Episode 74 - Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 74 - بلال صاحب - شکیل احمد چوہان

”اب میں چلتی ہوں۔ “ توشی کمرے سے جا رہی تھی کمرے کے دروازے پر رُک کر دوبارہ مڑی۔
”ہاں مجھے یاد آیا 28 فروری کو دادا جی کی برسی ہے۔ 27 کو میں دادو اور DJ گاؤں جا رہے ہیں۔ “
”خان صاحب آپ کے ساتھ نہیں جا رہے ہیں اس دفعہ۔ “ بلال نے پوچھا۔
”نہیں وہ یورپ جا رہے ہیں۔ اپنے بیٹے کے ساتھ بزنس ٹور پر پاپا اپنی جگہ اُنہیں بھیج رہے ہیں۔
توشی وہاں سے چلی گئی۔ بلال کچھ دیر ویسے ہی بیٹھا رہا پھر اُس نے اُٹھ کر کتاب گھر سے ایک کتاب نکالی ڈاکٹر علامہ اقبال کی بانگ درا
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
ستم  ہو  کہ  وعدہ  بے حجابی
کوئی بات  صبر آزما چاہتا ہوں
یہ جنت  مبارک رہے زاہدوں کو
کہ  میں    آپ کا سامنا  چاہتا ہوں
ذرا سا  تو   دل ہوں مگر شوخ اتنا
وہی    لن    ترانی  سننا  چاہتا  ہوں
کوئی دم بھر مہمان ہوں اے اہل محفل
چراغ   سحر   ہوں   بجھا  چاہتا  ہوں
یہ مصرع پڑتے ہوئے بلال کے آواز بھر آئی اُس کی نظریں تو بانگ درا پر تھیں مگر وہ دیکھ کچھ اور رہا تھا کھلی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اُن لمحوں کو جب وہ اور بابا جمعہ سیالکوٹ گئے تھے۔

(جاری ہے)


حضرت اقبال  کی جائے پیدائش کو دیکھنے کے لیے بابا جمعہ حضرت اقبال سے بڑی عقیدی رکھتے تھے۔
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
اب بلال بانگِ درا ہاتھ میں پکڑے ہوئے گم سم بیٹھا ہوا تھا، اپنے بیڈ پر دروازے پر ایک معزز دستک ہوئی۔
”آ جائیں خان صاحب تشریف لے آئیں۔
“ بلال نے صدا لگائی۔
گل شیر خان بلال کے کمرے میں داخل ہوئے بلال اپنی جگہ سے اُٹھ کر کھڑا ہوگیا اُنہیں گرم جوشی سے گلے ملا اور اُس کے بعد اُنہیں احترام سے بٹھایا دیوان پر۔
”بلال … تمہیں کیسے خبر ہو جاتا ہے مڑا کہ ہم آیا ہے۔ “ گل شیر خان نے حیرت سے پوچھا۔
”آپ کی دستک بڑی معزز ہوتی ہے ایک دفعہ مجھے غلطی لگی تھی ورنہ میں پہچان لیتا ہوں۔
بلال کو یاد تھا جب ایک دفعہ نوشی نے دستک دی تھی دروازے پر تو اُس نے کہا تھا آ جائیں خان صاحب دروازہ کھلا ہے۔
”آپ کے لیے چائے بناتا ہوں۔ “ بلال اوپن کچن کی طرف جاتے ہوئے بولا تھا۔
”نہ نہ تمہارا چائے ہم نہیں پی سکتا یا کڑوا ہوتا ہے یا پھیکا۔ “ گل شیر نے فوراً انکار کر دیا۔
”نہ کڑوا ہوگا اور نہ ہی پھیکا آپ کو گڑ والی چائے پلاتا ہوں۔
“ بلال چائے بناتے ہوئے بولا تھا۔
بلال چائے بنانے میں مصروف تھا اور گل شیر خان اُسے مسلسل خاموشی سے دیکھ رہے تھے کوئی دس منٹ بعد بلال نے اُنہیں چائے کا مگ پیش کیا۔
”ڈیئر شلی … “ گل شیر خان کے منہ سے بے ساختہ نکلا جب انہوں نے چائے کا پہلا گھونٹ لیا تھا وہ چائے کی تعریف کر رہے تھے۔
”مڑا تم نے پہلے تو کبھی ایسا مزیدار چائے نہیں پلایا۔
“ گل شیر خان چائے پیتے ہوئے بولے تھے۔
”ہم اور حسیب اس 25 کو جا رہا ہوں یورپ … یہ بلال بیٹا تمہارا امانت ہمارے پاس ہے یہ رکھ لو۔ “
گل شیر خان نے ایک پلاسٹک کا کالا فولڈر بلال کے حوالے کیا جس میں بہت سارے کاغذ کے ٹکڑے تھے۔
”ہاں میں بتانا بھول گیا تھا تمہارا ماں کا زمین کا بات تقریباً فائنل ہو چکا ہے وہ آدمی زمین کا مالک اب 50 ایکڑ کا پچاس کروڑ مانگ رہا ہے۔
47 یا 48 کروڑ میں بات بن جائے گی … اسی لیے تمہیں رندھاوا صاحب نے ماں جی کے کمرے میں بلایا ہے یہ خوشخبری دینے کے لیے۔ “
دونوں چائے ختم کر چکے تھے، گل شیر خان یہ پیغام دے کر جا چکے تھے بلال گہری سوچ میں گم سم تھا۔
”ماں کی زمین “ اُس نے خود سے کہا اس کے بعد وہ اپنی نانی کے کمرے کی طرف چل دیا۔
”اسلام علیکم “ بلال کمرے میں داخل ہوتے بولا تھا۔
”و علیکم اسلام “ جمال رندھاوانے جواب دیا۔ جو اب تک پینٹ کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ وہ گھر آتے ہی سیدھا جہاں آرا کے کمرے میں آ گئے تھے۔ اور گل شیر خان کو انہوں نے بلال کی طرف بھیج دیا گل شیر خان بلال کی طرف جانے سے پہلے اپنے کوارٹر میں گئے تھے۔ جہاں سے اُنہوں نے وہ کالا فولڈر لیا اور بلال کی طرف چلے گئے، توشی بلال کی طرف سے سیدھی اپنی دادی کے پاس آئی جب وہ جانے لگی تو جمال رندھا وا کمرے میں داخل ہوئے۔
توشی اپنے باپ کو دیکھ کر رُک گئی۔
توشی اور جمال رندھاوا بہت خوش تھے۔ اور وہ آپس میں گپ شپ لگا رہے تھے۔ جہاں آرا اُن دونوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہیں تھیں۔
”مبارک ہو۔ بلال بیٹا تمہاری ماں کی زمین اب میں خرید رہا ہوں تمہارے لیے۔ “ جمال رندھاوا تفاخر سے بولے بلال کو دیکھ کر جو اُن کے سامنے دیوان پر بیٹھا ہوا تھا۔ دیوان کے ایک کونے پر توشی بیٹھی ہوئی تھی۔
اور دوسرے کونے پر بلال، جہاں آرا ہمیشہ کی طرح ایزی چیئر پر براجمان تھیں۔ اور جمال رندھاوا ایک بازو والی کرسی پر ٹیک لگائے ٹانگ کے اوپر ٹانگ رکھے بلال سے مخاطب تھے۔
”ماں جی … اب جلد ہی میں اپنا فرض بھی ادا کر دوں گا اور قرض بھی۔ “ جمال رندھاوا نے اپنی ماں کی طرف دیکھ کر کہا اور جہاں آرا بلال کو دیکھ رہیں تھیں۔ جو گردن جھکائے خاموش بیٹھا ہوا تھا۔
اور اپنے دائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی کی پڑوسن انگلی میں پہنی ہوئی چاندی کی انگوٹھی جس میں فیروزہ جڑا ہوا تھا اُسے دیکھ رہا تھا، یہ انگوٹھی اُس نے مدینہ منورہ سے خریدی تھی۔
”تمہیں تو خوش ہونا چاہیے بلال بیٹا۔ “ جہاں آرا نے بلال کو مخاطب کیا اُس کی طرف دیکھ کر توشی بھی منتظرتھی بلال کی رائے کی مگر بلال خاموش تھا، اور اپنے ہاتھ میں پہنی ہوئی انگوٹھی کو دیکھ رہا تھا۔
”آپ کیوں خرید رہے ہیں وہ زمین … “ بلال نے لب کشائی کی جمال کو دیکھتے ہوئے۔
”تمہارے لیے “ جمال نے جواب دیا۔
”ماموں جان میں نے تو آج تک کبھی تقاضہ نہیں کیا آپ سے… اُس زمین کی واپسی کا… “ بلال نے تحمل اور ادب سے کہا۔
”مگر … جمیلہ کی یہ خواہش تھی۔ “ جمال نے وضاحت کی ۔
”ماموں جان … انسان کے ساتھ اُس کی خواہش بھی مر جاتی ہیں … کاش آپ نے اُن کی خواہش وقت پر پوری کی ہوتی … تو شاید آج وہ زندہ ہوتیں … مرنا تو سب نے ہی ہے لیکن میری ماں کی طرح کوئی نہ مرے … چوری کا الزام اپنے سینے پر سجائے پاگل خانے میں … آپ صرف اپنا یہ فرض ادا کریں … میری ماں آپ سے کبھی بھی قرض کی واپس کا مطالبہ نہ کرتیں اگر وہ اُس وقت مجبور نہ ہوتیں … اُن کے ساتھ اُن کی مجبوریاں بھی ختم ہوگئیں۔
اُن کا دیا ہوا قرض وقت پر واپسی کرنا بھی آپ کا فرض تھا۔ آپ کو یہ فرض یاد ہے اُسے کیسے بھول گئے آپ … “
جمال رندھاوا ملال سے اپنی جبیں جھکائے بیٹھے ہوئے تھے۔ اور توشی کرب میں مبتلا اپنے باپ کو دیکھ رہی تھی۔ جہاں آرا نے اپنا چشمہ اُتار کر اپنے اشک صاف کیے تھے۔
”توشی نے ایک نظر بلال کو دیکھا جس کی آنکھوں میں آج پہلی بار اُسے اپنے باپ کے لیے وہ ادب و احترام نظر نہیں آیا جو اُس کی آنکھوں میں ہمیشہ اُن کے لیے تھا۔
اس کے باوجود بلال نے ساری گفتگو کے دوران دھیمی آواز میں بات کی تھی، بڑی احتیاط کے ساتھ ادب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے۔
”آپ نے وہ زمین خریدنی ہے ضرور خریدیں مگر میرے لیے ہرگز نہیں … میں اپنی ماں کے کیے ہوئے احسانوں اور دی ہوئی قربانیوں کی قیمت کبھی نہیں لوں گا یہ میرا فیصلہ ہے۔ “
”بس کرو بلال … خدا کے لیے … بس کرو … “ جمال رندھا وا دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔
توشی جلدی سے اُٹھی اور اپنے باپ کو سنبھالا جو کہ گردن جھکائے کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اور بلند آواز سے رو رہے تھے۔ جہاں آرا اپنی ایزی چیئر پر بیٹھی ہوئیں رو رہیں تھیں بلال اُٹھا اور اپنے ماموں کے گلے لگ گیا بیٹھے بیٹھے ہی۔
”مجھے معاف کر دو بلال بیٹا۔ “ جمال رندھا وا روتے ہوئے بولے بلال نے اُنہیں سنبھالا آنکھوں سے تسلی دی مگر زبان سے کچھ نہیں کہا جمال اب بلال کی طرف دیکھ رہے تھے۔ بلال نے جمال کے آنسو صاف کیے بلال کے چہرے پر زخمی مسکراہٹ اُبھری اور اُس نے اپنی پلکیں جھپکائیں اور جمال کے گلے لگ گیا توشی نے بھی اپنے آنسو صاف کیے جہاں آرا اب سنجیدگی سے بلال کو دیکھ رہیں تھیں تھوڑی دیر بعد سب کچھ نارمل ہو گیا۔

Chapters / Baab of Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط