مغرب کی اذان سے چند منٹ پہلے SMS بلال کے کمرے میں داخل ہوا تھا۔ بلال دیوان پر اپنے سامنے کھجوریں اور پانی کی بوتل رکھے ہوئے بیٹھا دعا مانگ رہا تھا۔SMS کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اور وہ بلال کی طرف دیکھ رہا تھا، اپنے آنسوں کو صاف کرتے ہوئے۔
”بلال بھائی آپ کو بڑے صاحب نے بلایا ہے “ SMS لرزتی ہوئی آواز سے بول رہا تھا۔ ”وہاں پر وہ سب…“ بلال نے اپنی شہادت کی انگلی اپنے ہونٹوں پر رکھی اور SMS کو چپ رہنے کا اشارہ دیا۔
” شاہد آپ جاؤ میں نماز پڑھ کر آتا ہوں۔“ مغرب کی اذان شروع ہو چکی تھی۔ بلال نے ایک کھجور منہ میں ڈالی اور بوتل کو منہ لگا کر تین گھونٹ پانی پیا وقفہ دے دے کر۔
”شاہد سنو یہ ہینڈ کیری میری گاڑی میں رکھ دو … کوچ کا نقارہ بج چکا ہے … پچھلی سیٹ پر رکھنا دروازہ کھلا ہے۔
(جاری ہے)
“
شاہد محمود سکھیرا وہ ہینڈ کیری اُٹھا کر جا چکا تھا۔
بلال نے خشوع و خضوع کے ساتھ مغرب کی نماز ادا کی اور دعا کے بعد جائے نماز لپیٹ کر اپنی بغل میں لگا لیا اور وہ کالا فولڈر اُٹھایا اور گھر کے لاؤنج کی طرف چل دیا۔
”نماز پڑھ کر آتا ہوں … سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی۔ “ ناہید لومڑی کا دماغ رکھنے والی عورت بول رہی تھی۔
گھر کے لاؤنج میں جمال رندھاوا صوفے پر بیٹھے ہوئے اپنے اوپر والے دانتوں سے نیچے کے دانتوں کو دبا رہے تھے منہ بند کیے ہوئے غصے سے۔
نوشی دوسرے صوفے پر اپنے باپ کے سامنے بائیں ہاتھ سامنے کی طرف بیٹھی ہوئی تھی۔ ناہید پیچھے کھڑی تھی جمال رندھاوا کے۔
شعیب دائیں ہاتھ دو کرسیوں میں سے ایک کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ سامنے کی طرف اور اُس سے کچھ فاصلے پر ارم واسطی کھڑی تھی نظریں جھکائے ہوئے۔
جمال رندھاوا کے سامنے ٹیبل پر دو لفافے پڑے ہوئے تھے۔ ایک بلال کے اسکول کا انویلپ تھا اور دوسرا انویلپ ڈیفنس کے ایک فوٹو اسٹوڈیو کا تھا۔
BG اور SMS ناہید سے بھی پیچھے دیوار کے ساتھ کھڑے تھے۔ باقی گھر کے نوکروں کو اس طرف آنے کی اجازت نہیں تھی۔
”اسلام علیکم … “ بلال نے اپنے آنے کی اطلاع دی۔ ”جی ماموں آپ نے بلایا تھا“ بلال مطمئن تھا اُسے معلوم تھا۔ اُس کے آنے سے پہلے ہی اُس کے خلاف فیصلہ ہو چکا ہے۔
”یہ دونوں لفافے اُٹھاؤ۔ “ جمال نے غصے سے کہا بلال نے آگے بڑھ کر وہ دونوں لفافے اُٹھا لیے JUST اقرا اسکول والا انویلپ اُس نے کھولا اُس میں وہی تین لاکھ روپیہ تھا جو اُس نے چند دن پہلے ارم کو دیا تھا، نوشی کے کپڑوں کے لیے۔
بلال نے وہ روپے واپس اُسی میں ڈال دیے۔ اب دوسرے انویلپ کی باری تھی۔ اُس نے وہ انویلپ کھولا تو اُس میں بلال اور عظمی افگن نیازی کی وہ تصویریں تھیں، جو کافی دنوں پہلے جب وہ اور عظمی آخری بار ریستوران سے کھانا کھا کر نکلے تھے، تو پارکنگ میں بلال کی گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے جب عظمی اپنے ایک مہربان سچے اور کھرے دوست کے گلے لگی تھی۔ اُس لمحے کو کیمرے نے محفوظ کر لیا تھا اُسی طرح۔
ایک تصویر تھی، مگر اس تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی تھا۔
دوسری تصویر میں عظمی بلال کے ہاتھ کو چوم رہی تھی۔ اور تیسری تصویر میں بلال کا ہاتھ عظمی کے بائیں کندھے پر اور چوتھی تصویر بلال کا بایاں ہاتھ عظمی کے دائیں گال پر تھا۔
ایسی کوئی دو درجن کے قریب تصویریں اُس انویلپ کے اندر تھیں۔
”یہ روپے … “ جمال نے تشویش کے انداز سے پوچھا۔
”میں نے دئیے تھے … ارم کو … “
”اور وہ تصویریں جو تمہارے ہاتھ میں ہیں … کہیں نقلی تو نہیں ہیں۔ “ جمال تلخی سے بولا۔
”جی نہیں … جو تصویریں دکھا رہی ہیں۔ وہ بھی بالکل سچ ہے … مگر حقیقت کچھ اور ہے … آپ میری بات بھی سن لیں۔ “ بلال نے ادب سے جواب دیا۔
”جو ہم لوگوں نے آج دیکھا وہ سچ تھا … یا حقیقت تھی … تم جیسا بے شرم آدمی میں نے آج تک نہیں دیکھا … اب جمال تمہاری بات کیوں سنیں جو دیکھا ہے وہ کافی ہے۔
“
”ارم تم کیوں خاموش کھڑی ہو، بتاتی کیوں نہیں تمہارے ساتھ اس بے غیرت شخص نے کیا وعدے کیے تھے۔“ شعیب ارم کی طرف دیکھ کر غصے سے بولا۔ ارم کی آنکھوں میں وہ مصنوعی آنسو ایک بار پھر آ گئے تھے۔ جو وہ کوئی آدھ گھنٹہ پہلے بھی لا چکی تھی، جب اُس نے جمال کو اپنی اور بلال کی فرضی کہانی سنائی تھی۔ ارم نے ڈرتے ہوئے بلال کی طرف دیکھا۔
”تم ڈرو مت میں تمہارے ساتھ ہوں۔
“ جمال نے ارم کا حوصلہ بڑھایا۔
”سر تین سال پہلے جب میں نے بوتیک پر جاب شرع کی تھی تو ایک دن بلال وہاں پر آیا مجھے دیکھا اور میرے پیچھے ہی پڑ گیا۔ کچھ دن بعد کہنے لگا میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں، مگر تمہاری باس میرے گلے پڑی ہوئی ہے، بچپن سے جیسے ہی اس سے میری جان چھوٹتی ہے، میں تم سے شادی کر لوں گا۔
میں اس کی باتوں میں آ گئی، میری عزت آبرو اس کی ہوس کا شکار ہو گئی، پھر یہ ہفتے میں دو دفعہ مجھ سے ملنے لگا اور اتوار کا سارا دن میرے ساتھ فلیٹ پر گزارتا۔
یہ سلسلہ پچھلے تین سال سے چل رہا ہے، اب یہ کہتا ہے، میں تم سے شادی نہیں کر سکتا میری نوشی سے شادی ہونے والی ہے اس نے میرا منہ بند کرنے کے لیے یہ تین لاکھ روپیہ مجھے دیا تھا۔ اور ساتھ یہ بھی کہا تھا، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو میں تمہیں قتل کروا دوں گا۔“
ارم واسطی نے زور زور سے رونا شروع کردیا تھا۔ بلا ل نے اُس کی طرف حقارت سے نگاہ ڈالی۔
”بلال میں تو تمہاری مثالیں دیا کرتا تھا لوگوں کو … اور تم کیا نکلے۔ “ جمال رندھاوا دکھی ہو کر بولے۔
