”ممانی جان … بس … بس … “ بلال غصے سے دھاڑا پہلی بار اُس نے اونچی آواز میں بات کی تھی۔ اُس کی آواز لاؤنج میں گونج رہی تھی۔ اُس کی آنکھوں میں خون اُتر آیا تھا۔
”ممانی جان آپ مجھے کچھ بھی کہہ لیں … میں برداشت کرلوں گا … اُف تک نہیں کروں گا … مگر اپنے مرے ہوئے ماں باپ کے متعلق ایک لفظ بھی نہیں سن سکتا … آپ نے میری ماں پر جھوٹا چوری کا الزام لگایا تھا … اُس عورت پر جس نے اپنی کروڑوں کی جائیداد آپ کے کہنے پر دے دی … اور کبھی آپ سے واپسی کا تقاضا نہیں کیا … اور آپ نے لاکھ دو لاکھ کے زیورات کی چوری کا الزام اُس عظیم عورت پر لگا دیا … آپ نے اُس عظیم عورت کی عزت وقار خودداری کا جنازہ نکال دیا … مر تو وہ آپ کالگایا ہوا الزام سن کر ہی گئی تھی۔
صرف مرنے کی رسم پاگل خانے میں ادا ہوئی… آپ کو یاد تو ہوگا … ایک دفعہ آپ نے مجھ پر بھی چوری کا الزام لگایا تھا … میں نے 26 سالوں میں جو عزت کمائی تھی … آپ نے وہ بھی چھین لی … میں چند دنوں میں ثابت کر سکتا ہوں کہ میں بے گناہ ہوں … سچا ہوں … بد کردار نہیں ہرگز نہیں۔
(جاری ہے)
ممانی جان میں آپ کے لگائے ہوئے الزاموں سے ہرگز پاگل نہیں بن سکتا … یہ آپ کی بھول ہے … “
”تم کرو ثابت … میں چیلنج کرتی ہوں … تم اپنے آپ کو کبھی بے گناہ ثابت نہیں کر سکتے … تم ایک بد کردار … بد لحاظ … عیاش آدمی ہو۔
“
ناہید رندھاوا انگلی دکھاتے ہوئے غصے سے چیخی زندگی میں پہلی بار اُسے کسی نے منہ توڑ جواب دیا تھا۔ ناہید کا رنگ فق ہو چکا تھا۔ اور وہ بلال کا جواب سن کر حواس باختہ ہو گئی تھی۔
”میں کہتی ہوں … تم اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرو … “ ناہید دوبارہ چلائی۔
”میں سچا ہوں … اور میں ثابت بھی کر سکتا ہوں … اُس کے بعد ان سب لوگوں کے درمیان آپ کی کیا عزت رہ جائے گی … میں اب بھی آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہا ہوں بغیر کسی شرمندگی کے … ممانی جان یہ ثابت ہونے کے بعد کیا آپ ان سب سے آنکھ ملا سکیں گی … اور مجھے ڈر ہے … کہیں آپ کے ساتھ … میری ماں جیسا … نہیں نہیں اللہ نہ کرے … آپ تو ماں نہ بن سکیں … مگر میں تو بیٹا ہوں۔
“
بلال نے ایک بار پھر ناہید کو کرارا جواب دیا۔ SMS اور BG جو پہلے گردن جھکائے کھڑے تھے اپنے آنسوؤں کو چھپانے کی غرض سے ایک دم سے اُن کی گردنیں سیدھی ہو گئیں تھیں۔ آنسو خود بخود خشک ہو چکے تھے۔ SMS کی دونوں مٹھیاں بند تھیں جوش کے ساتھ غصے کی وجہ سے۔
جمال رندھاوا خاموشی سے سب کچھ سن رہے تھے۔ نوشی جو کچھ دیر پہلے آنسو بہا رہی تھی اب پتھرائی ہوئی آنکھوں سے اپنی ماں اور بلال کو دیکھ رہی تھی۔
کبھی بلال کی طرف اور کبھی اپنی ماں کی طرف نوشی کو اپنی سچی محبت اور جھوٹی جنت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ نوشی اسی کشمکش میں مبتلا تھی۔
شعیب غصے سے بلال کو دیکھ رہا تھا۔ اور ارم واسطی حیرت میں مبتلا کہ اتنا خاموش اور دھیمے لہجے میں بات کرنے والا بندہ اپنی ماں کا نام سن کر اتنا جذباتی بھی ہو سکتا ہے۔
ارم کو شرافت اور کمزوری کا فرق سمجھ آ گیا تھا۔
”اوئے ہیرو یہ کیا ڈائیلاگ بازی کر رہے ہو … نکلو یہاں سے … تم کیا سمجھتے ہو یہ کسی فلم کا کلائمیکس ہے … جو تم ڈائیلاگ بول کر … پبلک کو خوش کر لو گے … اور لوگ تمہاری بے گناہی ثابت ہونے کے بعد … تالیاں بجا کر اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں گے۔ “
شعیب نےBG اور SMS کی آنکھوں میں بلال کی جیت کی چمک دیکھ لی تھی، فرق صرف اتنا تھا کہ یہ دونوں اپنے ہیرو کی جیت پر تالیاں نہیں بجا سکتے تھے۔
شعیب نے غصے سے ہاتھ سے چٹکی بجاتے ہوئے بلال کو مخاطب کیا تھا۔
بلال جمال رندھاوا کی طرف بڑھا، اُن دونوں کے درمیان شیشے کا سینٹر ٹیبل تھا۔ جمال رندھاوا براؤن لیدر کا لباس پہنے ہوئے صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اور بلال اُن کے سامنے ٹیبل کی دوسری طرف کھڑا تھا۔ بلال کی بائیں بغل میں وہ کالا فولڈر اور جائے نماز تھا۔ بلال دو زانو بیٹھ گیا۔
بالکل اپنے ماموں کے سامنے اور جمال رندھاوا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہایت ادب سے بولا۔
”ماموں جان یہ سب جھوٹ ہے۔ “ اب بلال نے نظریں اُٹھا کر ناہید کی طرف دیکھا جو کہ جمال کے پیچھے کھڑی تھی۔ اور قہر آلود نگاہوں سے بلال کو تک رہی تھی۔
”میں یہ گھر چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ “ بلال پھر جمال کی طرف متوجہ ہوا اور جمال کو دیکھ کر بولا۔
”میں آپ سے بہت کچھ کہنا چاہتا تھا۔ شاید کہہ نہ پاؤں اس لیے لکھ کر رکھ لیا تھا۔ “ بلال نے وہ کالا فولڈر شیشے کی ٹیبل پر رکھ دیا۔
”اس میں ایک خط ہے ضرور پڑھیے گا۔ اور آپ کے 144 احسانات جو آپ مجھ پر پچھلے 12 سال سے ہر مہینے کر رہے تھے۔ وہ آپ کے سارے احسان اس فولڈر میں بند ہیں۔ وہ بھی دیکھ لیجیے گا۔ “
اس کے بعد بلا ل نے وہ فوٹو اسٹوڈیو کا انویلپ اپنے کوٹ کی اندرونی پاکٹ میں ڈال لیا۔
جائے نماز اب بھی بلال کی بائیں بغل میں تھا۔ اور اُس کے دائیں ہاتھ میں وہ تین لاکھ کی تین گھٹیاں تھیں جو کہ بلال کے اسکول کے جسٹ اقرا انویلپ میں تھیں۔ بلال اپنے گھٹنوں سے اُٹھا اور اُلٹے پاؤں واپس ارم کی طرف آ گیا، جاتے ہوئے بھی اُس نے اپنے ماموں کی طرف پشت نہیں کی ارم واسطی کے برابر آ کر بلال نے وہ تین لاکھ روپیہ جسٹ اقرا اسکول کے انویلپ سے نکالا اور انویلپ کو اپنے لائٹ بلیو کوٹ کی سائیڈ والی پاکٹ میں ڈال لیا، اور وہ تین لاکھ روپیہ ارم کی طرف بڑھا دیا۔
”ارم جی یہ رکھ لیں۔ “ ارم نے گردن اُٹھا کر بلال کو حیرت سے دیکھا، بلال کے چہرے پر جیت کی مسکراہٹ اُبھری اور وہ بولا۔
”انہیں کے لیے تو آپ نے اس حد تک اپنے آپ کو گرایا ہے … آپ کو ارم جی ان روپوں کی بہت ضرورت ہے … پلیز رکھ لیں۔ “ بلال نے وہ روپے ارم واسطی کو تھما دئیے اب بلال نوشی کی طرف بڑھا جو بلال کو اپنی طرف آتا دیکھ کر کھڑی ہو گئی تھی۔
