”عادل میری گاڑی منگوا لو۔ “ بلال نے گاڑی کی چابی عادل کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا تھا۔ بلال غسل کرنے کے بعد کافی بہتر تھا۔ عادل نے اپنے ملازموں کو بھیج کر بلال کی گاڑی منگوا لی تھی۔ گاڑی آنے کے بعد بلال نے بیڈ روم کی کھڑکی کا پردہ پیچھے ہٹا کر پورچ میں کھڑی اپنی گاڑی کو دیکھا جو اُس کے باپ کی نشانی تھی۔
”بلال بھائی کچھ کھا ئیں گے؟ “ عادل نے آہستہ سے پوچھا بلال نے نفی میں گردن ہلا دی۔
”یہ گاڑی کی چابی، کچھ اور چاہیے آپ کو؟ “ عادل نے جانچتی نگاہوں سے پوچھا بلال نے اِرد گرد دیکھا۔
”جائے نماز “ بلال نے مختصر سا جواب دیا۔ عادل نے ایک کیبن کھولا اور جائے نماز نکال کر دے دیا۔ ”بلال بھائی اگر کچھ چاہیے ہوگا تو آپ مجھے کال کردیجیے گا۔ میں ساتھ والے روم میں ہوں اب آپ آرام کریں ہاں یاد آیا قبلہ اس طرف ہے“ عادل نے جانے سے پہلے کہا تھا۔
(جاری ہے)
بلال نے جائے نماز بچھایا اور عشاء کی نماز کے لیے کھڑا ہو گیا۔
اگلی صبح عادل فجر کی نماز ادا کرنے کے ایک گھنٹہ بعد اپنے ہی بیڈ روم میں بلال سے اجازت لے کر داخل ہوا تو اُس نے دیکھا بلال اب بھی جائے نماز پر ہی بیٹھا ہوا تھا۔
بلال نے ساری رات جائے نماز پر گزار دی۔ بلال صبر اور نماز کے ذریعے اپنے اللہ سے مدد لے چکا تھا۔
بلال جس کرب میں مبتلا تھا، وہ اب شانت ہو چکا تھا۔ اُس کے چہرے کی پریشانی اب ایک میٹھی مسکان کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ یقین اور بے یقینی کی جنگ میں یقین جیت چکا تھا۔ داخلی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت ہو چکی تھی۔بلال کے ماتھے پر لگا کلنک کا ٹیکہ رات بھر سجد ے میں پڑی رہی پیشانی سے صاف ہو چکا تھا۔
بلال کا چہرہ بارش کے بعد کی دھوپ جیسا روشن چمکدار اور اُجلا تھا۔
بلال کی گرین آنکھیں ضرور سرخ تھیں نیند کی وجہ سے پھر بھی وہ فریش لگ رہا تھا۔
”السلام علیکم بلال بھائی “ عادل نے اندر آتے ہوئے سلام کیا تھا۔
”و علیکم اسلام عادل صاحب “ بلال نے جائے نماز کو سیمٹتے ہوئے جواب دیا اور عادل کے سامنے کھڑا ہوگیا اپنے چہرے پر تبسم سجائے۔
”عادل صاحب تشریف رکھیں اسے اپنا ہی گھر سمجھیں۔ “ بلال مسکراتے ہوئے بولا تھا۔
عادل کھل کھلا کر ہنس دیا عادل کی آنکھوں میں خوشی کی چمک تھی۔
”عادل صاحب بہت بھوک لگی ہے جلدی سے کچھ کھلا دو “ بلال نے عادل سے کہا۔
”جی جی … بلال بھائی مجھے اندازہ ہے … اس لیے میں ناشتے کا بول کر آیا ہوں۔ “چند منٹ بعد دو ملازم اندر آئے ایک عمر رسیدہ خاتون تھی اور ایک نوجوان لڑکا اُن دونوں نے ناشتہ سینٹر ٹیبل پر ہی لگا دیا تھا۔
