Episode 99 - Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 99 - بلال صاحب - شکیل احمد چوہان

اگلے دن توشی اور محسن کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی بالکل لاہوری اسٹائل کے مطابق محسن کی بارات پوری شان و شوکت سے نکلی تھی، نظر آرہا تھا کشمیری بٹوں کی بارات برآمد ہوئی ہے۔ بارات میں پانچ سو سے اوپر افراد ہوں گے۔
کھانے کا انتظام جمال رندھا وانے کشمیری بٹوں کے ذوق کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کروایا تھا۔ جمال اندھا واکو محسن کی ماں عذرا کی کہی ہوئی بات یاد تھی ”بھائی صاحب بھلے ہی میری بہو کو ایک جوڑے میں بھیج دیں مگر کھانا بہترین ہونا چاہیے براتیوں کے لیے “
یہ فرمائش اُنکی سوچ سے زیادہ بڑھ کر پوری کی تھی۔
جس کا اعتراف جاتے ہوئے عذرا نے کیا تھا۔
”بھائی صاحب آپ نے میری سوچ سے بڑھ کر اچھا انتظام کیا تھا۔ ایک یقین میں بھی آپ کو دلاتی ہوں آپ کی بیٹی آپ کے گھر سے زیادہ اب اپنے گھر میں خوش رہے گئی۔

(جاری ہے)

انشااللہ“عذرا کا یہ جملہ سُن کر جمال رندھاوا کی آنکھوں میں آنسو آگئے ناہید نے جمال کے کندھے پر ہاتھ رکھا تسلی دینے کے لیے۔

نوشی کی بارات والے دن جہاں آرابیگم کی طبیعت خراب تھی۔
اس لیے وہ ہوٹل میں نہیں آئیں تھیں۔ آج جہاں آرابیگم نے اپنی لاڈلی پوتی کو دعاؤں سے رخصت کیاتھا۔ بارات جا چکی تھی۔
نوشی زندگی کی دوسری انگز کھیلنے کے لیے تیار بیٹھی تھی، اپنے بیڈ روم میں محسن کی بھابھیوں اور دوسری لڑکیوں کے ساتھ جب بلال نے اُسے مبارک باد کا فون کیا تھا۔ اس سے پہلے بلال نے محسن کو بھی مبارک باد دی تھی، اُسکے نمبر پر کال کر کے۔
بلال نے محسن سے کہا تھا توشی سے بھی بات کروا دو محسن نے جواب دیا میں ابھی مردوں میں بیٹھا ہوا ہوں اور وہ بیڈروم میں عورتوں کے ساتھ ہے تم اُسی کے نمبر پر فون کر لو۔
###
چار دن بعد بلال دوبارہ شارجہ سے جدہ روانہ ہو گیا تھا۔
گرمی شروع ہو چکی تھی گندم کی فصل پکنے کے لیے تیار تھی۔ محسن اور توشی اپنی دعوتیں انجوائے کر رہے تھے۔
محسن کا خاندان بہت بڑا تھا۔ جس کی وجہ سے ہر روز کسی نہ کسی کی طرف اُن کی دعوت ہوتی تھی۔ اِس کے برعکس نوشی اور ولید مختلف پارٹیز انجوائے کر رہے تھے۔ دن بڑے ہو رہے تھے، اور راتیں چھوٹی دیکھتے ہی دیکھتے بیس دن گزر گئے تھے۔ اپریل کے پہلے ہفتے میں ایک د ن ولید ہاشمی کوٹ لکھپت ناہید اور شعیب کی فیکٹری پہنچا ناہید اور شعیب اپنے آفس میں تھے جب ولید آفس میں آیا تھا۔
”آؤ…… آؤ……ولید کیسے ہو ……… نوشی نہیں آئی تمہارے ساتھ“ ناہید نے ولید کو آندر آتے ہوئے دیکھ کرکہا تھا۔
” نہیں وہ سور ہی تھی۔ رات کو ہم لوگ دیر سے ایک پارٹی سے لوٹے تھے۔ رات ضد کر رہی تھی کہ گرمی شروع ہو گئی ہے سوئٹزر لینڈ چلتے ہیں ہنی مون کے لیے ………“
ولید نے صوفے پر بیٹھنے کے بعد کہا تھا
”تو جاؤ بھائی تم لوگوں کو جانا بھی چاہیے“ شعیب نے فائل ٹیبل پر رکھتے ہوئے جواب دیا۔
”آنٹی میرے پاس رقم ختم ہو گئی ہے“ ولید نے ناہید کی طرف دیکھ کر کہا
”صرف بیس دن میں 3 کروڑ ختم کر دیئے تم نے“ شعیب حیران ہو کر بولا ۔ ناہید نے ایک نظر ولید پر ڈالی اور دوسری شعیب کی طرف جیسے کچھ سوچ رہی ہو۔
”شعیب ایسا کرو ولید کو 2 کروڑ کا چیک دے دو‘ شعیب کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا اپنی ماں کی بات سُن کر۔
”جو میں کہہ رہی ہوں وہ کرو“ ناہید نے سنجیدگی سے کہا تھا شعیب نے دو کروڑ کا چیک ولید کو دے دیا ولید نے چیک پکڑا رقم دیکھی اور مسکراتے ہوئے صوفے سے اُٹھا ”اب میں چلتا ہوں آنٹی جی“ ولید چل دیا۔
”ولید ایک کام میں نے بھی تمہیں کہا تھا“ ناہید جانچتی نگاہوں سے دیکھ کر بولی ”آنٹی جی مجھے یاد ہے وقت آنے دیں“ ولید نے چیک اپنی دو انگلیوں میں لہراتے ہوئے جواب دیا اور آفس سے نکل گیا۔
”پانچ کروڑ کا نقصان“ شعیب نے ناہید کی طرف دیکھ کر کہا
”نہیں 45 کروڑ کا فائدہ“ ناہید مسکراتی ہوئی بولی تھی ”شعیب بزنس سیکھو اُس زمین کی ڈیل 50 کروڑ میں فائنل ہوئی تھی۔
اُس کے بدلے میں، ایک فارم ہاؤس خرید ا ہے تمہارے باپ نے میرے لیے، فارم ہاؤس بھی اپنا اور جہاں تک اس پانچ کروڑ کی بات ہے، اس کے ساتھ صرف ایک زیرو لگانا ہے تو یہ بن جائیں گیں پچاس کروڑ سیاست میں آ کے کئی زیرو بن جاتے ہیں ہیرو……“ ناہید جمال رندھا وار سیاست میں آنا چاہتی تھی، پیرداود ہاشمی کے ذریعے اسی لیے اُس نے نوشی کی شادی ولید ہاشمی سے کروائی تھی۔
چند دونوں بعد نوشی اور ولیدہنی مون کے لیے چلے گئے اُن کے جانے کے دو دن بعد بلال سعودی عرب سے لوٹا تھا۔ عادل عقیل بلال کو لینے ائیرپورٹ گیا تھا۔ اس عرصے کے دوران بلال کا صرف عادل اور فوزیہ سے رابطہ رہا تھا، باقی کسی سے نہیں۔ فوزیہ سے وہ صرف اسکول کے معاملات ڈسکس کرتا تھا۔ اور عادل سے صرف خیر خیریت دریافت کرتا تھا۔ بلال شروع ہی سے کم گوتھا، اب وہ اور زیادہ خاموش ہو گیا تھا صرف ضرورت کی بات کرتا تھا۔
بلال نے دوپہر کا کھانا عادل کے ساتھ کھایا اُس کے گھر پر اُس کی دادی اور ماں بھی موجود تھیں، جو بلال کو دیکھ کر کافی خوش ہوئیں، عادل نے بلال کا تعارف اپنے گھر پر صرف اتنا کروایا تھا کہ میرا دوست ہے۔
جس دن عقیل ہاشمی نے اپنے بھتیجے کی دعوت کی تھی، ولید ہاشمی اور نوشی کی اُس دن عادل بلال کی گاڑی لے کر گھر سے چلاگیا تھا۔ نہ تو وہ ولید ہاشمی کو دیکھنا چاہتا تھا اور نہ ہی اُس کی بیوی نوشی کو نہ ہی وہ بلال سے اپنا تعلق ظاہر کرنا چاہتا تھا۔
بلال نے اپنی گاڑی پر نظر ڈالی جو کہ چمک رہی تھی۔
”بلال بھائی آپ کی اجازت کے بغیر ایک دن میں نے آپ کی گاڑی چلائی تھی“ عادل نے بلال کی طرف دیکھ کر کہا بلال نے ایک نظر اپنی گاڑی کو دیکھا اُس کے بعد عادل کے گلے لگ گیا ”عادل شکریہ“ بلال نے یہ دو الفاظ اپنی زبان سے کہے اور گاڑی لے کروہاں سے چلا گیا سب سے پہلے وہ اپنی ماں کی قبر پر گیا تھا۔
آج بھی بلال کی آنکھوں سے خاموش آنسورواں دواں تھے، بغیر آواز کے اُس نے اپنی ماں کی قبر پر دُعاکی اُس کے بعد کماہاں گاؤں کے قبرستان گیا بابا جمعہ کی قبر پر دعا کرنے کے لیے۔
جب وہ فوزیہ کے گھر کے باہر پہنچا تو عصر کی نماز کا وقت ہو چکا، اُس نے نواں پنڈ کی مسجد میں نماز عصر ادا کی اُس کے بعد گھر کے دروازے پر دستک دی۔
 بلال اُن سب کے لیے تحائف لے کر آیا تھا۔
بلال نے فوزیہ سے میاں محمود کے گھر کی چابی لی، اور وہاں سے چلا گیا۔
فوزیہ نے بلال کی پسند کے مطابق اوپر والا پورشن سیٹ کروا دیا تھا۔
عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد بلال نے اپنا فون SILENT کیا اور سو گیا۔
اگلے دن بلال نے اپنے آنے کی اطلاع اپنے چند قریبی جاننے والوں کو کر دی سب سے پہلے اُس نے اپنی نانی جہاں آرابیگم سے بات کی اُس کے بعد توشی اور محسن سے اور سب سے آخر میں عظمی آفگن سے اُس نے حال احوال کیا تھا۔
جہاں آرا بیگم بلال سے ملنے کے لیے تڑپ رہیں تھیں۔ جس کا حل بلال نے یہ نکالا اُس نے اپنی نانی سے کہا آپ عشاء کے بعد توشی کے گھر اُس سے ملنے کے لیے آجائیں وہ بھی وہاں پہنچ جائے گا۔
توشی کو اُس نے یہ سارا پروگرام بتا دیا تھا۔ توشی نے اپنی دادی اور بلال کے آنے کی خوشی میں دس طرح کے پکوان تیار کیے تھے۔ اُس کی شادی کے بعد پہلی بار توشی کی دادی اُس کے گھر آرہی تھی، اور سب سے بڑھ کر ملک بلال احمد آرہا تھا۔
توشی نے اپنے گھر کے نیچے والے پورشن میں اپنی دادی اور بلال کے رُکنے کا انتظام کیا ہوا تھا، توشی اور محسن کا بیڈروم اوپر تھا۔
توشی نے اپنے ڈرائیور کو بھیج کر اپنی دادی کو بلوالیا تھا، اور اپنے باپ جمال رندھاوا سے کہہ دیا تھا آج رات دادو میرے گھر پر ہی رہیں گئی، جہاں آرا بیگم عشاء کی نماز سے پہلے ہی وہاں ں پہنچ گئیں تھی۔
جہاں آرابیگم بلال سے ملنے کی گھڑیاں گن رہیں تھیں، وہ کمرے میں بیٹھی ہوئی بلال کا انتظار کر رہیں تھیں، محسن کی ماں عذرااُن کے ساتھ رسمی بات چیت میں مصروف تھی مگر جہاں آرابیگم کے کان باہر مین گیٹ کی طرف اور نظریں گھڑی پر تھیں اور اُن کا دھیان عذرا کی باتوں سے زیادہ بلال کی طرف تھا۔
توشی اور محسن گھر کے لاوئج میں بلال کے منتظر تھے۔ مین گیٹ پر فوکس کیے ہوئے عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد بلال کی گاڑی گھر کے باہر پہنچی ہی تھی، بلال نے ہارن دیا چوکیدارنے گھر کا گیٹ کھول دیا گاڑی کے پورچ میں پہنچنے سے پہلے ہی توشی اور محسن وہاں کھڑے تھے۔
بلال گاڑی سے اُترا ہی تھا۔ محسن کچھ کہے سنے بغیر ہی اُس سے لپٹ گیا اُسی لمحے توشی بھی بلال کی کمر سے لپٹ گی توشی اور محسن بلال سے لپٹے ہوئے تھے جیسے گمشدہ بچہ ملنے کے بعد اُس کے ماں باپ اُس سے لپٹ جاتے ہیں۔
توشی اور محسن کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ تھوڑی دیر یہ جذباتی سین چلا اُس کے بعد وہ دونوں بلال سے الگ ہوئے محسن نے اپنے آنسو صاف کیے جو کہ توشی نے دیکھ لیے تھے۔
”یہ لو………میں اور میرے میاں رو رو کر ہلکان ہو رہے ہیں اور اس پتھر کے انسان کو دیکھو مسکرا رہا ہے“ توشی نے بلال کے چہرے پر میٹھی مسکراہٹ دیکھ کر کہا تھا۔
” اوئے ہوئے ………میرے میاں……… کیوں میاں جی کیا حال ہے آپکا………“
بلال نے توشی اور محسن کی طرف دیکھ کر کہا تھا۔
اس بار بلال نے محسن سے جپھی ڈال لی مسکراتے ہوئے
”محسن صاحب بہت بہت مبارک ہو اللہ آپ دونوں کو ہمیشہ خوش و خرم رکھے۔ ”آمین“بلال محسن کے گلے لگ کر بول رہا تھا۔ اُس کے بعد بلال توشی کی طرف متوجہ ہوا
”توشی جی آپ کو بھی شادی مبارک ہو“ بلال نے اپنا دائیاں ہاتھ شفقت سے توشی کے دائیں کندھے پر رکھتے ہوئے کہا تھا۔
”بلال اندر چلو …… دادو انتظار کر رہیں ہیں“ توشی نے خوشی سے کہا تھا۔
”ایک منٹ………“ بلال نے اپنی گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا اور پھولوں کا خوبصورت بوکے نکالا
” شادی مبارک ہو“
بلال نے پھولوں کا بوکے توشی اور محسن کو پیش کرتے ہوئے کہا تھا۔
"HOW SWEET"

Chapters / Baab of Bilal Shaib By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

آخری قسط