”ولید بیٹا … یہ ارم ہے یہ بھی ہماری مدد کرے گی اس کام میں۔ “ ناہید نے ارم واسطی کا تعارف ولید ہاشمی سے کروایا ناہید بے خبر تھی ارم اور ولید کے ریلیشن شپ سے وہ چاروں ایک ریستوران میں بیٹھے ہوئے تھے چوتھا نوشی کا بھائی شعیب۔
”ولید اس سے اچھا موقع ہمیں نہیں مل سکتا خالہ اور توشی گاؤں گئے ہوئے ہیں DJ بھی اُن کے ساتھ ہے اور گل شیر خان بھی ملک سے باہر ہے۔
بلال کے سارے حمایتی کوئی بھی نہیں ہے یہاں پر“ ناہید دانت پیستے ہوئے بول رہی تھی اُس کی آنکھوں میں عجیب نفرت تھی بلال کے لیے۔
”BG اور SMS کا علاج میں خود کر لوں گا۔ “ شعیب نے بھی جذباتی ہو کر کہا۔
”آنٹی جی … سارا پلان تیار ہے کل کا دن اُس کی بدنامی کا دن ہے “ ولید نے یقین سے پیشین گوئی کر دی ارم نے ترچھی نگاہ سے ولید کی طرف دیکھا وہ سوچ رہی تھی۔
(جاری ہے)
ناہید کی نفرت کے بارے میں انہوں نے جلدی سے اپنی چغلی میٹنگ ختم کر دی اس ڈر سے کوئی ہمیں ساتھ نہ دیکھ لے اس وقت یہاں اکٹھے اس جگہ۔
”ولید بیٹا میرا اور شعیب کا یہاں زیادہ دیر بیٹھنا مناسب نہیں ہے۔ جمال بھی آ چکے ہیں۔ سیالکوٹ سے ہم چلتے ہیں … اگر تمہیں تکلیف نہ ہو تو ارم کو ڈراپ کر دینا۔ “
ناہید اور شعیب وہاں سے جا چکے تھے۔
”میں تو تمہیں یہاں ان کے ساتھ دیکھ کر پریشان ہو گیا تھا۔ “ ولید کہہ رہا تھا ولید کے آنے سے پہلے ناہید شعیب اور ارم ریستوران میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ناہید نے ہی ارم کو بوتیک سے پک کیا تھا۔ اور اسے ایک اچھی خاصی رقم آفر کی تھی اس پلان میں اُن کا ساتھ دینے کے لیے۔
”اُس دن پارٹی میں شعیب نے تمہیں میرے ساتھ کیا دیکھا نہیں تھا؟ “ ولید نے ارم سے پوچھا۔
”اُس نے صرف مجھے دیکھا تھا عالیہ زی کی پارٹی میں تم اُس کی طرف کمر کرکے بیٹھے ہوئے تھے اُس نے ہی اپنی ماں کو میرا مشورہ دیا تھا، ولید اگر دیکھا بھی ہو اب تو ہم سب ننگے ہیں ایک دوسرے کے سامنے … ولید مجھے تو حالات نے کمینی بنا دیا مگر یہ ماں بیٹا تو پیدائشی کمینے ہیں ورنہ کیا تُک بنتی ہے ایک شریف آدمی کو بدنام کرنے کی اُس کی عزت کا جنازہ نکالنے کی۔
“
ولید نے چالاکی سے بات بدلی اُسے ڈر تھا ارم کی وہ شمع پھر روشن نہ ہو جائے۔
”ڈرالنگ دفعہ کرو ان ماں بیٹے کو میں تمہارے سامنے بیٹھا ہوں اور تم یہ فضول باتیں لے کر بیٹھ گئی ہو ہمیں اُن سے کیا “ولید نے ارم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
”یہ تو وہ بات ہو گئی … گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔ “ ارم واسطی مسکراتے ہوئے بولی۔
###
اگلے دن کالے سیاہ بادل آسمان پر چھائے ہوئے تھے اور سورج بھی کمبل اوڑھ کر اپنے بستر پر بیٹھا ہوا تھا۔ ٹھنڈی ہوا کی وجہ سے سردی جاتے جاتے واپس آ گئی تھی۔ فروری میں بارش ہونا کوئی عجیب بات نہیں تھی۔ عجیب بات یہ تھی کہ کل 27 فروری بروز جمعرات کو تیز دھوپ نکلی ہوئی تھی اور آج 28 فروری بروز جمعہ کالے سیاہ بادل سورج کو للکار رہے تھے آؤ میدان میں سورج عقلمند نکلا اُسے معلوم تھا آج ان بادلوں کا دن ہے اسی لیے وہ اپنے بستر سے اُٹھا ہی نہیں سورج نے دل میں سوچا تمہیں بیٹا پرسوں دیکھ لوں گا۔
سورج اور بادلوں کی نوک جھونک سے بہت پہلے جب سورج سویا ہوا تھا۔ اور بادل اپنی صف بندی کررہے تھے۔ یعنی تہجد کے وقت بلال تہجد ادا کر چکا تھا۔
وہ کھجوروں اور سیب سے سحری کر رہاتھا وجہ یہ تھی کہ کچن میں چولہے کی سوا کچھ نہیں تھا کھجوریں اور سیب اور پانی کی بوتل وہ رات کو ہی لے آیا تھا۔
سحری کرنے کے بعد وہ مسجد چلا گیا، مسجد سے واپس آ کر وہ اپنی نانی کے کمرے میں جایا کرتا تھا۔
اور وہیں بیٹھا رہتا تھا جب تک اُس کے اسکول کا ٹائم نہ ہوتا، صرف جمعہ اور پیر والے دن باقی دنوں میں وہ نماز سے فارغ ہو کر جاگنگ کے لیے چلا جاتا تھا، جاگنگ سے واپس آ کر گرم پانی سے نہاتا ناشتہ کرتا اُس کے بعد نانی کے پاس جاتا تھا۔ آج اُس کی ساری روٹین ڈسٹرب ہو گئی تھی۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی کی وجہ سے وہ چھت پر بھی نہیں بیٹھ سکتا تھا۔
اس وقت گھر کے سارے افراد سوئے ہوئے تھے۔
سوائے سیکورٹی گارڈ کے اسی دوران باجی غفوراں چھتری لیے گھر کے اندر داخل ہوئی تھی۔بلال اُس سے پہلے اپنے کمرے کے ریلنگ ڈور میں کھڑا سیکورٹی گارڈ کو دیکھ رہا تھا جو اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا سوچوں میں گم تھا۔ سیکورٹی گارڈ کا کمرہ گھر کے مین گیٹ کے ساتھ تھا دو طرف کنکریٹ کی مضبوط دیواریں اور دو طرف بلٹ پروف شیشہ بلال اُسے شیشے کے اُس پار بیٹھا ہوا دیکھ رہا تھا۔
یہ نظر بھی عجیب شے ہے بعض اوقات شیشے کے اُس پار دیکھ لیتی ہے اور اکثر اپنے سامنے کی حقیقت کو دیکھ نہیں پاتی۔
اُس کا دل چاہا باجی غفوراں سے باتیں کرئے۔ بلال نے باجی غفوراں کو آواز دی وہ رُک گئیں، بلال اپنے کمرے سے نکل کر باجی غفوراں کی طرف چل پڑا۔تھوڑی دیر بعد وہ دونوں گھر کے کچن میں تھے وجہ یہ تھی باجی غفوراں کو ناشتہ تیار کرنا تھا اُس نے بلال سے کہا کہ وہیں آ جاؤ۔
”آج کوئی بارہ وروں کے بعد بلال بیٹا تم یہاں آئے ہو۔ باورچی خانے میں “ باجی غفوراں اپنی انگلیوں پر حساب لگا کر بولی تھی۔
”جی باجی 11 سال 9 مہینے اور 10دن بعد “ بلال سوچوں میں گم بولا۔
”مجھے یاد ہے جب تم کھانا کھا رہے تھے تو ناہید بی بی نے تمہارے سامنے سے مچھلی اُٹھا لی تھی۔ “
”چھوڑیں باجی پرانی باتیں “ بلال زخمی آواز سے بولا۔
”بڑا حوصلہ ہے تمہارا بلال بیٹا مجھے یہ بھی یاد ہے پھر تم گھر سے جا رہے تھے اُسی وقت اگر میں بڑی بیگم صاحبہ کو نہ بتاتی تو تم چلے جاتے یہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ “
باجی غفوراں نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا تھا۔
”آپ کو نہیں بتانا چاہیے تھا، پھر نانو نے مجھ سے وعدہ لے لیا، اپنے سر پر میرا ہاتھ رکھ کر … “
بلال بات کرتے کرتے خاموش ہو گیا تھا۔
”تم دو صورتوں میں اس گھر سے جاؤ گے میری اجازت سے یا پھر میرے مرنے کے بعد … “
باجی غفوراں نے بات مکمل کی ”بلال بیٹا اچھا ہوا جو میں نے بڑی بیگم صاحبہ کو بتا دیا آج تم اُن کی اجازت سے اس گھر سے جا رہے ہو عزت کے ساتھ۔ بڑا حوصلہ ہے تمہارا بلال بیٹا ناہید بی بی نے بڑی زیادتیاں کی تھیں تمہاری ماں کے ساتھ پھر بھی تم نے اُسے معاف کر دیا۔“
”باجی غفوراں بدلہ لینے سے معاف کرنا افضل ہے۔ “ بلال نے جواب دیا ”میں نے ممانی کو دل سے معاف بھی کر دیا اور ہمیشہ اُن کی ماں کی طرح عزت بھی کی۔“
”ٹھیک کہہ رہے ہو بلال بیٹا اللہ تمہارے جیسا بیٹا سب کو دے۔ “
###