”لطیف صاحب میں کل عمرے کے لیے جا رہا ہوں نوشی میڈم آئیں گی گھر میں جس طرح کی تبدیلی وہ کہیں گئی آپ کروا دیجیے گا وائیٹ واش پردے کراکری سب کچھ اُن کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے۔ “
بلال نے لطیف کو ساری تفصیل بتائی۔
بلال جب اسکول پہنچا صبح کے دس بج رہے تھے۔ اُسے اطلاع دی گئی کہ نوین بغیر کسی اطلاع کے آج چھٹی پر ہے۔ بلال نے فوزیہ کو فون ملایا۔
”جی سر … “ فوزیہ نے فون کال ریسو کی۔
”فوزیہ جی 10 بج رہے ہیں اگر آپ 12 بجے تک آفس آ جائیں صرف ایک گھنٹہ کے لیے۔ “
”سر میں آ جاتی ہو۔ “ فوزیہ نے جواب دیا اور کال کاٹ دی۔ بلال نے آفس بوائے کو بلا کر سارے اسٹاف کو مسیج بھیجا 12 بجے میٹنگ ہے جمعہ کی وجہ سے اسکول میں ہاف ڈے تھا 12 بجے سے پہلے ہی اسکول میں چھٹی ہو گئی، سارا اسٹاف ٹھیک 12 بجے میٹنگ روم میں موجود تھا بشمول فوزیہ کے۔
(جاری ہے)
”میں کل انشاء اللہ عمرہ کرنے جا رہا ہوں تقریباً دو ہفتے بعد لوٹوں گا 17 مارچ کو میرا ولیمہ ہے آپ سب کو With Family میری طرف سے دعوت ہے … میرے بعد فوزیہ جی میری جگہ ہیں۔ میں امید کرتا ہوں آپ ہمیشہ کی طرح میرے معیار سے بہتر ثابت ہوں گے شکریہ۔“ میٹنگ ختم ہو چکی تھی سارا اسٹاف جا چکا تھا۔
فوزیہ اور بلال آفس واپس آئے جہاں پر لیاقت بیٹھا ہوا تھا۔
بلال نے اُن دونوں کو چائے پلائی اور فوزیہ کو ضروری ہدایات دیں۔ایک بجے تک فوزیہ اور لیاقت چلے گئے تھے۔ بلال جمعہ پڑھنے چلا گیا۔ 2 بجے کے آس پاس وہ واپس لوٹا تو اُس کا فون مسلسل بج رہا تھا۔
”اسلام علیکم بٹ صاحب “ بلال خوش اخلاقی سے بولا ڈاکٹر محسن بٹ دوسری طرف تھا۔
”بلال کدھر ہو کوئی خبر نہیں۔ “
”بس کچھ مصروف تھا … محسن میں کل عمرے کے لیے جا رہا ہوں 13 تاریخ تک واپس آ جاؤں گا۔
“
”یار مجھے بھی بتا دیتے میں بھی تمہارے ساتھ پروگرام بنا لیتا۔ “ محسن نے گلہ کیا۔
”Take careواپسی پر بات ہو گئی بائے۔ “ محسن نے فون بند کر دیا۔ کچھ ناراضی کے ساتھ۔
بلال سوچو میں گم کافی دیر آفس میں بیٹھا رہا، تقریباً 3 بجے وہ اپنے آفس سے اُٹھا گھر جانے کے لیے وہ نکلا، تو بابا جمعہ کو یاد کر رہا تھا۔ جب وہ جمعہ والے دن پیاز گوشت پکاتا اور بابا جمعہ کے گھر اُن کے لیے لے کر جاتا تھا اور وہ دونوں روزہ اکٹھے افطار کرتے تھے۔
بارش اب تیز ہو چکی تھی جو کہ نماز جمعہ کے وقت ہلکی ہلکی ہو رہی تھی۔ بلال اپنی گاڑی میں بیٹھ چکا تھا۔ بارش کو دیکھ کر اُس نے سوچا تھوڑی دیر رُک جاتا ہوں وہ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی بارش کے رُکنے کا انتظار کر رہا تھا۔بلال کو ایک نمبر سے کال آئی جو اُس کے موبائل میں Save نہیں تھا۔
”سر پلیز میری مدد کریں میری امی کی طبیعت بہت خراب ہے اُنہیں ہاسپٹل لے کر جانا ہے۔
“ نوین روتے ہوئے التجا کر رہی تھی۔ ”بارش کی وجہ سے کوئی گاڑی اور رکشہ بھی نہیں مل رہا ہے۔ سر پلیز کچھ کریں خدا کے لیے میری مدد کریں ورنہ میری امی کو کچھ ہو جائے گا“ کال کٹ گئی۔
بلال نے کچھ سوچا پھر تیزی سے گاڑی ڈرائیو کرتا ہوا نوین کے گھر کی طرف سفر کرنے لگا موسلادھار بارش ہو رہی تھی آسمان پر کالے سیاہ بادلوں کا راج تھا۔جوہر ٹاؤن اور ٹاؤن شپ میں سیوریج کا نظام شہر کے دوسرے حصوں کی نسبت قدرے بہتر ہے اس لیے سڑک پر زیادہ پانی کھڑا نہیں تھا۔
جس کی وجہ سے بلال بہت جلدی نوین کے گھر کے باہر پہنچ گیا، اُس نے وہی نمبر ملایا اس غرض سے کہ نوین اپنی ماں کو باہر لے آئے، مگر وہ نمبر بند تھا۔ بارش کی وجہ سے روڈ پر ٹریفک بالکل بھی نہیں تھی، اور دور دور تک کوئی بندہ بشر نظر نہیں آ رہا تھا۔
یہ ایک پانچ مرلے کا گھر تھا۔ سنگل اسٹوری بیرونی دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا۔ اور اندر سے کسی کی آواز نہیں آ رہی تھی۔
بلال کو تشویش لاحق ہوئی وہ اپنی گاڑی سے اُترا اور گھر کے اندر چلا گیا ایک چھوٹے گیراج کے بعد بڑا ہال تھا۔ بلال گیراج سے گزر کر اب وہ ہال میں تھا ہال تقریباً خالی تھا سوائے دو صوفوں اور ایک لکڑی کی میز کے ہال میں اندھیرا تھا۔
”نوین … نوین … کہاں ہو آپ… “ بلال نے آواز لگائی اُسی لمحے سامنے والے بیڈ روم سے رونے کی آواز گونجی بلال جلدی سے بیڈ روم کی طرف بڑھا اندر بھی اندھیرا تھا۔
بلال نے دروازہ کھولا تو اُسے سامنے بیڈ پر کوئی کمبل کے اندر لیٹا ہوا نظر آیا وہ جلدی سے اُس طرف بڑھا جب بلال بیڈ روم میں داخل ہو چکا تھا۔ تو اُسی لمحے کمرے کی ساری لائٹس on ہو گئیں۔ بارش کی وجہ سے بجلی نہیں تھی یہ کمال UPS نے دکھایا تھا نوین کی مدد سے، نوین دروازے کے پیچھے سوئچ بورڈ کے پاس کھڑی تھی۔ اپنی کالی چادر کو اوڑھے ہوئے اپنی آنکھوں پر نقاب کیے ہوئے اور اپنے جسم کو چھپائے ہوئے نوین نے مست نگاہوں سے بلال کو دیکھا اُس کی موٹی موٹی کالی سیاہ آنکھوں میں کالا کاجل دعوت گناہ کا پیغام دے رہا تھا۔
بلال نے کمبل کی طرف دیکھا کمبل کے نیچے دو گول تکیے پڑے ہوئے تھے۔ جب بلال نے کمبل ہٹایا تو اُسے پتہ چلا۔ بیڈ روم بہت شاندار اور لگژری تھا۔ سب کچھ ہی کلر فل اور الگ مختلف۔
نوین کالی ناگن کی طرح لہراتی بل کھاتی بلال کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی اُس نے اپنے چہرے سے وہ کالا نقاب ہٹایا تیکھے نین نقش والی ایک سانولی سلونی لڑکی جس کی آنکھوں میں اُس کے دل کی بات پڑھی جا سکتی تھی۔
وہ بلال کی سالوں کی تپسپا بھسم کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔ نوین کی آنکھوں میں نشہ تھا۔ اور وہ بلال کو دیکھ رہی تھی۔ بلال نے اُسے دیکھ کر نظریں جھکا لیں۔
”بلال … ہائے میں مر جاؤ اس ادا پر۔ “ نوین نے اپنے ہاتھ سے بلال کی ٹھوڑی کو اوپر اُٹھایا اب تک وہ کالی چادر اُس کے جسم پر تھی صرف اُس نے چہرے سے نقاب ہٹایا تھا اُس نے وہ چادر آہستہ آہستہ اُتاری اور داخلی دروازے کے دائیں ہاتھ پڑی ہوئی بازوں والی کرسی پر پھینک دی پیچھے کی جانب بغیر دیکھے ہوئے۔
کالی چادر کے نیچے اُس نے ایک بیہودہ لباس پہنا ہوا تھا۔ جس سے اُس کی چھاتی واضح نظر آ رہی تھی وہ ایک کھلے گلے والی نائٹی پہنے ہوئے تھی۔ نوین کے چہرے پر ایک واہیات مسکراہٹ اُبھری۔
”حیرت ہے … بلال … تم اب تک میرے ارادوں کو جان نہیں سکے۔ “
”نوین جی … میں آپ کو پہلی ملاقات ہی میں جان گیا تھا۔ وہ الگ بات ہے دیکھ آج رہا ہوں۔
“ بلال نے تضحیک آمیز لہجے میں کہا۔
”یہ موسم … میرا یہ جوبن … تمہاری یہ جوانی اور یہ تنہائی کیا سوچ رہے ہو۔ “ نوین نے نینوں کے تیر چلاتے ہوئے بے حیائی سے کہا۔
”سوچ رہا ہوں ایک عورت اپنے آپ کو کس حد تک گرا سکتی ہے۔ “
”اسی لیے تو میں چاہتی ہوں تم مجھے اُٹھا لو … تھام لو … مجھے اپنا بنا لو … بلال میں تم پر مر مٹی ہوں۔
“ نیناں زبردستی بلال کے گلے لگ گئی۔ بلال نے اُسے زور سے خود سے جدا کیا اور اُسے بیڈ پر دھکا دے دیا اور خود بیڈ روم سے نکلنے لگا دروازے کے پاس پہنچ کر اُس کی نظر نیناں کی کالی چادر پر پڑی جو کہ کرسی پر پڑی ہوئی تھی۔ بلال دروازے پر رُکا اور پلٹ کر نیناں سے کہا جو کہ بیڈ سے اُٹھ رہی تھی۔
”کپڑے کی چادر تو تم نے اُتار کر پھینک دی ہے … اب کبھی اوڑھنی ہو تو حیا کی چادر اوڑھنا۔
“ بلال یہ کہہ کر کمرے سے نکل گیا اب وہ ہال میں تھا۔ نیناں پیچھے سے بھاگ کر آئی اور بلال کی کمر سے لپٹ گئی اُس کے دونوں ہاتھ بلال کے سینے پر تھے۔
”بلال I love you … پلیز مجھے اس طرح چھوڑ کر نہ جاؤ … مجھے تمہاری اور نوشی کی شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہے … تم شادی ضرور کرو … مگر یہ تعلق تو ختم نہ کرو۔ “
شعیب اور ناہید پہلے سے ہال میں کھڑے ہوئے تھے، اور نوشی اُن دونوں کے پیچھے سے کندھوں کے درمیان سے یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔
وہ بلال کے بیڈ روم سے نکلنے سے پہلے ہی وہاں پہنچے تھے کمرے میں روشنی تھی اور ہال میں اندھیرا شعیب نے اُسی لمحے ہال کی ساری لائٹس on کر دیں جہاں وہ کھڑا ہوا تھا سوئچ بورڈ بالکل اُس کے پیچھے تھا۔
نوشی دیکھ رہی تھی بلال کو حیرت سے نفرت سے اور حقارت سے بلال کی کمر سے نیناں لپٹی ہوئی تھی وہ آنکھیں بند کیے ہوئے بول رہی تھی۔
”بلال پلیز یہ تعلق ختم نہ کرو … بلال پلیز یہ تعلق ختم نہ کرو۔ “ ایک منٹ کے اندر اندر بلال نے نیناں کو خود سے جدا کر دیا اُس نے اپنی چھاتی سے نیناں کا ہاتھ ہٹا کر اُسے اُس کے بازو سے پکڑ کر زور لگا کر خود سے جدا کیا تھا۔