Episode 92 - Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 92 - بلال صاحب - شکیل احمد چوہان

یکم مارچ 2014 بروز ہفتہ توشی اور جہاں آرا بیگم مغرب کے بعد کوٹ فتح گڑھ سے گھر لوٹے تو گھر میں عجیب طرح کا سناٹا تھا۔
جہاں آرا اپنے کمرے میں چلی گئیں اور توشی اپنے بیڈ روم میں پہنچ گئی، نوشی ٹیرس پر کھڑی بلال کے روم کو دیکھ رہی تھی۔
”جلدی آئیں گے وہ دن “ توشی نے پیچھے سے نوشی کو جپھی ڈال لی ”میں کل رات سے فون کر رہی ہوں کوئی رسپانس نہیں۔
بلال کو تو سمجھ آتی ہے اُس کا نمبر کیوں OFF ہے مگر تم کیوں نہیں جواب دے رہی تھی … میری جان“
توشی لپٹ کر بول رہی تھی ۔ نوشی کے ساتھ توشی نے خود کو توشی کی باہوں کے حصار سے چھڑایا اور کمرے میں چلی گئی۔
”اسے کیا ہوا “ توشی نے خود سے کہا، نوشی کے جانے کے بعد توشی اُس کے پیچھے آئی روم کے اندر، نوشی کی آنکھیں سرخ تھیں اور اس کا چہرہ مرجھائے ہوئے پھلوں کی طرح تھا۔

(جاری ہے)

”کیا ہوا نوشی؟ “ توشی فکر مندی سے بولی۔
”یہ پوچھو کیا نہیں ہوا۔ “ نوشی غصے سے چیخی ”شرافت کا چوغہ اُتر گیا اور بلال کی حقیقت سامنے آ گئی۔“
” میں سمجھی نہیں … صاف صاف بات کرو۔“ توشی کو تشویش ہوئی۔
”جب کھلی آنکھوں سے سچائی دیکھ لی جائے تو سمجھنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ “
نوشی نے غصے سے کہا اس کے بعد نوشی نے ساری بات توشی کو بتائی حرف سے جملے تک شروع سے آخر تک۔
”مجھے تمہاری کسی بات پر یقین نہیں ہے … یہ سب جھوٹ نکلے گا … ضرور کسی کی سازش ہے۔ “
توشی نے افسردگی سے جواب دیا۔ ”دو دن میں اتنا سب کچھ ہو گیا اور کسی نے ہمیں بتانا مناسب نہیں سمجھا … بلال ایسا نہیں ہے۔ ضرور اس سب کے پیچھے کسی کا ہاتھ ہے۔“توشی خفگی سے بولی۔
”تمہیں آج تک بلال میں کوئی نقص نظر آیا ہے، جو اب آئے گا اُس شخص نے تمہاری بہن کی زندگی برباد کر دی، اور تم اب بھی اُسی کی وکالت کر رہی ہو۔
بارہ دن بعد ہماری شادی تھی اور اُس نے یہ گل کھلائے ہیں۔ پاپا رات سے اپنے بیڈ روم سے نہیں نکلے۔ ماما کا الگ بُرا حال ہے میں رات بھر سو نہیں سکی۔ اور تم اب بھی … اُس کی … فار گاڈ سیک … کچھ تو ہوش سے کام لو …“ نوشی غصے سے بھڑکی توشی پر۔
”ہوش سے کام لو … تم … نوشی جی یہ سب الزام ہیں … حقیقت نہیں ہے مجھے تو اس سب میں ماما کا ہاتھ لگ رہا ہے۔
“ توشی نے رگیں تن کر جواب دیا۔
” کچھ تو شرم کرو … اپنی ماں کے متعلق ایسا سوچتے ہوئے … تم اپنی ماما کو جانتی نہیں ہو وہ کیسی ہیں۔“
”افسوس تو یہی ہے کہ نہ تم ماما کو جان سکی ہو اور نہ ہی بلال کو۔ نوشی اپنے دل سے پوچھو وہ کیا کہتا ہے۔ نوشی وہ تم سے پیار نہیں محبت نہیں عشق کرتا ہے۔ “
توشی نے نوشی کو سمجھانے کی کوشش کی۔
”عشق کرتا ہے۔ مائی فٹ “ نوشی دانت پیستے ہوئے بولی۔
”سچ کہا تھا، بلال نے تمہارا عشق وقتی بخار ہی تھا، جو اُتر گیا۔ بلال نے کہا تھا۔ آج کل کا عشق وقتی بخار ہے اور تم نے ثابت کر دیا۔ “
