” اب آپ خود فیصلہ کریں خالہ کو ایسی باتیں کرنا چاہیں تھیں۔ انہوں نے ہماری بچیوں کے سامنے ہمیں ذلیل کر دیا ہے۔“
ہمارے مقابلے میں اُس بھیک منگے کی وکالت کر رہی تھیں، خالہ جان۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ رندھاوا صاحب مجھے سب پتہ ہے آپ اُسے 12 سال سے ہر مہینے ایک اچھی خاصی رقم کا چیک دیتے آئے ہیں اور وہ بے غیرت ہمارا کھا کر ہمیں ہی آنکھیں دکھا رہا تھا۔
آپ کے جانے کے بعد اُس احساس فراموش نے ہمارے بیٹے کو مارا میں تو پولیس کو بلانے لگی تھی پھر رندھاوا ہاؤس کی عزت کا خیال آ گیا تھا۔“
ناہید اپنے بیڈ روم میں آنے کے بعد جمال رندھاوا سے مخاطب تھی۔
” ناہید بیگم اگر اس بار اس میں تمہاری کوئی سازش ہوئی تو میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا … تم اپنا منہ چھپاتی پھرو گی۔
(جاری ہے)
“ جمال غصے سے بولا۔
”رندھاوا صاحب آپ بھی مجھ پر شک کر رہے ہیں۔ “ ناہید نے نینوں کے تیر چلائے اور جمال کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا۔
”آپ غصہ کیوں کر رہے ہیں میں نے خالہ جان کی بے ادبی تھوڑی کی ہے میں تو اُس کمینے اور فقرے کی بات کر رہی تھی۔ “ ناہید نے جمال کا ہاتھ چومتے ہوئے کہا۔
جمال نے غصے سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور لاکر سے وہ سارے 144 چیک نکالے اور ناہید کے منہ پر دے مارے۔
”تم جسے منگتا کہتی تھی، وہ سخی نکلا وہ میر ی دی ہوئی بھیک میرے منہ پر مار کر چلا گیا۔ “ جمال نے غصے سے ناہید کو گردن کے بالوں سے پکڑا۔
”ناہید بیگم اگر بلال بے گناہ ہوا تو تم نشان عبرت ضرور بنوں گی۔ “
جمال رندھاوا یہ کہہ کرے کمرے سے چلا گیا غصے کے ساتھ۔
###
”دادو شکر خدا کا ہم نے اب تک شادی کے کارڈز تقسیم نہیں کیے تھے ورنہ بہت بد نامی ہوتی ہم لوگوں کی۔
“ توشی اپنی دادی سے بول رہی تھی۔ ”اب کیا ہوگا؟“
دادی کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
”بڑا ظلم کیا تیری ماں نے اور تیرا باپ وہ زیادہ قصور وار ہے۔ “ دادی اپنی سوچوں میں گم تھیں توشی کیا بول رہی ہے انہوں نے سنا ہی نہیں تھا۔
” دادو آپ کہاں کھو گئیں کچھ تو بتائیں ہم نے کارڈز نہیں تقسیم کیے، معلوم تو آدھے شہر کو ہے جمال رندھاوا کی بیٹیوں کی شادی ہے۔
“ توشی دکھ اور کرب سے بول رہی تھی۔
”تم دونوں کی شادیاں مقررہ تاریخوں پر ہی ہوں گئیں۔ “ جمال رندھاوا نے اندر آتے ہوئے حتمی فیصلہ سنا یا ”تم جاؤ اور اپنی ماں کوبلا کر لاؤ“ جمال نے توشی سے کہا توشی چلی گئی جہاں آرا نے جمال کی طرف دیکھا۔
”چوہدری جمال رندھاوا صاحب دیکھ لو اپنی بیوی کے سامنے تمہاری ہوا نا نکل جائے گی۔ “ جہاں آرا بیگم نے طنزیہ لہجے سے کہا اپنے آنسو رومال سے صاف کرتے ہوئے۔
”ماں جی دیکھنا کیا ہے۔ توشی کا رشتہ میں نے کیا تھا، آپ کے اور بلال کے مشورے سے نوشی کا رشتہ آپ نے ختم کر دیا، اب نوشی کی ماں اپنی بیٹی کا رشتہ خود کرے گی۔ “
جمال رندھاوا سوچوں میں گم بول رہے تھے۔
”نا … نا … بیٹا جی … نوشی کا رشتہ تمہاری بیگم صاحبہ اور تم نے خود ختم کیا تھا۔ میں نے تو صرف اعلان کیا ہے، رشتہ ختم ہونے کا، اب میں دیکھنا چاہتی ہوں، بلال کی جگہ کون سید زادہ تمہاری بیٹی کا ہاتھ تھامتا ہے۔
“
” سید زادہ ہی ہوگا … خالہ جان … یہ میرا وعدہ ہے آپ سے …“ ناہید لہراتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی دو گھنٹے پہلی والی بے عزتی اُسے یاد ہی نہ تھی۔
”اتنا گھمنڈ اور یہ تکبر … خالی سید زادہ ہونے سے بات نہیں بنتی … ناہید اور بھی بہت کچھ دیکھا جاتا ہے۔ “ جہاں آرا نے جواب دیا۔
”سب دیکھ لیا … خالہ جان … “ ناہید نے تیور دکھاتے ہوئے کہا۔
”ناہید بیگم یہ تیور مت دکھاؤ … اِدھر میری طرف دیکھو نوشی کا رشتہ تم کرو گی خود اپنی مرضی سے … اور شادی بھی پرانی تاریخوں پر ہی ہو گی … ایک بات کان کھول کر سن لو، اگر میری بیٹی کے ساتھ ایسا ویسا کچھ بھی ہوا … ویسا ہی سلوک میں تمہارے ساتھ کروں گا … اور یاد رکھو اگر بلال پر لگائے ہوئے الزام جھوٹے نکلے تو ایک الزام، ماں جی کی بجائے میں لگاؤ گا تم پر … ساسیں اپنی بہوں پر الزام لگاتی آئیں ہیں … جب تیس سالہ ازواجی زندگی کے بعد میں تم پر جھوٹا الزام لگاؤں گا … اُس کا بوجھ تم اُٹھا نہیں سکو گئی“ جمال رندھاوا نے سنجیدگی سے کہا اور کمرے سے چلے گئے۔
ناہید بھی اُن کے پیچھے پیچھے کمرے سے نکل گئی۔ ناہید نے جمال کی کہی ہوئی بات کا نوٹس ہی نہیں لیا تھا۔
”دادو جو رشتہ جوڑنے کے لیے آپ نے اتنے سال دعائیں مانگیں اُسے خود ہی ختم کر دیا“ توشی نے حیرت اور دکھ سے کہا تھا۔
”توشی بیٹی جن رشتوں میں اعتبار نہ ہو، وہ جوڑے نہیں جا سکتے۔ “ دادی نے توشی کو سمجھانے کی کوشش کی ”اِدھر آؤ میرے پاس“ توشی اپنی دادی کے سامنے بیٹھ گئی کرسی پر ،دادی نے اُس کے چہرے پر پیار کیا۔
”دادو … بلال کا کیا ہو گا … “ توشی فکر مندی سے بولی۔
”سوچو یہ نوشی کا کیا ہوگا، تمہار ماں کا چُنا ہوا سید زادہ بھی … پتہ نہیں کیسا ہوگا۔ تم بلال کی فکر نہ کرو … خیر سے اب تک مکہ پہنچ گیا ہوگا۔ “
”اُس نے فون بھی تو نہیں کیا۔ “ توشی روہانسی ہو کر بولی۔
”توشی بیٹی میں نے کہا نا … بلال کی فکر نہ کرو … وہ دوسروں کو سنبھالنے والا ہے خود کو بھی سنبھال لے گا۔
“
”دادو … بلال کب آئے گا۔ “ توشی اپنی دادی کے گلے لگ کر بولی۔
”وہ ابھی چند مہینے نہیں آئے گا۔ “ دادی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی بول رہی تھی۔
”یہ بلال نے آپ سے کہا۔ “ توشی یکایک بول اُٹھی دادی کے کندھے سے اپنا سر اُٹھاتے ہوئے۔
”نہیں بیٹا … میرا تجربہ بتا رہا ہے … وہ ابھی نہیں آئے گا۔ “
جہاں آرا بیگم نے نظریں اوپر اُٹھا کر دیکھا۔
” یا اللہ میرے بلال کو اپنی امان میں رکھنا۔“
###