”ممی ڈیڈی اور دادی اسلام آباد گئے ہوئے ہیں ۔پھوپھو کے بیٹے کی شادی ہے۔ اس لیے میں نے ناشتہ یہی منگوا لیا ہے۔ “ عادل نے کہا۔ ناشتہ بلال کی پسند کے مطابق تھا گڑ والی چائے براؤن بریڈ، فریش اورنج جوس، انڈوں کی سفیدی کا آملیٹ عادل اور بلال نے ناشتہ کیا۔
” بلال بھائی دوپہر کے لیے میں نے دیسی مرغ وہ بھی دیسی گھی میں پکا ہوا اور پیاز گوشت بول دیا ہے۔
“ عادل اپنے ہاتھ دھونے کے بعد تولیے سے صاف کرتے ہوئے بولا تھا۔
”عادل میں دوپہر تک نہیں رُک سکوں گا۔ “ بلال نے وال کلاک پر نظر ڈالتے ہوئے کہا تھا۔ وال کلاک پر آٹھ بجنے والے تھے۔ عادل نے بلال کی طرف حیرت سے دیکھا۔
عادل سوچ رہا تھا ”بلال بھائی بھی عجیب کریکٹر ہیں۔ رات کو رو رہے تھے، صبح کو مسکرا رہے تھے، اور اب جا رہے ہیں۔
“
”عادل صاحب میں آج 11 بجے کی فلائیٹ سے عمرہ ادا کرنے جا رہا ہوں۔ اس لیے میں دوپہر تک نہیں رُک سکتا ورنہ آپ کی دعوت سر آنکھوں پر واپسی پر آپ سے کھانا ضرور کھاؤں گا۔ “
”آپ عمرے کے لیے جا رہے ہیں … آج؟ “ عادل نے حیرت سے سوال کیا۔ ”بلال بھائی آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا میں آپ کے ساتھ جانا چاہتا تھا مجھے آپ سے گلہ ہے۔“
”اگر زندگی نے مہلت دی تو ہم اس سال حج ساتھ کریں گے … انشاء اللہ … “
عمر رسیدہ خاتون اور وہ نوجوان لڑکا ناشتے کے برتن اُٹھانے کے لیے آ گئے تھے۔
بلال نے اُنہیں دیکھا تو گاڑی کی چابی عادل کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا۔
”عادل صاحب میرا ہینڈ کیری منگوا دو گاڑی سے مجھے کپڑے اور پاسپورٹ ٹکٹ نکالنے ہیں۔ “
”بلال بھائی میں خود لیکر آتا ہوں۔ “ عادل نے جلدی سے گاڑی کی چابی پکڑی اور ہینڈ کیری لینے چلا گیا۔ نوجوان ملازم لڑکا ناشتے کے برتن ٹرالی پر رکھ کر کمرے سے جا رہا تھا۔ بلال کھڑکی سے پردہ ہٹا کر عادل کو دیکھ رہا تھا۔
جو اُس کی گاڑی کے پاس کھڑا فون پر کسی سے بات کر رہا تھا۔
”آپ ہی بلال ہو … صاحب … “ عمر رسیدہ ملازمہ نے ادب سے پوچھا بلال کی طرف دیکھ کر بلال اُس ملازمہ کی طرف دیکھ کر متوجہ ہوا۔
”جی جی … خالہ جی …… مگر آپ کیسے مجھے جانتی ہیں؟ “ بلال نے حیرت سے پوچھا۔
”صاحب آپ کو اور بابا جی کو کون نہیں جانتا اس گھر میں ہاشمی صاحب سے لے کر مالی تک سب آپ سے ملنا چاہتے تھے۔
اور میں بھی، میرے ابا جی بڑے پیر صاحب کی ایسے عزت کرتے تھے۔ جیسے عادل آپ کی اور بابا جمعہ کی کرتا ہے،میں تو رات کو ہی سمجھ گئی تھی، جب عادل صاحب اپنے بیڈ رم میں آپ کو لے کر آئے تھے ورنہ اس بیڈ روم میں کسی کو آنے کی اجازت نہیں ہے سوائے میرے …“حلیمہ بی بی رُکی اور پھر دوبارہ بولی بلال کے چہرے کو دیکھ کر جواب اُس کے سامنے کھڑا تھا۔