”یہ عشق و شق سب بکواس ہے مجھے تو آج تک یہ سمجھ نہیں آئی، یہ عشق کس بلا کا نام ہے اور عشق کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ “ نوشی نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”عشق کا مطلب ہے … بلال … “ توشی نے تفاخر سے جواب دیا۔
”میں اُن کی نہیں … اس بلال کی بات کر رہی ہوں۔ “ نوشی نے آسمان کی طرف شہادت کی انگلی کرتے ہوئے کہا تھا۔
”اور میں عشق کے مطلب کی بات کر رہی ہوں۔ “ توشی یکا یک بول پڑی۔
چلو مان لیا عشق کا مطلب … بلال … ہے … ذرا یہ تو بتاؤ … بلال … کا مطلب کیا ہے“ نوشی نے فلسفیانہ انداز سے پوچھا تیکھے انداز کے ساتھ۔
”کچھ نام خود میں اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ مطلب اُن کے آگے چھوٹا پڑ جاتا ہے۔ “
توشی نے کسی دانشور کی طرح جواب دیا بالکل ویسے جیسے اُس نے بابا جمعہ سے سنا تھا۔
SMS نے دروازے پر دستک دی دروازہ کھلا ہوا تھا ۔ ”آپی آپ دونوں کو بڑی بیگم صاحبہ بلا رہی ہیں“ دونوں بہنوں کی جرح وقتی طور پر ختم ہو گئی۔
###
جہاں آرا کو ساری بات BG نے بتا دی تھی۔
کوٹ فتح گڑھ سے واپس آنے کے فوراً بعد۔
”جمال رندھاوا میری بات کان کھول کر سن لو اگر اس باریہ بات جھوٹی نکلی تو میں تمہیں اپنا دودھ نہیں بخشوں گی قیامت والے دن … 
جمال مرد بنوں تم جٹ رندھاوا ہو مجھے کہتے ہوئے شرم آتی ہے میرا بیٹا را رن مرید ہے۔“
جہاں آرام بیگم غصے سے گرجی اس بوڑھی ملکہ کی آنکھیں دہک رہیں تھیں۔
”جن گھروں کے فیصلے عورتیں کرنا شروع کر دیں، اُن گھروں کا بیڑا غرق ہو جاتا ہے۔
اب بھی ہوش کے ناخن لو … تم صرف وہ دیکھتے ہو جو تمہاری بیوی تمہیں دکھاتی ہے … بہو کو اس رشتے پر اعتراض تھا تو صاف کہہ دیتی یہ تماشہ لگانے کی کیا ضرورت تھی“ اتنے میں ناہید کمرے میں داخل ہوتی ہے اُس سے پہلے جمال اور جہاں آرا ہی کمرے میں تھے۔ جہاں آرا بیگم اپنی ایزی چیئر پر بیٹھی ہوئی تھیں اور جمال اُن کے سامنے نظریں جھکائے دیوان پر بیٹھا تھا۔
ناہید جمال اپنے شوہر کے ساتھ بیٹھ جاتی ہے۔ 
”خالہ آپ مجھ پر الزام لگا رہی ہیں۔ “ ناہید آگ بگولہ ہو ئی۔
”الزام … تہمت … بہتان … کوئی بھی نام دے لو … ناہید بیٹی عمر گزر جاتی ہے یہ گھاؤ بھرتے بھرتے جس دن تم پر جھوٹا الزام لگے گا تب پوچھوں گی، تم سے، کتنا گہرا ہوتا ہے یہ زخم۔ “ جہاں آرا گھائل آواز سے بولی اُن کے چشمے کے نیچے موٹے موٹے آنسو چمک رہے تھے۔
” آخر بن ہی گئی نہ آپ ساس“ ناہید دانت پیستے ہوئے بولی۔
”افسوس … میں نے ساری زندگی تمہیں اپنی اکلوتی مرحومہ بہن کی نشانی سمجھ کر رکھا پھولوں کی طرح۔ تمہاری ہر زیادتی پر خاموش رہی تھیں۔ ماں کی طرح پیار کیا مگر تم بیٹی نہ بن سکی۔ ناہید تم میرے سہاگ کو کھا گئی۔ میری بیٹی کو پاگل بنا کر مار ڈالا اور اب بلال کے ساتھ یہ گندا اور بے ہودہ کھیل، کھیل رہی ہو۔
ناہید اگر میں ساس بنتی تو تمہاری سانس روک لیتی، شکر کرو ایسا نہیں ہوا میں چاہتی تھی میرا جھڈو بیٹا مرد بن جائے مگر … افسوس ایسا بھی نہیں ہوا۔ “ جہاں آرا کا چہرہ غصے سے لال ہو چکا تھا انہوں نے چشمہ اُتار کر اپنے آنسو صاف کر لیے تھے اور اُن کے لہجے میں کوئی دید کوئی لحاظ نہیں تھا۔
ناہید ہکا بکا تھی اپنی خالہ کی باتیں سن کر پاؤں پٹختے ہوئے کمرے سے جانے لگی۔
”روکو … اور یہاں بیٹھ جاؤ … “ جہاں آرا بیگم نے تلخ لہجے سے حکم دیا ”میری بات کان کھول کر سن لو ناہید بیگم اگر اس بار یہ جھوٹ ہوا تو ایک الزام میں تم پر لگاؤ گی۔ جب بیٹا بے غیرت بن جائے تو ماں کو غیرت مند بننا پڑتا ہے۔ اور چوہدری صاحب آپ بھی سن لو یہ گھر بھی بلال کا ہے اور 50 ایکڑ زمین بھی آپ خرید کر دیں گے اور جہاں تک نوشی اور بلال کے رشتے کی بات ہے۔
اُسے میں خود ختم کرتی ہوں، تم دونوں اپنی بیٹی کے لیے دیکھ لو کوئی اُس جیسا … بے وقوف کم عقل ہاں ایک بات ذہن نشین کر لو اچھی طرح سے اس گھر سے تم سب لوگ جاؤ گے صرف میں اور بلال رہیں گے۔ یہاں پر اور آئندہ ناہید بیگم میری ساتھ اونچی آواز میں بات کی تو حلق سے تمہاری زبان کھینچ لوں گی“ جہاں آرا بیگم نے سو سو نار کی ایک لوہار کی والا معاملہ کیا۔
اپنے بیٹے اور بہو کے ساتھ ۔
”اب تم جا سکتی ہو اور چوہدری صاحب آپ بھی تشریف لے جا سکتے ہیں۔ “ جہاں آرا بیگم نے اپنے بیٹے کو طنز سے فرمان جاری کیا۔ نوشی اور توشی کمرے کے دروازے پر کھڑی ہوئیں یہ سب سن رہیں تھیں ناہید اور جمال وہاں سے چلے گئے تھے۔
”تم دونوں اندر آؤ “ دادی نے رعب دار آواز میں حکم دیا نوشی اور توشی کمرے میں آ گئیں۔
”بیٹھ جاؤ … “ دادی پھر سے بولی وہ دونو ں اپنے ماں باپ کی جگہ پر بیٹھ گئیں توشی جمال کی جگہ اور نوشی ناہید والی جگہ۔
”دادو آپ نے یہ رشتہ کیوں ختم کیا “ توشی نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔
”اپنی بہن سے پوچھ لو کیا یہ رشتہ رکھنا چاہتی ہے بلال کے ساتھ “ دادی نے دو ٹوک کہہ دیا۔نوشی نظریں جھکائے کچھ سوچ رہی تھی۔
”توشی بیٹی محبت سوچ کر نہیں کی جاتی اور نوشی سوچ رہی ہے یہی بہتر ہے … بلال اور نوشی کے لیے، جو لڑکی سچ اور جھوٹ کی پہچان نہیں کر سکتی … خیر چھوڑو … بہشتی تمہارا دادا کہا کرتا تھا، جہاںآ را بیگم بے وقوف دوست سے عقل مند دشمن بہتر ہوتا ہے۔
“ دادی نے ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا۔
”مگر دادو میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، نیناں کے ساتھ بلال کو اور عظمی کی تصویریں میں صبح آپ کو دکھا دوں گی اور ارم واسطی بھی یہی پر ہے کل وہ بھی آ جائے گئی۔ “
نوشی اپنے فیصلے پر قائم تھی۔
”نوشی بیٹی الزام لگانے سے کوئی مجرم نہیں بن جاتا۔ میں نے ایسے کئی فیصلے کرتے ہوئے تیرے دادا کو دیکھا تھا۔
تیرا دادا تب تک فیصلہ نہیں کرتا تھا، جب تک دونوں اطراف کی بات نہ سن لیتا تم نے بلال کو صفائی کا موقع دیا۔ “ دادی نے پوچھا تونوشی نے نفی میں گردن ہلا دی۔
”مگر میں نے اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھا تھا۔ “ نوشی اپنے موقوف پر قائم رہی۔
” نوشی بیٹی میں نے یہ رشتہ ختم کردیا ہے اگر تم اب بھی بلال سے شادی کرنا چاہتی ہوں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا اب فیصلہ تم نے کرنا ہے خود … اپنی عقل سے ……“
###

Chapters / Baab of Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط