توشی نے پھول دیکھ کرجواب دیا۔
”شکریہ بلال چلو اندر چلو“ اس بار محسن بولا تھا۔
”گاڑی میں مٹھائی اور کچھ تحائف ہیں میں نے مدینہ منورہ سے خریدے تھے، تم لوگوں کے لیے وہ نکلوالو“ بلال لاونج میں داخل ہوتے ہوئے بولا رہا تھا توشی سے بلال اُس کمرے میں داخل ہوا جہاں پر اُس کی نانو تھی۔
جہاں آرابیگم نے بلال کو کمرے کے اندر داخل ہوتے ہوئے دیکھا تو بیڈ سے اُٹھ کر کھڑی ہو گئیں بلال جلدی سے آگئے بڑھا اس سے پہلے جہاں آرا اُس تک آتیں بلال بیڈ کے پاس پہنچ گیا جہاں آرابیگم نے بلال کو گلے لگا لیا اور زور زور سے روناشروع کر دیا۔
”نانو……چُپ کر جائیں………میں آپ کے سامنے ہوں“ بلال نے اپنی نانی کا ہاتھ چومتے ہوئے کہا ۔ اب جہاں آرا بیڈ پر ٹیک لگائے ہوئے بیٹھ چکی تھیں اور بلال اُن کے سامنے تھا، اُن کی آنکھوں کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔
(جاری ہے)
”تو……مجھے …… اپنے گھر لے چل اب میں بھی رندھاوا ہاؤس واپسی نہیں جاؤں گئی“ جہاں آرابیگم گھائل آواز سے بولی۔ بلال نے اپنی نانی کے آنسو اپنے رومال سے صاف کیے اور مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
”نانو آپ خود ہی تو کہتیں تھیں، بلال بیٹا پیٹ پہلے آتا ہے گھٹنوں سے“
”میں غلط تھی میرے بچے تو پیٹ سے بھی اوپر میرے دل کا ٹکڑا ہے“ نانی نے تفاخر سے کہا
”مجھے تجھ پر فخر ہے……… میں بغیر دیکھے گواہی دیتی ہوں…… تجھ پر لگائے گئے سارے الزام جھوٹے تھے“ بلال اپنی نانی کی یہ بات سُن کر خاموش ہو گیا ُس نے اُس بات پر تبصرہ کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔
عذرا محسن کی ماں بلال کے آنے کے بعد کمرے سے چلی گئی تھی، دراصل وہ اُن کے گھر کی باتیں سننا نہیں چاہتی تھی۔ تھوڑی دیر بعد ملازم نے آکر اطلاع دی آپا جی کہہ رہی ہیں کھانا لگ گیا ہے ۔کھانے کے دوران سب خاموش تھے۔ سب کی نظریں بلال پر مرکوز تھیں۔ بلال نے اُن کے خلاف توقع پیٹ بھر کر کھانا کھایا، بلال نے اُن کے اندازے اور خدشے غلط ثابت کر دیئے وہ سب سوچ رہے تھے۔
بلال اب تک اُس صدمے میں ہو گا، بلال اُس غم کو نہیں بھولا تھا، مگر بلال کا کمال یہ تھا، اُس نے اُن سب کو ہوا بھی نہیں لگنے دی اپنی اندرونی کیفیت کی۔
کھانے کے بعد وہ سب اُسی کمرے میں تھے جہاں پر جہاں آرا کو ٹھہرایا گیا تھا۔ پھر وہی باتیں شروع ہو گئیں عذرا اُٹھ کر جانے لگی۔
”بیٹھ جاؤ………عذرا بیٹی اب تم بھی گھرہی کی فرد ہو……تم میری پوتی کی ماں ہو میں نے دیکھ لیا ہے………تم نے میری توشی کو کیسے پھولوں کی طرح رکھا ہے“ عذرا یہ سُن کر بیٹھ گئی ”عذرا بیٹی تم اور توشی اب میرے بلال کے لیے ایک اچھی سی لڑکی ڈھونڈوں میں بلال کی خوشی دیکھ کر مرنا چاہتی ہوں“
بلال اور نانی کے درمیان رات گئے تک باتیں ہوتی رہیں، جہاں آرابیگم نے توشی اور محسن کو پہلے ہی بھیج دیا تھا، عذرا بھی اپنے کمرے میں جا چکی تھی۔
توشی نے بلال کے سونے کا انتظام گیسٹ روم میں کیا ہو اتھا۔
”ویسے ایک بات تم نے بالکل صحیح کہی، بلال واقعی پتھر کا انسان ہے“ محسن اپنے بیڈروم میں اپنے بیڈ پر توشی کے پہلو میں اپنے بازو پر سر رکھے لیٹا ہوا توشی کی طرف دیکھ کر بولا تھا۔
” میں تو یہ سمجھ رہا تھا کہ بلال پورا دیوداس بن چُکا ہو گا۔ شراب کو گولی مارو اُس کی توشیو بھی نہیں بڑھی ہوئی تھی۔
توشی میں نے بلال کو اتنا مطمئن اور پرسکون تو کبھی نہیں دیکھا ،میں نے ٹشو پیپر کے دو ڈبے دادی کے کمرے میں رکھے تھے اختیاط کے طور پر“
”وہ کیوں……؟“ توشی نے حیرت سے پوچھا
” اس لیے کہ بلال کو اپنے آنسو صاف کرنے میں مشکل نہ ہو۔ مگر مجال ہے اُس نے ایک ٹشو پیپر بھی استعمال کیا ہو اُلٹا کم بخت نے مجھے رُلا دیا“ ڈاکٹر محسن نے منہ بنا کر کہا تھا توشی کھل اُٹھی ”شکر ہے……… تمہارے چہرے پر بھی مسکراہٹ آئی“ ڈاکٹر محسن ایسی باتیں توشی کو خوش کرنے کے لیے کہہ رہا تھا، اسے بھی بلال کی اندرونی کیفیت کی خبر تھی۔
توشی نے اپنا ہاتھ محسن کے سر کے بالوں میں پھیرا اور بولی
” ڈاکٹر صاحب آپ بہت اچھے ہیں اتنے کم دنوں میں آپ نے مجھے اتنی ساری خوشیاں دی ہیں میں بیان نہیں کر سکتی“
دوسری طرف نانی اور بلال کی گفتگو جارہی تھی
”بلال بیٹا میں تمہاری خوشیاں دیکھنا چاہتی ہوں“ نانی نے بلال کو دیکھ کر کہا جو اُن کی ٹانگیں دبا رہا تھا ”میری آخری خواہش ہے کہ تم شادی کر لو“
”نانو ٹھیک ہے……… بس مجھے تھوڑا سا وقت دے دیں پہلے میں اپنے اسکول کی بلڈنگ بنانا چاہتا ہوں۔
سردیاں شروع ہوتے ہی میں شادی کرلوں گا تب تک میرے اسکول کی عمارت بھی مکمل ہو جائے گئی، پھر آپ جہاں کہیں گئی جس سے کہیں گئی میں شادی کر لوں گا“ جہاں آرابیگم بلال کی بات سُن کر خوش ہوگئی اور باتیں کرتی کرتی ہی سو گئی بلال نے اپنی نانی کے اوپر چادر ڈالی اور خود گیسٹ روم میں جانے کی بجائے وہیں صوفے پر سو گیا تھا۔
###
مئی کا مہینہ شرو ع چکا تھا، ایک دن محمد طفیل اسکول میں بلال سے ملنے کے لیے آیا محمد طفیل بہت خوش تھا۔
”بلال صاحب میں آپ کا اور بابا جی کا احسان مند پوری زندگی رہو ں گا۔ یہ دس لاکھ کا چیک ہے یہ رکھیں باقی پانچ لاکھ بھی ایک دو مہینے میں لوٹا دوں گا“
بلال نے محمد طفیل کی طرف غور سے دیکھا
”آپ تنگ ہو کر تو قرض واپس نہیں کر رہے ہیں“ بلال نے جانچتی نگاہوں کے ساتھ پوچھا
”نہیں نہیں………بلال صاحب……… اب برکت ہے میرے کاروبار میں بابا جی کے کلئیے پر عمل کیا ہے نہ اُدھار سودا لیتا ہوں اور نہ اُدھار بیچتا ہوں، اور کبھی کھانا فریز نہیں کیا سب گاہکوں کو تازہ کھانا کھلاتا ہوں۔
آئل ، گوشت، مصالحے، سب خالص ایک نمبر استعمال کرتا ہوں۔ پیسے بھی مناسب لیتا ہوں۔ بڑا اللہ کا کرم ہے، رش ہی نہیں ٹوٹتا ریسٹورنٹ سے کبھی آپ بھی آکر دیکھیں ناوہ آپ کے دوست عادل صاحب تو اکثر آتے ہیں ہمارے ریسٹورنٹ میں“
”عادل آپ کے ریسٹورنٹ میں آتا رہتا ہے“ بلال نے حیرت سے پوچھا
”جی بلال صاحب ایک دن میں نے عادل صاحب سے پوچھا ہم نے ریسٹورنٹ کا نام بدلنا ہے کوئی اچھا سا نام تو بتاؤ تو پتہ ہے عادل نے کونسا نام بتایا؟“
”کون سا……؟“ بلال نے سوال پر سوال کر دیا۔
”بابا جمعہ ریسٹورنٹ‘ میں نے وہ نام فوراً رکھ لیا،اور عادل صاحب ہی نے ہمیں مشورہ دیا تھا کہ آپ دیسی مرغ کی کڑاہی وہ بھی دیسی گھی میں بھی بنایا کریں اور پیاز گوشت بنانے کا طریقہ بھی عادل صاحب نے ہی بتایا تھا۔ بلال صاحب سب سے زیادہ پیاز گوشت ہی لوگ پسند کرتے ہیں۔ دور دور سے لوگ آتے ہیں۔ کبھی آپ بھی تشریف لائیں“ محمدطفیل نے خلوص سے دعوت دی۔
”طفیل صاحب ضرور آؤں گا……… مگر ایک شرط ہے“ ”وہ مجھے معلوم ہے بلال صاحب مجھے آپ کی شرط منظور ہے“ محمد طفیل نے بلال کی بات کاٹ کر جلدی سے کہا تھا۔
”یہی ناں آپ کھانے کے پیسے دیں گئے، آپ تو بابا جمعہ کے سب سے پیارے شاگرد تھے۔ اور سب سے لائق بھی آپ کیسے اُن کا سبق بھول سکتے ہیں۔
عادل صاحب کی بھی یہی شرط تھی۔ پتہ ہے عادل صاحب نے بابا جی کی دو بڑی بڑی تصویریں بھی مجھے لا کر دیں ہیں، ایک میں نے ہال میں لگائی ہے اور دوسری کاونٹر والی جگہ پر، محمد طفیل کافی دیر اپنے کاروبار کی باتیں کرتا رہا بلال کے ساتھ اور بلال خاموشی سے اُس کی باتیں سنتا رہا اور محمد طفیل کی کامیابی پر خوش ہوتا رہا۔
بلال کو یہ بھی یاد تھا جب عادل نے بلال سے پیاز گوشت کی ریسپی لی تھی۔
###