” صاحب آپ نے کیا جادو کردیا ہے۔
ہمارے عادل صاحب پر چھ مہینے پہلے تک جب میں یہ کمرہ صاف کرنے آتی تھی تو روڑی سے زیادہ گندا ہوتا تھا، اور اب مسیت کی طرح صاف ستھرا ہوتا ہے، صفائی کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔“
”لگتا ہے آپ اس گھر میں کافی سالوں سے ہیں؟ “ بلال نے پوچھا۔
”جی صاحب میں 22 سال سے یہاں کام کر رہی ہوں، بڑے اچھے لوگ ہیں۔ پیروں کا گھرانہ ہے۔ زندگی میں پہلی بار کسی پیر زادے کا مرشد دیکھ رہی ہوں “ ملازمہ نے جواب دیا۔
بلال سمجھ کر بھی تفصیل جاننا چاہتا تھا اس لیے اُس نے پوچھا۔ ”کیا مطلب؟“
”صاحب … مطلب یہ عادل صاحب کے دادا بہت بڑے بزرگ تھے اور ان کے تایا بہت مشہور پیر ہیں، لوگ اس گھرانے کی بہت عزت کرتے ہیں۔
عادل صاحب اُن سب سے بڑھ کر آپ کی اور بابا جمعہ کی عزت کرتے ہیں۔ رات آپ کو روتا دیکھ کر عادل صاحب پوری رات سو نہیں سکے مجھے کہنے لگے حلیمہ بی بلال بھائی کی آنکھوں میں کبھی آنسو نہیں دیکھے اللہ خیر کرے۔
“
”آپ کا نام حلیمہ بی ہے۔ “ بلال نے پوچھا۔
”شناختی کارڈ پر تو میرا نام حلیمہ صادق ہے بس عادل صاحب حلیمہ بی کہتے ہیں۔ “
صاحب وہ جو سامنے دیوار ہے جس کے اوپر پلاسٹک کا پردہ ہے اس دیوار پر پہلے تین تصویریں لگی ہوئی تھیں اب ایک اور بڑی تصویر لگا دی ہے عادل صاحب نے۔“
بلال نے کمرے کی مغربی دیوار کی طرف دیکھا، جہاں دیوار پر کھڑکیوں کے اوپر لگے ہوئے بلائینڈر کی طرح دیوار پر آدھ فٹ آگے کی طرف لائٹ گرین شیٹ کا بلائینڈر لگا ہوا تھا۔
جس کے پیچھے چار بڑی تصویریں آویزاں تھیں۔ ایک عادل کے دادا اور دادی کی تصویر جو کہ بلیک اینڈ وائٹ تھی، دوسری تصویر اس کے والدین کی تھی جو کہ کلر تھی، تیسری تصویر جو کہ دیوار پر سب سے نیچے لگی ہوئی تھی، اسکول یونیفارم پہنے ہوئے دو بچے ایک بچہ موٹا گندمی رنگ والا اور ایک چھوٹی بچی گول مٹول گوری چٹی رنگت والی۔ بلال اُس دیوار کی طرف بڑھا جس کے پیچھے لگی ہوئیں تصویریں اُس پردے کی وجہ سے نظر نہیں آ رہیں تھیں بلال نے بغیر اجازت کے اُس پردے کو ہٹانا مناسب نہیں سمجھا تھا۔
بلال کا منہ اُس دیوار کی طرف تھا، اور حلیمہ بی کی طرف پشت تھی، حلیمہ بی کھڑی ہوئیں بلال کو دیکھ رہیں تھیں۔
” بلال بھائی آپ کا ہینڈ کیری“ عادل کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولا تھا۔
”آپ کپڑے نکال دیں حلیمہ بی پریس کروا دیتیں ہیں۔ “ بلال نے اپنے کپڑے حلیمہ بی کو دئیے وہ کمرے سے چلیں گئیں۔