Episode 85 - Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 85 - بلال صاحب - شکیل احمد چوہان

”یہ کیابکواس کر رہی ہو … چھوڑو مجھے … کس تعلق کی بات کر رہی ہو…“ بلال غصے سے دھاڑا اُس کی آنکھوں میں شعلے تھے۔ اور نوشی کی آنکھوں میں نفرت شدید غصہ اُس کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھی۔کڑکتی بجلی نے چیخ ماری شاید باہر کہیں کسی پر گری تھی۔ یا پھر بجلی اس سازش پر روئی تھی اُس کی خبر نہیں کہ بجلی کڑکنے کی اصل وجہ کیا تھی، یا پھر بارش وہ تیز بارش … بلال کی نظر اُن سب پر پڑی وہ خاموش رہا۔
ناہید سامنے کھڑی تھی اُس کے دائیں ہاتھ ایک قدم پیچھے نوشی کھڑی تھی، اور اُس سے دو قدم پیچھے شعیب کھڑا تھا، دیوار سے ٹیک لگائے ہوئے ریلکس اُس کے بائیں جانب بجلی کا سوئچ بورڈ تھا۔
نیناں نے اُن سب کو دیکھا تو اپنا بلاوز سیدھا کیا مکار حسینہ نے ایک اور چال چل دی۔
”نہیں نہیں ایسا کچھ نہیں ہے … ہم دونوں کے بیچ میں … بلال تو بڑے شریف آدمی ہیں۔

(جاری ہے)

