Episode 81 - Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 81 - بلال صاحب - شکیل احمد چوہان

”میں نے سوچا بلال صاحب آپ مصروف ہوں گے۔ اس لیے گھر کی چابیاں لے کر خود ہی آگیا۔ “
طارق نے بلال کو آنے کی وجہ بتائی۔
”رامے زندگی میں کبھی تو سچ بول دیا کرو۔ “ اعجاز جنجوعہ نے پہلا وار کر دیا۔
”بلال صاحب دراصل اس کی منگنی ہو گئی ہے۔ یہ مٹھائی لے کر آیا تھا آپ کے لیے۔ “
”گاڑی کی ڈگی میں مٹھائی کی ٹوکری پڑی ہوئی ہے کسی کو بھیج کر منگوا لیں۔
“ طارق رامے نے شرماتے ہوئے کہا بلال سے۔
”اوئے ہوئے رامے تیرا شرمانا “ اعجاز جنجوعہ نے پیلے دانت نکالتے ہوئے کہا۔
بلال نے آفس بوائے کو طارق رامے کی گاڑی کی چابیاں دیں۔
”یہ رامے صاحب کی گاڑی سے مٹھائی نکال کر سارے سٹاف میں تقسیم کر دو۔ “ بلال نے آفس بوائے کو ہدایات جاری کیں۔

(جاری ہے)

”رامے صاحب بہت بہت مبارک ہو۔ “ بلال مسکراتے ہوئے بولا تھا۔
”بلال صاحب تمہارے اور اپنی ماں کے کہنے پر میں شادی کر رہا ہوں۔ “ طارق رامے نے کہا۔
”نہیں تو اس نے خود کشی کر لینی تھی۔ شادی کر رہا ہوں۔ بھائی بڑا احسان کر رہے ہو۔ تم یہ شادی کرکے “ اعجاز جنجوعہ اپنے سارے حساب برابر کرنے کے موڈ میں تھا۔بلال نے اعجاز جنجوعہ اور طارق رامے کو چائے پلائی اس کے بعد وہ دونوں چلے گئے۔
###
اسکول سے فارغ ہونے کے بعد بلال فوزیہ کے گھر چلا گیا اُن کو شادی کی دعوت دینے کے لیے۔
”خالہ جی میں چاہتا ہوں میری غیر موجودگی میں فوزیہ اسکول کے معاملات دیکھے آپ کی اجازت چاہیے۔ “ بلال نے فوزیہ کی ساس سے کہا۔
”کیوں لیاقی تجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ “ فوزیہ کی ساس خالہ نصرت نے اپنے بیٹے لیاقت سے پوچھا۔
” نہیں اماں بھلا مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔“ لیاقت نے جواب دیا۔
”ٹھیک ہے فوزیہ جی کل سے آپ آفس آ رہی ہیں۔
”سر … کل تو 28 فروری ہے میں یکم مارچ سے آ جاؤں گی۔ “ فوزیہ نے کہا۔
”یکم کو پہنچ جانا اُس دن میری جدہّ کی فلائیٹ ہے میں اسکول نہیں آ سکوں گا … “
”سر یہ تو میں آپ کی موجودگی میں ہی اُلٹی سیدھی حرکتیں کرتی ہوں آپ کے جانے کے بعد … سر آپ کو شکایت کا موقع نہیں دوں گی آپ بے فکر ہو کر جائیں۔ “
فوزیہ نے سنجیدگی سے بلال کو یقین دہانی کرائی۔
فوزیہ کی ماں خالہ ثریا چائے کی ٹرئے لے کر کمرے میں داخل ہوئی۔
”آپ سب نے میرے ولیمے میں شرکت کرنی ہے آپ سب لوگ آئیں گے تو مجھے خوشی ہوگئی۔ “
بلال نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے سادگی سے دعوت دے دی۔
ابھی چائے ختم کرکے بلال نے کپ رکھا ہی تھا اُس کے موبائل پر بیل ہوئی توشی کی کال تھی۔
”جیجا جی کہاں ہو۔ “ توشی نے پوچھا مذاق کے انداز میں۔
”میں فوزیہ کے گھر پر “ بلال نے بتایا۔
”ہم تمہارے اسکول کے باہر کھڑے ہیں۔ “ توشی نے اطلاع دی۔
”کون کون؟ “ بلال کو تجسس ہوا۔
”خود آ کے دیکھ لو “ توشی نے اسٹائل سے کہا۔
”آپ لوگ رُکو میں پانچ منٹ میں پہنچتا ہوں “ بلال نے جواب دیا۔
جہاں آرا بیگم توشی اور DJ ایک ڈرائیور اور 2 سیکورٹی گارڈ کے ساتھ گاؤں جا رہے تھے کوٹ فتح گڑھ، نارووال بلال کے نانا کی برسی کے سلسلے میں 28 مارچ کو چوہدری ارشاد رندھاوا کی برسی تھی۔
چوہدری ارشاد رندھاوا کے مرنے کے بعد جہاں آرا ہر سال اُن کی برسی پر گاؤں جاتی غریب لوگوں میں کپڑے پیسے اور اناج تقسیم کرتی اپنے مرحوم شوہر چوہدری ارشاد رندھاوا کے ایصال ثواب کے لیے، پہلے تو اُن کے ساتھ بلال اور گل شیر خان جایا کرتے تھے۔ مگر اس بار بلال اور خان صاحب اُن کے ساتھ نہیں تھے۔بلال صبح اسکول آنے سے پہلے نانی سے مل کر آیا تھا پھر بھی اُس کی نانی جہاں آرا جانے سے پہلے ایک بار اُسے ملنا چاہتی تھیں۔
”بلال اپنا خیال رکھنا مجھے بہت فکر ہو رہی ہے تمہاری … اگر تمہارے نانا کی برسی نہ ہوتی تو میں کبھی نہ جاتی۔ “ جہاں آرا نے بلال کا ماتھے سے بوسہ لیتے ہوئے کہا۔جہاں آرا گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھیں توشی کے ساتھ DJ ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا ،وہ لوگ فور بائی فور Toyota vigo ڈالہ میں گاؤں جا رہے تھے گاڑی کے پچھلے حصہ میں دو اونچے لمبے گارڈ جان کی دشمن گنوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے جمال رندھاوا اب بہت محتاط ہو گئے تھے۔
”تم کیوں اس طرح خفا بیٹھی ہو “ بلال نے توشی کو دیکھ کر کہا جو کچھ غصے میں تھی۔
”پیچھے دیکھو جیسے ہم لوگ جنگ لڑنے جا رہے ہیں اگر خان صاحب یہاں ہوتے تو ان موچھڑوں کو ساتھ نہ لے جانا پڑتا۔ “ توشی بیزاری سے بولی۔
”come On توشی یہ لوگ آپ کی حفاظت کے لیے ہیں “ بلال نے توشی کو سمجھایا۔
”اچھا ایک بات سن لو غور سے مسٹر بلال لڑکی ہماری بہت نخرے والی ہے اُس کے لیے کپڑے اور زیور اُس کے معیار کے مطابق ہونے چاہئیں۔
“ توشی نے بلال سے مذاق میں کہا۔
”پتہ ہے اسی لیے اُس کے واسطے ساری شاپنگ مدینہ منورہ سے کروں گا۔ تمہاری ساس کی طرح نہیں دہلی دروازے اور اچھرہ سے سب کچھ خرید رہیں ہیں تمہارے لیے اور تمہارا زیور پتہ ہے کہاں سے تیار ہو رہا ہے سوا بازار کے بٹ جیولرز سے۔ “
بلال نے بھی توشی کی کلاس لی۔
”شٹ اَپ بلال … دادو اسے منع کریں نا تنگ کر رہا ہے۔
“ توشی بچوں کی طرح جہاں آرا سے بلال کی شکایت کر رہی تھی۔
”پہلے تم نے شروع کیا تھا۔ “ جہاں آرا مسکراتے ہوئے بولیں۔ ”اچھا مجھے یاد آیا بلال بیٹا تم نے پلاٹ یہیں پر خریدا ہے۔“
”جی نانو وہ سڑک کے دوسری طرف دو خالی پلاٹ ہیں دائیں ہاتھ والا دوسرے پلاٹ کی بھی بات چل رہی ہے دعا کریں ہو جائے پھر اسکول کی بلڈنگ شاندار بن جائے گی۔
نانو اب آپ کو جانا چاہیے ورنہ دیر ہو جائے گی۔ “بلال نے کہا DJ نے ڈرائیور کو چلنے کے لیے بولا جہاں آرا نے جانے سے پہلے بلال کا ماتھا چوما تھا وہ لوگ کوٹ فتح گڑھ کے لیے روانہ ہو گئے۔بلال وہیں کھڑا ہوا گاڑی کو جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا کافی دیر وہ وہاں کھڑا سوچتا رہا۔
”خان صاحب بھی چلے گئے ہیں۔ “ اُس نے دل میں کہا۔ ”ماموں جان کو بھی انہیں اب ہی بھیجنا تھا میرے نکاح کے بعد چلے جاتے۔
“ گل شیر خان اور اُن کے بیٹے حسیب خان کو جمال رندھاوا نے یورپ اور امریکہ بھیجا تھا۔ بزنس ٹور کے سلسلے میں پہلی بار۔ جمال رندھاوا اب کم لوگوں پر اعتبار کرتے تھے۔ وہ اٹھارہ سال پہلے والی غلطی اب نہیں دہرانا چاہیے تھے۔جب وہ اپنے پارٹنر شہباز رندھاوا جو کہ ناہید رندھاوا کا بھائی بھی تھا پر مکمل اعتبار کرتے تھے تب جمال رندھاوا فیلڈ کا کام دیکھتے تھے اور شہباز کے پاس لین دین تھا اسی کا فائدہ اُٹھا کر اُس نے اتنا بڑا غبن کیا تھا جس کے بعد جمال کو جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی تھی۔
بلال نے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا تو طارق رامے کی دی ہوئی گھر کی چابیاں بھی گاڑی کی چابی کے ساتھ ہی اُس کے ہاتھ میں آ گئیں تھیں۔
بلال نے اپنا سارا سامان پک اَپ میں لوڈ کروا لیا تھا۔ سب کچھ سوائے اپنے کمرے کے سنگل بیڈ اور دیوان، اُس نے جمال سے اجازت لے لی تھی اُنہیں سیالکوٹ میں کال کرکے جمال نے اُسے کہا تھا تم سامان شفٹ کر لو میں کل آتا ہوں کل رات کو ہم ڈنر ساتھ کریں گے سب لوگ اکٹھے کسی اچھے سے ریستوران میں اور پرسوں میں خود تمہیں چھوڑ کر آؤں گا۔
ائیر پورٹ جب تم عمرہ کرنے کے لیے روانہ ہوگے۔
”لطیف سارا سامان احتیاط سے اُتار لینا اور اوپر والے بیڈ روم میں رکھ دینا جو بیڈ روم لان کی طرف ہے اور سوٹ کیس کو سنبھال کر رکھنا۔ “ بلال نے پک اپ پر پڑے ہوئے سوٹ کیس کی طرف اشارہ کرکے کہا تھا۔ جس کے اندر اُس کے والدین اور بابا جمعہ کی چند اشیاء تھیں۔ بلال نے سارا سامان لوڈ کروانے کے بعد وہ سوٹ کیس پک اَپ میں رکھا تھا۔
اور اُس کے بھی بعد سب سے اوپر وہ کارٹون رکھا تھا جس کے اندر قرآن پاک اُس نے بڑی احتیاط اور ادب سے رکھے تھے۔
لطیف نے پک اَپ والے کو کہا۔ ”چلو بھئی“
لطیف کے جانے سے پہلے بلال بولا۔ ”لطیف صاحب چابیاں کل آفس ساتھ ہی لے آنا۔“
لطیف بلال کے اسکول میں اندر باہر کے کام کرنے والا ایک بیس بائیس سال کا نوجوان تھا۔
بلال نے سارا سامان لطیف کے ساتھ خود گاڑی پر لوڈ کیا تھا۔
سامان بھی کتنا تھا۔
کچن کا سامان اور چند برتن کپڑوں کے تین سوٹ کیس اور بہت ساری کتابیں بلال کی زندگی میں کتابوں کی بہت اہمیت تھی اسی لیے کتابیں سب سے زیادہ تھیں۔خالی کمرہ ہو یا خالی مکان اپنی آواز خود ہی سنائی دیتی ہے۔ مگر بلال کو دکھائی دے رہا تھا، اپنا بچپن اپنی اچھی بُری یادیں اپنی ماں کمرے کی دیواروں پر وہ ایسے دیکھ رہا تھا۔
جیسے سنیما کے پردے پر فلم چلتی ہوئی دیکھ رہا ہو، یہ ڈھائی تین گھنٹے کی فلم نہیں تھی۔وہ 25 سال اور چند مہینوں کی حقیقت دیکھ رہاتھا۔ کمرے کی دیواروں پر جب وہ اس کمرے میں آیا تو آٹھ ماہ کا شیر خوار بچہ تھا آج وہ یہاں سے جا رہا تھا تو 26 سال کا خوبصورت نوجوان ہے وہ ہمیشہ سے یہاں سے جانا چاہتا تھا۔ ”پھر یہ اداسی کیسی بلال صاحب کیوں اُداس ہو۔“

Chapters / Baab of Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط