جا رہی ہوں۔
“ نوشی بے فکری سے چلی گئی بلال اور توشی خاموش تھے۔ اور ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔
”ماما یوٹرن نہیں لے سکتی۔ نہ میں جانتی ہوں ماما کو اور نہ ہی نوشی … بلال تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو … ماما کے ذہن میں کیا چل رہا ہے … میں اُس کا پتہ لگاتی ہوں تم بے فکر ہو جاؤ۔ “ توشی نے اپنا نقطہ نظر بیان کیا۔
”بابا جی کہا کرتے تھے۔ زن زر اور زمین کی ہوس فساد کی وجہ سے بنتی ہے۔
میں ایسا بالکل نہیں چاہوں گا اس رشتے کو لے کر کوئی فساد بھرپا ہو اس گھر میں … “
بلال سوچ میں ڈوبا ہوا بول رہا تھا۔ توشی بھی واپس چلی گئی اپنے روم میں۔
”کیا کہہ رہے تھے وہ میرے بعد “ نوشی نے توشی کو روم میں داخل ہوتے ہی پوچھ لیا۔
”آخری بات کی تو مجھے بھی سمجھ نہیں آئی۔ “
”وہ کیا بات تھی … توشی۔ “
”زن زر اور زمین کی ہوس فساد کی وجہ سے بنتی ہے ایسا کہا تھا بلال نے … “
”زن اور زر یہ کون ہیں۔
“ نوشی حیرت سے بولی۔
”میں بھی یہی سوچ رہی ہوں۔ “ توشی نے اپنی پریشانی بھی ظاہر کر دی۔
”زن اور زر کو دفعہ کرو کوئی بھی ہوں۔ تم مجھے یہ بتاؤ تم آج کل بلال کو آپ آپ کس وجہ سے کہہ رہی ہو۔ “ توشی بولی لب سیکڑ کر۔
”BG کی باتیں بول گئی۔ ابھی سے BG نے کہا تھا۔ صاحب اور آپ کہہ کر بلانا۔ “
”وہ تو مجھے کہا تھا کہنے کے لیے۔
“ توشی ابرو چڑھا کر بولی۔
”توشی مجھے بلال کو آپ کہنا اچھا لگتا ہے۔ توشی جب انہوں نے کہا یہ میرے کچے ذہن کی پکی محبت ہے۔ تو میرا دل چاہا اُن کے گلے لگ جاؤ اُسی وقت اور اُن کو بتا دوں مجھے بھی اُن سے بہت محبت ہے۔ ایک دم پکی محبت پتھر پر لکیر جیسی۔ “
”وہ کس کا ڈریس ہے۔ “ توشی کی نظر پڑی بیڈ پر رکھے ہوئے Bridal dress پر۔ ”عالیہ زی نے بھیجا ہے۔
میرے لیے میرا Bridal dress“ نوشی نے بتایا۔
”مگر وہ جو تم نے خود ڈیزائن کیا تھا اُس کا کیا۔ “ توشی نے حیران ہو کر پوچھا۔
”تمہیں پتہ تو ہے کپڑے جوتے اور پرفیومز میری کمزوری ہیں۔ جتنے بھی ہوں اُتنے ہی کم …
اب اچھا تھوڑی لگتا ہے۔ اپنی شادی پر بھی خود کا ڈیزائن کیا ہوا Dress پہنا جائے“ ”اور یہ پرفیومز؟” یہ بھی میں نے ہی منگوائے ہیں، پیرس سے لاسٹ ویک عالیہ زی پیرس گئی ہوئی تھی۔
“
”یہ لو … اب بلال پلاٹ بیچ کر تمہارے کپڑے اور پرفیومز ہی پورے کرئے گا۔ “ توشی نے اپنے شانے اُچکاتے ہوئے کہا۔
”پلاٹ کی بات تو کرنا بھول ہی گئی تھی۔ “ نوشی کو اچانک یاد آیا۔
”مطلب؟ “ توشی فوراً بول پڑی۔
”مطلب یہ ماما نے کہا تھا۔ بلال سے کہو۔ پلاٹ حق مہر میں لکھ کر دے۔ اس طرح معلوم ہو جائے گا وہ تم سے کتنی محبت کرتا ہے۔
“ نوشی نے Bridal Dress پکڑا اور لہنگا نکال کر وہیں ہی اپنی ٹائٹ جینز پر پہن کر چیک کرنا شروع کر دیا۔ ”سوچ رہی ہوں چولی بھی چیک کر ہی لوں۔“
وہ تخیل سے اپنے آپ کو دلہن بنی دیکھ رہی تھی، آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی وہ اپنا شادی کا جوڑا دیکھ کر خوش ہو رہی تھی۔ اُس کے برعکس توشی پریشان تھی۔ یہ سوچ کر کہ۔
”یہ سب ماما اس کے ذہن میں ڈال رہیں ہیں۔
“ توشی نے خود سے کہا دل ہی دل میں۔ نوشی ڈریسنگ ٹیبل سے بیڈ کی طرف آئی جہاں پر اُس کا فون اور لہنگا کی جوڑی دار چولی پڑی ہوئی تھی۔ توشی اُٹھی اور کمرے سے نکل گئی۔
”تم کہاں جا رہی ہو۔ “ نوشی نے توشی کو جاتے ہوئے پوچھا تھا۔
”ماما کے پاس۔ “ توشی نے دروازہ کھولتے ہوئے جاتے جاتے کہا نوشی نے چولی پکڑنے کے لیے بیڈ کی طرف ہاتھ بڑھایا اُسی لمحے شعیب کی کال آئی نوشی کے فون پر، چولی کی بجائے نوشی نے موبائل پکڑا۔
”جی شعیب بھائی“ اُس نے خوشی سے جھومتے ہوئے پوچھا تھا۔
”ماما بلا رہی ہیں۔ “ شعیب نے فون کی دوسری طرف سے پیغام دیا ” میں پانچ منٹ میں آئی“
”توشی بھی ماما سے ملنے ہی گئی ہے۔ “ نوشی نے فون بیڈ پر پھینک کر چولی پکڑی اور گنگناتے ہوئے اپنے بیڈ روم کا لاک لگایا اور وہیں اپنی شرٹ اور اَپر اُتار کر اپنا شادی کا جوڑا چیک کرنے لگی۔ ”فٹنگ چیک کر لوں“ اُس نے بلند آواز سے خود ہی سے کہا۔