Episode 96 - Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 96 - بلال صاحب - شکیل احمد چوہان

”ارے آپ سے تو میری ملاقات ہو چکی ہے“ محسن نے عظمی کی طرف دیکھ کر کہا
”جی ………بلال کے آفس میں“ عظمی نے جواب دیا
”ہم لوگ آپ کا ہی انتظار کر رہے تھے ڈاکٹر صاحب اب کچھ کھانے کا آرڈر کر دیں“
توشی نے محسن کی طرف دیکھ کر سنجیدگی سے کہا
ڈاکٹر محسن نے باہمی مشاورت سے کھانا آرڈر کر دیا
”عظمی IF YOU DONT MIND آپ کے آنے سے پہلے ڈاکٹر صاحب اپنا اور بلال کا واقعہ سنا رہے تھے، کھانا آنے تک وہ سُن لیتے ہیں ،کھانے کے بعد وہ ضروری بات جس کے لیے آپ کو زحمت دی“ توشی نے عظمی سے کہا عظمی نے عادل کی طرف دیکھا جس نے OK کا سگنل دیا۔
”جی ضرور …… ڈاکٹر صاحب آپ بلال بھائی کی بات بتائیں ہم بھی سننا چاہتے ہیں“
عادل نے تجسس سے کہا
”کہاں تھا میں“ محسن نے توشی کی طرف دیکھ کر پوچھا
”ایک مہینے بعد جب آپ لوگ ملک فاضل کے پاس دوبارہ گئے“ توشی نے لقمہ دیا “
”دوسری بار ملک صاحب نے ہمیں جلدی سے اجازت دے دی اندر آنے کی اور سوہنی مہینوال کا سارا قصہ سنا کر بولے اس وجہ سے سوہنی ڈوبی تھی۔

(جاری ہے)

میں اور رضوان حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ بلال نظریں جھکائے زیرلب مسکرا رہا تھا۔ جیسے وہ ہم دونوں کی بے وقوفی پر ہنس رہا ہو۔
”ملک صاحب میں نے بھی تو سوہنی کے ڈوبنے کی یہی وجہ بیان کی تھی“ میں نے عرض کی ڈرتے ڈرتے ملک صاحب کے چہرے پر تبسم تھا وہ بولے
”پھر سناتا ہوں اب سمجھ لینا جب سوہنی مہینوال سے ملنے جاتی تو گڑھا اُٹھاتی اور دریا میں ڈال دیتی۔
مہینوال سے ملاقات کے بعد مہینوال اُسے مچھلی کھلاتا، ایک دن اُسے مچھلی نہیں ملی تو اُس نے اپنی ران سے گوشت نکال کر سوہنی کو کھلا دیا، گوشت کھانے کے بعد سوہنی کا معمول ہوتا وہ مہینوال کی ران پر سر رکھ کر آرام کرتی اُس دن بھی اُس نے ایسا ہی کیا ران پر زخم کی وجہ سے مہینوال کی آنکھوں میں سرخ ڈورے تھے۔ مہینوال کی آنکھیں تکلیف کی شدت کی وجہ سے دہک رہیں تھیں۔
جب اُس کی سوہنی سے آنکھیں چار ہوئیں تو اُس نے کہا مہینوال تمہاری آنکھیں بدل گئیں ہیں۔
آپ تکلیف کو عیب کا نام دے دیں تو وہ نقص ہوتاہے میرے بچوں
یاد رکھو محبوب بے عیب ہوتاہے جس میں عیب نظر آجائے پھر وہ محبوب نہیں رہتا……
سوہنی نے اپنے محبوب میں عیب نکال دیا تھا۔ اسی وجہ سے مہینوال نے اُسے دوبارہ آنے سے منع کر دیا تھا۔
ایک دن سوہنی نے پکا گڑھا پکڑا اور دریا میں اُتار دیا اور ڈوب گئی محسن بیٹا پکا گڑھا نہیں بلکہ پکا عشق پار لگاتا ہے۔ اگر عشق پکا ہو تو گھڑا کچا بھی ہو تو آپ ڈوب نہیں سکتے……
سوہنی بیچاری کب کچے پکے گڑھوں کے چکر میں پڑتی تھی، وہ تو بس کوئی بھی گڑھا اُٹھاتی اور دریا میں ڈال دیتی تھی، وجہ یہ تھی اُسکا عشق پکا تھا۔ اُس دن محبوب کی تکلیف نہ دیکھ سکی تکلیف کو عیب کا نام دے دیا۔