”وہ تو میں دیکھ رہی ہوں “ ناہید دانت پیستے ہوئے آگے بڑھی اور بلال کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی اور اُسے کالر کے نیچے سے گریباں سے پکڑ کر کہا تھا۔
”اُتار کر پھینک دو … یہ شرافت کا چوغہ … میں نے تم سے زیادہ بے غیرت اور بے حیا شخص آج تک نہیں دیکھا۔ “ ناہید نے بلال کو گریباں سے پکڑ کر جھنجھوڑا تھا۔
نوشی کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
بلال پتھرائی ہوئی آنکھوں سے نوشی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ناہید نے نوشی کی طرف دیکھا تو بولی۔
”شعیب سنبھالو بہن کو … اور چلو یہاں سے … “ ناہید آگے تھی اور شعیب نے بازو میں لے کر نوشی کو سنبھالا ہوا تھا۔
نیناں آدھ ننگی، نظریں جھکائے بلال کے سامنے کھڑی تھی اُس نے اپنے بازوؤں سے اپنی ننگی چھاتی کو چھپایا ہوا تھا۔ بلال کمرے میں واپس گیا اور کرسی پر پڑی کالی چادر اُٹھائی اور واپس نیناں کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا اور وہ کالی چادر اُس کے کندھوں کے اوپر سے نیناں پر ڈال دی تھی۔
”نوین جی کپڑے کی چادر عورت کو تحفظ دیتی ہے … اور حیا کی چادر اوڑھنے سے عورت کو عزت ملتی ہے … اور دونوں چادریں اوڑھنے سے عورت کا اپنا ہی بھلا ہوتا ہے۔ “ بلال تھوڑی دیر خاموش رہا جیسے اپنے آپ کو سنبھال رہا ہو۔ بلال نے صبر کی طاقت سے اپنے آپ کو ریزہ ریزہ ہونے سے بچا لیا تھا۔ مگر اپنی تکلیف نہیں چھپا سکا۔
”نوین جی میں نے آپ کو معاف کیا … اور میں دعا کرتا ہوں میرا اللہ بھی آپ کو معاف کر دے “ بلال دکھ میں ڈوبی ہوئی گھائل آواز کے ساتھ بول رہا تھا۔
نیناں نے اپنی پلکوں کے کواڑ کھولے … نیناں کے موٹے موٹے نینوں میں آنسو چمک رہے تھے۔ اُس نے عقیدت سے بلال کے چہرے کو دیکھا جو چند منٹ پہلے ہوس اور بے حیائی سے دیکھ رہی تھی۔ اُس کے اشک اب اُس کے گالوں پر تھے۔
نیناں کا دل اُسے ملامت کر رہا تھا، کہ تم نے چند لاکھ روپوں کے لیے کسی کی عزت کو داغ دار کر دیا اور اُسے دیکھو اُس نے تمہیں معاف بھی کر دیا، اور تمہارے لیے دعا کر رہا ہے۔
بلال وہاں سے جا چکا تھا۔ نیناں اُسی جگہ کھڑی ہوئی آنسو بہا رہی تھی۔ اُس نے وہ بلال کی اوڑھنی کو اپنے ہاتھ سے پکڑا اور خود سے عہد کیا۔
”بلال تم نے میرے ننگے اور غلیظ بدن پر جو دو چادریں ڈالی ہیں۔ میں انہیں کبھی اُترنے نہیں دوں گئی۔ … کبھی نہیں … میرے لیے دعا کرنا … اللہ مجھے معاف کر دے۔ “
نیناں روتے روتے زمین پر بیٹھ گئی اُس نے اپنی پیشانی زمین پر رکھ دی اُس کی ہچکیوں سے ہال گونج رہا تھا۔
###
ولید صبح ہی سے بلال کو فالو کر رہا تھا۔ وہ شعیب کے ساتھ رابطے میں تھا۔ اور لمحہ بہ لمحہ شعیب کو اَپ ڈیٹ کر رہا تھا۔ WhatsApp کے ذریعے ناہید نوشی کو اپنے ساتھ اپنی فیکٹری لے کر آئی تھی گھر سے کوٹ لکھپت کا فیکٹری ایریا اور ٹاؤن شپ آمنے سامنے ہیں اُن کے درمیان ایک تقریباً 100 فٹ کی ڈبل روڑ واقع ہے۔ناہید کی فیکٹری اور نیناں کا گھر چند منٹ کی دوری پر تھے۔
جیسے ہی بلال نیناں کے گھر کے باہر پہنچا ولید نے شعیب کو اطلاع کردی تھی۔ شعیب اور ناہید نوشی کو وہاں لے کر آ گئے تھے۔ ناہید جو کچھ نوشی کو دکھانا چاہتی تھی وہ اُس میں کامیاب ہو چکی تھی۔ولید نے ہی ارم واسطی کے ذریعے نیناں کو بلال کے آفس میں رکھوایا تھا۔
بلال پہلے دن ہی جان چکا تھا۔ کہ نیناں کس طرح کی لڑکی ہے۔ نیناں ایک مشہور کال گرل تھی۔
جو اپنے جسم کا دھندا کرتی تھی۔ بلال کو یہ سب تو معلوم نہیں تھا۔ مگر اُس نے نیناں کے بے حیا نین ضرور پڑھ لیے تھے۔ ایک دفعہ بلال نے توشی سے کہا بھی تھا۔ ”اُس لڑکی کی آنکھیں بولتی ہیں“۔
نیناں اور ارم میں فرق یہ تھا۔ نیناں کال گرل تھی۔ اور ارم کی زندگی میں دل نواز ڈئیگی کے بعد ولید چھوتا آدمی تھا۔ دل نواز ڈئیگی اُس کی محبت تھا۔
بعد میں آنے والے دو شخص اُس کی مجبوری تھے۔ اور اب ولید اُس کی عادت، اُس کا نشہ، ولید اور ارم کو ایک دوسرے کی لعئت لگی ہوئی تھی۔
ارم مجبور تھی شروع میں … اور نیناں شروع ہی سے عادت سے مجبور تھی۔ مجبور انسان اور عادت سے مجبور انسان میں فرق ہوتا ہے۔عادت سے مجبور نے تو توبہ کر لی تھی سچی پکی توبہ، اب دیکھنا یہ تھا کہ مجبور کیا کرتی ہے۔
ارم کا ایک کمال اور بھی تھا کہ وہ جب جب بلال سے ملی تھی اُس نے کبھی بھی بلال کو نظر اُٹھا کر نہیں دیکھا تھا۔ اور کبھی بھی اُس سے کوئی فضول بات نہیں کی تھی۔
ارم نے ہمیشہ بلال سے سیدھی اور مختصر بات کی تھی، اسی وجہ سے بلال اُسے نوشی کے ڈریسز کے لیے تین لاکھ روپیہ دے کر آیا تھا۔
بلال ارم کے متعلق اچھی رائے رکھتا تھا۔
ارم اور ولید اپنے بنائے ہوئے پلان میں بڑی آسانی سے کامیاب ہو چکے تھے۔ شعب اور ناہید کی وجہ سے۔ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے، یہ چاروں بلال کے دشمن تھے، اس لیے آپس میں دوست بن گئے تھے۔
###

Chapters / Baab of Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط