عصر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد بلال چھت پر اپنے گرین ہاؤس میں پودوں کو دیکھ رہا تھا۔ مٹی کی کنالیوں میں وہ پانی اور دانہ پہلے ہی ڈال چکا تھا۔ دو چار پودوں کی گوڈی کرنے کے بعد اُس نے چھت پر لگے بیسن پر ہاتھ دھوئے۔ بلال نے گرے کلر کا ٹروزر اور شرٹ اور شرٹ کے اوپر اپر پہنا ہوا تھا۔ اُس کے پاؤں میں سلیپر تھے بلال کافی Relax نظر آ رہا تھا۔ بلال چھت کی مغربی چار دیواری کے پاس پانی کی کنالیوں سے آگے مغرب کی طرف منہ کرکے کھڑا ہو گیا اور ڈوبتے سورج کو دیکھ رہا تھا اُس کے بالکل برابر میں توشی بھی آ کر کھڑی ہو گئی تھی چند منٹ پہلے۔
”یہ محبت کیا ہے؟ اور عشق کیا ہے؟ “ توشی نے کھڑے ہونے کے کچھ دیر بعد پوچھ لیا بلال نے اُس کی طرف دیکھا اور مسکرایا اور کافی دیر توشی کو دیکھتا رہا پھر بولا۔
(جاری ہے)
”توشی جی ان دو جذبوں پر سب سے زیادہ لکھا ہے، شاعروں اور لکھاریوں نے آنے والے لوگ بھی شاید اپنی تحریروں کا موضوع انہیں ہی بنائیں سمجھ کوئی نہیں سکا سب کا اپنا اپنا نقطہ نظر ہے میں جو سمجھا ہوں میں بیان کر دیتا ہوں …
عشق کی معراج کو پہنچے حضرت بلال نبی پاک ﷺ سے اُن جیسا عشق کون کر سکتا ہے … ہم صرف اُن کے جذبہ عشق کو سلام پیش کر سکتے ہیں۔
عاشق بننا ہم جیسے کمزور لوگوں کے بس کی بات نہیں عشق میں کسی وقت بھی جان قربان کرنی پڑ سکتی ہے اور ہمیں سب سے زیادہ اپنی جان پیاری ہوتی ہے ہم صرف عشق کرنے کی نقل اُتار سکتے ہیں عشق کرنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے یہ بڑے لوگوں کا کام ہے۔“
”نوشی ٹھیک کہتی ہے تمہاری آدھی باتیں سر سے گزر جاتی ہیں۔ “ توشی گھوم کر کھڑی ہو گئی باؤنڈری وال سے ٹھیک لگا کر اب اُس کی پشت سورج کی طرف تھی بلال اُسی طرح کھڑا تھا۔
”توشی جی آسان بات یہ ہے … محبت زندگی عطا کرتی ہے۔ اور عشق میں جان دینی پڑتی ہے۔ “ بلال نے گھر جاتے ہوئے پنچھیوں کو دیکھ کر کہا۔
”تم نوشی سے محبت کرتے ہو یا عشق “ توشی نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”میں کوشش کرتا ہوں سب سے ہی محبت کروں بابا جمعہ فرماتے تھے محبت فرض ہے۔ “
”بات گول مت کرو سیدھا جواب دو۔ “ توشی نے شہادت کی انگلی دکھا کر بلال کو تڑی لگائی۔
”میں نسیم جمال رندھاوا سے بہت محبت کرتا ہوں۔ “ بلال نے محبت سے جواب دیا عین اُس وقت نوشی ہاتھ میں چائے کی ٹرئے پکڑے توشی کے سامنے اور بلال کے پیچھے کھڑی ہوئی تھی۔ نوشی نے بلال کے کہے ہوئے الفاظ سنے تھے نوشی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا اُس نے بات بدلی۔