عشق کامل نہ رہا پھر پکے گڑھے نے بھی ڈبو دیا محسن تم نے اپنی محبت میں پہلے دن ہی پانچ نقص اور عیب نکال دیئے تھے……
محسن بیٹا اب بتاؤ کون سا تعویذدوں“
میں نظریں جھکائے ہوئے بیٹھا تھا
”ایک اور کڑوا سچ بولوں اگر تمہاری اجازت ہو تو “ ملک فاضل نے میری طرف دیکھ کر کہا
”جی جی……… میں سننا چاہتا ہوں“
”بیٹھا مہینہ پہلے جب میں نے تم دونوں کو دیکھا تو تمہاری آنکھوں میں مجھے ضرورت نظر آئی تھی اور بلال کی آنکھوں میں محبت، رضوان کی آنکھوں میں جستجو ہے تلاش ہے جب سے میں اسے دیکھ رہا ہو۔
آج تمہاری اُس دن والی ضرورت پوری ہو چکی ہے، اسی لیے وہ بے چینی مجھے نظر نہیں آرہی ہے بیٹا تم سب اپنے اپنے گناہوں پر توبہ کرو“
محسن رضا یہ بول کر خاموش ہو گیا تھا،ویٹرٹیبل پر کھانا لگا رہا تھا۔
کھانے سے فارغ ہونے کے بعد پہلا جملہ توشی کی زبان سے نکلا جب ویٹر نے ٹیبل صاف کر دیا تھا۔
”ڈاکٹر صاحب آپ بلال جیسے تو نہیں ہیں پھر بھی مجھے آپ پر فخر ہے۔
اب آپکی آنکھوں میں صرف محبت نظر آتی ہے۔ ضرورت کہیں نہیں کیوں عظمی میں ٹھیک کہہ رہی ہوں ناں……“
توشی نے ڈاکٹر محسن کی طرف دیکھ کر کہا اور عظمی کی تائید حاصل کرنے کی بھی کوشش کی۔
”جی آپ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ مجھے بھی عادل کی آنکھوں میں سب سے زیادہ محبت نظر آتی ہے“ عظمی نے عادل کی طرف دیکھ کر کہا
”اور یہ محبت کے بیج بونے والا ایک ہی آدمی ہے جس کے لیے ہم سب اکٹھے ہوئے ہیں کچھ اُن کے متعلق بھی بات کر لیں“ عادل عقیل نے سنجیدگی سے کہا۔
اُسے نوشی اور عظمی کی بات پسند نہیں آئی تھی۔
”بلال کی محبت نے ہم چاروں پر اپنا رنگ چھوڑا ہے“ محسن رضا نے کہا
عادل نے عظمی اور بلال کی تصویریں ٹیبل پر رکھ دیں محسن اور توشی وہ تصویریں دیکھ رہے تھے عادل نے اُنہیں اُس رات کی ساری تفصیل بتائی جب عادل قبرستان سے بلال کو اپنے گھر لے کر گیا تھا۔
توشی کے ذہن میں اپنی دادی کے الفاظ گونج رہے تھے” ماں کی قبر پر رونا میرے نبی پاک ﷺ کی سنت ہے“
جب عادل نے یہ بتایا کہ بلال بھائی میرے کندھے پر سر رکھ کر روئے، توشی تڑپ اُٹھی اُس نے رشک سے عادل کو دیکھا۔
عادل کے علاوہ اس ڈنر کو توشی محسن اور عظمی نے انجوائے کیا اِس دوران عادل کے مکھڑے پر ایک دفعہ بھی مسکراہٹ قدم نہیں رکھ سکی، عادل بے چین تھا۔ وہ تڑپ رہا تھا۔ جیسے یہ سارے الزام اُسکی ذات پر لگائے گئے ہوں۔اس دوران توشی اور محسن نے عظمی کی طرف دیکھا جیسے اُسے اپنی صفائی میں کچھ کہنے کا موقع فراہم کیا ہو
”یہ سچ ہے میں بلال سے شادی کرنا چاہتی تھی۔
یہ میری یک طرفہ محبت تھی۔ گو میری یک طرفہ محبت اب عقیدت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب بلال نے عادل کی خاموش محبت سے میرا تعارف کروایا تھا۔ عادل مجھ سے بچپن سے محبت کرتے تھے جو بات بلال کو پتہ تھی۔