”نوشی جی میں نے اپنی پوری زندگی محبت کے بغیر گزار دی … میں بلال احمد محبت کے بغیر زندہ رہ سکتا ہوں … عزت کے بغیر نہیں … مجھے نہیں پتہ محبت کے اداب کیا ہوتے ہیں … میرے نزدیک محبت کے سر کی چادر عزت ہوتی ہے … اور آپ کی ماں نے وہ عزت کی چادر نفرت کی آگ میں جلا دی، اور ایسی ننگی محبت کا میں قائل نہیں ہوں … میں نے جانے کا فیصلہ کر لیا ہے … اب آپ نے فیصلہ کرنا ہے سچ اور جھوٹ میں سے کسی ایک کا۔
“
”یہ کیا ڈرامہ ہو رہا ہے سچ … جھوٹ … عزت … محبت … شعیب گارڈز کو بلا کر اس فلاسفر کو دھکے مار کر نکالو، یہاں سے … “ ناہید نے اپنے بیٹے شعیب کو غصے سے حکم دیا۔
”شعیب رُکو تم ایسا کچھ نہیں کرو گے … بلال تم یہاں سے چلے جاؤ ابھی اسی وقت۔ “ جمال نے اُٹھتے ہوئے کہا کالا فولڈر اُٹھایا اور اپنے کمرے میں چلے گئے۔ جمال جلدی سے جلدی وہ خط پڑھنا چاہتا تھا۔
بلال اب بھی نوشی کے سامنے کھڑا تھا۔ اور اُس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا، محبت ہے یا نفرت اُسے میری کہیں ہوئی باتوں پر یقین آیا یا نہیں۔ نوشی بھی بلال کو پتھرائی ہوئی آنکھوں سے تک رہی تھی۔
”شعیب اسے نکالو یہاں سے … تم نے سنا نہیں…“ ناہید بلال کی طرف بڑھتے ہوئے بولی اور بلال کو دھکا دیا زور سے یہ دیکھ کر شعیب کو بھی جوش آ گیا۔
”واقعی تمہاری رگوں میں گندا خون ہے۔ “ شعیب نے جذبات میں آ کر بول دیا تھا۔ یہ بولنے کی دیر تھی۔ بلال نے ایک زور دار تھپیڑ شعیب کے گال پر جما دیا تھپڑ اتنی زور کا تھا دوسرے ہی لمحے شعیب زمین پر تھا۔ بلال کی بغل سے جائے نماز زمین پر گر گیا تھا۔
بلال نے شعیب کو گریبان سے پکڑ کر اُٹھایا اور اپنا دایاں ہاتھ اُس کے گلے پر جما دیا ،بلال نے اتنی طاقت سے شعیب کا گلہ دبوچا ہوا تھا کہ شعیب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
شعیب کا چہرہ سرخ ہو گیا اور وہ بڑی مشکل سے سانس لے پا رہا تھا۔
”چھوڑو میرے بیٹے کو … رندھاوا صاحب … میرے بیٹے کو بچائیں اس جانور سے SMS کہاں مر گئے ہو … شعیب کو چھڑاؤ اس درندے سے ورنہ یہ مار دے گا۔ “ناہید بلال کو پیچھے سے مارتے ہوئے بول رہی تھی۔
BG اور SMS خوش تھے ۔ ”اچھا ہوا سالے کو اور مارو۔“ SMS نے منہ میں کہا تھا۔
”میں نے کہا تھا نا میرے ماں باپ کی گستاخی نہ کرنا۔
“ بلال غصے سے دانت پیستے ہوئے بولا، نوشی مجسمہ بنی سب کچھ دیکھ رہی تھی۔
”نوشی اسے روکو … ورنہ یہ شعیب کو جان سے مار دے گا۔ “ ناہید نے نوشی کے مجسمے کو جھنجھوڑ کر التجا کی تھی۔
”آپ چھوڑ دیں میرے بھائی کو … “ نوشی نے اپنا دایاں ہاتھ بلال کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہا جو شعیب کی گردن پر تھا۔ بلال نے اُس لمحے گرفت ڈھیلی کر دی تھی۔
شعیب کو پیچھے کی طرف گرتے ہوئے SMS نے سنبھالا تھا۔ اب SMS نے شعیب کو صوفے پر بٹھا دیا تھا۔ اور BG پانی کا گلاس لے کر آ چکی تھی۔
ناہید اپنے بیٹے شعیب کو پانی پلا رہی تھی۔ SMS شعیب کی ٹانگیں دبا رہا تھا۔ اور BG اُس کی ہتھیلیوں کو جھس رہی تھی۔