”تم بھی یہاں کھڑی ہو۔ “ نوشی نے کہا اُسے توشی کا وہاں پر ہونا اچھا نہیں لگا تھا۔
”جی ہاں میں بھی بلال کے ساتھ کھڑی ہوں ہم دونوں یہاں کھڑے ہیں نسیم جمال رندھاوا۔ “
”ہاں مجھے پتہ ہے تم دونوں ہی ہو ایک اور ایک دو ہی ہوتے ہیں اتنی تو سمجھ ہے مجھ میں اُس نے چائے کی ٹرے ایک لکڑی کے پرانے چھوٹے میز پر رکھ دی چھت پر صرف ایک ایزی چیئر پڑی ہوئی تھی۔ “
”ایک جمع ایک دو بنتا ہے ایک اور ایک گیارہ بنتے ہیں۔
“بلال اب گھوم چکا تھا اور اُس نے نوشی کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
”وہ کیسے؟ “ نوشی نے پوچھا۔
”ابھی ٹرے میں دو مگ ہیں۔ دور سے دیکھو تو گیارہ لگے گا ایک کے ساتھ دوسرا ایک کھڑا ہو تو گیارہ بن جاتا ہے۔ “ بلال نے تفصیل بتائی SMS دوسری ٹرے ہاتھ میں اُٹھائے چھت پر آیا جس میں نگٹس شامی کباب بسکٹ فروٹ کیک بہت کچھ تھا۔
”یہ لو … عیاشیاں … ٹی پارٹی ہو رہی ہے۔ “ توشی نے چائے کا ایک مگ اُٹھایا۔
”چلو SMS … چلیں یہاں سے۔ “ SMS کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کیٹ واک کرتے ہوئے چھت کی سیڑھیاں اُتر رہی تھی۔ ”بلال صاحب یاد رکھنا گیارہ کو میں نے پھر ایک بنا دیا ہے۔“
توشی اور SMS وہاں سے جا چکے تھے۔ بلال اور نوشی ایک دوسرے کو چور نگاہوں سے دیکھ رہے تھے نوشی کا چہرہ شرم سے لال ہو چکا تھا۔
بلال نے اُسے ایزی چیئر پر بیٹھنے کو کہا۔
”نوشی جی آپ بیٹھ جائیں۔ “ بلال کے جملے میں بہت مٹھاس اور اپنائیت تھی نوشی بغیر تردد کے بیٹھ گئی۔ اب بلال اُس کے سامنے کھڑا تھا۔ دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے اور نوشی گردن جھکائے بیٹھی ہوئی تھی۔
”آپ چائے پئیں ورنہ ٹھنڈی ہو جائے گی۔ “ بلال نے مسکرا کر کہا وہ نوشی کی شرماہٹ اور گھبراہٹ انجوائے کر رہا تھا۔
”مگر یہ تو میں نے آپ کے لیے بنائی تھی۔ “ نوشی نے رک رک کر جواب دیا۔
”آپ نے خود بنائی تھی میرے لیے۔ “ بلال نے خوش ہو کر نوشی کے الفاظ دہرائے۔
”جی زندگی میں پہلی بار وہ بھی BG سے پوچھ کر آپ یہ نگٹس لیں یہ بھی میں نے ہی فرائی کیے تھے آپ کے لیے۔ “ نوشی نے نگٹس کی پلیٹ اُٹھائی اور بلال کے سامنے آکر کھڑی ہو گئی۔بلال نے سورج کی طرف دیکھا جو اپنے بستر پر لیٹ چکا تھا۔
اور رات کی چادر اوڑھ کر سونے والا تھا کل صبح تک۔ مغرب کی اذان کو تھوڑی دیر باقی تھی۔بلال نے پلیٹ پکڑ لی اور ٹیبل پر رکھ دی اور چائے کا مگ اُٹھا لایا۔ ”آپ چائے پیو …“
بلال نے چائے کا مگ نوشی کو تھما دیا نوشی نے چائے کے دو چار سپ لگائے تو مغرب کی اذان شروع ہو چکی تھی۔ بلال نے کچھ بولے بغیر نوشی کے ہاتھ کو چھوئے بغیر وہ مگ اُس کے ہاتھ سے پکڑا اور روزہ کھولنے کی دعا پڑی اور بسم اللہ پڑھ کر چائے کے دو گھونٹ لگائے اُسی جگہ سے جہاں پر نوشی کی لپ اسٹک لگی ہوئی تھی۔
مگ کے کناروں پر نوشی حیرانی سے بلال کو دیکھ رہی تھی۔
”بلال مجھے سارے جواب مل گئے تمہاری خاموشی بھی رومینٹک ہے۔ “ نوشی نے دل ہی دل میں کہا۔
بلال نے وہ مگ چائے والی چھوٹی ٹرے میں رکھا اور دونوں ٹرے اُٹھائیں اور چھت سے اُتر آیا۔
نوشی جان چکی تھی۔ کہ بلال کا روزہ تھا وہ یہ بھی جان چکی تھی۔ نا محرم کسے کہتے ہیں۔ وہ یہ بھی جان چکی تھی کہ بلال اُس سے کتنی محبت کرتا ہے۔
اُسے یہ بھی معلوم ہو چکا تھا کہ وہ کتنا رومینٹک ہے اُسے بلال کی نظروں میں اپنی قدر و منزلت کا بھی احساس ہو چکا تھا۔
”واقعی میں اندھی تھی۔ جواتنے سالوں میں اس کی محبت کو دیکھ نہیں سکی۔ “ نوشی نے اپنی بے وقوفی پر خود کو ملامت کی۔
سورج نے پوری طرح سے آنکھیں بند کر لیں تھیں۔ مگر نوشی کی آنکھیں کھل چکی تھیں۔شام رات کے دروازے پر دستک دے چکی تھی۔
نوشی کافی دیر وہیں کھڑی رہی اُس کے بعد وہ بلال کے روم میں آئی بلال مسجد سے نماز ادا کرکے آ چکا تھا جب وہ روم میں داخل ہوئی تو بلال اوون میں نوشی کی لائی ہوئی اشیا گرم کر چکا تھا اَب اُس نے چائے کا آدھا مگ اُٹھایا اور اُسے اوون میں رکھا گرم کرنے کے لیے اُس کے بعد اُس نے اپنے بیڈ پر پلاسٹک کی شیٹ بچھائی اور سب کچھ اُس پر رکھا اپنے سگنل بیڈ کے ساتھ نوشی کے لیے رائٹنگ ٹیبل والی کرسی رکھی اور خود بیڈ پر بیٹھ گیا۔
”نوشی جی آ جائیں اب وقت ہے آپ کی بنائی ہوئی چیزوں کو کھانے اور پینے کا۔ “ بلال نے نوشی کی طرف دیکھ کر کہا جو اُس کے سامنے کرسی پر بیٹھ چکی تھی۔ بلال نے بڑے شوق سے نوشی کی لائی ہوئی چیزیں کھائیں نوشی چائے میں چینی زیادہ پیتی تھی اور بلال پھیکی چائے پینے والا نوشی کو معلوم تھا۔ اس لیے وہ بلال کے لیے گرین مگ پھیکا بنا کر لائی تھی۔
جو توشی اُٹھا کر چلی گئی تھی اور یہ سفید مگ وہ اپنے لیے لائی تھی جس میں زیادہ چینی تھی مگر بلال بڑے مزے سے یہ زیادہ چینی والی چائے پی رہا تھا اُس نے نوشی کو ایک بار نہیں کہا اس میں چینی زیادہ ہے۔
”کوئی بات کریں۔ “ نوشی نے فرمائش کی۔
”آپ نے چائے بڑی اچھی بنائی تھی اور نگٹس بھی اچھی طرح سے فرائی کیے تھے۔ “ بلال کی یہ بات سن کر نوشی کھل کھلا کر ہنس دی۔
”میں کچھ اور سننا چاہتی ہوں آپ کے دل کی بات۔ “ نوشی نے محبت سے کہا۔
”ابھی اُس کا وقت نہیں آیا باقی باتیں 32 دن بعد۔ “ بلال نے سنجیدگی سے جواب دیا نوشی کو معلوم تھا 32 دن بعد اُن کا نکاح تھا۔ اُس نے شرما کر نظریں جھکا لیں اور اُٹھ کر وہاں سے چلی گئی۔
###