عادل وہ سب کچھ کہہ نہیں پائے، اور میں کچھ سننا ہی نہیں چاہتی تھی۔ ہم دونوں کے درمیان ڈر، عدم اعتماد، بے یقینی، شکوک وشبہات، کی ایک گہری کھائی تھی جس کھائی کو پار کرنے سے ہم دونوں ڈرتے تھے۔
بلال نے اُس کھائی پر ایک پُل کا کام کیا، اور ہم دونوں کو ایک بار پھر ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کیا۔
توشی یہ وہ لمحہ تھا، جس کو غلط رنگ دیا گیا ہے۔ ڈھائی سال سے میری اور بلال کی ملاقات ہر سنڈے ہوتی رہی ہے۔مجھے ان ڈھائی سالوں میں بلال کی نظروں میں پاک محبت نظر آئی۔ اِن تصویروں سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ عادل کو مجھ پر اور بلال پر یقین ہے“
عظمی نے اپنے آنسو صاف کیے
”توشی میں تڑپ جاتی ہوں، آپ کی بہن کے متعلق سوچ کر کہیں وہ پاگل تو نہیں ہے۔
بلال کے لیے لڑکیوں کی کوئی کمی تھوڑی ہے، آپ سمجھائیں اپنی بہن کو ہوش سے کام لے، میرا نمبر آپ کے پاس ہے، جہاں کہیں گی میں حاضر ہو جاؤں گئی، بلال کے لیے نہیں آپ کی بہن کے لیے، بلال کی بے گناہی کا فیصلہ تو یہیں پر ہو گیا ہے ہم چاروں میں سے کوئی بھی بلال کو غلط نہیں سمجھتا ہم سب اُسے بے گناہ سمجھتے ہیں، بلال کا موقف سنے بغیر جانے بغیر“
”نوشی جی آپ کو یاد تو ہو گا جب آپ لوگ بابا جمعہ کے پاس آئے تھے۔
میں بھی بابا جی کے پاس بیٹھا تھا۔“
”ہاں عادل مجھے یاد ہے نوشی اور DJ گاڑی میں بیٹھے ہوئے تھے، اور میں بابا جی سے ملنے گئے تھی“ توشی دُکھی انداز میں بولی۔
”آپ لوگوں کے جانے کے بعد میں نے بابا جی سے پوچھا، بابا جی جو گاڑی میں بیٹھی تھی، یہ ہے بلال بھائی کی منگیتر بابا جی میری بات سن کر مسکرائے اور بولے۔
”ہاں…… یہی ہے…… منگیتر……
عادل بیٹا وہ گاڑی میں نہیں نفرت کے گھوڑے پر بیٹھی ہوئی تھی۔
”میں سمجھا نہیں بابا جی“ میں نے عرض کی۔
”عادل بیٹا بلال محبت کی اونٹنی کا سوار ہے، اور وہ بچی نسیم نفرت کے گھوڑے پر بیٹھی ہے، رفتار تو نفرت کے گھوڑے کی زیادہ ہے، آخر میں جیت محبت کی اونٹنی جائے گی۔“
اس وقت مجھے بابا جی کی بات کی سمجھ نہیں آئی تھی ۔کسی کو پانا ہار جیت کا معیار نہیں ہے۔
میرے نزدیک یہ بلال بھائی کی جیت ہے، جو ہم سب ان کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔
میں انشاء اللہ بلال بھائی پر لگے سارے الزام غلط ثابت کر کے رہوں گا۔“
عادل نم آنکھوں کے ساتھ بول رہا تھا۔
تھوڑی دیر خاموش رہی توشی نے بھی اپنے آنسو صاف کیے عظمی اور توشی کے آنسو جاری تھے محسن نے عادل کی طرف دیکھا جیسے آنکھوں سے کچھ کہہ رہا ہو۔
”محسن ڈنر کے لیے THANKS اب ہمیں چلنا چاہیے……… عظمی جی چلیں………“
عادل عقیل نے اپنی چیئر سے اُٹھتے ہوئے کہا تھا۔
###

Chapters / Baab of Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط