Episode 75 - Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 75 - بلال صاحب - شکیل احمد چوہان

”میں Change کرکے آتا ہوں۔ توشی کھانا یہی منگوا لو سب ساتھ کھائیں گے۔ “ جمال یہ بول کر چلے گئے رات کے 11 بج رہے تھے بلال رات کا کھانا مغرب کے بعد کھا لیتا تھا۔ جہاں آرا بھی کھانا کھا چکی تھیں۔ توشی اور جمال نے ابھی کھانا نہیں کھایا تھا۔
سب نے ساتھ کھانا کھایا بلال نے اُن کا ساتھ دیا جہاں آرا نے انکار کر دیا کھانے سے فارغ ہو کر جمال رندھاوا نے پوچھا۔
”شادی کی تیاریاں کیسی چل رہی ہیں۔ “
”مت پوچھیں میں ایک سوٹ خریدتی ہوں تو آپ کی بیٹی دو خریدتی ہے۔ اس طرح ہر چیز مجھ سے ڈبل خرید رہی ہے نوشی میڈم “ توشی نے جواب دیا۔
بلال خاموش بیٹھا ہوا تھا۔
”کیا سوچ رہے ہو بلال … “ جمال نے بلال کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
”ماموں جان آپ سے ایک بات کرنی تھی۔

(جاری ہے)

”ہاں ہاں بولو بیٹا۔
”مجھے ایسا لگتا ہے ممانی جان اس شادی کے حق میں نہیں ہیں اگر ایسا ہے تو مجھے پہلے ُانہیں راضی کرنا ہے میں ممانی جان کی مرضی کے خلاف یہ شادی نہیں کرناچاہتا ہوں۔ “
”میں ناہید سے پوچھ لوں گا … اور کچھ … “ جمال نے کہا۔
”ایک بات اور میں شادی سے پہلے یہاں سے جوہر ٹاؤن شفٹ کرنا چاہتا ہوں۔ “
جمال نے اپنی ماں کی طرف دیکھا انہوں نے اثبات میں گردن ہلا دی۔
”کوئی گھر دیکھا ہے تم نے “ جمال نے پوچھا۔
”ابھی تک تو کوئی نہیں … کل سے دیکھوں گا … فی الحال رینٹ پر جاؤں گا چھ سات ماہ تک اپنا خرید لوں گا۔“ بلال نے جواب دیا۔
”پاپا آپ خرید دیں بلال کو گھر “ توشی نے جلدی سے کہا جمال نے توشی کی طرف دیکھا اور اُسے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔
”ٹھیک ہے بلال جیسے تمہاری خوشی مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔
“ جمال نے مسکرا کر کہا۔
###
اگلے دن 10 فروری بروز پیر بلال سیدھا رامے اسٹیٹ پر گیا طارق رامے ابھی تک آفس نہیں پہنچا تھا۔ مگر اُس کا آفس کھلا ہوا تھا۔ آفس بوائے نے بلال سے چائے کا پوچھا اُسے ادب سے بٹھایا۔
”رامے صاحب کب تک آئیں گے۔ “ بلال نے سوال کیا۔
”سر جی رامے صاحب تو LDA آفس چلے گئے ہیں اب تو وہ 12، ساڑے 12 بجے تک آئیں گے۔
آفس بوائے نے جواب دیا، بلال نے گھڑی کی طرف دیکھا، ساڑھے 9 بج رہے تھے۔ وہ اپنے سکول چلا گیا۔ بلال آفس میں مصروف ہو گیا اپنے روزمرہ کے کاموں میں 12 بجے کے قریب فوزیہ اور لیاقت بلال سے ملنے کے لیے آئے تھے۔
”سر ایک فیصلہ کر دیں … میں سوئزر لینڈ جانا چاہتی ہوں اور لیاقت مجھے دبئی لے جانا چاہتا ہے … میں نے کہا دبئی تو اب ہر للو پنجو جا رہا ہے … جانا تو وہاں چاہیے جہاں کم لوگ جائیں اور وہ جگہ بھی خاص ہو۔
لیاقت علی فوزیہ کو ہنی مون کے لیے دبئی لے جانا چاہتا تھا۔ وہ اس لیے اُسے وزٹ ویزہ فری مل جاتا اُس کے تعلقات کی وجہ سے صرف ٹکٹ کا خرچہ تھا۔ کھانے پینے کا بندوبست دعوتوں سے ہو جاتا، ہنی مون کا ہنی مون اور بچت کی بچت مگر فوزیہ دبئی جانے کے لیے تیار نہیں تھی۔
”شیدائن نہ ہو تو اوئے پاگلے سارے انگریز اب گھومنے کے لیے دبئی ہی آتے ہیں اور تم انگریزوں کے ملک کا بول رہی ہو۔
“ لیاقت علی نے فوزیہ کو جواب دیا۔
”سر آپ فیصلہ کر دیں ہمیں کہاں جانا چاہیے۔ “ فوزیہ نے درخواست کی۔
”میں تمہیں ایک ایسی جگہ بتاتا ہوں جہاں سب سے زیادہ لوگ جاتے ہیں۔ مگر جاتے سارے کے سارے نصیبوں والے ہیں اور وہ جگہ بھی سب سے خاص اور اہم ہے تم لوگ عمرہ کر آؤ … خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں اپنی زندگی میں اللہ اور اُس کے محبوب ﷺ کے گھر کی زیارت نصیب ہو جائے بلکہ خالہ نصرت اور خالہ ثریا کو بھی ساتھ لے جاؤ۔
بلال نے مشورہ دیا۔ فوزیہ کو بلال کا مشورہ بہت پسند آیا مگر لیاقت علی کو خرچے کی فکر تھی۔ لیاقت علی بوسکی کی قمیض اور کیٹی کی شلوار پہنے ہوئے تھا۔ اُس نے اپنی بوسکی کی قمیض کی سائیڈ والی پاکٹ کے اوپر ہاتھ رکھا اور اپنے بٹوئے کو چھوا اور بولا ”میرے پاس چار لوگوں کے پیسے نہیں ہیں۔“
”لیاقت علی اگر تمہیں اعتراض نہ ہو تو خالہ نصرت اور ثریا خالہ کے پیسے مجھ سے لے لو یہ بات ہم تینوں کے درمیان رہے گی ہمیشہ کے لیے۔
بلال نے پُر خلوص لہجے سے کہا فوزیہ اور لیاقت نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اس کے بعد فوزیہ بولی۔
”سر … ٹھیک ہے … مگر یہ قرض ہوگا جو میں آپ کو واپس کروں گئی۔ “
”منظور ہے … “ بلال نے ہاں کر دی اُس کے بعد فوزیہ اور لیاقت کو چائے پلائی۔
”میں یکم مارچ کو جا رہا ہوں عمرہ کرنے کے لیے 12 مارچ کو واپسی ہوگی میری چند گھنٹے دبئی اسٹے ہے اس کے بعد لاہور واپس۔
“ بلال نے اپنا سارا شیڈول بتا دیا۔
”بلال بھائی آپ کے چھ ماہ بھی ہونے والے ہیں۔ “ لیاقت نے یاد دہانی کرائی۔ بلال کے پاس امارات کا Residence visa تھا۔ جس کے لیے ضروری ہے ہر چھ ماہ بعد متحدہ عرب امارات چکر لگا یا جائے چاہے ائیر پورٹ سے اِن آؤٹ ہو کر واپس آ جائیں وہ ویزہ لیاقت علی کے کسی جاننے والے نے دیا تھا ویزے کا سارا خرچہ بلال نے کیا تھا۔
”سر آپ کی شادی۔ “ فوزیہ کو تشویش ہوئی۔
”میں 13 مارچ کی صبح انشا اللہ واپس آ جاؤں گا۔ اور نکاح 14 مارچ جمعہ کی نماز کے بعد ہے۔ “
”سر ہم لوگ آپ کی شادی کے بعد ہی عمرہ کرنے جائیں گے تب تک امی اور خالہ کا پاسپورٹ بھی بن جائے گا۔ “
بلال اسکول سے دو بجے کے آس پاس فارغ ہوا اس کے بعد وہ طارق رامے کے دفتر دوبارہ گیا۔ طارق رامے اور اعجاز جنجوعہ آفس میں موجود تھے جب بلال آفس کے اندر داخل ہوا تو طارق رامے کسی پارٹی کو جھوٹی سچی کہانی موبائل پر سنا رہا تھا۔
اور اعجاز جنجوعہ بائیں ہاتھ میں اخبار اور دائیں ہاتھ میں چائے کا کپ پکڑے چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
”اُو جی… بسم اللہ بلال صاحب آئے نے۔ “ طارق رامے نے فون پر بات کرتے کرتے اُٹھ کر بلال کا استقبال کیا اور اُسے گلے لگایا اور ہاتھ کے اشارے سے بلال کو بیٹھنے کو کہا بلال بیٹھنے سے پہلے جنجوعہ صاحب سے گلے مل چکا تھا۔ جنجوعہ صاحب اپنی چائے ختم کر چکے تھے۔
بلال صوفہ پر بیٹھ گیا جنجوعہ صاحب کے برابر میں۔
”اوئے چھوٹے تین کپ دودھ پتی بنا اور ودیا سے بسکٹ لا۔ “ طارق رامے نے آفس بوائے کو حکم دیا۔
”چھوٹے دو کپ بنانا میں نے ابھی ابھی چائے ختم کی ہے۔ “ اعجاز جنجوعہ نے کہا۔
”پی لے جنجوعہ پی لے … تیری رگوں میں ویسے بھی چائے ہی دوڑ رہی ہے۔ خون کی جگہ ایک کپ اور سہی۔ “ طارق رامے موبائل پر بات کر چکا تھا اور اب اعجاز جنجوعہ کی ٹانگ کھینچ رہا تھا۔
”رامے صاحب میں چائے نہیں پئیوں گا میرا روزہ ہے “ بلال نے کہا۔
”روزہ … “ طارق رامے کے منہ سے حیرت سے نکلا۔ ”وہ کس خوشی میں حیرت کی بات ہے۔ تم نے روزہ رکھا ہے۔“
”رامے تمہارے لیے حیرت کی بات ہی ہوگی کیونکہ تم نے کبھی رمضان کے روزے نہیں رکھے۔ ویسے تم ڈیلروں کو موت کیوں یاد نہیں۔ “ اعجاز جنجوعہ نے حساب برابر کر لیا۔
”موت کو یاد کرنے ٹھیکہ ہم نے ٹھیکیداروں کو جو دے دیا ہے۔ میں واقف ہوں تمہاری رگ رگ سے تم وہی ہو نا جو کہتا تھا۔ یار رامے باقی سب تو ٹھیک ہے۔ میں روزے میں سب کچھ چھوڑ سکتا ہوں سوائے چائے کے “ طارق رامے نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا اس سے پہلے کہ رامے اور جنجوعہ میں باقاعدہ جنگ چھڑ جاتی بلال نے اپنے آنے کی وجہ بیان کر دی۔
”جنجوعہ صاحب اور رامے صاحب میرا 14 مارچ کو نکاح ہے آپ لوگوں نے آنا ہے۔ جنجوعہ صاحب بھابھی اور بچوں کے ساتھ اور رامے صاحب آپ کو بھی “

Chapters / Baab of Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط