اُس کے دل سے آواز آئی دوسرے لمحے ہی اُسے اُس کا جواب مل گیا۔ جب اُس کی ماں کی شکل سی گرین دیوار پر اُبھری اُسے جواب مل گیا وہ سات سال اور چند ماہ اپنی ماں کے ساتھ اس کمرے میں رہا تھا۔
اُسے اس کمرے سے اپنی ماں کی خوشبو آتی تھی۔ بلال نے آنکھیں بند کرکے ایک لمبی سانس لی۔ بلال کی آنکھیں بند تھی وہ کچھ نہیں دیکھ رہا تھا۔ اب اُس کی دل کی آنکھ کھل چکی تھی۔
جس کے اندر اُس کی ماں کی تصویر تھی۔ اور بلال کی سانسوں میں اپنی ماں کی خوشبو کی مہک وہ مسلسل سونگھ رہا تھا۔ آنکھیں بند کیے ہوئے جیسے کوشش کر رہا ہو ویکیوم کلینر کی طرح جس طرح وہ سب کچھ کھینچ لیتا ہے اپنے اندر اسی طرح بلال اپنی ماں کی ساری خوشبو اپنے ساتھ لے جاننا چاہتا تھا اپنے دل اور روم روم میں محفوظ کرکے۔
(جاری ہے)
نوشی اُسے تلاش کرتی ہوئی کمرے میں پہنچی وہ بھی اُسے آنکھیں بند کیے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
اُس نے چائے کی ٹرے کچن میں رکھ دی بغیر کسی آواز کے اور خود بلال کے پیچھے آ کے اُسی طرح کھڑی ہو گئی اپنے دونوں بازو اپنے سینے پر باندھے ہوئے آنکھیں بند کیے ہوئے سانس کی مشق کرتے ہوئے نوشی کو خیال گزرا شاید یہ یوگا کی کوئی مشق کر رہا ہے۔نوشی کو کیا خبر یہ یوگ سے آگے عقیدت کی بات تھی۔
چند منٹ اس طرح گزارنے کے بعد نوشی کا سر چکرا گیا تب اُس نے اپنی بند آنکھیں جلدی سے کھول دیں کیونکہ نوشی کی اس کمرے سے کوئی جذباتی وابستگی بھی نہیں تھی۔
وہ عقیدت کو کیا سمجھ پاتی۔ بلال اب بھی اُس طرح کھڑا تھا۔ آنکھیں بند کیے ہوئے اپنے دونوں بازوؤں اپنے سینے پر بلال کے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی اُس کے دل پر تھی اور بائیں ہاتھ کی ہتھیلی اُس کے دائیں بازو پر تھی اور وہ بغیر آواز کے کچھ محسوس کر رہا تھا۔
نوشی کا تجسس اب تشویش میں بدل چکا تھا۔ اُس نے بلال کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
”آپ ٹھیک تو ہو؟ “ نوشی کی زبان سے فکر مندی کے ساتھ یہ چار الفاظ ادا ہوئے بلال نے آنکھیں کھول دیں نوشی کا دایاں ہاتھ بلال کے کندھے پر تھا۔
اور وہ اُس کے سامنے کھڑی ہوئی تھی بہت کم دوری پر دونوں میں فرق اتنا تھا کہ جسم دوسرے کے جسم کو چھو نہ سکے۔
بلال عقیدت کی خوشبو سونگھ چکا تھا۔ اور اُس کی محبت اس کے سامنے کھڑی تھی۔ اُس کا دل چاہا لگے ہاتھ محبت کی خوشبو بھی ساتھ لے جاؤں وہ نوشی کی سانسوں کی مہک اپنی سانسوں میں محسوس کر سکتا تھا۔ جو کہ نوشی محسوس کر رہی تھی۔ آنکھیں بند کیے ہوئے اب نوشی کی دونوں آنکھیں خود بخود بند ہو چکی تھیں۔
اور بلال اُسے دیکھ رہا تھا۔ اب نوشی دائیں ہاتھ کو بلال کے بازو سے اُٹھا کر اپنے دل پر رکھ چکی تھی اور اُس کا بایاں ہاتھ دائیں بازو کے کندھے پر تھا۔
بلال کو نوشی کے معصوم اور بھولے چہرے پر بہت پیار آیا وہ اُسے اپنے ہاتھوں سے چھونا تو چاہتا تھا لیکن ابھی وہ وقت نہیں آیا تھا۔ اُس کے دل نے کہا (اس کی خوشبو ہی اپنی سانسوں میں بسا لو اُن پر تو تمہار حق ہے) دل مسکراتے ہوئے بولا تھا۔
بلال کے تقویٰ نے اُسے فتوہ دیا۔ ”ملک بلال احمد تم صرف محبت کر سکتے ہو کسی سے بھی کہیں بھی نسیم جمال رندھاوا کی سانسوں کی مہک اور اُس کے جسم کی خوشبو پر نکاح سے پہلے تمہارا حق نہیں ہے۔“ تقویٰ کا فتوہ سننے کے بعد بلال دو قدم پیچھے کی جانب ہٹ گیا۔
”نوشی جی آپ ٹھیک تو ہو “ بلال نے نوشی کے الفاظ دہرائے نوشی نے آنکھیں کھول دئیں اُس کے ہونٹوں پر تبسم تھا اور آنکھوں میں بے شمار پیار چند لمحے وہ بلال کو ٹکٹکی باندھے دیکھتی رہی تھی۔
”میں آپ کے لیے چائے لے کر آئی تھی، نوشی نے بائیں ہاتھ سے اپنے چہرے پر آئے بالوں کو کان کے پیچھے کیا چائے اور شامی کباب پڑے پڑے برف ہو چکے تھے۔“
”SMS کو فون کرتی ہوں گرم کرکے لا دے “ نوشی نے SMS کو فون ملاتے ہوئے کہا تھا نوشی کچن کو دیکھ چکی تھی جہاں پر صرف چولہا پڑا ہوا تھا اُس نے کمرے کا جائزہ لیا ایک بیڈ دیوان اور چولہا رہ گئے تھے ایک کونے میں بلال کا ہیڈ کیری پڑا ہوا تھا۔
اور بیڈ پر ایک فولڈر کالے رنگ والا جو چند دن پہلے گل شیر خان نے اُسے واپس کیا تھا اُس کی امانت کہہ کر۔
SMS آ کر چائے والی ٹرے اُٹھا کر جا چکا تھا۔
”ہینڈ کیری اور اُس فولڈر کی سمجھ آتی ہے ہیڈ کیری میں آپ کے کپڑے ہوں گے عمرے پر جانے کے لیے اور فولڈر میں ڈاکو منٹس یہ تین چیزیں کیوں آپ نے چھوڑ دیں “ نوشی دیوان پر بیٹھتے ہوئے بولی تھی۔
”نوشی جی ان میں سے کوئی بھی چیز میں نے نہیں خریدی یہ اس گھر کی ملکیت ہیں جو میں نے خریدا تھا وہ میں لے جا چکا ہوں۔ “ بلال بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
” آپ اس گھر کو اور اس کی چیزوں کو اپنا نہیں سمجھتے میں ایسا سمجھوں۔“ نوشی نے سنجیدگی سے کہا۔
”نوشی جی ایسا نہیں ہے۔ اپنا سمجھنے اور اپنا ہونے میں فرق ہے میں اس گھر اور اس کی ہر ایک چیز کو اپنا سمجھتا ہوں لیکن یہ میری نہیں ہیں۔
اس گھر کو اور اس کی چیزوں کو اپنا سمجھنا یہ سچ ہے ان میں سے کچھ بھی میرا نہیں ہے۔ یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے۔ “
”خیرچھوڑیں سچ اور حقیقت کو۔ “ نوشی کوئی گہری باتیں سننے کے موڈ میں نہیں تھی۔
”آپ یہ بتائیں آپ کب جا رہے ہیں۔ اور کب واپس آئیں گے؟ “
بلال نے اُسے اپنا سارا شیڈول بتایا وہ کہاں کہاں جائے گا کیا کیا کرئے گا مکہ میں کتنے دن گزارے گا اور مدینہ میں اُسے کتنے دن رہنے کی سعادت نصیب ہو گی واپسی پر وہ امارات انٹری کے لیے روکے گا چند گھنٹے یا ایک دن۔
”کیوں دبئی سے آپ کی ٹکٹ کنفرم نہیں ہے۔ “ نوشی نے پوچھا فکر مندی سے۔
”دبئی سے لاہور اور اسلام آباد کی ٹکٹ ایزی مل جاتی ہے اس لیے میں نے کنفرم نہیں کروائی۔ شاید کچھ شاپنگ رہ جائے اس لیے سوچا ہے اگر کچھ رہ گیا تو وہ واپسی پر دبئی سے لے لوں گا۔ “
”کیا کیا خرید دیں گے میرے لیے “ نوشی نے جانچتی نگاہوں سے دیکھ کر پوچھا۔
”آپ کے لیے کچھ نہیں یہ تو میں اپنی شاپنگ کی بات کر رہا تھا۔ “ بلال نے جواب دیا۔
”یہ لو … “ نوشی نے توشی کا تکیہ کلام دہرایا بلال اور نوشی ہنس دئیے۔
”مجھے توشی نے مسیج کرکے سب کچھ بتا دیا ہے کہ آپ میرے لیے مدینہ سے شاپنگ کریں گے ویسے آپ نے جھوٹ کیوں بولا کہ اپنے لیے ہی شاپنگ کروں گا۔ “
”نوشی جی میں ہمیشہ سچ بولنے کی کوشش کرتا ہوں، جانے انجانے میں اگر کبھی جھوٹ بول بھی دوں تو مان جاتا ہوں … دراصل میں آپ کو بہت سارے سرپرائز دینا چاہتا ہوں اس لیے مذاق میں بات ٹال دی۔
“ بلال نے اپنی صفائی دی۔
SMS چائے گرم کرکے آ چکا تھا۔ ”بلال بھائی جلدی آ جانا۔“ SMS چائے والی ٹرے دیوان پر رکھتے ہوئے بولا تھا۔ بلال نے دیکھا تو بلال اُٹھا اور کچن میں کچھ انگلش نیوز پیپر پڑے ہوئے تھے۔ وہاں سے اخبار اُٹھا کر ٹرے کے نیچے بچھا دی SMS کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا۔
SMS بھول گیا تھا، یہاں صفائی نہیں نفاست کا معاملہ ہے۔
SMS کچھ شرمندہ سا ہوا بلال نے اُس کی شرمندگی کو ختم کرنے کے لیے جلدی سے بات بدلی۔
” شاہد صاحب کیا لاؤں آپ کے لیے۔“ بلال نے SMS سے پوچھا تھا۔
” بلال بھائی جب بن مانگے مل جائے تو مانگنے کی کیا ضرورت ہے مجھے نہیں یاد پڑتا کہ آپ لاہور سے باہر گئے ہوں اور سب کے لیے کچھ نہ کچھ نہ لائے ہوں۔“
SMS کی آنکھوں میں چمک تھی۔ وہ یہ بول کر وہاں سے چلا گیا، نوشی بلال اور SMS کو دیکھ رہی تھی۔
اُسے یاد تھا کہ ان چند مہینوں میں بلال شہر سے باہر نہیں گیا تھا۔ جب سے وہ بلال کے قریب ہوئی تھی اس سے پہلے توشی اُسے ہمیشہ بلال کا لایا ہوا گفٹ دیتی جو وہ کھولنا بھی ضروری نہیں سمجھتی تھی۔ ہاں ایک بات ضرور تھی اُس نے وہ سارے گفٹس رکھے سنبھال کر تھے۔
”نوشی جی … چائے … “ بلال کی آواز نے نوشی کی سوچ کو روکا اُس نے چونک کر بلال کی طرف دیکھا جو کہ اپنا مگ اُٹھا کر پینے میں مصروف تھا۔
اور نوشی کا مگ اُس کے سامنے پڑا ہوا تھا۔ نوشی نے چائے جلدی سے ختم کی وہ اپنے سارے تحائف دیکھنا چاہتی تھی۔ جو اُسے پچھلے کئی سالوں سے بلال دے رہا تھا، توشی کے ذریعے اُس نے چائے جلدی سے ختم کی اور وہاں سے چلی گئی نوشی نے اپنی دراز سے اپنے اسٹور روم کی چابی نکالی جو کہ اُس کے بیڈ روم کے ساتھ ہی تھا اسی دوران اُسے توشی نے فون کر دیا۔
”ہائے سویٹ ہاٹ … کیا کر رہی ہو۔
“ توشی نے پوچھا موبائل پر۔
”تم لوگ پہنچ گئے۔ “ نوشی نے اپنا سوال پوچھ لیا۔
”کہاں یار ابھی تک رستے میں ہی ہیں نارووال جانے والی سڑک اتنی ٹوٹی ہوئی ہے کیا بتاؤں میں تھک گئی ہوں “ توشی بیزاری سے بھول رہی تھی۔
”اچھا داود سے بات کراؤ۔ “ نوشی نے توشی سے کہا۔
”جی میری جان۔ “ جہاں آرا نے نوشی سے محبت سے کہا۔
”اسلام علیکم داؤد “ نوشی نے ادب سے سلام کیا۔
”و علیکم اسلام … جیتی رہو سدا خوش رہو اللہ تمہارے اور بلال کے نصیب اچھے کرئے۔ بیٹا توشی سے بات کرو۔ دادی کی دعاؤں کا سلسلہ ختم ہوا دادی مزید باتیں کرتیں اگر توشی کا ہاتھ اُن کے کندھے پر نہ ہوتا وہ سمجھ گئیں توشی بات کرنا چاہتی ہے۔ “
”نوشی کہاں ہو تمہاری آواز صاف نہیں آ رہی ہے۔ “
”اچھا میں ٹیرس پر جاتی ہوں۔ “ نوشی فون سننے کے لیے ٹیرس پر چلی گئی اسٹور کی چابی وہیں سائیڈ ٹیبل پر پڑی رہ گئی۔
”چائے پی لی۔ “ توشی نے تجسس سے پوچھا۔ ”بلال نے شفٹ کر لیا کیا؟“
”ہاں انہوں نے سامان شفٹ کر لیا ہے۔ “ نوشی اُداسی سے بولی۔
”آپی آپ کو بڑے صاحب بھلا رہے ہیں۔ “ SMS نے آکر پیغام دیا تھا۔
”اچھا یار میں بعد میں بات کرتی ہوں۔ پاپا بھلا رہے ہیں۔ Take care بائے۔ “
نوشی نے کال کاٹ دی اور اپنے باپ کی طرف چل دی وہ اپنے سائیڈ ٹیبل کے پاس سے گزر گئی جہاں پر اُس نے وہ چابی رکھی تھی تھوڑی دیر بعد BG کمرے میں آئی اور اُس نے وہ چابی اُٹھا کر پھر سے دراز میں رکھ دی۔
”پتہ نہیں کیا بنے گا ان لڑکیوں کا شادی کے بعد “ BG کمبل کو سیدھا کرتے ہوئے بول رہی تھی اسٹور روم کی چابی اُس نے پہلے ہی دراز میں رکھ دی تھی۔
###