”ماموں جان یہ لڑکی جھوٹ بول رہی ہے۔ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ تین لاکھ روپیہ میں نے اسے نوشی کے ڈریسزز بنوانے کے لیے دیا تھا۔ اور وہ تصویریں میری دوست ڈاکٹر عظمی افگن کی ہیں، وہ صرف میری دوست ہے … بس “ بلال نے آرام سے اپنی صفائی پیش کی۔
”اور وہ جو ہم تینوں نے دیکھا وہ کیا تھا … “ ناہید غصے سے چلائی۔
”ممانی جان وہ مجھ سے زیادہ آپ جانتی ہیں۔ “ بلال نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
”ممانی جان میری سمجھ سے باہر ہے آپ کیوں یہ گندا اور غلیظ کھیل کھیل رہی ہیں۔ “
”بلال اپنی زبان کو لگام دو … مت بھولو وہ تمہاری کیا لگتی ہے۔ “ جمال رندھاوا غصے سے گرجے۔ ”تمہیں شرم آنی چاہیے یہ گندا الزام لگاتے ہوئے اپنی ممانی پر۔
“
”ممانی نہیں … ماں … میں نے ہمیشہ ان کو اپنی ماں کی طرح عزت دی اسی لیے میں بار بار کہتا تھا، کہ ممانی سے پوچھ لیں اگر اُن کو اس شادی پر اعتراض ہے تو میں یہ شادی کبھی نہیں کروں گا، میں نے ایک ماں کے حکم پر محبت کی اور اپنی دوسری ماں کے حکم پر اپنی محبت سے منہ موڑ لیتا … ممانی جان آپ صرف ایک بار مجھے کہہ دیتی میں خوشی خوشی خود انکار کر دیتا اس لیے کہ میں آپ کو ماں سمجھتا نہیں مانتا بھی تھا …
ممانی جان مجھے اپنی ماں کی ہر چیز سے محبت ہے، اور میری ماں کو اپنی آبائی زمین سے بہت لگاؤ تھا، مگر میں نے آپ کی خوشی کی خاطر اُسے لینے سے بھی انکار کر دیا تھا … اگر اللہ نے زندگی دی تو میں وہ زمین خود خریدوں گا اپنے پیسوں سے … انشاء اللہ۔
“
”پوری زندگی ہمارے ٹکڑوں پر پلنے والے … زمین خریدوں گا … تمہاری اوقات بھی ہے وہ زمین خریدنے کی۔ “ ناہید نے بلال پر طنز کیا۔ ”میں حیران ہوں تم کتنے بے شرم اور بے غیرت ہو جو اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بڑے مزئے سے باتیں کر رہے ہو … ذرا دیکھو میری معصوم بچی کی طرف وہ رو رو کر پاگل ہو گئی ہے اور تمہاری آنکھوں میں شرمندگی کا ایک آنسو بھی نہیں ہے … تم ایک بے حس اور بد کردار شخص ہو … رندھاوا صاحب آپ بھی کمال کرتے ہیں آپ بڑے مزے سے اس گھٹیا شخص کی تقریر سن رہے ہیں دھکے مار کر نکالیں اسے یہاں سے … احسان فراموش اگر رندھاوا صاحب نہ ہوتے تو تم در در کی ٹھوکریں کھاتے۔
اور ہ تمہارے دونوں چچا کبھی انہوں نے تمہاری خبر لی“
”خبر نہ لینا … جبر اور ظلم کرنے سے … بہر حال بہتر ہے … “
بلال نے ناہید کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سنجیدگی سے جواب دیا۔
”تیور تو دیکھو … اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے … چور ماں کا چول بیٹا … “ ناہید نے ایک بار پھر بلال کے زخموں پر نمک ڈالا۔